سوال: قرآن مجید میں ہے کہ اللہ تعالیٰ اور فرشتے حضرت محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) پر رحمت بھیجتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو خالق ہیں اور بے نیاز ہیں۔ ایک نبی پر، یعنی اپنی ہی ایک مخلوق پررحمت بھیجنے سے کیا مراد ہے؟ (محمد عارف جان)
جواب: عربی زبان میں بالخصوص اور عام زبانوں میں بھی فعل کی فاعل سے نسبت اس کے معنی میں تغیر کر دیتی ہے۔ اس کی اردو میں مثال محبت ہے۔ ماں بیٹے کی محبت اور میاں بیوی کی محبت دو مختلف چیزیں ہیں، لیکن ایک اشتراک کے باعث لفظ ایک ہی بولا جاتا ہے۔’ صلی‘ کا لفظ جب بندوں کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس سے رحمت کی دعا کرنا مقصود ہوتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ کی نسبت سے بولا جاتا ہے تو اس میں رحمت کرنے کے معنی پیدا ہو جاتے ہیں۔بے شک، اللہ تعالیٰ خالق اور بے نیاز ہیں، لیکن وہی سب کا سہارا اور ملجاوماویٰ بھی ہیں۔ لہٰذا ان کی عنایات ہی سے یہ کاروبار زیست رواں دواں ہیں۔ سورۂ اخلاص میں یہ دونوں پہلو یکجا بیان ہو گئے ہیں: ’ھُوَاللّٰہُ اَحَدٌ‘ وہ اللہ یکتا ہے، یعنی ہر شے سے غنی ہے ۔ ’اَللّٰہُ الصَّمَدُ‘ اللہ سب کا سہارا ہے، یعنی سب مخلوق اس کی محتاج ہے اور وہ سب کا حاجت روا ہے۔
____________