
مقدمه ۱
ــــــ ۱ ــــــ
انسان کے لیے اُس کے علم کا موضوع دو ہی چیزیں ہو سکتی ہیں: ایک، نفس اور دوسرے، مادہ۔ پھر اِن کے مظاہر پر غور کیجیے تو وہ بھی دو ہی صورتوں میں نمایاں ہوتے ہیں: ایک، شے اور دوسرے، اُس میں قوت کا ظہور۔ اسم اور فعل کے الفاظ دنیا کی تمام زبانوں میں اِسی حقیقت کو بیان کرتے، اور اِسی بنا پر اُن کے قواعد کی بنیاد قرار پاتے ہیں۔ اِن کو سمجھنے کے لیے جو ملکہ انسان کو عطا ہوا ہے، اُسے ہم عقل سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہی انسان کا اصلی شرف ہے۔ اِس کو جو ذرائع نفس اور مادہ، دونوں تک پہنچنے کے لیے میسر ہیں، اُنھیں حواس کہا جاتا ہے۔ عقل کے لیے اِن کی حیثیت گویا باب العلم کی ہے۔ یہ حواس جس طرح ظاہری ہیں، اُسی طرح باطنی بھی ہیں۔ ظاہری حواس انسان کی عقل کو مادے سے متعلق کرتے اور باطنی، نفس کے ساتھ اُس کے ربط و تعلق کا ذریعہ بنتے ہیں۔ اِس سے جو حقائق انسان کے علم میں آتے ہیں، اُن کے لیے کسی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، گویا: آفتاب آمد دلیل آفتاب۔ اِسی بنا پر اُنھیں وجودی حقائق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ انسان کے علم کی ابتدا اِنھی حقائق کے ادراک سے ہوتی ہے۔
یہ ادراک علم کس طرح بنتا ہے؟ اِس سوال کا جواب یہ ہے کہ اُن الہامات سے جو انسان کی فطرت میں ازل سے ودیعت ہیں۔ اِس لیے کہ یہی مدارک تک پہنچتے اور اُن کے لیے علوم و اعمال اور نظر و استدلال کا منبع بنتے ہیں۔ عقل اِن کے حضور میں محکوم محض ہے، وہ اِن کے احکام سے انحراف نہیں کرسکتی۔ انسان کی زندگی اِنھی پر یقین سے عبارت ہے۔ چنانچہ یہ ضروری ہے کہ اِس یقین کی حقیقت کو سمجھا جائے۔ امام حمید الدین فراہی نے اِس کے جن مبادی کی طرف توجہ دلائی ہے، اُن کا خلاصہ درج ذیل ہے:
۱۔ ہر ذی حیات عالم خارجی کا یقین رکھتا ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ اِس یقین کا ظہور حسی علم کے بعد ہی ہوتا ہے، لیکن کیا مجرد احساس اِس کا باعث بن جاتا ہے؟ حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے، ہم جب کسی جسم کو چھوتے ہیں تو ہمارا احساس محض ایک حالت ہوتی ہے جو حاسۂ انسانی پر طاری ہو جاتی ہے۔ اِس کے ساتھ اگر ایک حاکم نہ ہو جو حکم لگائے کہ اِس اثر کے لیے ایک موثر ہے تو ممکن نہیں کہ اپنے خارج میں ہم کسی چیز کا یقین حاصل کر سکیں۔ یہ حاکم کون ہے،جس کے سامنے انسان کا ارادہ و اختیار محکوم محض ہو کر رہ جاتا ہے۔ یہ، اگر غور کیجیے تو وہی الہامات ہیں، جو نفس انسانی پر حکومت کر رہے ہیں۔ چنانچہ کسی چیز کو چھونے کے بعد جو احساس منتقل ہوتا ہے، اُسی کے ساتھ ایک نوعیت کا فطری استدلال بھی وجود میں آتا ہے، جو ہمیں اثر سے موثر تک پہنچا دیتا ہے۔ اِس استدلال کے لیے کوئی مقدمات نہیں ترتیب دیے جاتے۔ یہ فکر و ارادہ کے بغیر وجود میں آتا اور ایسا قوی ہوتا ہے کہ ہم اِس سے اختلاف کرنا بھی چاہیں تو نہیں کر سکتے۔ اِس سے یہ حقیقت واضح ہوتی ہے کہ ہمارا کسی چیز کو جاننا اور اُس کے وجود کا یقین حاصل کر لینا علم و یقین کی اُسی قوت کا ظہور ہے، جو ہماری فطرت میں ودیعت ہے۔ انسان کو یہ قوت اُسی طرح عطا ہوئی ہے، جس طرح اُس کے حواس اور دوسری قوتیں عطا ہوئی ہیں۔
۲۔ ہمارے نفس کا یہ اذعان کہ ایک خارجی عالم موجود ہے، درحقیقت اُس کے اِس اذعان پر مبنی ہے کہ وہ خارج سے الگ ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ نفس عالم و معلوم کو، یعنی اُس کو جو محسوس کرتا ہے اور جسے محسوس کیا جاتا ہے، الگ الگ پہچانتا ہے۔ یہ ایک قطعی حقیقت ہے، اِس لیے کہ ایسا نہ ہوتا تو وہ محسوس کو اپنے ساتھ متحد ٹھیراتا اور اپنے اندر کبھی یہ اذعان پیدا نہ کر سکتا کہ محسوس اُس کی ذات سے الگ ایک خارجی وجود ہے۔
نفس کا یہ علم اثر سے موثر پر اُس کے استدلال سے متفرع نہیں ہے، بلکہ اُس کے شرائط و مقدمات میں سے ہے۔چنانچہ نفس جس طرح اپنی ذات میں اور عالم خارجی میں فرق کرتا ہے، بالکل اُسی طرح اپنی ذات اور اُن اثرات میں بھی فرق کرتا ہے، جو اُس کے داخلی محسوسات کی حیثیت سے اُس پر وارد ہوتے ہیں۔ یہ فرق و امتیاز، اگر غور کیجیے تو اُس کے لیے صرف اِس لیے ممکن ہوا ہے کہ وہ حامل و محمول اور ذات اور اُس کے عوارض کو الگ الگ دیکھ سکتا ہے۔ نفس نے یہ چیز فکر و تدبر اور ترتیب مقدمات سے حاصل نہیں کی، بلکہ فاطر فطرت کی طرف سے اُس پر الہام کی گئی ہے۔ اِسے خارجی عالم پر ہمارے یقین سے بھی زیادہ راسخ اور اُس پر مقدم سمجھنا چاہیے، اِس لیے کہ یہی وہ اصل ہے، جس پر خارج سے متعلق ہمارا یقین مبنی ہے۔
۳۔ اِس الہام میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ ذات کے بغیر صفات کا کوئی تصور نہیں ہے۔ چنانچہ نفس جس طرح اِس بات کا یقین رکھتا ہے کہ وہ ایک ذات ہے، جو صفات کی حامل ہو سکتی ہے، اُسی طرح اِس بات کا بھی یقین رکھتا ہے کہ اُس کی صفات ہیں، جو اِسی ذات سے قائم ہیں۔
۴۔ پھر یہی نہیں، وہ کسی چیز کی طرف مائل ہوتا ہے اور کسی سے گریز کرتا ہے۔ اِسی طرح کسی معاملے پر حسن اور کسی پر قبح کا حکم لگاتا ہے۔ یہ کیوں ہے؟ صرف اِس لیے کہ وہ ترک و اختیار اور مرغوبات و مکروہات میں امتیاز کرسکتا اور اختیار و تصرف کا یقین رکھتا ہے۔ اُس کی زندگی اِسی یقین سے ہے۔ وہ اِس سے بہرہ مند نہ ہوتا تو اُس سے نہ کسی چیز کے لیے جدوجہد متصور ہو سکتی تھی اور نہ کسی فعل کا ارادہ۔ یہ حقیقت ہے کہ جس طرح علم و ادراک کے معاملے میں اُس کا یقین الہامی ہے، اُسی طرح اختیار و ارادہ، فعل و تصرف، لذت و الم اور نفرت و محبت کے معاملے میں بھی الہامی ہے۔
۵۔ اِسی کے تحت یہ بات بھی ہے کہ اُسے محسوسات خارجی میں انفعال کا یقین ہے۔ وہ ہمیشہ سے جانتا ہے کہ محسوسات خارجی اُس کے افعال کا تاثر قبول کرتے ہیں۔ وہ جب ہاتھ بڑھاتا ہے یا کسی چیز کو اپنی گرفت میں لیتا ہے تو اپنے اِسی علم و یقین کا اظہار کرتا ہے۔ اُسے یہ یقین نہ ہوتا تو وہ اِن میں سے کوئی اقدام بھی نہیں کرسکتا تھا۔ اُس کے تمام افعال اِسی پر مبنی ہیں کہ وہ دوسرے کے انفعال و تاثر کا یقین رکھتا ہے۔ اپنے جسمانی آلات اور اپنی فطری اور حسی قوتوں کے استعمال کی ابتدا اُس نے اِسی یقین سے کی ہے۔ چنانچہ اِس سے جو افعال پیدا ہوئے ہیں، یہ اُنھی کی تکرار ہے، جو اُس کے اِس اذعان کا باعث بن گئی ہے کہ وہ محسوسات خارجی میں تصرف کر سکتا ہے۔
۶۔ جو چیزیں نفس کے مماثل نہیں ہیں، وہ اُن میں اور اپنی ذات میں فرق کر سکتا ہے۔ اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ مدرک اور غیر مدرک میں امتیاز کی صلاحیت رکھتا ہے۔ چنانچہ وہ دیکھتا ہے کہ اُس کی صفات سے الگ کچھ ایسی صفات بھی ہیں، جو اُس کے ادراک میں آتی ہیں، مگر وہ اُن کا حامل نہیں ہے۔ پھر اُن کا حامل کون ہے؟ ظاہر ہے کہ کوئی ایسی ذات، جو اُس کے مماثل نہیں ہو سکتی۔ ہم بیان کر چکے ہیں کہ نفس کے الہامات میں یہ چیز بھی داخل ہے کہ ذات کے بغیر صفات کا کوئی تصور نہیں ہے۔ لہٰذا یہی مقام ہے، جہاں سے وہ یقین حاصل کر لیتا ہے کہ اُس کے گرد و پیش میں ایسے موجودات ہیں، جو اُن صفات سے متصف ہیں، جو اُس کی ذات سے الگ ہیں۔
۷۔ خیر و شر کا امتیاز بھی من جملہ الہامات نفس ہے۔ ہر شخص جاتتا ہے کہ نفس انسانی صرف مرغوبات و مکروہات میں امتیاز نہیں کرتا، اِس کے ساتھ اُن پر خیر و شر اور برو اثم کا حکم بھی لگاتا ہے۔ چنانچہ ایسا کبھی نہیں ہوتا کہ وہ تمام مرغوبات کو خیر اور تمام مکروہات کو شر سمجھ لے۔ یہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ اپنے آپ کو وہ گاہے بلندی اور گاہے پستی کی طرف کھنچتا ہوا دیکھتا اور اپنے میلانات میں بہت کچھ اختلاف پاتا ہے۔ پھر یہی نہیں، وہ یہ بھی جانتا ہے کہ طیب خبیث سے اور بلندی پستی سے کس طرح الگ ہے۔ چنانچہ وہ اتراتا بھی ہے اور جھجکتا بھی، مدح بھی کرتا ہے اور مذمت بھی، اعتراف عظمت بھی کرتا ہے اور ملامت بھی۔ اِسی طرح غیرت و حمیت بھی دکھاتا ہے۔ یہ سب، اگر غور کیجیے تو فجور و تقویٰ کے اُسی الہام کا نتیجہ ہے، جو اُس کی فطرت میں ودیعت کر دیا گیا ہے۔
وجودی حقائق پر ہمارے یقین کے یہی مبادی ہمارے علم کی بنیاد ہیں۔ انسان کی عقل جب اِن حقائق کا ادراک کر لیتی اور اِن کا علم اُس کے لیے متحقق ہو جاتا ہے تو اِس سے آگے وہ معلوم سے نامعلوم تک پہنچنے کا سفر شروع کر دیتی ہے۔ اِسی کو استدلال کہا جاتا ہے۔ ادراک کے بعد یہ علم کا دوسرا ذریعہ ہے۔ یہ استدلال جب انسان کی شعوری ساخت میں موجود اِس علم کے حقائق کو بناے استدلال بنا کر کیا جاتا ہے تو اِس کا نتیجہ بعض دوسرے حقائق کا وجوب ہے، جیسے اثر ہے تو موثر بھی ہے اور فعل ہے تو فاعل بھی ہے، یا فعل میں جن صفات کا ظہور ہوا ہے، وہ فاعل میں بھی لازماً ہونی چاہیے۔ اور جب متخیلہ کی بنا پر کیا جاتا ہے تو علم کی نئی دنیاؤں کے امکانات کا دفتر کھول دیتا ہے۔ علم کے مفروضات، خواہ وہ نفسی علوم ہوں یا سائنس اور عمرانیات، سب اِسی سے پیدا ہوتے اور رد و قبول کے مراحل سے گزرتے ہیں۔
ــــــ ۲ ــــــ
انسان مخلوق ہے۔ علم و یقین کے جو مبادی اوپر بیان ہوئے ہیں، یہ اُنھی کا حاصل ہے۔ مذہب کا مقدمہ اِسی حقیقت کے ادراک سے شروع ہوتا ہے۔ یہ ایک وجودی حقیقت ہے، جس کا مشاہدہ ہم جب چاہیں، اپنی آنکھوں سے کر سکتے ہیں۔ چنانچہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی تخلیق کن بے جان عناصر سے ہوتی ہے۔ ہماری غذا کے ذریعے سے یہ کہاں اور کس مصنع (factory) میں جاتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ اِن میں انسانی تخم کہیں نہیں ہوتا اور نہ کوئی ایسی چیز ہوتی ہے، جو مادے کو حیات اور حیات کو شعور میں بدل دے۔ لیکن یہی غذا جب ایک خاص مقام پر پہنچتی ہے تو اُس نطفے میں تبدیل ہو جاتی ہے، جس کے اندر انسان بن جانے کی صلاحیت رکھنے والے تخم موجود ہوتے ہیں۔ یہ تخم اُس نطفے میں لاکھوں اور کروڑوں کی تعداد میں پائے جاتے ہیں، جو ایک وقت میں ایک مرد سے نکلتا ہے، اور اِن میں سے ہر ایک یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ عورت کے بیضے سے ملے، جو اِسی طریقے سے ایک دوسرے مصنع (factory) میں بنتا ہے، اور پورا انسان بن جائے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ یہ جب بیضے سے ملتا ہے تو ابتدا میں جو چیز وجود میں آتی ہے، وہ اتنی چھوٹی ہوتی ہے کہ خوردبین کے بغیر مشکل ہی سے دیکھی جا سکتی ہے، مگر یہی حقیر سی چیز پھر نو مہینے اور چند دنوں میں پانی کی ایک بوند سے لوتھڑے، لوتھڑے سے بوٹی، پھر بوٹی کی ہڈیوں اور ہڈیوں پر چڑھے ہوئے گوشت کے ساتھ ایک دوسری ہی چیز بن کر ماں کے پیٹ سے باہر آجاتی ہے تاکہ اپنی حیرت انگیز قوتوں اور صلاحیتوں کے ساتھ علم و استدلال، عقل و دانش اور صنعت و حرفت کے وہ کمالات دکھائے، جو اِس وقت دنیا میں ہر جگہ دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔
ہم اِس مخلوق کو دیکھتے ہیں اور اپنے شعور کی ساخت ہی سے مجبور ہیں کہ اِس کا خالق تلاش کریں۔ اِس لیے نہیں کہ ہر چیز کا خالق ہونا چاہیے، اِس لیے کہ ہر مخلوق کا خالق ہونا چاہیے۔ یہ خلق کا فعل ہے، جو ہمیں اِس تلاش کے لیے مجبور کرتا ہے۔ ہم اِس اضطرار کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں، لہٰذا کبھی اِس پر راضی نہیں ہو سکتے کہ اثر کے لیے موثر اور فعل کے لیے فاعل کی تلاش سے دست بردار ہو جائیں۔ فلسفہ، سائنس اور تصوف کے اساطین کو ایک ایک کر کے دیکھ لیجیے، کوئی بھی اِس سے دست بردار نہیں ہو سکا۔ چنانچہ علم کی پوری تاریخ اِسی حقیقت کے اعتراف کی تاریخ ہے کہ ہر مخلوق کا خالق ہے، انسان مخلوق ہے، لہٰذا انسان کا بھی خالق ہے۔
پھر یہی نہیں، ہم جانتے ہیں کہ خلق کے جس فعل کا ہم نے مشاہدہ کیا ہے، وہ ارادی ہے اور اُس کے ایک ایک جزو میں بے پایاں قدرت اور بے نظیر علم و حکمت کا ظہور ہوا ہے۔ ہم جس طرح خلق کا انکار نہیں کر سکتے، اُسی طرح فعل کی اِس نوعیت کا انکار بھی نہیں کر سکتے۔ اِس لیے کہ فعل کی یہ نوعیت بھی اُسی طرح ایک حقیقت ہے، جس طرح خلق کا فعل ایک حقیقت ہے۔ ہم جس طرح فعل کا مشاہدہ کرتے ہیں، اُسی طرح اِس حقیقت کا بھی مشاہدہ کرتے ہیں، لہٰذا مجبور ہیں کہ اِس کے ساتھ یہ اعتراف بھی کریں کہ انسان کا خالق صاحب ارادہ ہے، اُس کی قدرت بے پایاں ہے، اور وہ علیم و حکیم ہے۔
انسان کی عقل اُسے یہاں تک لے آتی ہے۔ اِس سفر میں اُس کو خارج سے کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہوتی۔ علم و ادراک کی جو صلاحیت انسان کو اُس کی پیدایش کے ساتھ عطا ہوئی ہے، وہی اِس سفر میں رہنمائی کے لیے کافی ہے۔ لیکن اِس سے آگے یہ سوال کہ وہ خالق کون ہے؟ اِس کا جواب انسان کی عقل اِسی قطعیت اور یقین و اذعان کے ساتھ نہیں دے سکتی۔ چنانچہ بالعموم اُنھی دو جوابات کی طرف دیکھتی ہے، جو انسانیت کی پوری تاریخ میں اب تک دیے گئے ہیں اور اُن میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیتی یا اُن کے درمیان متردد رہتی ہے۔
پہلا جواب یہ ہے کہ انسان جس کائنات کی آغوش میں شعور کی آنکھ کھولتا ہے، وہی اُس کی خالق ہے۔ یہ الحاد کا جواب ہے۔
اِس کی تقریر بالعموم اِس طرح کی جاتی ہے کہ کائنات اپنا شعور رکھتی ہے، لہٰذا وہ قوت بھی اِس کے اندر ہی ہے، جو اپنی حقیقت کے لحاظ سے خلّاق ہے۔ اِس سے باہر کچھ نہیں، بلکہ اندر اور باہر کی تفریق بھی اِس کے اندر ہی ہے۔ اِس کا ہر جزو اپنے آپ میں اندر بھی ہے اور باہر بھی۔ یہ اسباب و علل کا کارخانہ ہے، لیکن اپنی کلیت میں آخری علت بھی خود ہی ہے۔
یہ جواب محض ادعا ہے۔
اولاً، اِس لیے کہ اِس میں کائنات کی جس خود شعوری کا دعویٰ کیا گیا ہے، اُس کے کوئی شواہد ہمارے مشاہدے میں کبھی نہیں آئے۔ ہم جانتے ہیں کہ کائنات کی حقیقت مادہ ہے، اور مادہ ارادے سے خالی ہے، وہ علم و عقل سے بھی خالی ہے۔یہ چیزیں کسی نہ کسی درجے میں اگر کہیں پائی جاتی ہیں تو اُسی مخلوق میں پائی جاتی ہیں، جس کا خالق اِس کائنات کو کہا گیا ہے۔ پھر یہی نہیں، وہ قدرت بھی کسی درجے میں اگر کہیں ہے تو اُسی مخلوق میں ہے، جس کے بغیر علم و عقل اور ارادہ، سب بے معنی ہو جاتے ہیں۔
ثانیاً، اِس لیے کہ کائنات کی جس قوت کے ظہور کو تخلیق سمجھ لیا گیا ہے، وہ محض شے کے خواص اور اُس کی تاثیر کا ظہور ہے۔ اِس طرح کا ظہورِ قوت ہم اُن خودکار مشینوں کے ہر پرزے میں دیکھ سکتے ہیں، جو انسان نے ایجاد کی ہیں، اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کی صورت میں جن کا منتہاے کمال اب ہر شخص کو حیرت میں ڈالے ہوئے ہے۔
ثالثاً، اِس لیے کہ اِس کی کلیت بھی اگر کچھ ہے تو اُنھی تاثیرات اور خواص کی کلیت ہے، جو اِس میں علت و معلول کے رشتے پیدا کرتے ہیں۔ اِس کا تخلیق کے اُس فعل سے کوئی تعلق نہیں ہے، جو ہر ہر مرحلے پر علم و عقل، ارادے اور فعل کی قدرت کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ اسباب و علل، مناہج اور قوانین کی دنیا ہے۔ اِس سے زیادہ اِس کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
انسان کا خالق کون ہے؟ اِس سوال کا دوسرا جواب اُن لوگوں نے دیا ہے، جو اپنے آپ کو پیغمبر کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔ انسان کو یہ جواب اُس کی تخلیق کے ساتھ ہی دے دیا گیا تھا۔ چنانچہ پہلا انسان جس طرح پہلا انسان تھا، اُسی طرح پہلا پیغمبر بھی تھا۔ اِس جواب کی جو تفصیلات اِس کے بعد ہمارے علم میں آتی رہی ہیں، اُن کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان کا خالق اِس کائنات سے ماورا ایک علیم و حکیم ہستی ہے۔ انسان کی تخلیق کا آغاز اُس نے زمین کے پیٹ سے کیا تھا۔ مٹی کے وہی اجزا جو غذا کی صورت میں ہمارے اندر جاتے اور حقیر پانی کے خلاصے میں تبدیل ہو کر اُس عمل کی ابتدا کرتے ہیں، جس سے انسان بنتے ہیں، اُس وقت سڑے ہوئے گارے کے اندر اِسی عمل سے گزرے، یہاں تک کہ جب خِلقت پوری ہو گئی تو اوپر سے وہی گارا خشک ہو کر ٹھیکری کی طرح بجتی ہوئی مٹی بن گیا، جس کے ٹوٹنے سے جیتی جاگتی ایک مخلوق نمودار ہوئی، جسے انسان کا حیوانی وجود کہنا چاہیے۔ پھر وہی عمل جو زمین کے اندر ہوا تھا، علم و ادراک سے محروم اِس ناتراشیدہ حیوان کے اندر ہونے لگا، جس کے بعد اُسے ہر لحاظ سے سنوارا اور نک سک سے درست کیا گیا، یہاں تک کہ وہ اِس قابل ہو گیا کہ اُسے انسان کی شخصیت عطا کی جائے۔ چنانچہ ایک لطیف پھونک کے ذریعے سے یہ شخصیت اُسے عطا کر دی گئی:
وَبَدَاَ خَلْقَ الْاِنْسَانِ مِنْ طِيْنٍ، ثُمَّ جَعَلَ نَسْلَهٗ مِنْ سُلٰلَةٍ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ، ثُمَّ سَوّٰىهُ وَنَفَخَ فِيْهِ مِنْ رُّوْحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَالْاَفْـِٕدَةَﵧ قَلِيْلًا مَّا تَشْكُرُوْنَ. (السجدہ ۳۲: ۷- ۹)
’’انسان کی تخلیق کا آغاز اُس کے خالق نے مٹی سے کیا، پھر اُس کی نسل حقیر پانی کے خلاصے سے چلائی، پھر اُس کے نوک پلک سنوارے اور اُس میں اپنی روح پھونک دی، اور تمھارے (سننے کے) لیے کان اور (دیکھنے کے لیے) آنکھیں اور (سمجھنے کے لیے) دل بنا دیے۔ تم کم ہی شکرگزار ہوتے ہو۔‘‘
یہ جواب آخری مرتبہ جس ذریعے سے دیا گیا، وہ یہی قر آن ہے، جس کی آیات اوپر نقل ہوئی ہیں۔ اِس کو جس ہستی کی طرف سے پیش کیا گیا ہے، اُس کا دعویٰ ہے کہ یہ کسی بشر کا نہیں، بلکہ خالق کا اپنا کلام ہے، جو اُس نے اپنے پیغمبر پر نازل کیا ہے، اور جس طرح نازل کیا ہے، اُس نے بے کم و کاست اُسی طرح لوگوں کو پڑھ کر سنا دیا ہے۔ اِس میں ایک حرف، ایک شوشے کی تبدیلی نہ اُس نے کی ہے اور نہ آگے قیامت تک کوئی کرنے کی جسارت کر سکے گا۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ تم اگر اِسے خدا کی کتاب نہیں سمجھتے تو اپنی ہدایت، مضامین اور اپنے اسلوب بیان کے لحاظ سے جس شان کا یہ کلام ہے، اِس شان کی کوئی ایک سورہ ہی بنا کر پیش کر دو، اگر تم اپنے اِس گمان میں سچے ہو:
وَاِنْ كُنْتُمْ فِيْ رَيْبٍ مِّمَّا نَزَّلْنَا عَلٰي عَبْدِنَا، فَاْتُوْا بِسُوْرَةٍ مِّنْ مِّثْلِهٖ، وَادْعُوْا شُهَدَآءَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ، اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِيْنَ . (البقرہ ۲۳:۲)
’’اور جو کچھ ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے، اُس کے بارے میں اگر تمھیں شبہ ہے تو (جاؤ اور) اِس کے مانند ایک سورہ ہی بنا لاؤ اور (اِس کے لیے) خدا کے سوا تمھارے جو زعما ہیں، اُنھیں بھی بلا لو، اگر تم اپنے اِس گمان میں سچے ہو۔‘‘
قر آن میں یہ دعویٰ ایک سے زیادہ مقامات پر بیان ہوا ہے، اور اِس کے ساتھ ایک نہایت واضح معیار بھی سامنے رکھ دیا گیا ہے، جس کی بنیاد پرہم فیصلہ کر سکتے ہیں کہ قر آن فی الواقع خالق کا کلام ہے یا کسی انسان نے افترا کر کے اِس کو خالق کی طرف منسوب کر دیا ہے؟
وہ معیار کیا ہے؟ اِسے ہم درج ذیل تین نکات کی صورت میں پیش کر سکتے ہیں:
پہلا یہ کہ انسان جو علم بھی پیدا کرتا ہے، لفظ اور معنی، دونوں کے لحاظ سے سعی و خطا (Trial and Error) کے بہت سے مراحل سے گزر کر پیدا کرتا ہے۔ وہ پہلے دن نہ سقراط و فلاطوں ہوتا ہے، نہ غالب اور شیکسپئر اور نہ نیوٹن اور آئن اسٹائن۔ چنانچہ سیکھتا، سمجھتا، سیکھنے اور سمجھنے کے ہر ہر مرحلے میں غلطیاں کرتا اور اُن کی اصلاح بھی کرتا ہے۔ اُسے ہم برسوں اگلوں سے لیتے، اُس کی مشق اور مزاولت کرتے، نوک پلک سنوارتے اور اُس میں درجہ بہ درجہ آگے بڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں، یہاں تک کہ علم و ادب کا کوئی شہ پارہ اُس کی طرف سے سامنے آجاتا ہے۔ یہ انسان کی تقدیر ہے۔ وہ اِسی کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔ علم و ادب کی پوری تاریخ میں اِس سے کبھی کوئی استثنا نہیں دیکھا گیا اور نہ آگے کبھی اِس کا کوئی تصور کیا جا سکتا ہے۔
لیکن قر آن اِس سے مستثنیٰ ہے۔ وہ جس ہستی کی طرف سے پیش کیا گیا ہے، اُس کو چند سو گھروں کی ایک چھوٹی سی بستی میں اُس کی قوم نے چالیس برس تک شب و روز دیکھا ہے۔ اُس کے دن اور راتیں اُن کی آنکھوں کے سامنے گزری ہیں، مگر اُنھوں نے کبھی نہیں دیکھا کہ اِس طرح کے علم اور کلام کے لیے سعی و خطا کے جو مراحل ہر انسان کے لیے مقدر ہیں، اُن کا کوئی شائبہ کبھی اُس کی شخصیت میں کہیں پایا گیا ہو۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ اُنھیں باور ہی نہیں آتا تھا کہ اُن کی بستی کا یہ صادق اور امین اِس طرح کے کسی علم اور اِس شان کے کسی کلام کا خالق ہوسکتا ہے۔ چنانچہ جھنجلا کر کہتے تھے کہ یہ سب اِس کو کسی پڑھے لکھے عجمی نے املا کرادیا ہے۔ قرآن نے اِسی طرف توجہ دلائی اور فرمایا:
قُلْ لَّوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا تَلَوْتُهٗ عَلَيْكُمْ وَلَا٘ اَدْرٰىكُمْ بِهٖ، فَقَدْ لَبِثْتُ فِيْكُمْ عُمُرًا مِّنْ قَبْلِهٖ، اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ؟ فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا اَوْ كَذَّبَ بِاٰيٰتِهٖ، اِنَّهٗ لَا يُفْلِحُ الْمُجْرِمُوْنَ. (یونس ۱۰: ۱۶- ۱۷)
’’(اِن سے) کہہ دو، اگر اللہ چاہتا تو نہ میں یہ قرآن تمھیں سناتا، نہ اللہ اِس کی خبر تمھیں دیتا۔ یہ اُسی کا فیصلہ ہے، اِس لیے کہ میں تو اِس سے پہلے ایک عمر تمھارے درمیان گزار چکا ہوں۔ (میں نے کب اِس طرح کی کوئی بات کبھی کی ہے)؟ پھر کیا تم عقل سے کام نہیں لیتے؟ سو اُس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا، جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا اُس کی آیتوں کو جھٹلا دے؟ حقیقت یہ ہے کہ اِس طرح کے مجرم کبھی فلاح نہیں پائیں گے۔‘‘
مدعا یہ تھا کہ احمقو، تم نے کب دیکھا ہے کہ میں اُن مباحث میں دل چسپی لے رہا ہوں یا اُن کے بارے میں کچھ خیالات و افکار کا اظہار کر رہا ہوں یا اُن کی ترتیب و تدوین کے لیے مشق و مزاولت میں مصروف ہوں یا اُن سے متعلق کسی علم و فن کا اکتساب کر رہا ہوں، جو اِس وقت قرآن کی سورتوں میں پے در پے زیر بحث آرہے ہیں؟ پورے چالیس سال میں نے تمھارے درمیان گزارے ہیں، میری باتوں اور میری حرکات وسکنات میں تم نے کب ایسی کوئی چیز محسوس کی ہے، جسے اُس دعوت کی تمہید کہا جاسکے، جو میں اِس وقت پیش کر رہا ہوں؟ جو کچھ میں آج کہہ رہا ہوں، اُس کے نشو و ارتقا کے کوئی نشانات تم نے کبھی میری زندگی میں پائے ہیں؟ تم جانتے ہو کہ انسانی دماغ اپنی عمر کے کسی مرحلے میں بھی ایسی کوئی چیز پیش نہیں کر سکتا، جس کے نشو و ارتقا کے نشانات اُس سے پہلے کے مرحلوں میں نہ پائے جاتے ہوں؟ تم کہتے ہو کہ میں خدا پر جھوٹ باندھ رہا ہوں۔ اِس سے پہلے کسی جھوٹ، فریب، جعل یا مکاری و عیاری کا کوئی ادنیٰ شائبہ تم نے کبھی میری سیرت و کردار میں دیکھا ہے؟ آج تک تم مجھے صادق اور امین سمجھتے رہے ہو۔ اب کس طرح کہہ رہے ہو کہ وہی صادق اور امین راتوں رات برخود غلط، لپاٹیا اور مفتری بن گیا ہے؟ خدا کے بندو، تم عقل سے کام کیوں نہیں لیتے؟
دوسرا یہ کہ انسان کا علم کبھی تضادات سے خالی نہیں ہو سکتا۔ تراشیدم، پرستیدم، شکستم کی جو داستان وہ پہلے دن سے رقم کرنا شروع کرتا ہے، وہی آخر تک جاری رہتی ہے۔ یہ بھی، اگر غور کیجیے تو اُسی سعی و خطا کا نتیجہ ہے، جس کا ذکر پیچھے ہوا۔ پھر یہی نہیں، اُس کا یہ علم اگر کبھی ادب کا پیرہن اختیار کرے تو اُس میں بھی یہی صورت پیدا ہوجاتی ہے۔ اُس کی تخلیقات کو دقت نظر کے ساتھ دیکھیے تو نظم، بلا غت، معانی، ہر چیز متفاوت نظر آئے گی۔ اُس کا کلام کسی جگہ حسن بیان کا معجزہ ہوگا اور کسی جگہ اِس سے کہیں نیچے، بلکہ مہمل دکھائی دے گا۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ دنیا میں کوئی ایسا انسان کبھی نہیں ہوا، جو فصاحت و بلاغت کے لحاظ سے حد اعجاز کو پہنچی ہوئی تقریریں متنوع موضوعات پر اور مختلف حالات میں مسلسل کرتا رہے، اور شروع سے آخر تک اُس کی یہ تقریریں جب مرتب کی جائیں تو ایک ایسے ہم رنگ اور متوافق مجموعۂ کلام کی صورت اختیار کر لیں، جس میں نہ خیالات کا کوئی تصادم ہو، نہ متکلم کے دل و دماغ میں پیدا ہونے والی کیفیات کی کوئی جھلک دکھائی دے، اور نہ راے اور نقطۂ نظر کی تبدیلی کے کوئی آثار کہیں دیکھے جا سکتے ہوں۔
اِس سے بھی، اگر کوئی استثنا ہے تو وہ تنہا قرآن کا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللّٰهِ لَوَجَدُوْا فِيْهِ اخْتِلَافًا كَثِيْرًا.(النساء ۴: ۸۲)
’’پھر کیا لوگ قرآن پر غور نہیں کرتے؟ اگر یہ اللہ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو اِس میں یہ بہت کچھ اختلاف پاتے۔‘‘
استاذ امام لکھتے ہیں:
’’... قرآن کی ہر بات اپنے اصول اور فروع میں اتنی مستحکم اور مربوط ہے کہ ریاضی اور اقلیدس کے فارمولے بھی اتنے مستحکم و مربوط نہیں ہو سکتے۔ وہ جن عقائد کی تعلیم دیتا ہے، وہ ایک دوسرے سے اِس طرح وابستہ و پیوستہ ہیں کہ اگر اُن میں سے کسی ایک کو بھی الگ کر دیجیے تو پورا سلسلہ ہی درہم برہم ہوجائے۔ وہ جن عبادات و طاعات کا حکم دیتا ہے، وہ عقائد سے اِس طرح پیدا ہوتی ہیں، جس طرح تنے سے شاخیں پھوٹتی ہیں؛ وہ جن اعمال و اخلاق کی تلقین کرتا ہے، وہ اپنے اصول سے اِس طرح ظہور میں آتے ہیں، جس طرح ایک شے سے اُس کے قدرتی اور فطری لوازم ظہور میں آتے ہیں؛ اُس کی مجموعی تعلیم سے زندگی کا جو نظام بنتا ہے، وہ ایک بنیان مرصوص کی شکل میں نمایاں ہوتا ہے، جس کی ہر اینٹ دوسری اینٹ سے اِس طرح جڑی ہوئی ہے کہ اُن میں سے کسی کو بھی الگ کرنا بغیر اِس کے ممکن نہیں کہ پوری عمارت میں خلا پیدا ہوجائے۔‘‘ (تدبر قرآن ۲/ ۷۴۳)
تیسرا یہ کہ کسی انسان کا علم کبھی سراسر حق نہیں ہوتا۔ اُس میں ہمیشہ کچھ آمیزش حق کے ساتھ باطل کی بھی ہوجاتی ہے۔ چنانچہ وہ دنیا سے رخصت نہیں ہوتا کہ اُس کے علم، معلومات، استنباط و استدلال اور اندازوں کی غلطیاں واضح ہونا شروع ہوجاتی ہیں۔ سقراط و فلاطوں، نیوٹن اور آئن اسٹائن، ہر ایک کی تقدیر یہی ہے۔ اِس سے کسی کو مفر نہیں۔ علم و ادب کی پوری تاریخ میں اِس سے مستثنیٰ کوئی ایک شخص بھی کسی جگہ اور کسی دور میں کبھی نہیں دیکھا گیا۔ مگر قرآن اِس معاملے میں بھی ایک حیرت انگیز استثنا ہے۔ چنانچہ کم و بیش پندرہ سو سال ہوگئے ہیں، وہ معرض امتحان میں ہے، لیکن کسی بڑے سے بڑے فلسفی، حکیم اور سائنس دان کے لیے بھی ممکن نہیں ہوا کہ اُس کی کسی بات کو غلط اور کسی تعلیم کو باطل ثابت کر دے۔ پچھلی تین صدیوں میں دنیا کہاں سے کہاں پہنچ گئی، مگر اِس پورے سفر میں کسی ایسی حقیقت کا انکشاف نہیں ہوا، جو قرآن کے پیش کردہ حقائق کے خلاف ہو، کسی علم نے قرآن کے بیان کردہ علم کی تردید نہیں کی، کوئی تجربہ اور مشاہدہ ایسا نہیں ہوا، جو اُس رہنمائی کو غلط ٹھیرا دے، جو قرآن نے اپنے پیش نظر کسی بھی مقصد کے لیے انسان کو دی ہے۔ وہ جس کو حق کہتا ہے، وہ کبھی باطل نہیں ہوا اور جس کو باطل کہتا ہے، وہ کبھی حق ثابت نہیں ہوا۔ قرآن کے بارے میں یہ حقائق ناقابل تردید ہیں۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَاِنَّهٗ لَكِتٰبٌ عَزِيْزٌ، لَّا يَاْتِيْهِ الْبَاطِلُ مِنْۣ بَيْنِ يَدَيْهِ، وَلَا مِنْ خَلْفِهٖ، تَنْزِيْلٌ مِّنْ حَكِيْمٍ حَمِيْدٍ.(حمٓ السجدہ ۴۱: ۴۱- ۴۲)
’’حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بلند پایہ کتاب ہے۔ اِس میں نہ باطل آگے سے داخل ہوسکتا ہے اور نہ اِس کے پیچھے سے۔ یہ نہایت اہتمام کے ساتھ اُس ہستی کی طرف سے اتاری گئی ہے، جو سراسر حکمت ہے، ستودہ صفات ہے۔‘‘
یہ معیار ہے، جس کے مطابق اپنی صداقت کو ثابت کر دینے کے بعد قرآن نے انسان کو بتایا ہے کہ جس کائنات کو تم اپنا خالق سمجھنے کی غلطی کر رہے ہو، وہ بھی اُسی کی مخلوق ہے، جو تمھارا خالق ہے۔ تم دیکھتے نہیں ہو کہ اِس دنیا کی ہر چیز حسن تخلیق کا معجزانہ اظہار ہے، ہر چیز میں اتھاہ معنویت ہے، غیر معمولی اہتمام ہے، حکمت، تدبیر، منفعت اور حیرت انگیز نظم و ترتیب ہے، غایت درجہ موزونیت ہے، بے پناہ توافق ہے، بے مثال اقلیدس اور ریاضی ہے، جس کی کوئی توجیہ اِس کے سوا نہیں ہو سکتی کہ اِس کو بھی اُسی علیم و حکیم نے تخلیق کیا ہے، جس نے تمھیں تخلیق کیا ہے۔ وہی جس نے زمین کو تمھارے لیے گہوارہ اور پہاڑوں کو اُس کی میخیں بنادیا ہے، تمھیں جوڑوں کی صورت میں پیدا کیا ہے اور تمھاری نیند کو تمھارے لیے باعث راحت، رات کو لباس اور دن کو معاش کا وقت بنادیا ہے، تمھارے اوپر سات محکم آسمان بنائے اور اُن میں ایک دہکتا چراغ جلا دیا ہے۔ وہی جس نے نچڑتی بدلیوں سے چھاجوں مینہ برسایا اور اُس سے سبزہ اور غلے اور گھنے باغ اگادیے ہیں:
هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، عٰلِمُ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ، هُوَ الرَّحْمٰنُ الرَّحِيْمُ، هُوَ اللّٰهُ الَّذِيْ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا هُوَ، اَلْمَلِكُ الْقُدُّوْسُ السَّلٰمُ الْمُؤْمِنُ الْمُهَيْمِنُ الْعَزِيْزُ الْجَبَّارُ الْمُتَكَبِّرُ، سُبْحٰنَ اللّٰهِ عَمَّا يُشْرِكُوْنَ. هُوَ اللّٰهُ الْخَالِقُ الْبَارِئُ الْمُصَوِّرُ، لَهُ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰي، يُسَبِّحُ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ، وَهُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ.(الحشر ۵۹: ۲۲- ۲۴)
’’وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، غائب و حاضر کا جاننے والا، وہ سراسر رحمت ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، بادشاہ، وہ منزہ ہستی، سراسر سلامتی، امن دینے والا، نگہبان، غالب، بڑے زور والا، بڑائی کا مالک۔ پاک ہے اللہ اُن سے جو یہ شریک بناتے ہیں۔ وہی اللہ ہے نقشہ بنانے والا، وجود میں لانے والا، صورت دینے والا، سب اچھے نام اُسی کے ہیں۔ زمین اور آسمانوں کی سب چیزیں چیزیں اُس کی تسبیح کرتی ہیں، اور وہ عزیز و حکیم ہے۔‘‘
ــــــ۳ ــــــ
دین اِسی عزیز و حکیم خالق کی ہدایت ہے۔ یہ ہدایت انسان کو اولاً اُنھی الہامات کے ذریعے سے دی گئی، جن کا ذکر اوپر تمہیدی مباحث میں ہوا ہے، اور جو اُس کی فطرت میں ودیعت ہیں۔ انسان کے باطن میں اِس کا ظہور شعور حسن کی صورت میں ہوتا ہے۔ پھر اِس کے مظاہر ہیں، جن کے ساتھ یہ شعور انسان کی شخصیت میں نمایاں ہوجاتا ہے۔ یہ، اگر تدبر کی نگاہ سے دیکھیے تو بنیادی طور پر تین ہی ہیں:
ایک، وجود کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ صفائی، طہارت اور نجاست کے درمیان فرق کا شعور ہے۔
دوسرے، خورونوش کی چیزوں کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ اُن کے طیبات و خبائث کے مابین فرق کا شعور ہے۔
تیسرے نیت، ارادے اور اعمال کا حسن، جس کا لازمی نتیجہ معروف اور منکر کے مابین فرق کا شعور ہے۔
انسان وارفتۂ حسن ہے، اور ہمیشہ اُس دنیا کی تلاش میں رہتا ہے، جہاں اِن سب چیزوں کا حسن اپنے منتہاے کمال پر ظاہر ہو۔ یہی انسان کا نصب العین ہے، جس کے لیے وہ محبت کے غیرمعمولی جذبات اور اُس کو پالینے کی شدید خواہش کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔ چنانچہ اِسی کا نتیجہ ہے کہ دنیا میں اُس کی تمام جدوجہد کا مقصود بھی ہمیشہ یہی ہوتا ہے کہ اُس کو وہ کسی نہ کسی درجے میں فردوس بنا لینے میں کامیاب ہو جائے۔ وہ اِسی مقصد سے جیتا، اِسی کے لیے مرتا، اِسی کے لیے رہنماؤں کے بت تراشتا، اُن کی پرستش کرتا، اُن کے دکھائے ہوئے خوابوں کو حقیقت بنا دینے کےلیے جان و مال کی قربانی پیش کرتا اور آنے والے زمانوں میں کبھی اساطیر اور کبھی علم کے تراشیدہ مسیحاؤں کا منتظر رہتا ہے۔ پھر یہی نہیں، اِس سے آگے وہ اپنی اِس جدوجہد کے حق میں فلسفے بھی ایجاد کر ڈالتا ہے۔
اللہ کے نبی انسان کو دنیا پرستی کے اِسی رویے پر متنبہ کر دینے اور اِس کے پیدا کیے ہوئے حجابات کو اٹھا کر حسن فردوس کا جلوہ اُس کو کسی حد تک اُس کی اِسی زندگی میں دکھا دینے کے لیے مبعوث کیے جاتے ہیں۔ دین حق اِسی حسن کا سراپا اور اِس کے منتہاے کمال پر اِس کو پا لینے کی دعوت ہے۔ قرآن نے اُس کو دین فطرت قرار دیا تو اِسی لحاظ سے قرار دیا اور فرمایا ہے:
فَاَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّيْنِ حَنِيْفًا فِطْرَتَ اللّٰهِ الَّتِيْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيْلَ لِخَلْقِ اللّٰهِ ذٰلِكَ الدِّيْنُ الْقَيِّمُ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُوْنَ.(الروم ۳۰: ۰ ۳)
’’سو ایک خدا کے ہو کر تم اپنا رخ اب اُس کے دین کی طرف کیے رہو۔ تم اللہ کی بنائی ہوئی فطرت کی پیروی کرو، (اے پیغمبر)، جس پر اُس نے لوگوں کو پید اکیا ہے۔ اللہ کی بنائی ہوئی اِس فطرت میں کوئی تبدیلی نہیں ہو سکتی۔ یہی سیدھا دین ہے، لیکن اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‘‘
ـــــــــــــــــــــــــ