انسان کی یہ زندگی، درحقیقت، خدا کی طرف اس کا ایک سفر ہے۔ وہ خدا کا فرماں بردار ہو یا اس کا نافرمان، بہرحال، وہ اسی کی طرف بڑھتا چلا جارہا ہے۔ اس حقیقت کو قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
یَآ أَیُّہَا الْإِنْسَانُ إِنَّکَ کَادِحٌ إِلٰی رَبِّکَ کَدْحاً فَمُلَاقِیْہِ. (الانشقاق ۸۴: ۶)
’’اے انسان تو خواہی نخواہی اپنے رب ہی کی طرف جا رہا ہے اور تو اس سے ملنے والا ہے۔‘‘
قرآن مجید خدا کے ساتھ انسان کی اس ملاقات کی غرض و غایت یہ بیان کرتا ہے:
إِلَیْْہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعاً، وَعْدَ اللّٰہِ، حَقًّا إِنَّہٗیَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُہٗلِیَجْزِیَ الَّذِیْنَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ بِالْقِسْطِ، وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَہُمْ شَرَابٌ مِّنْ حَمِیْمٍ وَّعَذَابٌ أَلِیْمٌ بِمَا کَانُوْا یَکْفُرُوْنَ.(یونس۱۰: ۴)
’’اسی کی طرف تم سب کو لوٹنا ہے۔ یہ اللہ کا پکا وعدہ ہے۔ بے شک وہی خلق کا آغاز کرتا ہے۔ پھر وہی اس کا اعادہ کرے گا تاکہ جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے نیک عمل کیے، ان کو عدل کے ساتھ بدلہ دے اور جنھوں نے کفر کیا،ان کے لیے ان کے کفر کی پاداش میں کھولتا پانی اور درد ناک عذاب ہے۔‘‘
قرآن مجید بتاتا ہے کہ خدا کے ساتھ اس ملاقات میں انسان کو اس کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا۔ وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ اعمال کا یہ بدلہ ابدی جنت یا ابدی جہنم کی صورت میں ہو گا۔ چنانچہ اگر یہ بات صحیح ہے کہ موت کے بعد لازماً، اعمال کی پرسش ہونی ہے اور ہر شخص کو اس کے عمل کا بدلہ ابدی انعام یا ابدی سزا کی صورت میں ملنے والا ہے تو پھر انسان کے لیے سب سے اہم مسئلہ یہ ہونا چاہیے کہ اسے اپنی زندگی کس طرح بسر کرنی ہے تاکہ وہ اپنے پروردگار سے اپنے عمل کا اچھا بدلہ پائے۔
خدا اپنے بندوں پر بہت مہربان ہے، اس نے انسانوں کو اس معاملے میں یونہی نہیں چھوڑا کہ وہ ایک وادی سے دوسری وادی میں بھٹکتے پھریں، بلکہ اس نے انسانوں کی ہدایت و رہنمائی کے لیے انبیا کا ایک عظیم سلسلہ جاری کیا۔ خدا کے ان برگزیدہ بندوں نے انسانوں تک اس کی وہ ہدایت پہنچائی، جس کے مطابق زندگی گزارنے والے آخرت میں لازماً سرخرو ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی اس ہدایت کو ’’دین‘‘ کا نام دیا ہے۔
یہ دین اپنے سچے پیروکاروں کو آخرت کی عظیم کامیابی کی ضمانت دیتا ہے۔ اس دین میں بہت سی ہدایات اور بہت سے احکام ہیں۔ یہ سب احکام اور سب ہدایات دین کی اس اصل پر مبنی ہیں، جسے ایمان کہا جاتا ہے۔ ایمان ہی دراصل، ان تمام اعمال کی بنیاد اور اساس ہے، جو دین کی رو سے ہمیں کرنے چاہییں۔ اگر کسی آدمی کے اعمال اس بنیاد اور اس اساس ہی سے محروم ہوئے تو قیامت کے دن خدا کی میزان میں ان کا کوئی وزن نہ ہو گا اور وہاں اس آدمی کے لیے نجات کی کوئی صورت نہ ہو گی، خواہ اس کے پاس بے شمار اعمال ہوں۔ آخرت میں ہمیشہ کی کامیابی یا ہمیشہ کی ناکامی کے حوالے سے ایمان فیصلہ کن حیثیت رکھتا ہے۔
دین انسان کو جو زندگی بسر کرنے کے لیے کہتا ہے، اسے اگر مختصر الفاظ میں بیان کیا جائے تو وہ یہ ہے کہ انسان حقیقی ایمان کو استقامت کے ساتھ اختیار کرے اور زندگی بھر اس کے تقاضوں کو نبھاتا رہے۔ ایمان کے تقاضوں کو اپنی پوری زندگی میں حتی الوسع نبھانا ہی وہ واحد معیار ہے، جس پر پورا اترنے کا مطالبہ اللہ تعالیٰ نے ہر مومن سے کیا ہے۔
ایمان سے مراد کسی حقیقت کو بن دیکھے، محض عقل و فطرت کی بنیاد پر ماننا ہے۔ اس کائنات میں کتنے ہی ایسے حقائق پائے جاتے ہیں جنھیں ہمارے حواس محسوس نہیں کر سکتے، لیکن یہ کائنات اپنے وجود سے ان پر گواہی دیتی ہے۔ خود ہمارا اپنا وجود، ہمارا نفس اور ہمارا شعور کتنی ہی ان دیکھی حقیقتوں کا پتا دیتے ہیں۔ ان سب ان دیکھے حقائق میں بنیادی حقیقت پروردگار عالم کا وجود ہے۔ وہی اس کائنات کی آخری حقیقت ہے۔ سب حقائق کی ابتدا اسی ایک حقیقت سے ہوئی ہے۔ مذہب جب ایمان کی بات کرتا ہے تو اس سے مراد اصلاً اسی حقیقت پر، اس کی تمام صفات کے ساتھ ایمان رکھنا ہے۔ اس ایمان کو وہ’’ایمان باللہ‘‘ کے الفاظ سے تعبیر کرتا ہے۔ البتہ اس ’’ایمان باللہ‘‘ کی کچھ فروعات ہیں، جو اس اصل سے لازماً پھوٹتی ہیں۔ انھیں ماننا درحقیقت، اسی ایک اصل کو اس کی تفصیل کے ساتھ ماننا ہے۔ قرآن مجید ایمان کی جو تفصیل ہمیں بتاتا ہے، وہ اس طرح سے ہے:
۱۔ اللہ پر ایمان،
۲۔اللہ کے فرشتوں پر ایمان،
۳۔ اللہ کے نبیوں پر ایمان،
۴۔اللہ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان،
۵۔ اللہ کے حضور قیامت کے دن پیشی پر ایمان۔
اللہ پر ایمان محض کوئی ما بعد الطبیعیاتی تصور نہیں۔ یہ دراصل، اپنے مالک اور اپنے رب کی معرفت ہے۔ وہ معرفت، جو خدا پر آخری درجے کا اعتماد پیدا کرتی ہے۔ وہ معرفت، جس کے بعدانسان اپنے آپ کو خدا کے حوالے کر دیتا ہے۔ وہ معرفت، جو انسان کو زندگی بھر کے لیے خدا کا وفادار بناتی ہے۔ انسان اس کا مکلف ٹھہرایا گیا ہے کہ وہ غیب میں رہتے ہوئے خدا پر ایمان لائے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان اللہ تعالیٰ کو ماننے کے لیے اسے آنکھوں سے دیکھنے کا مطالبہ نہ کرے۔ وہ اگرچہ اسے دکھائی نہیں دیتا، مگر اس کا وجود اس کائنات میں اتنا نمایاں ہے کہ کوئی اور وجود اس سے زیادہ نمایاں نہیں۔ وہ ایسا عظیم ہے کہ آسمانوں کی اوٹ اسے چھپا نہیں سکتی۔ وہ ایسا قریب ہے کہ فاصلہ اسے دور نہیں کر سکتا اور وہ ایسا محیط ہے کہ وقت اسے گھیر نہیں سکتا۔ وہ آنکھ کو کہیں دکھائی نہیں دیتا، پردل کو کہاں دکھائی نہیں دیتا؟ خدا پر یہ ایمان جب آدمی کے دل میں جاگزیں ہوتا ہے تو یہ اس کی زندگی پر اپنا اثر ڈالتا ہے۔ یہ اس کے افکار و خیالات پر اثر انداز ہوتا ہے، یہ اسے ایک خاص شعور اور ایک خاص زاویۂ نگاہ دیتا ہے۔ یہ اس کے جذبات اور اس کی عقل، دونوں کو ایک نکتے پر جمع کردیتا ہے۔ یہ اس کی منتشر خیالی کو ایک مربوط فکر میں تبدیل کر دیتا ہے۔ یہ اسے ایک عزم اور ایک حوصلہ دیتا ہے۔ یہ اسے بتاتا ہے کہ اس کا حقیقی اور ابدی فائدہ کس چیز میں ہے اور نقصان کس چیز میں۔ یہ اسے بتاتا ہے کہ زندگی کی صحیح راہ عمل کیا ہے۔ یہ راہ عمل ہی دراصل، ایمان کے وہ تقاضے ہیں، جو اس سے جنم لیتے ہیں۔
ایمان کے یہ تقاضے کیا ہیں؟ استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی ان کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’یہ ایمان جب اپنی حقیقت کے اعتبار سے دل میں اترتا اور اس سے اپنی تصدیق حاصل کر لیتا ہے تو اپنے وجود ہی سے دو چیزوں کا تقاضا کرتا ہے:
ایک عمل صالح،
دوسرے ’تواصی بالحق‘ اور ’تواصی بالصبر‘۔
ارشاد فرمایا:
وَالْعَصْرِ. اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ. اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر.(العصر ۱۰۳:۱۔۳)
’’زمانہ گواہی دیتا ہے کہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ ہاں مگر وہ نہیں جو ایمان لائے، اور انھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کی۔‘‘‘‘(دین حق۱۸)
قرآن مجید کی یہ سورہ جس کا استاذ گرامی نے حوالہ دیا ہے، انسان کو وہ راہ عمل بتاتی ہے جو آخرت میں اس کی نجات کی ضمانت ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی یقینی نجات کی لازمی شرائط بیان کی ہیں۔ یہ شرائط، ایمان اور اس کے دو لازمی تقاضے عمل صالح اور باہم حق اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت ہیں۔
کسی چیز کا تقاضا اس کی وہ لازمی طلب ہوتی ہے، جس سے گریز درحقیقت اس چیز ہی سے گریز ہوتا ہے اور جس کا انکار دراصل اس چیز ہی کا انکار ہوتا ہے۔ جس آدمی میں حقیقی ایمان موجود ہو گا، وہ اس کے تقاضوں سے گریز کر ہی نہیں سکتا۔ وہ لازماً اس کے تقاضوں کو پورا کرے گا او رجو ایمان کے ان تقاضوں کو پورا کرے گا، وہ اللہ کے ہاں اپنے دعویٰ ایمان میں ضرور سچا قرار پائے گا اور خدا کے فضل سے بڑے انعام کا مستحق ہو گا۔
عام حالات میں ایمان کے بس یہی دو تقاضے ہیں، لیکن اس ہر دم بدلتی ہوئی دنیا میں انسان کو نئے سے نئے احوال پیش آتے رہتے ہیں۔ ان مختلف حالات میں ایمان کے کچھ اور تقاضے بھی پیدا ہوتے ہیں۔یہ تقاضے حالات کے ساتھ مشروط ہوتے ہیں۔ یہ پہلے دو تقاضوں کی طرح مستقل تقاضے نہیں ہیں۔ استاذ محترم جاوید احمد صاحب غامدی ایمان کے مستقل تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
’’عام حالات میں ایمان کے تقاضے یہی ہیں، لیکن انسان کو اس کے خارج کے لحاظ سے جو حالتیں اس دنیا میں پیش آ سکتی ہیں، ان کی رعایت سے ان کے علاوہ تین اور تقاضے بھی اس سے پیدا ہوتے ہیں:
ایک ہجرت،
دوسرے نصرت،
تیسرے قیام بالقسط۔‘‘ (دین حق۱۹)
ہجرت کا حکم سورۂ نساء میں ان الفاظ میں دیا گیا ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَفَّاہُمُ الْمَلآءِکَۃُ ظَالِمِیْٓ أَنْفُسِہِمْ قَالُوْا فِیْمَ کُنْتُمْ قَالُوْا: کُنَّا مُسْتَضْعَفِیْنَ فِی الْاَرْضِ. قَالُوْٓا: اَلَمْ تَکُنْ اَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃً فَتُہَاجِرُوْا فِیْہَا، فَأُولٰٓءِکَ مَأْوَاہُمْ جَہَنَّمُ، وَسَآءَ تْ مَصِیْرًا. (۴: ۹۷)
’’جن لوگوں کی روحیں فرشتے اس حال میں نکالیں گے کہ (کافروں میں پڑے رہنے کی وجہ سے) وہ اپنی جانوں پر ظلم ڈھائے ہوئے تھے، ان سے وہ پوچھیں گے: یہ تم کس حال میں پڑے رہے؟ وہ جواب دیں گے: ہم اس ملک میں مجبوراور بے بس تھے، فرشتے کہیں گے: کیا اللہ کی زمین وسیع نہ تھی کہ تم اس میں ہجرت کر جاتے؟ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانا جہنم ہے، اور وہ بڑا ہی برا ٹھکانا ہے۔‘‘
نصرت کا حکم سورۂ صف میں ہے اور یہ ان الفاظ میں آیا ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوَارِیِّیْنَ مَنْ أَنصَارِیْٓ إِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ أَنْصَارُ اللّٰہِ. (۶۱:۱۴)
’’اے ایمان والو، تم اللہ کے مددگار بنو، جس طرح کہ عیسیٰ ابن مریم نے اپنے حواریوں سے کہا: اللہ کی راہ میں کون میرا مددگار ہے؟ انھوں نے کہا: ہم ہیں اللہ کے مددگار۔‘‘
قیام بالقسط کا حکم سورۂ نساء کی ان آیات میں ہے:
یَآ اَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ بِالْقِسْطِ شُہَدَآءَ لِلّٰہِ وَلَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْْنِ وَالْاَقْرَبِیْنَ، إِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا أَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ أَوْلٰی بِہِمَا، فَلاَ تَتَّبِعُوا الْہَوٰٓی أَنْ تَعْدِلُوْا وَإِنْ تَلْوٗٓا أَوْ تُعْرِضُوْا فَإِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا. (۴: ۱۳۵)
’’ایمان والو، انصاف پر قائم رہنے والے بنو، اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اگرچہ اس کی زد خود تمھاری اپنی ذات، تمھارے والدین اور تمھارے اقربا ہی پر پڑے۔ کوئی امیر ہو یا غریب، اللہ ہی دونوں کے لیے احق ہے۔ اس لیے تم خواہش نفس کی پیروی نہ کرو کہ حق سے ہٹ جاؤ۔ اور اگر اسے بگاڑو گے یا اعراض کرو گے تو یاد رکھو کہ اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے۔‘‘
اور سورۂ مائدہ میں یہی حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے:
یَآ أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا کُوْنُوْا قَوَّامِیْنَ لِلّٰہِ شُہَدَآءَ بِالْقِسْطِ وَلاَ یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَآنُ قَوْمٍ عَلٰٓی أَلاَّ تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ہُوَ أَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی، وَاتَّقُوا اللّٰہَ إِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ.(۵:۸)
’’ایمان والو، عدل پر قائم رہنے والے بنو۔ اللہ کے لیے اس کی شہادت دیتے ہوئے، اور کسی قوم کی دشمنی تمھیں اس طرح نہ ابھارے کہ تم عدل سے پھر جاؤ۔ عدل کرو، یہ تقویٰ سے زیادہ قریب ہے، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بے شک، اللہ تمھارے ہر عمل سے باخبر ہے۔‘‘
یہ تقاضے پیش آنے والے مختلف حالات ہی کے ساتھ مشروط ہیں۔ یعنی خاص حالات ہی ایمان کے ان تقاضوں کو سامنے لاتے ہیں اور ان حالات کے بدل جانے سے ایمان کے یہ تقاضے خود بخود ختم ہو جاتے ہیں، لیکن یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ ان تقاضوں میں سے بھی جب کوئی تقاضا پیدا ہو جاتا ہے تو اس وقت انسان کے ایمان کی بقا بس اس خاص تقاضے کو پورا کرنے ہی پر منحصر ہوتی ہے۔ تب اس سے گریز دراصل، خود ایمان ہی سے گریز ہوتا ہے۔ یہ گریز بتا دیتا ہے کہ آدمی نے خود اپنے عمل ہی سے اپنے دعویٰ ایمان کو باطل کر دیا ہے۔
[۱۹۹۷ء]
____________________