HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Sajid Hameed

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

بنیادی باتیں

 

باب اول

 

مشکلات کے اسباب و علل (causes) کا مطالعہ کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ہم چند بنیادی باتوں کو سمجھ لیں تاکہ ہم ان اسباب کی حقیقت تک پہنچ سکیں اور مشکلات میں مایوسیوں کا شکار ہونے کے بجائے صبر و استقامت سے ان کا مقابلہ کرسکیں۔

 

دنیا کی حقیقت

یہ دنیا خدا کی دنیا ہے۔ اسے اس نے ایک خاص مقصدسے بنایا ہے۔اس کی ساخت اور اس کا نظام، دونوں انسان کی آزمایش کے لیے وضع کیے گئے ہیں۔اس لیے اس کے نظام اور ساخت میں ایسی چیزیں رکھ دی گئی ہیں جو ہمارے لیے امتحان کی صورت پیدا کرتی رہتی ہیں۔ اس میں آسانیوں اور مشکلوں کا ایک طویل اور مسلسل سلسلہ رکھ دیا گیا ہے۔ جو دو طرف سے ہمارا امتحان کرتا رہتا ہے۔ دو رخاامتحان عمل اور رد عمل کی جانچ کے لیے ہے۔ مثلاً نعمتیں اس لیے دیں کہ آدمی نعمت پا کر کیا کرتا ہے ۔محروم اس لیے رکھا کہ وہ رد عمل میں کیا کچھ کر گزرتا ہے۔سو یہ امتحان اس لیے رکھا گیا ہے کہ اللہ ہمیں آزمائے کہ اس دنیا میں آکرہم کیسا عمل کرتے ہیں ،اچھا کرتے ہیں یا برا۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں موت و حیات کا یہ سلسلہ اسی لیے چلایا ہے، جسے خود اس نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے: 

الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ.(الملک ۶۷: ۲)

’’وہ ذات جس نے موت اور حیات کو بنایا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں اچھا ہے۔ اور وہ عزیزو غفور ہے۔‘‘

جو شخص اس دنیا کو کسی اور نگاہ سے دیکھے گا، وہ اس میں پریشان رہے گا، کیونکہ اس کے وہ پتے لازماً ہوا دیتے ہیں جن پر وہ تکیہ کرتا ہے۔ اس کی تعمیراستحکام اوررعنائی میں کیسی ہی کیوں نہ ہو اس میں خرابی کی کوئی نہ کوئی صورت ضرورموجود رہے گی۔بقول شاعر:

 

میری تعمیر میں مضمر ہے اک صورت خرابی کی

 

لیکن جو شخص اس کی اس حقیقت کو جان لے گا، اس کے لیے یہ ایک فطری معاملہ بن جائے گا۔ جس طرح ہر کام کا ایک نتیجہ ہوتا ہے اسی طرح آزمایش کے لیے بنائی گئی اس دنیا میں خوشیوں کے ساتھ ساتھ مقامات آزمایش بھی ہوں گے ۔ یہ مقصد آزمایش کا لازمی تقاضا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں غم اور خوشی، خوش حالی و بدحالی، بھوک و سیری، عزت و ننگ ایک ساتھ پائے جاتے ہیں۔ اس کے بغیر یہ دنیا آزمایش کے لیے موزوں نہ ہوتی۔چنانچہ وہ شخص جسے یہ بات معلوم نہ ہو یا وہ فراموش کربیٹھا ہو، اس کے لیے پھر مشکلات خدا سے ناراضی یا اس کی موجودگی سے انکار تک لے جاتی ہیں۔جبکہ اس بات سے واقف شخص اس بات کو سمجھتا ہے اور وہ ہر مشکل کو صحیح رخ سے دیکھ کر اس کا مواجہہ (face) کرتا ہے ،اور وہ اس دنیا اور اس کے بنانے والے کے بارے میں کسی غلط فہمی کا شکار نہیں ہوتا۔مومنین کی یہ صفت کہ وہ کائنات کے اسی پہلو پر جب غور کرکے پہنچتے ہیں تو ان کے اندر کیا بصیرت (insight) پیدا ہوتی ہے ، وہ سورۂ آل عمران کی آیات ذیل میں بیان کی گئی ہے:

الَّذِیْنَ یَذْکُرُوْنَ اللّٰہَ قِیٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰی جُنُوْبِہِمْ وَیَتَفَکَّرُوْنَ فِیْ خَلْقِ السّٰمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ ہٰذَا بَاطِلاً سُبْحٰنَکَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.(۳:۱۹۱)

’’وہ لوگ جو اٹھتے بیٹھتے اور لیٹے ہوئے اللہ کو یاد رکھتے ہیں، اور کائنات کی تخلیق میں غور کرتے ہیں، وہ اس نتیجے تک پہنچتے ہیں کہ اے اللہ، تو نے یہ دنیا بے مقصد نہیں بنائی، (بلکہ امتحان کے لیے بنائی ہے۔ اس لیے کہ تو لغو اور بے مقصدکام کرنے سے) پاک ہے۔ (اس لیے ہمیں اس امتحان کے برے نتیجے سے بچا اور)دوزخ سے ہمیں نجات دے۔‘‘

 

دنیا کی وقعت

دنیا کی نعمتیں جن کے ملنے پر ہم خوش ہوتے اور جن کے چھن جانے پر یا محروم رہ جانے پر ہم پریشان ہوتے ہیں، ان کی وقعت (value)کو دنیا کی حقیقت کے لحاظ سے متعین کرنا چاہیے۔ دنیا کی حقیقت یہی ہے کہ یہ جنت اوردوزخ میں جانے کے لیے ایک امتحان گاہ ہے۔ اس اعتبار سے اس دنیا کی نعمتوں کی اصل حیثیت امتحانی سوالات کی ہے، نہ کہ مال ومنال کی۔ آخرت کے لحاظ سے بھی اس کی حیثیت کچھ زیادہ نہیں ہے۔ یہ دنیا عارضی ہے۔ ہاتھ میں آجائے تو تب بھی نہ آنے کے برابر ہے۔ اس لیے کہ جب موت کا سایہ اس پر منڈلا رہا ہے تو یہ سب کچھ چھن جانے والا ہے۔ اس آدمی کے اوپر ہم ہنستے ہیں جو پوری محنت سے ایسی چیز حاصل کرنے کی کوشش کررہا ہو جو ہاتھ میں آکر ضائع ہو جانے والی ہو۔آخرت ابدی ہے، جس کومل گئی کبھی چھینی نہ جائے گی۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو دنیا کی نعمتیں بس ایک تماشا اور کھیل ہی لگتی ہیں۔ یہی بات ہے جو قرآن مجید نے انھی الفاظ میں بیان کی ہے کہ :

وَمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا اِلاَّ لَعِبٌ وَّلَہْوٌ وَلَلدَّارُ الْاٰخِرَۃُ خَیْْرٌ لِّلَّذِیْنَ یَتَّقُوْنَ اَفَلاَتَعْقِلُوْنَ.(الانعام۶: ۳۲)

’’یہ دنیا کی زندگی تو بس ایک کھیل اور تفریح سی ہے۔ جبکہ آخرت کا گھر متقی لوگوں کے لیے زیادہ بہتر ہے۔ تم (اس فرق کو) کیوں نہیں سمجھتے؟‘‘

یہی وجہ ہے کہ آخرت کے مقابلے میں دنیا کی نعمتیں مال اولاد وغیر ہ انسان کے لیے رکاوٹ بنتی ہیں تو قرآن مجید انھیں انسان کے لیے فتنہ قرار دیتا ہے۔ یعنی ایسی چیزیں جو انسان کو غافل کرکے کسی مصیبت میں پھنسا دیں:

وَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّاَنَّ اللّٰہَ عِندَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ. (الانفال۸: ۲۸) 

’’جان لو کہ یہ تمھارے مال اور تمھاری اولاد ایک فتنہ (اور سامانِ آزمایش )ہے۔ اللہ کے پاس (اس آزمایش میں کامیاب ہونے پر) ایک بہت ہی بڑا اجر ہے۔‘‘

 

دنیا کی مقصدیت

یہ دنیا ایک مقصد کے ساتھ بنی ہے اور اس کا یہ مقصد اس میں پیش آنے والے کسی حادثے اور واقعے (event) میں جدا نہیں ہوتا۔اس کی تخلیق، اس کے روز و شب کے معاملات، اس کی الٹ پھیر ، اس میں عروج و زوال، اس میں شکست وتعمیر ہر جگہ اگر کوئی اصول اصلاً کارفرما ہے تو وہ اس کا وہ مقصد ہے جس کا ذکر ہم اوپر سے کرتے آئے ہیں۔ یہ دنیا اسی ہدف کے لیے بنی ہے ۔ اس کا ایک حرفی ایجنڈا ہے اور وہ یہی ہے کہ یہ دنیا انسان کی آزمایش کے لیے بنی ہے۔اوپر ہم سورۂ ملک کا حوالہ دے آئے ہیں۔ خدا اس ہدف کو کبھی فراموش نہیں کرتا۔ ہر چیز اسی حساب میں ظاہر ہوتی ہے اور اسی کے لحاظ سے ہمارا امتحان لیتی اور نتیجہ لکھ کر فارغ ہوجاتی ہے۔اس لیے اس میں کارفرما یہ اصول اس کی ہر مصیبت کی اولین اور صحیح تر توجیہ ہے۔

 

اللہ ہمارا دشمن نہیں

جب یہ بات واضح ہو کہ یہ دنیا آزمایش کے لیے بنی ہے تو اس میں آسانیاں بھی آئیں گی اور مشکلات بھی۔اور یہ بھی لازم ہو گا کہ اللہ تعالیٰ جب ہم پر مشکلات نازل فرماتے ہیں تو وہ ایسا ہماری دشمنی میں نہیں کرتے، بلکہ ان مشکلات کے پیچھے اصل سبب آزمایش ہے۔ اچھا برا جو کچھ ہم پر نازل ہوتا ہے، وہ دراصل ہمارے امتحان کے لیے ہوتا ہے۔یہ بات بھی لازم ہو گی کہ آزمایش جتنی مشکل ہو گی ، اس میں سے کامیاب ہونے والے کو اتنا ہی بڑا انعام ملے گا۔

اس نے اپنے آپ کو ہمارا دوست قرار دیا ہے، اور خیر خواہ دوستوں کی طرح ہمارے ازلی دشمن سے بھی ہمیں خوب اچھی طرح متعارف کرادیا ہے تاکہ ہم اس کے دکھائے ہوئے سبز باغوں کے فریب میں مبتلا نہ ہوجائیں۔ اسی طرح یہ بھی اللہ نے اپنی کتابوں میں واضح کردیاہے کہ اللہ ایسا نہیں ہے کہ موقع دیے بغیر آخری اقدام کردے ۔ اللہ اپنے بارے میں خود فرماتا ہے کہ وہ اگر ہر غلطی پر پکڑنے لگتا تو زمین پر کوئی متنفس باقی نہ رہتا۔اس لیے اس نے مہلت اور توفیق کا قانون جاری کر رکھا ہے کہ وہ ہر خطا کار کو برائی پر مہلت دیتا اور توبہ کرنے کاموقع عطا کرتا ہے تاکہ آدمی غلطی کرتے ہی پکڑ کے عذاب میں مبتلا نہ کر دیا جائے۔

اللہ ہمارا خیر خواہ دوست ہے، مگر وہ ایسا دوست نہیں ہے کہ ہم جہالت سے کام لیں تب بھی وہ اندھی دوستی کرے گا، اور جہالت میں بھی ہمارا ساتھ دے گا۔ وہ ہمارامخلص دوست ہے ، اس لیے وہ ہماری جہالت اور حماقت میں ہمارا ساتھ دینے کے بجائے ، ہمیں ان سے نکالنے کے درپے رہتا ہے۔ اس کے لیے نبیوں کی بعثت اورکتابوں کے نزول کے ساتھ ساتھ اس نے اپنی اس دنیا میں عسر و یسر(غمی و خوشی) کا ایسا ضابطہ بھی جاری کر رکھا ہے کہ جو ہمارے ایک ہمدرد ساتھی کی طرح شب و روز ہمار ے ساتھ لگ کرہمیں راستہ دکھاتا رہتا ہے۔ 

اللہ تعالیٰ ویسا بھی نہیں ہے جیسا کہ یہود نے خیال کیا کہ وہ اپنے چہیتے لوگوں (chosen people)کے ساتھ انصاف کے برخلاف نرمی کرے گا، خواہ وہ چہیتے کچھ بھی کر لیں ۔یہود اپنے بارے میں یہ خیال کرتے تھے کہ ہم چونکہ اللہ کے برگزیدہ انبیا کی اولاد ہیں، اس لیے جو چاہیں کریں، وہ ہمیں دوزخ میں نہیں ڈالے گا اور اگر ڈال بھی دیا تو بس چند دن کے لیے ڈالے گا۔ خدا کے بارے میں ایسے باطل نظریات رکھنے کو اللہ تعالیٰ نے ’الحاد فی الاسماء‘کہا ہے اور اسے قابل سزا جرم قرار دیا ہے:

وَلِلّٰہِ الْاَسْمَآءُ الْحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِہَا وَذَرُوا الَّذِیْنَ یُلْحِدُوْنَ فِیْٓ اَسْمَآءِہٖسَیُجْزَوْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. (الاعراف ۷: ۱۸۰) 

’’اللہ ہی کے لیے ہیں اچھے نام و اوصاف، تو تم اللہ کو انھی ناموں سے پکاراکرو۔ اور ان کو چھوڑ دو جو اللہ کے ناموں میں الحاد کرتے ہیں۔ عنقریب ان کو ان کے کیے کی جزا دی جائے گی۔‘‘

قرآن مجید نے مختلف پیرایوں (wording)میں یہ واضح کیا ہے کہ اسے تمام صفات کے ساتھ مانا جائے۔ اس کی صفات میں الٹ پھیر یا بعض کو ماننا اور بعض کو فراموش یا رد کرنا غلط ہے۔

 

اللہ ہماری قوت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا

دوسرا اصول اس موقع پر یہ واضح رہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے اوپر دین و شریعت میں اتناہی بوجھ ڈالتے ہیں،جتناہم اٹھا سکیں۔ یعنی ان کی شدت کبھی اتنی نہیں ہوتی کہ ہمارے ایمان ضائع ہو کر رہ جائیں۔ اس کوقرآن نے اپنی لاہوتی زبان میں ان الفاظ میں بیان کیا ہے کہ ’لَانُکَلِّفُ نَفْسًا اِلَّا وُسْعَھَا‘ ،’’ہم کسی پر اس کی ہمت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے‘‘ (البقرہ۲: ۲۸۶)۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو آزمایش کا سارا ضابطہ ظالمانہ بن جاتا۔

شریعت کے لیے اللہ نے جب اس اصول کو اختیارکیا ہے تو ہم اس سے قیاس کر سکتے ہیں کہ عام آزمایشوں کے لیے بھی اللہ کا اصول یقیناًایسا ہو گا ۔ اس لیے کہ یہ بات اس کی صفات عدل و رافت کے خلاف ہے کہ و ہ ہماری ہمتیں شکستہ کرنے کے لیے آزمایشوں میں مبتلا کرے۔ اس لیے بڑی سے بڑی مشکل میں بھی اللہ تعالیٰ صرف ہماری آزمایش کرتے ہیں ۔ اس سے اللہ کا مقصود ہرگز یہ نہیں ہوتا کہ وہ ہمیں ہماری ہمت سے زیادہ مشکل میں ڈال کر تنگ کریں۔

ہمت سے کیا مراد ہے، اسے سمجھ لینا چاہیے۔ ہمت سے مراد اٹھانے کی قوت نہیں، بلکہ مشکلات میں ایمان بچا لینے کی ہمت ہے، یعنی اللہ تعالیٰ ہمیں ایسی آزمایش میں اول تو مبتلا نہیں کرے گاکہ جس کی صرف سختی ہی ،ہماری ثابت قدمی کے باوجود،غارت گر ایمان ہو۔ اگر وہ کوئی ایسی سختی ڈالتا بھی ہے تو پھر اس میں لازم ہوگا کہ وہ پھر ہمارے امتحان کے لیے نہ ہو۔

اگر کوئی ایسی سختی ہم پر آئے تو اس کی دوہی صورتیں ہیں:

اول یہ کہ اگر وہ آزمایش ہماری زندگی ختم کرنے کے لیے نہیں آئی تو اس میں ناکام ہونے کی صورت میں ہمارا مؤاخذہ نہیں ہو گا۔ ایک مصیبت جان لے سکتی ہے، ہمیں رلا سکتی ہے،ہماری نیندیں اڑا سکتی ہے، لیکن اگر وہ مصیبت اتنی بڑی ہے کہ ہم ساری توانائیاں لگا کر بھی اپناایمان نہیں بچا سکے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ آزمایش ہمارے امتحان کے لیے نہیں، بلکہ کسی اور ہی مقصد کے لیے آئی ہے۔اس لیے اس میں ناکامی پر سزا نہیں ہو گی۔

دوم یہ کہ اللہ کی طرف سے آزمایش کی مہلت ختم ہو جائے اور کسی کو سزا دینے کے لیے مشکل آجائے۔ اس کی مثال رسولوں کی اقوام کا عذاب ہے۔ جیسے قوم عاد، قوم ثمود اور قوم لوط کی تباہی کا عذاب وغیرہ۔

 

مشکلات ہمارا ایما ن چھیننے نہیں آتیں

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اوپر والے اصول ہی کاایک نتیجہ اصول کے طور پر یہ بھی بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ دین و دنیا میں ہم پر جو بھی آزمایش ڈالتے ہیں تو اس لیے نہیں کہ ان مشکلات میں ڈال کر ہمیں ہمارے ایمان سے محروم کردیں، بلکہ اس کی ہر آزمایش اتنی ہی آتی ہے جتنی ہمارے ایمان کو برباد کرنے والی نہ ہو۔جیسا کہ تحویل قبلہ کے وقت یہود اور مسلمانوں سے یہ کہا کہ ہم نے یہ حکم اس لیے نہیں دیا کہ اللہ تمھارے ایمان ضائع کرنا چاہتا تھا۔ قرآن مجید نے اس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

وَمَا کَانَ اللّٰہُ لِیُضِیْعَ اِیْمَانَکُمْ، اِنَّ اللّٰہَ بِالنَّاسِ لَرَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ.(البقرہ۲: ۱۴۳) 

’’اللہ ایسا نہیں ہے کہ وہ تمھارے ایمان ضائع کرنا چاہے۔ بے شک اللہ تعالیٰ لوگوں پر بہت مہربان و رحیم ہے۔‘‘

ہم نے اوپر یہ بیان کیا تھا کہ ہمت سے مراد ایمان ہی ہے۔ ایسی مشقت و مصیبت دنیامیں ہوتے ہوئے ہم پر نہیں آئے گی، جو ہمارے ایمان کو بچانے کے لیے ہماری قوتوں سے بڑھ کر ہو۔

 

مشکلات میں مہربانی 

تیسری بات یہ واضح رہنی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہم پر جتنی بھی مشکلیں ڈالتے ہیں تو وہ محض مشکلات نہیں ہوتیں، بلکہ وہ اپنی جلو میں بہت سی نعمتیں لے کر آتی ہیں۔ کبھی یہ نعمتیں مشکلات کے ساتھ ساتھ حاصل ہو رہی ہوتی ہیں اور کبھی مشکلات کے جانے کے بعد۔ اسی طرح جتنی بھی مشکلیں ہیں، وہ اپنی ذات میں بھی مہربانی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ سے یہ دنیا اضداد کے جوڑوں سے استوار کی ہے۔ ہر چیز میں یہ رنگ دیکھا جا سکتا ہے۔ رات کے بغیر دن کا تصور بے معنی ہی نہیں، بلکہ نا ممکن بھی ہے۔ ٹھیک اسی طرح بے شمار آسانیاں ایسی ہیں کہ مشکلات کے بغیر ا ن کا حصول نا ممکن ہے۔ مثلاً ایک عورت بے پناہ تکلیف کے بعد اولاد کی نعمت پاتی ہے۔ طالب علم طویل عرصے کی محنت شاقہ کے بعد تعلیمی سند حاصل کرتا ہے۔ داعی طویل جد وجہد کے بعد اپنی دعوت کو عام کرپاتا ہے۔ اسی طرح کی سخت آزمایشوں کے بعد ہی آدمی جنتی بنتا ہے۔ قرآن مجید نے کہا ہے کہ یہ سمجھتے ہیں کہ یونہی جنت میں داخل کر دیے جائیں گے، جبکہ ان پر ابھی وہ آزمایشیں نہیں آئیں جو پہلے انبیا پر اور ان کے صحابہ پر آئیں جن سے وہ ہلا مارے گئے اور پکار اٹھے کہ اللہ کی نصرت کب آئے گی؟ 

اسی طرح اللہ کی حکمت بالغہ ہی کے تحت اس دنیا کی ہر چیز اپنے اندر کم از کم دو پہلو رکھتی ہے، ایک ہی چیز فائدہ مند بھی ہے اور نقصان دہ بھی۔ ایک ہی چیز تکلیف بھی دیتی ہے اور آرام بھی۔ آگے چل کر ہم یہ سمجھیں گے کہ کس طرح خودایک مشکل ہی ہمارے لیے فائدہ مند بن جاتی ہے۔ جس طرح ایک سرجری کا تکلیف دہ عمل ہمارے جسم کو بیماری سے پاک کردیتا ہے، اسی طرح مشکلیں بھی ایک سرجری والا آپریشن ہی ہیں، جوہمارے اندر کے میل کچیل اور خرابیوں کو دور کرنے کا ذریعہ ہیں۔

چنانچہ خدا کی بنائی ہوئی اس دنیا میں اصول یہ ہے کہ ایک خوبی پیدا کرنے کے لیے اور کو ئی نعمت عطا کرنے کے لیے وہ مشکلات سے آدمی کو گزارتاہے ۔ اور اس طرح کی ہر مشکل اور آسانی میں دراصل مومن کے لیے آسانی ہی ہے۔ ایک حدیث مبارکہ میں اس بات کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان کیا ہے کہ:

لا یقضی اللّٰہ قضاء للعبد الا کان خیرا لہ.(صحیح ابن حبان، رقم ۷۲۸) 

’’اللہ اپنے بندے کے لیے جو بھی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔‘‘

مشکلات کے اچھا ہونے کے بہت سے پہلو قرآن و حدیث میں آئے ہیں۔ یہاں بطور وضاحت محض ایک حوالہ پر اکتفا کررہا ہوں، کیونکہ یہ ساری کتاب اسی موضوع پر ہے۔ اس کے دیگرمختلف پہلو آگے بیان ہو ہی جائیں گے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

عجبا لأمر المومن، ان امرہ کلہ خیر... ان اصابتہ سرّاء، شکر، فکان خیرا لہ. وان اصابتہ ضرّاء، صبر، فکان خیرا لہ.(صحیح مسلم ،رقم ۲۹۹۹) 

’’بندۂ مومن کا معاملہ بھی حیرت انگیز ہے۔ اس کے لیے وہ سب اچھا ہے۔ اگر اسے خوشی لاحق ہو ، اور وہ شکر گزار بنے تو یہ بھی اس کے لیے اچھا ہوا۔ اور اگر اس پر مصیبت نازل ہو، اور وہ اس میں صبر کر ے، تو یہ بھی اس کے بھلے میں رہا۔‘‘

 

اللہ تعالیٰ کی آزمایش میں مدد 

چوتھی بات جو ذہن نشین رہنی چاہیے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزمایش میں ڈال کر بھول نہیں جاتا، بلکہ ان پر پوری توجہ رکھتا ہے۔ ان کی مدد کے لیے اپنے سارے لشکروں کے ساتھ آتا ہے۔ سیدنا یوسف پر جب زلیخا ڈورے ڈالتی ہے تو اللہ تعالیٰ اپنی برہان کے ساتھ ان کی مدد کرتا ہے۔ ٹھیک اسی اصول پر وہ اپنے ہر بندے کو آزمایش میں ڈال کر ان کی مدد کرتا ہے، لیکن اس کی یہ مدد مشروط ہے کہ بندہ خود اس آزمایش میں کامیاب ہونا چاہتا ہو۔ وہ پورے ارادے اور ہمت کے ساتھ آزمایش کا سامنا کرے تو تبھی اللہ کی مدد آتی ہے اور اللہ کے بندوں کے دین و ایمان بچا لیتی ہے۔ اور اگر آزمایش بڑی ہو، اور آدمی اس کا سامنا اس حوصلے اور شان کے ساتھ کرے کہ جو اولو العزم لوگوں کا شیوہ ہے تو پھر اس کی نصرت وہاں سے ظاہر ہوتی ہے کہ جہاں سے آدمی گمان بھی نہیں کرسکتا۔

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی والد ہ ماجدہ کے دل کا حال بتایاکہ جب انھوں نے موسیٰ علیہ السلام کو پانی کی موجوں کے حوالے کیا تو ان پر کیا بیتی۔ اگر وہ اس وقت نہ سنبھل پاتیں تو حضرت موسیٰ کے بنی اسرائیل میں سے ہونے کا راز کھل جاتا اور وہ مار دیے جاتے۔ اللہ نے اس وقت انھیں سنبھالادیا اور دیکھیے کہ اس کے اسباب میں سے ایک سبب یہ بھی بتایا کہ اللہ نے انھیں اس لیے سنبھالا دیا کہ وہ حالتِ ایما ن پر قائم رہیں۔ (القصص ۲۸: ۱۰)

سورۂ فتح میں قرآن مجید نے دشمنوں کے مقابلے میں جب مدد کا وعدہ کیا تو یہ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مشکلات میں اپنے بندوں پر قلبی سکون نازل کرتا ہے تا کہ ان کا ایمان بڑھ جائے اور وہ جنگ کی اس مشکل میں ایمان اور صبر پر قائم رہیں:

ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ فِیْ قُلُوْبِ الْمُؤْمِنِیْنَ لِیَزْدَادُوْٓا اِیْمَانًا مَّعَ اِیْمَانِہِمْ.(۴۸:۴) 

’’ وہ ذات وہ ہے کہ (ایسے مشکل مواقع پر) مومنین کے دل میں سکون نازل کرتی ہے تاکہ ان کے ایمان پر مزید ایمان بڑھ جائے۔‘‘

 

آزمانے میں اللہ کی کرم نوازی

آدمی خطاؤں پر خطائیں کرتا چلا جاتا ہے اور وہ ذات کریم اس کی پردہ پوشی فرماتی رہتی ہے۔ چھوٹی موٹی گرفت کر کے اسے غلطی کا احساس بھی دلاتی رہتی ہے اور کبھی کبھی اس کی خطاؤں سے تھوڑا سا پردہ اٹھا کر اسے یہ سبق دیتی ہے کہ اس سے باز آجاؤ ۔ یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے ۔ اگر آدمی توبہ کرنے والا ہو تو ان گرفتوں پر بیدار ہو کر توبہ کرتا رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ بندے کے اخلاص اور اصلاح کی نیت کے مطابق قبول فرماتے رہتے ہیں۔ 

لیکن اگر آدمی توبہ کرنے والا نہ ہو۔ اللہ کی طرف سے کی گئی ہر گرفت اسے برائی ہی کی طرف لے جاتی ہو، تو ایسے آدمی کو اللہ مہلت دیتے ہیں۔ مہلت میں دونوں پہلو ہوتے ہیں کہ اگر توبہ کرنا چاہے تو واپس آجائے اور اگر گناہ میں آگے بڑھنا چاہے توآگے بڑھتا جائے۔ گناہ میں آگے بڑھنے کی ایک اجل اور حد متعین ہے۔ اگرآدمی اس حد اور اجل کو عبور کر لے تو آدمی کے دل ، کانوں اور آنکھوں پر مہر لگ جاتی ہے کہ پھرحق اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا، لیکن اس حد سے پہلے اللہ تعالیٰ آخری درجے کی سختی ظاہر نہیں کرتے۔ ان کی کرم نوازی جاری و ساری رہتی ہے۔ یہاں تک کہ دلوں پر مہر لگنے سے پہلے تک بھی اگر آدمی خلوص کے ساتھ توبہ کرلے تو اس کی رحمت کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں۔

یہ بات بھی معلوم رہے کہ دل پر مہر لگنے کا معاملہ چشم زدن میں نہیں ہوتا ۔ اللہ پور ے حلم و عفو کے ساتھ یہ معاملہ کرتا ہے۔ آدمی کے حالات اس کی مجبوریوں، اس کی ہمتوں کی وسعت اور اس کے ماحول کی کارفرمائیوں کو سامنے رکھ کر حق اور انصاف کے مطابق معاملہ کرتا ہے۔ ایسا نہیں کرتا کہ بس اس نے شریعت و اخلاق کی ایک خلاف ورزی کر لی ہے تو اب بچ کر کہاں جائے گا، بلکہ جس قدر کسی کے حالات میں خرابی ہوگی، گنا ہوں میں بھی اس کے حالات کا خیال رکھا جاتا ہے اور ختم قلوب کے فیصلے کو نافذ کرتے وقت بھی اس کے حالات کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔

 

آزمایش لازم ہے

یہ دنیا اللہ نے اس لیے بنائی ہے کہ ہم راہ حق پر چلتے ہوئے جنت کی منزل کو پائیں۔اس لیے ہماری زندگی قطعاً آزمایشوں سے خالی نہیں ہو سکتی۔ آزمایشیں ہمیں جنت میں لے جانے کے لیے آتی ہیں۔ یہ وہ امتحانی پرچہ ہے جسے اگر ہم حل کر کے نہ دیں تو ہم ناکام ہو جائیں گے۔ 

اس دنیا میں رہنے والا کوئی شخص یہ خیال نہ کرے کہ اسے آزمایا نہیں جائے گا۔ یہ اس کے مقصدپیدایش کے خلاف ہے ۔ اس لیے کہ اسے پیدا اس لیے کیا گیا ہے کہ وہ امتحان دے کر اپنے آپ کو کامیاب اور بہتر عمل والا ثابت کرے۔اگر وہ اس امتحان میں سے بھاگنے کی سعی کرے گا تو یہ بھاگنا بھی اس کی ناکامی پر منتج ہو گا۔

ہم درحقیقت اللہ کی بسائی ہوئی اس دنیا میں رہ رہے ہیں۔ اس میں اسی کا قانون چلے گا۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ اللہ کی دنیا میں آپ اپنی پسند کا ضابطہ بنا کر رہنے لگیں۔ ایک امریکی اگر پاکستان میں آئے تو اسے پاکستان کے قوانین کے مطابق رہنا ہو گا۔ اور اسی طرح ایک پاکستانی اگر امریکہ جائے تو اسے امریکہ کے قانون کی پیروی کرنا ہو گی۔ ٹھیک ہمارا معاملہ اس دنیا میں بھی ایسا ہے ۔ ہم امریکہ میں ہوں یا پاکستا ن میں ہر صورت میں ہم دراصل اللہ کے ملک میں رہ رہے ہیں۔ اور اللہ نے یہ ملک رہنے کے لیے نہیں، بلکہ آزمانے کے لیے بنایا ہے۔ اس ملک کا قانون یہی ہے :

تَبٰرَکَ الَّذِیْ بِیَدِہِ الْمُلْکُ وَہُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْ ءٍ قَدِیْرُنِ. الَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً وَہُوَ الْعَزِیْزُ الْغَفُورُ.(الملک ۶۷: ۱۔ ۲) 

’’بہت ہی فیض رساں ہے وہ ذات جس کے قبضے میں (اس ملک )کی بادشاہی ہے۔ وہ سب کچھ کر گزرنے پر قادر ہے۔ وہ ذات وہ ہے جس نے موت اور حیات کو بنایا تاکہ تمھیں آزمائے کہ تم میں سے کون عمل میں اچھا ہے۔ اور وہ عزیزو غفور ہے۔‘‘

اس لیے ہمارے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ اس حقیقت کو مان کر چلیں کہ یہ دنیا اللہ کا ملک ہے اور اس نے اسے ہمارے امتحان کے لیے بنایا ہے۔ یہ دنیا یوں ہی ہے اور ہمیں اسے یوں ہی قبول کرنا ہوگا۔ وگرنہ اس کا یہ جبر کہ ہم امتحان میں ڈالے گئے ہیں، ہمیں خواہ مخواہ اور گاہے بگاہے ستائے گا۔ ہم اپنے آپ کو اس سے آزاد کرنا چاہیں گے ،مگر حقیقت میں ہر شکست اور ناکامی ہمیں اسی جگہ (امتحا ن کے دروازے پر)ہانک لائے گی ۔ہر خوشی اور ہر راحت امتحان ہی کا راگ الاپے گی۔یہاں تک کہ ادھر بچہ دنیا میں آتا ہے اور ادھر یہ حقیقی سفر شروع ہو جاتا ہے کہ :

یٰٓاَیُّہَا الْاِنْسَانُ اِنَّکَ کَادِحٌ اِلٰی رَبِّکَ کَدْحًا فَمُلٰقِیْہِ.(الانشقاق۸۴: ۶) 

’’اے انسان، تو اپنے رب کی طرف کشاں کشاں کھچا چلا جا رہا ہے پھر تیری اس سے ملاقات ہو گی۔‘‘

اسی لیے اس صورت حال سے ہم بھاگ کر کہیں نہیں جا سکتے ۔ ہمیں ہر وقت مشکل اور آسانی کے نزول کے لیے تیار رہنا چاہیے۔یہ تیاری ہماری تکلیفوں میں راحت کا ذریعہ بنے گی۔ اور اگر راحت نہ بھی ملے تو مشکل کو قدرے کم مشکل کردے گی۔

 

مشکلات: نیک و بد ہونے کا معیار؟

ہمار ے ہاں یہ بات جاہلی معاشروں کی طرح غلط رائج ہو گئی ہے کہ اللہ جن کو دیتا ہے، اس لیے دیتا ہے کہ اللہ ان سے راضی ہوتا ہے۔ بڑے بڑے رشوت خور اور اسمگلر اس خیال سے اپنے محلات پر ’ہٰذا من فضل ربی‘ کندہ کرا لیتے ہیں کہ یہ سب میرے اوپر میرے رب کا فضل ہے۔ یہ بات بالکل غلط ہے۔ 

غربت و امارت، دونوں اللہ کی آزمایشیں ہیں۔ کچھ کو اللہ دے کر آزماتا ہے اور کچھ کو محروم رکھ کر یا دی ہوئی نعمتیں چھین کر، دونوں سے اللہ ناراض نہیں ہوتا، بلکہ یہ عین ممکن ہے کہ جس پر اللہ کی کوئی آزمایش نہ آتی ہو، اللہ اس سے ناراض ہو۔ وہ قارو ن کی طرح کے بڑے خزانوں کا مالک ہو لیکن حقیقت میں اللہ کے ہاں وہ ناپسندیدہ شخص ہو، اور اس نے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کرلیا ہو کہ وہ اسے دنیا ہی میں سب کچھ دے دلاکر فارغ کردے اور آخرت میں بس دوزخ ہی اس کا ٹھکانا بنے۔ 

ٹھیک اسی طرح آزمایشوں کا تسلسل اس بات کا زیادہ امکان رکھتا ہے کہ جو شخص ان کا نشانہ بنا ہوا ہے، وہ اپنے دین واخلاق میں اللہ کو پسند ہے اور اللہ اسے یہاں دنیاہی میں گناہوں سے دھو کر جنت میں لے جانا چاہتاہے، لیکن ظاہر ہے، یہ آدمی کی نیکی،اس کی انابت اور رجوع کے ساتھ مشروط ہے۔نیک لوگوں پرمصائب و مشکلات کا آنا کسی ثبوت کا محتاج نہیں ہے ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ کے حالات اس بات کی گواہی کے لیے کافی ہیں۔ نیک لوگوں پر مشکل آنے کے معاملے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں بیان فرمایا ہے :

ان اللّٰہ اذا احب قوما ابتلاہم، فمن رضی فلہ الرضا، ومن سخط فلہالسخط.(سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۳۱)

’’بے شک اللہ جن لوگوں کوپسند کرتا ہے ، انھیں ابتلا میں ڈالتا ہے، سو جو اس کی ابتلا پر بھی اس سے راضی رہتا ہے تو اللہ اس کو اپنی رضوان عطا کرتا ہے، اور جو اس ابتلا پر اللہسے ناراض ہو جائے ، اللہ اس سے راضی نہیں رہتا۔‘‘

 

کثرت دولت:ایک انتباہ

اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ غربت اتنی خطرنا ک نہیں ہے، جتنی ثروت۔ مال و دولت ایک طرف آسانی لاتے ہیں ، اور دوسری طرف یہ ایک انتباہ (alarm) بھی ہے ۔ اس بات کا انتباہ کہ کہیں اللہ ہم سے ناراض نہ ہو گیا ہو، کہیں اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان لوگوں میں شمار نہ کرلیا ہو جو صرف دنیا کے طالب ہیں اور آخرت کو فراموش کر چکے ہیں،کیونکہ ایسے لوگوں کو اللہ دنیا ہی میں ان کے اعمال کا پورا پورا صلہ دے دیتے ہیں، اور آخرت میں ان کے لیے کچھ بھی نہیں ہو گا۔

قرآن مجید میںیہ بات پوری طرح وضاحت سے یوں بیان ہوئی ہے کہ :

مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَزِیْنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیْْہِمْ اَعْمَالَہُمْ فِیْہَا وَہُمْ فِیْہَا لاَ یُبْخَسُوْنَ. اُولٰٓءِکَ الَّذِیْنَ لَیْْسَ لَہُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلاَّ النَّارُ وَحَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْہَا وَبٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ. (ہود۱۱: ۱۵) 

’’جس نے صرف دنیا ہی کی زندگی اور اس کی زینت (نعمتوں اور شان و شوکت)کو چاہا تو ہم دنیا ہی میں ان کے عملوں کا اجر پورا پورا انھیں دے دیں گے، اور اس میں ان کے لیے ذرا بھی کمی نہ کریں گے۔ یہی لوگ ہیں جن کا آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہ ہوگا، دنیا میں جو نیکیاں انھوں نے کی ہوں گی وہ حبط ہو جائیں گی اور ان کے اعمال اکارت جائیں گے۔‘‘

اس آیت میں یہ بات واضح کی گئی ہے کہ صرف دنیا کے طالبوں کے لیے یہی دنیا اجر کی جگہ ہے ۔آخرت میں ان کے لیے آگ کے سوا کچھ نہ ہو گا۔اس بات کے سامنے آنے کے بعدیہ نتیجہ خود بخود نکل رہا ہے کہ جس آدمی کو دنیا ملی ہو، وہ اس بات کو ضرور دیکھ لے کہ کہیں اس کی تمناؤں میں سے آخرت نکل تو نہیں چکی ہے۔ اس کی تگ و دو کا ہدف کہیں صرف دنیا ہی تو نہیں بن گئی ہے ۔ کیونکہ اگرایسا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اب اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اسے دنیا میں قارون اور فرعون بنا کر دے دلا دے۔ سو نعمتیں اس اللہ کی رضا کی علامت نہیں، بلکہ یہ دو قسم کی ہیں:

ایک یہ کہ عام حالات میں یہ امتحان کے لیے ہیں ۔ دوسرے یہ کہ یہ طالب دنیا کے لیے اس کے اعمال کا اجر ہیں ۔لیکن یہ واضح رہے کہ اس کے پیچھے ایک اور اصول بھی کارفرما ہے۔ وہ یہ کہ برے لوگوں کو اگر اللہ مالی رفاہیت ہی سے نوازتا تو لوگ برائی ہی کی روش کو اختیار کرلیتے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال کے اجر کے لیے صرف مالی خوشحالی کو اجر نہیں بنایا، بلکہ دوسری چیزیں بھی ان کا اجر ہوتی ہیں، دنیا کی لذتیں، جاہ ، شہرت، عزت اور دیگر چیزوں کی صورت میں ان کو اجر دے دیا جاتا ہے تاکہ سارے کے سارے لوگ برائی کا مالی رفاہیت والا نتیجہ دیکھ کر برائی کی طرف نہ چل پڑیں۔ سورۂ زخرف میں ہے:

وَلَوْلَآ اَنْ یَّکُوْنَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً لَّجَعَلْنَا لِمَنْ یَّکْفُرُ بِالرَّحْمٰنِ لِبُیُوْتِہِمْ سُقُفًا مِّنْ فِضَّۃٍ وَّمَعَارِجَ عَلَیْْہَا یَظْہَرُوْنَ.(۴۳: ۳۳)

’’اور اگر یہ بات نہ ہوتی کہ لوگ ایک ہی ڈگر پر چل پڑیں گے تو جو لوگ خداے رحمان کے منکر ہیں، ہم ان کے گھروں کی چھتیں اور سیڑھیاں چاندی کی کردیتے جن پر وہ چڑھتے۔‘‘

ایسا اس لیے کردیا جاتا تاکہ وہ اپنی کرتوتوں کی بنا پر اس کفر کی راہ پر جمے رہتے اور قرارواقعی سزا پاتے۔ قرآن مجید کا فرمان ہے:

فَلاَ تُعْجِبْکَ اَمْوَالُہُمْ وَلاآ اَوْلاَدُہُمْ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُعَذِّبَہُم بِہَا فِی الْحیٰوۃِ الدُّنْیَا وَتَزْہَقَ اَنْفُسُہُمْ وَہُمْ کٰفِرُوْنَ.(التوبہ ۹: ۵۵) 

’’آپ کو ان کا مال اور اولاد حیرت میں نہ ڈالے، (یہ سب دے کر) اللہ تعالیٰ یہ چاہتے ہیں کہ ان کے ذریعے سے انھیں دنیا کی سزا کے لیے پکڑیں اور ان کی جان اس حالت میں نکلے کہ وہ کفر کی حالت میں ہوں۔‘‘

اس لیے کہ مجرم بعض اوقات ایسا نہیں ہوتا کہ اسے پکڑا جائے اور سزا دے دی جائے، اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے جرم کی اس حد تک پہنچے جب اس پر گرفت جائز ہو۔ اس لیے اللہ اس کی فوراً گرفت نہیں کرتے۔

اس کے برعکس اگر آزمایشیں اور تنگیاں آرہی ہیں تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اللہ ہم سے راضی ہے ۔ اس کو ایک صحیح حدیث میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ :

ان اللّٰہ اذا احب قوما ابتلاہم، فمن رضی فلہ الرضا، ومن سخط فلہ السخط. (سنن ابن ماجہ، رقم ۴۰۳۱)

’’اللہ جن لوگوں کوپسند کرتا ہے ، انھیں ابتلا میں ڈالتا ہے، سو جو اس کی ابتلا پر بھی اس سے راضی رہتا ہے تو اللہ اس کو اپنی رضوان عطا کرتا ہے، اور جو اس ابتلا پر اللہ سے ناراض ہو جائے ، اللہ اس سے راضی نہیں رہتا۔‘‘

 

تقدیر پر ایمان

یہ بات دنیا میں رہنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم یہ مانیں کہ اس دنیا کو چلانے والا، اس کے نظام کو چلا رہا ہے۔ نظام کو چلانے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ پھر وہ ایسے کاموں کو نہ ہونے دے جو نظام کو خراب کرتے ہیں، وہ کام ہونے دے جو اس کے نظام کو خراب نہ کرنے والے ہوں۔ اسی وجہ سے اس دنیا کی ایک تقدیر لکھی گئی ہے۔ اس کی ایک عمرہے، اس کے اندر ہونے والے ہر کام کی ایک تعداد، مقدار اور حد ہے جو مقرر کر دی گئی ہے۔ کوئی چیزاس کی حدود سے تجاوز نہیں کرتی۔

اس دنیا کے واقعات اور کاموں کو ان کے ان حدود میں روکنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے غیر محسوس عوامل(factors)اور موانع (hinderances) دنیا میں جاری کررکھے ہیں ۔ان عوامل و موانع میں بہت سی چیزیں ہیں ۔ قرآن مجید نے ’وَتِلْکَ الْاَیَّامُ نُدَاوِلُہَا بَیْْنَ النَّاسِ‘، ’’یہ دن ہیں جنھیں ہم لوگوں کے بیچ میں الٹتے رہتے ہیں۔‘‘ (آل عمران ۳: ۱۴۰) کے اسلوب میں اسی بات کو بیان کیا ہے۔ یعنی قوموں کے عروج و زوال اور فتح و ناکامی اللہ تعالیٰ کے فیصلوں سے ہوتی ہے۔

ان غیر محسوس عوامل اور موانع کے پیچھے فرشتوں کاایک پورا لشکر کار فرما رہتا ہے۔ جس کی طرف اشارہ سورۂ کہف میں موسیٰ و خضر کے قصے میں کیا گیا ہے۔یہ ان عوامل کو خدا کے اذن و منشا کے مطابق کنٹرول کرتے ہیں۔قصۂ موسیٰ و خضر میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح وقت کے بادشاہ سے چند مساکین کی کشتی اللہ تعالیٰ کے اس فرشتے نے بچائی جسے ہم خضر کے نام سے جانتے ہیں:

اَمَّا السَّفِیْنَۃُ فَکَانَتْ لِمَسٰکِیْنَ یَعْمَلُونَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَہَا وَکَانَ وَرَآءَ ہُمْ مَّلِکٌ یَّاْخُذُ کُلَّ سَفِیْنَۃٍ غَصْبًا. (الکہف ۱۸: ۷۹) 

’’جہاں تک کشتی کا معاملہ ہے تو وہ مساکین کی تھی، جو سمندر میں محنت مزدوری کرتے ہیں تو میں نے چاہا کہ اس میں کوئی نقص ڈال دوں (تاکہ بادشاہ اسے پسند نہ کرے)۔ اس لیے کہ ان سے ورے ایک بادشاہ لوگوں کی کشتیاں غصب کررہا تھا۔‘‘

کشتی کا ٹوٹنا وہ مانع (hindrance)ہے جو بادشاہ کی پکڑ سے کشتی کو بچا لے گا۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ یہ دنیا خدا کی گرفت میں ہے ، جس کشتی کو بچانا اس کے پیش نظر ہوتا ہے، وہ اسے بچا لیتا ہے اور جس کشتی کو نہ بچانا اس کی حکمت کے مطابق ہو ، اسے نہیں بچایا جاتا۔

اس کی نہایت ہی عمدہ مثال سیدنا یوسف علیہ السلام کی زندگی میں ملتی ہے۔ ان کے بھائی انھیں مارنے کے لیے کنویں کی تاریکی کے حوالے کردیتے ہیں۔ قافلے والے ان کی زندگی بچا کر انھیں غلام بنا کرفروخت کر دیتے ہیں۔ اور زلیخا اپنی شکست کی آگ کو ٹھنڈا کرنے کے لیے انھیں قید کرادیتی ہے۔ اور یہ تینوںیہ نہیں جانتے کہ وہ سیدنا یوسف پر یہ مشکلات جو ڈال رہے ہیں تو اس طرح وہ اصل میں کل انھیں عزیزمصر بنانے کی اسکیم کا حصہ بن رہے ہیں۔ اس قصے میں یوسف کے بھائی، زلیخا، اور جیل وہ عوامل ہیں جو سیدنا یوسف کو لکھی ہوئی تقدیر کے پورا ہونے کے لیے آگے کو دھکیل رہے تھے۔ وہ اپنی مرضی سے سب کام کررہے تھے، مگر اس کے نتائج کو اللہ تعالیٰ کنٹرول کررہے تھے۔ یہ ممکن تھا کہ کنویں ہی میں سیدنا یوسف ڈوب جاتے ، زلیخا کے قصے میں قید کے بجائے موت کی سزا سنائی جاتی ، وغیرہ ۔ہم نے یہ ساری تفصیل اس لیے کی ہے تا کہ یہ سمجھ آئے کہ یہ دنیا اللہ کی مرضی پر کیسے چل رہی ہے۔ اور یہ کہ یہ دنیا خدا کی دنیا ہے ، وہی اس کا بنانے والا ہے اور وہی اسے چلا رہا ہے:

اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُغْشِی الَّیْْلَ النَّہَارَ یَطْلُبُہٗحَثِیْثًا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرٰتٍ بِاَمْرِہٖاَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ.(الاعراف۷: ۵۴) 

’’بلاشبہ تمھارا رب اللہ ہے، جس نے زمین و آسمان کو چھ دنوں میں بنایا، پھریہ کہ اس کے اقتدار کو سنبھالا، وہی رات سے دن کو ڈھانپتا ہے، جو سرگرمی سے اس کے پیچھے چلتی ہے۔ سورج، چانداو ر ستارے اسی کے حکم سے خدمت پر مامور ہیں، اس لیے آگاہ رہو کہ تخلیق بھی اسی نے کی اور اب (اس کی تخلیق شدہ کائنات کے اقتدار کا) معاملہ بھی اسی کے ہاتھ میں ہے۔ اللہ بہت فیض رساں اور جہان والوں کا آقا و مالک ہے۔‘‘

جب یہ حقیقت ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ اس دنیا میں اچھا برا جو کچھ ہو رہا ہے، وہ خدا کے اذن سے ہو رہا ہے۔ برائی اور نیکی کو جہاں اور جب اس کا منشا ہو، وہ اسے ہونے دیتا ہے ، اور جب اس کی مرضی نہ ہو، وہ اسے اپنے غیبی ہاتھوں کے زور پرروک دیتا ہے۔اب یہ بات سوچنے کی ہے کہ جب میرے ساتھ کوئی حادثہ یا مصیبت والا معاملہ ہوتا ہے تو اس کے معنی یہ ہیں کہ وہ اللہ کے منشا سے ہوا ہے۔اس نے اس عمل کو ہونے دیا ہے ۔ اس کی راہ میں کوئی رکاوٹ کھڑی نہیں کی ہے۔ اب جب اللہ تعالیٰ نے یہ معاملہ ہمارے ساتھ کیا ہے تویقیناًاس کے ہونے کا فیصلہ اللہ کے علم و حکمت سے پھوٹا ہو گا جو ہر صورت میں ہمارے لیے مفید ہو گا۔حدیث میں آتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’لا یقضی اللّٰہ قضاء للعبد الا کان خیرا لہ‘،’’کہ اللہ بندۂ مومن کے لیے جو بھی فیصلہ فرماتا ہے، وہ اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔‘‘ (صحیح ابن حبان، رقم ۷۲۸) اب چونکہ ہمیں حادثات اور مصائب برے لگتے ہیں ،اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں یہ بتایا ہے کہ تمھیں بری لگنے والی چیز، ہو سکتا ہے، تمھارے لیے اچھی ہو اور تمھیں اچھی لگنے والی چیز تمھارے لیے بری ہو:

وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْْءًا وَّہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ. (البقرہ۲: ۲۱۶)

’’اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناگوار سمجھ رہے ہو، جبکہ وہ تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو اچھا اور پسندیدہ خیال کرو، مگر وہ تمھارے لیے بری ہو۔ (چیزوں کے اچھا برا ہونے کو) تم نہیں جانتے اللہ جانتا ہے۔‘‘

 

خدا کی آغوش میں

ہم جیسے ہی یہ مان لیتے ہیں کہ یہ دنیا اللہ تعالیٰ چلا رہے ہیں اور اچھا برا سب کچھ اس کی مرضی سے ہوتا ہے۔ تو پھر یہ بات دو ٹوک ہو جاتی ہے کہ جو کچھ ہمارے ساتھ ہونا ہے، وہ اللہ کی طرف سے ہونا ہے اور ہو کر رہے گا۔ او ر اللہ ہمارے ساتھ جو کچھ کرے گا ،وہ ہمارے لیے خیر اور بھلائی ہو گی۔ ہمارے حق میں ہونے کے فیصلے اللہ کررہا ہے تو پھر اس میں گھبرانے کی کیا ضرورت ہے۔ وہ ہمارے ساتھ اچھا کرے یا براکرے، سب میں خیر ہے تو ہم اللہ کے فیصلوں کی پناہ میں ہیں۔ جس کو اس کی گود میسر ہو، وہ بھلا پریشان کیوں ہو!

مَآ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَۃٍ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ اِلَّا فِیْ کِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَہَا اِنَّ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرٌ. لِّکَیْْلَا تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلَا تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ.(الحدید ۵۷: ۲۲۔۲۳) 

’’اور تمھیں کوئی مصیبت نہیں پہنچی، نہ تمھاری زمینی(پیداوار میں) اور نہ تمھاری جانوں کو، مگر یہ کہ وہ ایک کتاب میں لکھی ہوئی ہوتی ہے اس سے پہلے کہ ہم اسے وجودمیں لائیں۔بے شک یہ اللہ کے لیے نہایت ہی آسان ہے ۔ یہ بات تمھیں اس لیے بتائی جارہی ہے کہ تمھاری جو چیز ضائع ہو جائے اس پر غم نہ کرو، اور تمھیں جو نعمت ملے، اس پر مت اتراؤ، اللہ تعالیٰ نہ اکڑنے والے کو پسند کرتے ہیں، نہ اترانے والے کو۔‘‘

یہی وجہ ہے کہ احادیث و آثار میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام کی طرف سے اس طرح کے بہت سے بیانات ملتے ہیں کہ ’ما یصیبنا الا ما کتب لنا‘، ’’ہم پرتو بس اتنی ہی مصیبت آئے گی جو ہمارے لیے لکھی گئی ہے۔‘‘ اس تصور سے وہ اپنی مصیبتوں پر یہ کہہ کر تسلی پاتے تھے کہ یہ تو اللہ کا لکھا ہے، اس نے تو آکر ہی رہنا تھا۔ اور اس میں اللہ کی طرف سے بہتری ہو گی، اس کی حکمت ہوگی وغیرہ۔

چونکہ یہ دنیا اللہ کے فیصلوں سے چل رہی ہے، اس لیے یہ بھی حقیقت ہے کہ اللہ کے فیصلے ہی ہمارے لیے نجات و تباہی کا ذریعہ ہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعاؤں میں ایسی دعائیں بھی ہیں جن میں وہ اللہ کے کلمات یعنی فیصلوں کی پناہ مانگا کرتے تھے۔ آپ کے الفاظ پر توجہ دیجیے۔ اس دعا کے الفاظ یہ بتا رہے ہیں کہ ہر چیزجسے اللہ نے بنایا ہے، اس سے برائی پیدا ہوسکتی ہے، لیکن اس برائی سے بچانے والی چیز اللہ کے کلمہ ’کن‘ جیسے فیصلے پر مبنی الفاظ ہیں۔ ان الفاظ کو اس دعا میں ’کلمات اللّٰہ التامات‘کہا گیا ہے، یعنی ایسے الفاظ کہ جن میں کوئی نقص نہیں ہے، نہ فیصلے کے اعتبار سے نہ نفاذ (execution)کے اعتبار سے:

اَعُوْذُ بِکَلِمَاتِ اللّٰہِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّمَا خَلَقَ.(صحیح مسلم، رقم ۲۷۰۸)

’’میں اللہ کے تمام فیصلوں کی پناہ میں آتا ہوں، ان تمام چیزوں کی برائی سے جواللہ نے تخلیق کی ہیں۔‘‘

چیزوں کے دو پہلو

یہ کائنات چونکہ امتحان کے لیے بنی ہے، اس لیے اس میں چیزیں نعمت بھی ہیں اور امتحان بھی۔ مشکلیں مصیبت بھی ہیں اور آزمایش بھی۔ اسی لیے دونوں چیزیں یعنی نعمتیں بھی اور مصیبتیں بھی ایک حساب سے ہمارے لیے پسندیدہ یا ناپسندیدہ ہوتی ہیں، لیکن امتحان کے نقطۂ نگاہ سے ہمیشہ اچھی ہوتی ہیں۔ ہمارے یہاں کے امتحانی پرچے کے ہر سوال کی طرح خواہ وہ مشکل ہو یا آسان طالب علم کے پاس ہونے کے لیے اس کا مدد گار ہے۔ ایسا ہی معاملہ ہماری دنیا کا ہے۔ یہاں کا ہر حادثہ اور ہر نعمت ایک امتحانی سوال کی طرح ہے ۔ ہمارے لیے امتحان میں کامیابی کا ایک زینہ ہے۔جس جس سوال کا ہم صحیح جواب دیتے جائیں گے ،ہم کامیابی کی طرف بڑھتے جائیں گے۔ایک ہی عمل کامیابی بھی بن سکتا ہے اور ناکامی بھی۔ وہ خوشی کا ذریعہ بھی ہے اور غمی کا بھی۔ ذیل کی آیت میں چیزوں کی اسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوتا ہے:

وَعَسٰٓی اَنْ تَکْرَہُوْا شَیْْءًا وَّہُوَ خَیْْرٌ لَّکُمْ وَعَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْْءًا وَّہُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لاَ تَعْلَمُوْنَ.(البقرہ۲: ۲۱۶)

’’اور ہوسکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناگوار سمجھ رہے ہو، جبکہ وہ تمھارے لیے بہتر ہو، اور ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو اچھا اور پسندیدہ خیال کرو، مگر وہ تمھارے لیے بری ہو۔ (چیزوں کے اچھا برا ہونے کو) تم نہیں جانتے اللہ جانتا ہے۔‘‘

ان احادیث پر ذرا تدبر کی نگاہ ڈالیے تو یہ بات ایک اور رخ سے سامنے آئے گی:

لا یقضی اللّٰہ قضاء للعبد الا کان خیرا لہ.(صحیح ابن حبان، رقم ۷۲۸) 

’’اللہ اپنے بندے کے لیے جو بھی تقدیر کا فیصلہ کرتا ہے، اس کے لیے اچھا ہی ہوتا ہے۔‘‘

اور یہ حدیث بھی کہ:

عجبا لأمر المومن، ان امرہ کلہ خیر، ان اصابتہ سرّاء، شکر، فکان خیرا لہ. وان اصابتہ ضرّاء، صبر، فکان خیرا لہ. (صحیح مسلم،رقم ۲۹۹۹)

’’بندۂ مومن کا معاملہ بھی حیرت انگیز ہے اس کے لیے سب اچھا ہے۔ اگر اسے خوشی لاحق ہو اور وہ شکر گزار بنے تو یہ بھی اس کے لیے اچھا ہوا۔ اور اگر اس پر مصیبت نازل ہو اور وہ اس میں صبر کر ے، تو یہ بھی اس کے بھلے میں رہا۔‘‘

مذکورہ آیت اور احادیث سے یہ بات واضح ہو رہی ہے کہ خدا کا ہر فیصلہ دہرا اثر رکھتا ہے۔ بندۂ مومن کے لیے اس میں خیر ہی ہوتا ہے، لیکن صرف اسی صورت میں جب وہ مطلوبہ رویہ پیش کرے، جسے حدیث میں صبر اورشکر سے بیان کیا گیا ہے۔ چنانچہ اگر وہ اس کے برعکس رویہ ظاہر کرتا ہے تو یقیناًاس کے لیے ہر فیصلے کا برا پہلو ظاہر ہو جائے گا۔

___________________

 

B