پہلا باب
ہر انسان اپنی زندگی میں ہر لمحہ پلاننگ اور منصوبہ بندی سے کام لیتا ہے، کیونکہ اس کے بغیر زندگی ممکن نہیں۔ جب ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے بارے میں سوچتے ہیں تو یک دم ہمارے ذہن میں خیال آتا ہے کہ بچے یا بچی کو کب کسی سکول میں داخلہ دلوایا جائے، کون سا سکول اچھا ہے، کون سے گھر سے قریب ہے، بچے یا بچی کے آنے جانے کا کیا ہوگا۔ پھر ہم اُن کے لیے لباس تیار کرتے ہیں، کتابیں اور کاپیاں خریدتے ہیں، اُن کے بروقت سکول آنے جانے کا بندوبست کرتے ہیں، اُن کی پڑھائی اور نتیجے پر دھیان رکھتے ہیں اور یوں ہمیں یہ توقع ہوتی ہے کہ ہمارے بچے پڑھ لکھ کر شعور حاصل کریں گے اورملازمت یا کاروبار کے ذریعے حلال رزق کمائیں گے اور زندگی گزاریں گے۔
بالکل اسی طرح جب ہم عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں تو کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے ہم غوروفکر کرتے ہیں۔ جس میدان کا انتخاب کرنا ہے، اُس کے متعلق علم حاصل کرتے ہیں، پھر اپنی عقل سے کام لے کر کوئی فیصلہ کرتے ہیں، فیصلے کو روبہ عمل لانے کے لیے تدبیر کرتے ہیں، اور یوں اپنے مقصد کی طرف آگے بڑھتے ہیں۔ اس سارے سعی وعمل کو پلاننگ کہتے ہیں۔
یہی حال زندگی کے ہر معاملے کا ہے۔ ہم گھر بنانا چاہیں، اپنے بہن بھائیوں یا بچوں بچیوں کا رشتہ کرنا چاہیں، ملازمت کا کاروبار تبدیل کرنا چاہیں، کسی سے مشورہ لینا چاہیں یا کسی کو مشورہ دینا چاہیں، حتیٰ کہ اگر ہم کوئی چھوٹا سا کام انجام دینا چاہیں، مثلاً سیر پر جانا چاہیں، تب بھی ہم مجبور ہیں کہ غوروفکر، علم، عقل اور تدبیر سے کام لے کر منصوبہ بندی کریں اور یوں زندگی کی گاڑی کو رواں دواں رکھیں۔
زندگی کا اہم ترین شعبہ خاندان ہے۔ خاندان کو ابتدا مردوعورت کی قانونی شادی اور تعلق سے ہوتی ہے۔ اور پھر یہ رشتہ پھیل کر بچوں، والدین، بہن بھائیوں اور وسیع تر خاندان تک پھیل جاتا ہے۔ اس رشتے میں ہر قدم پر انسان پلاننگ سے کام لیتا ہے۔ مثلاً شادی کے لیے تجویز بھیجتے وقت یا ہاں کرتے وقت دونوں خاندان خوب غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔ لڑکا کیا کرتا ہے۔ اس کی کتنی تعلیم ہے۔ آمدنی کتنی ہے۔ اُس کی صحت کیسی ہے۔ اُس کی عمر کیا ہے۔ اُس کے عادات واطوار کیسے ہیں۔ مزاج کیسا ہے۔ پھر شرطیں طے ہوتی ہے۔ مشورے ہوتے ہیں۔ منگنی کب ہو۔ شادی کب ہو۔ کیا تیاریاں کی جائے۔ پھر شادی کا مرحلہ طے ہوتا ہے۔
اس کے بعد بھی ہر معاملے میں یہ میاں بیوی غوروفکر سے کام لیتے ہیں۔ اگر اولاد نہ ہورہی ہے، تو اس کے لیے علاج کیا جاتا ہے۔ اولاد ہوجائے تو اُن کی زندگی کے ہر معاملے میں خوب سوچ بچار کے ساتھ کوئی قدم اٹھایا جاتا ہے۔ گویا اس ضمن میں ہر اور ہر موقعے پر پلاننگ کی جاتی ہے۔
مگر یہ بڑی حیرت کی بات ہے کہ اس پوری زندگی کے چکر میں جب یہ معاملہ درپیش ہوتا ہے کہ بچوں کی پیدائش کے متعلق بھی کوئی پلاننگ کی جائے، تو یک دم ذہن میں کچھ سوال اٹھنے لگتے ہیں کہ رزق دینے والی ذات تو اللہ کی ہے، پھر ہم کیوں پلاننگ کریں۔ کسی طرف سے آواز اٹھتی ہے کہ یہ تودراصل امت مسلمہ کے خلاف سازش ہے۔ کہیں ذہن میں یہ بات آتی ہے کہ اس طرح کہیں ہم پر کوئی مصیبت نہ آجائے۔ کہیں ہمارے بچوں کی تعداد ہمارے دوسرے رشتہ داروں سے کم نہ ہوجائے۔ اور اگر کسی خاندان میں اتفاق سے پہلے لڑکیاں ہوجائیں تو لڑکے کے انتظار میں خاندان بڑھتا ہی رہتا ہے۔
تاہم عموماً یوں ہوتا ہے کہ جب گھر میں سات آٹھ بچے آجاتے ہیں اور ماں بچارے کی جان ہلکان ہونے لگتی ہے۔ جب اُس کی صحت جواب دینے لگتی ہے، جب وہ دیکھتی ہے کہ یہ سلسلہ یوں ہی رہا تو اس کے لیے موجود بچوں کو سنبھالنا ممکن نہیں رہے گا، جب ہر عمر کے بچوں کے مطالبات اور ضروریات سے اُس کے حواس جواب دینے لگتے ہیں تو وہ سب اعتراضات کو بھول کر فیملی پلاننگ کے کسی مرکز میں چلی جاتی ہے اور علاج کروانے لگتی ہے۔ تاہم اب بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ اس کی زندگی پر جو خراب اثر پڑنا تھا وہ ہوچکا ہوتا ہے۔
ظاہر ہے کہ جب بچوں کے درمیان وقفہ کم ہوتا ہے تو والدین کی طرف سے ان کو مناسب توجہ بھی نہیں دی جاسکتی۔ ہر عمر کے بچے کی اپنی ضروریات ہوتی ہیں۔ پھر ہمارے ملک میں بچوں کی بیماریاں ویسے بھی بہت عام ہیں۔ ہر بچہ ماں اور باپ کی توجہ چاہتا ہے۔ وہ بھی اُسے صحیح طریقے سے مل نہیں پاتا۔ چنانچہ گھر کا پورا نظام ہی لشٹم پشٹم چلتا رہتا ہے۔
ہمارے ہاں خاندان کے سربراہ یعنی مرد کا کردار اس معاملے میں عام طور پر غیر ذمہ دارانہ ہوتا ہے۔ خاندان کی بڑھوتری کے معاملے کو اپنا معاملہ سمجھتا ہی نہیں۔ اپنے ایک خاص احساسِ برتری میں وہ سمجھتا ہے کہ جو کچھ کرنا ہے، اُس کی شریک حیات ہی کو کرنا ہے۔ وہ اپنے اوپر کوئی قدغن نہیں لینا چاہتا۔ وہ اپنے لطف ولذت میں ذرا برابر بھی ذمہ داری نہیں اٹھانا چاہتا۔ حالاں کہ گھر کے سربراہ ہونے کی حیثیت سے اس کی سب بڑھ کر یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ پہلے دن سے ہی وہ اس بارے میں سنجیدہ ہوتا کہ کب خاندان میں اضافہ ہونا چاہیے، اُس کی شریک حیات کی صحت کیسی ہے۔ ایک بچے کی پیدائش کے اب اُس بچے کے ضمن میں اُس پر کیا ذمہ داریاں عائد ہوتی ہے۔ ان ذمہ داریوں سے کیسے عہدہ برا ہوتا ہے۔ اپنی خاتون کی ذہنی وجسمانی صحت کے معاملے میں اُسے کون سے اقدامات اٹھانے ہیں۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں مردوں اس کا شعور بہت کم ہے۔ شعور کی اس کمی کا براہ راست اثر ہماری نئی نسل کی تعلیم اور صحت پر پڑرہا ہے۔ اور پوری سوسائٹی کے اندر پھیلی ہوئی بے چینی جرائم کے بڑھتے ہوئے رجحان، بے روزگاری، غیر یقینی صورت حال اور فرسٹریشن پر مبنی مائنڈ سیٹ کا ایک اہم عامل یہ بھی ہے۔
اگلے صفحات میں ہم فیملی پلاننگ کے متعلق عملی بحث کریں گے۔ اور اُس کے بعد اس بات کا خصوصی جائزہ لیں گے کہ فیملی پلاننگ کے ضمن میں عملی طور پر کیا کرنا چاہیے اور اس ضمن میں مردوں کی کیا ذمہ داری ہے۔