HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage
Author: Dr. Farooq Khan

Please login for Bookmark , Comment or Highlight

جہاد و قتال ۔ چند اہم مباحث (حصہ اول)


باب اول


جہاد کے معنی


جہاد کے معنی ہیں کسی مقصد کو حاصل کرنے کے لئے اپنی اتنہائی کوشش کرنا۔گویا جہاد کے مفہوم میں ہر قسم کی جدوجہد شامل ہے۔جب یہ ساری جدوجہد صرف اللہ کی رضا کے لئے ہو تو اسے’’جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کہتے ہیں۔یہ لفظ جنگ کا ہم معنی نہیں۔خالص مسلح جنگ کے لئے قرآن مجید نے ہمیشہ’’قتال‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے۔گویا جہاد ایک وسیع المعنی اصطلاح ہے۔حقوق اللہ،حقوق العباد اور نفس کی تربیت کے لئے کی جانے والی ہر جدوجہد’’جہاد‘‘ہے۔جس طرح اللہ کی رضا کے لئے جنگ جہاد ہے،اسی طرح غریبوں کی مدد،معاشرے میں تعلیم عام کرنے کی جدوجہد،اپنے آپ کو گناہوں سے بچانے کی کوشش اور قرآن مجید کے ذریعے دین کی دعوت پھیلانا،یہ سب جہاد کے مفہوم میں شامل ہیں۔ گویا جب بھی کوئی مسلمان نیکی کا کوئی کام،یا کوئی بھی مثبت کام کررہا ہوتا ہے، تو درحقیقت وہ جہاد میں مصروف ہوتا ہے۔ چنانچہ جہاد ایک مسلسل جاری رہنے والا عمل ہے جو ہر مسلمان ساری زندگی انجام دیتا رہتا ہے۔ اسی لیے ہمارے پرانے فقہا نے جہاد کی جو اقسام بیان کی ہیں، مثلاً جہاد با النفس، جہاد بالعمل، اورجہاد بالعلم، ان میں عملاً نیکی کا ہر کام آجاتا ہے۔ کیونکہ نیکی کے ہر کام کرنے کے ساتھ ساتھ شیطان اور اپنے نفس سے لڑائی لڑنی پڑتی ہے۔ 

قرآن کریم میں لفظ ’’جہاد‘‘ اور اس سے متعلق الفاظ انتیس(29)آیات میں استعمال ہوئے ہیں۔ان میں چار آیات مکی دور کی ہیں۔اس دور کے متعلق یہ معلوم ہے کہ اس میں مسلمانوں کو مسلح جنگ یعنی قتال کی اجازت نہیں تھی۔اس لئے یہ لازم ہے کہ ان تمام آیات میں ’’جہاد‘‘ سے مراد’’دین کے لئے پرامن جدوجہد‘‘لی جائے۔ پچیس آیات مدنی دور کی ہیں۔ مدنی دور کے متعلق ہمیں معلوم ہے کہ اس وقت دین کی دعوت پھیلانے کی پرامن جدوجہد بھی جاری تھی،بے شمار مسلمان دین کو سیکھ رہے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ،چونکہ اس نوزائیدہ ریاست کو پہلے دن سے ہی دشمنوں کی طرف سے بے شمار خطرات لاحق تھے،اس لئے مسلمان ریاستی حدود کی حفاظت کے لئے راتوں کو پہرے بھی دیتے تھے اور حملے کی صورت میں جنگ بھی کرتے تھے۔گویا مدنی دور میں جہاد کے لفظ میں پرامن جدوجہد کے ساتھ ساتھ مسلح جنگ کا پہلو بھی شامل ہوگیا۔ان تمام آیات کے سیاق وسباق سے یہ بھی واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ کون کونسی آیات میں اس لفظ کے استعمال سے مراد عمومی جدوجہد ہے اور کونسی آیات میں مسلح جنگ کا پہلو غلبہ پا گیا ہے۔ اب ہم مکی دور کی تمام آیات کو نقل کرتے ہیں۔

1: ثُمَّ اِنَّ رَ بَّکَ لِلَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا مِنْ بَعْدِ مَا فُتِنُوْا ثُمَّ جَاہَدُوْا وَصَبَرُوْٓا اِنَّ رَ بَّکَ مِنْ بَعْدِہَا لَغَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ()(سورۃنحل-16آیت110)
’’ جن اہل ایمان نے آزمایشوں میں ڈالے جانے کے بعد ہجرت کی، جدوجہد کی اور صبر سے کام لیا تو ایسے لوگوں کے لیے اُس دن یقیناًتیرا رب بڑا ہی بخشنے والا اور بہت رحم کرنے والا ہے‘‘۔

درج بالا آ یت میں ہجرت سے مراد ہجرتِ حبشہ ہے۔اور جہاد سے مرادعمومی جدوجہد ہے۔

2: فَلَا تُطِعِ الْکَافِرِیْنَ وَجَاہِدْہُمْ بِہٖ جِہَادًا کَبِیْرًا()(سورۃ فرقان-25آیت52)
’’پس اے نبیؐ، تم ان ناشکروں کی بات کا دھیان نہ کرو اور اس (قرآن) کے ذریعے سے ان کے ساتھ ’’جہاد کبیر‘‘ کرو‘‘۔ 

اس آیت میں قرآن کی دعوت کو پرامن طریقے سے پیش کرنے کو جہاد کہا گیا ہے۔

3: وَمَنْ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفْسِہٖ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعَالَمِیْنَ()
’’جو شخص بھی ہماری راہ میں جدوجہد کررہا ہے، وہ اپنے ہی فائدے کے لیے کررہا ہے‘‘۔(سورۃعنکبوت-29آیت6)

اس آیت میں دین کے لیے ہر خدمت کی انجام دہی کو جہاد کے لفظ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ 

4: وَالَّذِیْنَ جَاہَدُوْا فِیْنَا لَنَہْدِیَنَّہُمْ سُبُلَنَا وَاِنَّ اللّٰہَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ
’’جو لوگ ہماری راہ میں جدوجہد کررہے ہیں، ہم ان پر اپنی راہیں ضرور کھولیں گے۔ بے شک، اللہ نیکو کاروں ہی کے ساتھ ہے‘‘۔(سورۃ عنکبوت-29آیت69)

اس آیت میں بھی دین کے راستے میں ہر جدوجہد کے لیے جہاد کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

اب ہم مدنی دور کی تمام آیات کو نقل کرتے ہیں۔ 

5: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَالَّذِیْنَ ہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓءِکَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ() (سورۃ بقرہ-2آیت218)
’’یقیناًجو لوگ ایمان پر قائم رہے ہیں، اور جن لوگوں نے ہجرت کی ہے اوراللہ کی راہ میں جدوجہد کی ہے،وہ اللہ کی رحمت کے امیدوار ہیں۔یقیناًاللہ بخشنے والا مہربان ہے‘‘۔

سورۃ بقرہ میں یہ آیت ایک ایسے مقام پر آئی ہے جہاں مسلمانوں کے مختلف سوالات کے جواب دئے گئے ہیں۔اس آیت سے قبل محترم مہینوں کا ذکر ہے اور اس آیت کے بعد شراب اور جوئے کے حکم کا ذکر ہے۔چنانچہ یہ بات واضح ہے کہ یہاں جہاد سے مراد اسلام کے راستے میں عمومی جدوجہد ہے۔

6: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّۃَ وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَیَعْلَمَ الصَّابِرِیْنَ() (سورۃ آل عمران -3آیت142)
’’کیا تم (میں سے بعض) نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی جنت میں چلے جاؤگے، حالانکہ ابھی تو اللہ نے یہ دیکھا ہی نہیں کہ تم میں سے کون اس کی راہ میں جدوجہد کرنے والے اور اس کی خاطر صبرواستقامت کرنے والے ہیں‘‘۔ 

اس سورۃ میں یہ آیت جنگ احد کے پس منظر میں آئی ہے۔اس لئے یہاں مسلح جنگ کا پہلو غلبہ پاگیا ہے۔

7: لاَ یَسْتَوِی الْقَاعِدُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ غَیْْرُ اُولِی الضَّرَرِ وَالْمُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاہِدِیْنَ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ دَرَجَۃً وَکُلاًّ وَّعَدَ اللّٰہُ الْحُسْنٰی وَفَضَّلَ اللّٰہُ الْمُجَاہِدِیْنَ عَلَی الْقَاعِدِیْنَ اَجْرًا عَظِیْمًا()(سورۃ نساء -4آیت95)
’’مومنین میں سے وہ لوگ جو بغیر کسی معذوری کے گھر میں بیٹھے رہتے ہیں اور وہ جو اپنے مال وجان کے ساتھ اللہ کے راستے میں جدوجہد کرتے ہیں،دونوں کی حیثیت یکساں نہیں ہے۔مال وجان سے جدوجہد کرنے والوں کو اللہ نے بیٹھ رہنے والوں پر ایک درجہ فضیلت کا بخشا ہے۔اگرچہ دونوں ہی سے اللہ کا اچھاوعدہ ہے، مگر اللہ نے جدوجہد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر ایک اجر عظیم کی فضیلت دی ہے۔ (ان کے لیے) اللہ کی طرف سے بڑے درجے ہیں اور مغفرت ورحمت بھی ہے۔یقیناًاللہ بڑا معاف کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے‘‘۔ 

سورۃ نساء کے اس حصے میں جنگی قوانین زیر بحث ہیں۔اس لئے یہاں جہاد سے مراد مسلح جنگ ہے۔

واضح رہے کہ اس آیت سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلام کے لئے جنگ اگرچہ بہت اجروثواب کا کام ہے تاہم یہ لازم نہیں۔ہر مسلمان بنیادی طور پر ایمان ،عملِ صالح اور صرف اپنے گردوپیش میں حق کی نصیحت اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کا مکلف ہے۔

قرآن مجید کی بعض دوسری نصوص سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر شدید خطرے کی حالت میں اسلامی حکومت لازمی فوجی خدمت کی ہدایت جاری کرے تو ایسے موقع پر پیچھے رہنا بدترین نفاق ہے اور پرخلوص توبہ کے بغیر اس کی سزا جہنم ہے،تاہم ایسے فرد کو دنیا میں کوئی سزا نہیں دی جاسکتی۔

8: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَجَاہِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ()(سورۃ مائدہ -6آیت35)
’’اے اہل ایمان!اللہ سے ڈرتے رہو،صرف اسی کے تقر ب کے طالب بنو، اوراسی کی راہ میں جدوجہد کرو تاکہ تمھیں کامیابی نصیب ہو‘‘۔

اس آیت سے قبل تعزیری احکام اور آگے چور کی سزا کے حکم کے درمیان میںیہ اصلاًمسلمانوں کو تنبیہ و تذکیر ہے کہ وہ دین کے احکام وحدود کی صحیح روح کے ساتھ پابندی کریں اور ہر طریقے سے دین کے راستے میں جدوجہد کریں۔چنانچہ یہاں جہاد سے مراد عمومی جدوجہد ہے۔ 

9: یٰٓاَ یُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مَنْ یَّرْتَدَّ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَسَوْفَ یَاْتِی اللّٰہُ بِقَوْمٍ یُّحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗٓ اَذِلَّۃٍ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اَعِزَّۃٍ عَلَی الْکَافِرِیْنَ یُجَاہِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلاَ یَخَافُوْنَ لَوْمَۃَ لَآءِمٍ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ()(سورۃ مائدہ -5آیت54)
’’اے(بظاہر)ایمان لانے والو،اگر تم میں سے کوئی اپنے دین سے پھرتا ہے تو (اللہ کو کوئی پروا نہیں)،وہ بہت جلد ایسے لوگوں کو اٹھائے گا جو اللہ کو محبوب ہوں گے اور اللہ ان کو محبوب ہوگا۔جو مومنین کے لیے نرم مزاج اور منکرین حق پر سخت ہوں گے، جو اللہ کی راہ میں جدوجہد کریں گے اور کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے نہ ڈریں گے‘‘۔

اس آیت میں دراصل منافقین سے خطاب ہے۔حضورؐ کے زمانے میں اُس وقت ایسے منافقین موجود تھے جو درپردہ مسلمانوں سے دشمنی رکھتے تھے اور دشمنوں سے سازبازکیا کرتے تھے۔اس آیت میں ان منافقین کے خاتمے کی پیشن گوئی کی گئی جو پوری ہوئی۔اس کے ساتھ ساتھ مومنوں کی خوبی بیان فرمائی ہے کہ یہ اللہ کے راستے میں ایسے صبر واستقامت سے جدوجہد کرتے ہیں کہ انہیں کسی ملامت گر کی ملامت کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی۔چنانچہ اس پس منظر کے باعث یہاں جہاد سے مراد دین کے راستے میں عمومی جدوجہد ہے۔

10: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓءِکَ بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَمْ یُہَاجِرُوْا مَا لَکُمْ مِّنْ وَلاَیَتِہِمْ مِّنْ شَیْْءٍ حَتّٰی یُہَاجِرُوْا وَاِنِ اسْتَنْصَرُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ فَعَلَیْْکُمُ النَّصْرُ اِلاَّ عَلٰی قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ() وَالَّذیْنَ کَفَرُوْا بَعْضُہُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ اِلاَّ تَفْعَلُوْہُ تَکُنْ فِتْنَۃٌ فِی الْاَرْضِ وَفَسَادٌ کَبِیْرٌ() وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَالَّذِیْنَ اٰوَوْا وَّنَصَرُوْٓا اُولٰٓءِکَ ہُمُ الْمُؤْمِنُوْنَ حَقًّا لَّہُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّرِزْقٌ کَرِیْمٌ() وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْ بَعْدُ وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا مَعَکُمْ فَاُولٰٓءِکَ مِنْکُمْ وَاُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُہُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْْءٍ عَلِیْمٌ(سورۃ انفال-8آیات75...........72)
’’جن لوگوں نے ایمان قبول کیا، ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں اپنے مال وجان سے جدوجہد کی (یعنی مہاجرینِ مکہ)، اور جن لوگوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی (یعنی انصارِ مدینہ)، یہی لوگ ایک دوسرے کے ولی ہیں۔رہے وہ لوگ جو ایمان تو لے آئے، لیکن انھوں نے ہجرت نہیں کی، ان سے تمھارا ولایت کا تعلق اُس وقت تک نہیں ہوگا جب تک وہ ہجرت کرکے (ریاستِ مدینہ میں) نہ آجائیں۔تاہم اگر وہ دین کے معاملے میں تم سے مدد مانگیں تو ان کی مدد کرنا تم پر لازم ہے ، لیکن کسی ایسی قوم کے خلاف نہیں جن سے تمھارا معاہدہ ہو۔جو کچھ تم کرتے ہو، اللہ اسے دیکھ رہا ہے۔ جو لوگ منکرینِ حق ہیں وہ ایک دوسرے کی حمایت کرتے ہیں۔ اگر تم اس قانون پرعمل نہ کروگے تو زمین میں فتنہ اور بڑا فساد رونما ہوگا۔

جو لوگ ایمان لے آئے، ہجرت کی اور اللہ کے راستے میں جدوجہد کی (یعنی مہاجرینِ مکہ )، اور جنھوں نے ان کو پناہ دی اور مدد کی(یعنی انصارِ مدینہ)،یقیناًیہ سچے مومن ہیں۔ ان کے لیے مغفرت اور بہترین رزق ہے۔ جو لوگ بعد میں ایمان لے آئیں، پھر ہجرت کریں، اور تمھارے ساتھ مل کر جدوجہد میں شریک ہوں، وہ بھی تمھی میں شامل ہیں، لیکن اللہ کے قانون میں رحمی رشتے والے ایک دوسرے کے زیادہ حق دار ہیں۔بے شک، اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے‘‘۔

درج بالا آیات میں حضورؐ کے زمانے کی ریاستِ مدینہ کی جغرافیائی حدود کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔’’ولایت‘‘سے مراد ریاست کے شہر یوں کے آپس میں ایک دوسرے پر اور ریاست وشہریوں کے آپس کے حقوق ہیں۔ان آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ہر مسلمان ریاست کی جغرافیائی حدود کی بڑی اہمیت ہے۔گویا اسلام ایک قومی ریاست کے وجود کو تسلیم کرتا ہے ۔اس قومی ریاست کی حدود سے باہر کے مسلمانوں کی مدد وہ اس وقت تک نہیں کر سکتی جب تک بین الاقوامی معاہدات اس کی اجازت نہ دیں۔

چونکہ اس شہریت میں سب مسلمان شامل تھے۔ ایسے بھی جنہوں نے جنگوں میں حصہ لیا تھا اور ایسے بھی جو ان جنگوں میں شریک نہیں ہوسکے تھے۔اس لئے یہاں جہاد سے مراد اسلام کے لئے عمومی جدوجہد ہے۔

13: اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تُتْرَکُوْا وَلَمَّا یَعْلَمِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ جَاہَدُوْا مِنْکُمْ وَلَمْ یَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَلاَ رَسُوْلِہٖ وَلاَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَلِیْجَۃً وَاللّٰہُ خَبِیْرٌ بِمَا تَعْمَلُوْنَ()(سورۃتوبہ-9آیات16)
’’(اے مومنو)، کیا تم لوگوں نے یہ سمجھ رکھا ہے کہ یوں ہی چھوڑ دیے جاؤگے۔ حالانکہ ابھی اللہ نے تم میں سے ان لوگوں کو چھانٹا ہی نہیں جنھوں نے اس کی راہ میں جدوجہد کی اور اللہ ورسولؐ اور مومنین کے سوا کسی کو جگری دوست نہیں بنایا۔ جو کچھ تم کررہے ہو، اللہ اس سے خوب باخبر ہے‘‘۔

آخرت کے درجات کا انحصار اللہ کی راہ میں جدوجہد کی کمی بیشی پر ہے۔اس آیت سے پہلے جنگ کا ذکر ہے، اس لئے اس آیت میں یہاں جہاد کے لفظ میں جنگ کا پہلو غلبہ پاگیا ہے۔

15-14: اَجَعَلْتُمْ سِقَایَۃَ الْحَآجِّ وَعِمَارَۃَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَجَاہَدَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لاَ یَسْتَوٗنَ عِنْدَ اللّٰہِ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الظَّالِمِیْنَ() اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَہَاجَرُوْا وَجَاہَدُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ اَعْظَمُ دَرَجَۃً عِنْدَ اللّٰہِ وَاُولٰٓءِکَ ہُمُ الْفَآءِزُوْنَ()(سورۃ توبہ -9آیات20,19) 
’’کیا تم لوگوں نے محض حاجیوں کو پانی پلانے اور مسجد حرام کے انتظام کو ان لوگوں کے عمل کے ہم رتبہ کردیا ہے جو اللہ اور آخرت پر ایمان لائے اور جنھوں نے اللہ کے راستے میں جدوجہد کی۔ اللہ کے نزدیک یہ دونوں برابر نہیں ہوں گے۔ اللہ ظالموں کی رہنمائی نہیں کرتا۔جو لوگ ایمان لے آئے، ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں اپنے مال وجان سے جدوجہد کی، انھی کا درجہ اللہ کے ہاں بڑا ہے اور یہی لوگ کامیاب ہونے والے ہیں‘‘۔ 

کفارِ قریش اس بات پر فخر کرتے تھے کہ وہ مسجد حرام کی خدمت کرتے ہیں۔وہ اس خدمت کا نذرانہ بھی وصول کرتے تھے۔یہاں قرآن مجید نے اسی کی طرف اشارہ کیا ہے۔

ان آیات کے پس منظر میں جنگ کا ذکر موجود ہے، اس لئے یہاں جہاد سے مراد مسلح جنگ ہے۔

16: قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَاِخْوَانُکُمْ وَاَزْوَاجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَاَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجَارَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللّٰہُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لاَ یَہْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ()(سورۃ توبہ -9آیت24)
’’(اے نبیؐ)، ان سے کہہ دو کہ اگر تمھارے باپ، بھائی، بیویاں، خاندان، وہ مال جو تم نے کمایا، وہ تجارت جس کے نقصان کا تمھیں اندیشہ ہے اور وہ مکانات جو تم کو پسند ہیں، اگر تمھیں اللہ اور اس کے رسولؐ اور اس کی راہ میں جدوجہد سے زیادہ عزیز ہیں تو انتظار کرو، یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ صادر فرمادے۔ اللہ فاسقین کی رہنمائی نہیں کرتا‘‘۔

حضورؐ کے زمانے میں بعض اوقات سخت خطرے کے موقعے پر تمام بالغ مردوں کو رضاکارانہ ذمہ داری انجام دینے کی ہدایت دی جاتی۔ان میں سے کچھ کو جنگ اور کچھ کو دوسری ذمہ داریاں دی جاتی۔اس کے باوجود بعض لوگ ایمانی کمزوری کے باعث اس سعادت سے محروم رہ جاتے۔ایسے ہی لوگوں سے اس آیت میں خطاب کرکے کہا گیا کہ اگر تم نہیں نکلو گے، تب بھی اللہ اپنا فیصلہ تمھارے سامنے لے آئے گا، یعنی حضورؐ کو آخری فتح نصیب ہوجائے گی۔چنانچہ یہاں جہاد کے لفظ کا اطلاق جنگ پر ہوا ہے۔

17:  اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّثِقَالاً وَّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ()(سورۃ توبہ-9آیت41)
’’(اے مومنو، اس جنگ کے لیے) نکلو، خواہ معمولی سامان کے ساتھ ہو یا بھاری سامان کے ساتھ۔ اور اپنے مال اور اپنی جان سے اللہ کے راستے میں جدوجہد کرو۔اگر تم جانو تو یہ تمھارے لیے بہتر ہے‘‘۔ 

یہ آیت غزوہ تبوک کے پس منظر میں آئی ہے۔ واضح رہے کہ اس جنگ کی نوبت نہیں آئی۔اس سے معاً پہلے حضورؐ اور حضرت ابوبکرؓ کے سفرِ ہجرت کا ذکر ہے۔گویا یہاں جہاد سے مراد اللہ کے راستے میں عمومی جدوجہد کے ساتھ ساتھ جنگ بھی ہے۔ 

18: لاَ یَسْتَاْذِنُکَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ اَنْ یُّجَاہِدُوْا بِاَمْوَالِہِمْ وَاَنْفُسِہِمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ بِالْمُتَّقِیْنَ()(سورۃ توبہ -9آیت44)
’’جو لوگ اللہ اور آخرت پر سچا ایمان رکھتے ہیں، وہ کبھی تم سے یہ درخواست نہ کریں گے کہ انھیں اپنی جان ومال کے ساتھ جدوجہد کرنے سے معاف رکھا جائے۔ اللہ اپنے متقی بندوں سے خوب باخبر ہے‘‘۔

یہ آیت غزوہ تبوک پر تبصرے کے ضمن میں آئی ہے۔چنانچہ یہاں جہاد کے معنی میں جنگ کا پہلو غلبہ پا گیا ہے۔

19: یٰٓاَ یُّہَا النَّبِیُّ جَاہِدِ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِیْنَ وَاغْلُظْ عَلَیْْہِمْ وَمَاْوَاہُمْ جَہَنَّمُ وَبِءْسَ الْمَصِیْرُ()(سورۃ توبہ-9آیت73)
’’اے نبیؐ،ان کفار اور منافقین، دونوں کا پوری قوت سے مقابلہ کرو اور ان پر سخت بن جاؤ۔ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو نہایت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘۔ 

یہاں’’جاہد‘‘کے معنی پوری قوت سے مقابلہ کرنے کے ہیں، یعنی ان کے پروپیگنڈے کا توڑ،ان کے الزامات کا جواب اورہر سازش کو ناکام بنانے کی صورت میں ان کا مقابلہ۔یہ بات اہم ہے کہ حضورؐ کے زمانے میں منافقین کے خلاف مسلح جنگ کی نوبت کبھی نہیں آئی۔اس لئے یہاں ’’جاہد‘‘کے معنوں میں کفار کے حوالے سے جنگ کا پہلو موجود ہے، اور منافقین کے حوالے سے یہ پہلو موجود نہیں ہے۔

20: اَلَّذِیْنَ یَلْمِزُوْنَ الْمُطَّوِّعِیْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ فِی الصَّدَقَاتِ وَالَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ اِلاَّ جُہْدَہُمْ فَیَسْخَرُوْنَ مِنْہُمْ سَخِرَ اللّٰہُ مِنْہُمْ وَلَہُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ (سورۃ توبہ-9آیت79)
’’(اللہ ان منافقین کی سرگوشیوں کو بھی خوب جانتا ہے) جو خوش دلی سے انفاق کرنے والے اہل ایمان پر ان کی مالی قربانیوں کے معاملے میں نکتہ چینیاں کرتے ہیں۔ جو غریب مسلمان صرف اپنی محنت مزدوری ہی سے انفاق کرتے ہیں، ان کاتمسخر اڑاتے ہیں۔لیکن اللہ نے ان منافقین کا مذاق اڑایا اور ان کے لیے دردناک سزا ہے‘‘۔ 

یہاں ’’جہد‘‘کالفظ محنت مزدوری کرکے خدا کے راستے میں خرچ کرنے کے معنی میں آیا ہے۔اس لئے یہاں ’’جہد‘‘سے مراد اللہ کے راستے میں مالی قربانی ہے۔

 

B