HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage

اسلامی شریعت میں رفع حرج اور آسانی (۷)

Author :
ڈاکٹر محمد عامر گزدر
Blog-image

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

با جماعت نماز کا حکم اور اُس سے رخصت

شب وروز کی فرض نمازوں کو باجماعت اور ممکن ہو تو کسی مسجد میں جا کر ادا کرنا اسلامی شریعت میں ایک پسندیدہ سنت کی حیثیت رکھتا ہے۔ با جماعت نماز اور اِس مقصد سے مسجد کی حاضری نہ خود نماز کی صحت کے لیے شریعت میں لازم کی گئی ہے اور نہ یہ منجملہ شرائط ِنماز کےہے۔ تاہم اِس کا اہتمام بہت باعث اجر اور بڑی فضیلت کی چیز ہے۔ کسی مسلمان کو بغیر کسی عذر کے اِس سے محروم نہیں رہنا چاہیے۔ اِس کی یہ حیثیت رسول اللہ ﷺ کے درج ذیل ارشادات سے واضح ہوتی ہے:

۱۔ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: «صَلاَةُ الجَمَاعَةِ تَفْضُلُ صَلاَةَ الفَذِّ بِسَبْعٍ وَعِشْرِينَ دَرَجَةً». ’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تنہا نماز پڑھنے سے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا ۲۷ درجے زیادہ فضیلت رکھتا ہے‘‘(صحیح بخاری، رقم ۶۴۵۔ مسلم، رقم ۶۵۰)۔

۲۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: «لَوْ يَعْلَمُ النَّاسُ مَا فِي النِّدَاءِ وَالصَّفِّ الأَوَّلِ، ثُمَّ لَمْ يَجِدُوا إِلَّا أَنْ يَسْتَهِمُوا عَلَيْهِ لاَسْتَهَمُوا، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي التَّهْجِيرِ لاَسْتَبَقُوا إِلَيْهِ، وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِي العَتَمَةِ وَالصُّبْحِ، لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا». ’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر لوگ جانتے کہ اذان کے وقت پہنچنے اور پہلی صف میں کھڑے ہونے کا کیا اجر ہے، پھر اُس کے لیے قرعہ ڈالنے کے سوا کوئی وجہ ترجیح نہ پاتے تو یہی کرتے۔ اور اگر جانتے کہ ظہر کی جماعت کے لیے سبقت کرنے میں کیا اجر ہے تو اُس کے لیے ایک دوسرے سے سبقت کرتے۔ اور اگر جانتے کہ فجر اور عشا کے لیے حاضر ہونے میں کیا اجر ہے تو اُس کے لیے گھسٹ کر بھی پہنچنا پڑتا تو پہنچتے‘‘(صحیح بخاری، رقم ۶۵۳، ۶۵۴۔ صحیح مسلم، رقم ۴۳۷)۔

۳۔ عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: «مَنْ صَلَّى الْعِشَاءَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فِي جَمَاعَةٍ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ». ’’عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے عشا کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، اُس نے گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے صبح کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھی، اُس نے گویا پوری رات قیام میں گزاری‘‘(مصنف عبد الرزاق، رقم۲۰۰۸۔ صحیح مسلم، رقم۶۵۶) ۔

۴۔ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد نقل ہوا ہے کہ: ’’جماعت کی پہلی صف فرشتوں کی صف کی طرح ہے۔ آپ نے فرمایا: اگر تم اِس کی فضیلت جان لو تو اِس میں شامل ہونے کے لیے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرو۔ آدمی کسی دوسرے شخص کو ساتھ لے کر نماز پڑھے، یہ اُس کے اکیلے نماز پڑھنے سے بہتر ہے اور دو کے بجاے تین افراد مل کر نماز پڑھیں تو اُس کی فضیلت اور زیادہ ہے۔ (نمازیوں کی) تعداد جتنی زیادہ ہو، وہ اللہ تعالیٰ کواتنی ہی بڑھ کر محبوب ہوگی‘‘(مسند طیالسی، رقم۵۵۶)۔

عورتیں، البتہ باجماعت نماز اور مسجد کی حاضری کے اِس حکم سے مستثنیٰ ہیں۔ اُن کے معاملے میں حکم یہ ہے کہ وہ نماز کے لیے مسجد میں آسکتی ہیں، لیکن نہ آئیں تو اِس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «لَا تَمْنَعُوا نِسَاءَكُمُ الْمَسَاجِدَ، وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ».’’عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: اپنی عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے نہ روکو، لیکن اُن پر واضح رہنا چاہیے کہ اُن کے گھر اِس مقصد کے لیے زیادہ موزوں ہیں‘‘(سنن ابی داؤد، ۵۶۷۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۱۶۸۴)۔

جمہور فقہا نے مردوں کے لیے باجماعت نماز کے اِسی حکم کو اپنی اصطلاح میں ’سنت مؤکدہ‘ کے الفاظ سے تعبیر کیا ہے۔بعض فقہا اِس کو ’فرض کفایہ‘ کہتے ہیں۔بعض نے اِس کی تفصیل اِس طرح بیان کی ہے کہ ہر شہر کے مکینوں پر لازمی نمازوں کی باجماعت ادائیگی فی الجملہ فرض کفایہ ہے، مساجد میں باجماعت نماز کا اہتمام رکھناسنت ہے، جب کہ ہر مسلمان مرد پر اُس کی انفرادی حیثیت میں باجماعت نماز کی ادائیگی ایک فضیلت کی چیز ہے۔ بعض فقہا نے اپنی اصطلاح میں اِس کو ’واجب‘ سے تعبیر کیا ہے۔ فقہی تعبیر واصطلاح کے اِس فرق کے باوجود فقہا نے جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کو شرط قطعاً قرار نہیں دیا ہے۔ یہاں تک کہ جن فقہا نے ’واجب‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے، وہ بھی بغیر کسی عذر کے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز کو صحیح قرار دیتے ہیں۔ (دیکھیے: الموسوعۃ الفقہيۃ الكويتیۃ، وزارة الاوقاف والشئون الاسلاميۃ الكويت، ج۲۷،ص ۱۶۵- ۱۶۶۔ الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی، برھان الدین المرغینانی، ج۱، ص۵۶۔ المجموع شرح المھذب، النووی، ج۴، ص۱۶۳)۔

رسول اللہ ﷺ کے حین حیات جب مسجد نبوی میں آپ کی اقتدا میں نماز پڑھنے کے لیے اذان دی جاتی تھی تو اُن سب لوگوں کے لیےآپ کی مسجد میں حاضری ضروری تھی جن تک اذان کی آواز پہنچ جائے، الاّ یہ کہ غیر حاضری کے لیے کسی پاس کوئی عذر ہو۔ چنانچہ آ پ کا ارشاد ہے: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ، قَالَ: «مَنْ سَمِعَ النِّدَاءَ فَلَمْ يَأْتِهِ، فَلَا صَلَاةَ لَهُ، إِلَّا مِنْ عُذْرٍ». (سنن ابن ماجہ، رقم 793)

عذر کی بنا پر رفع حرج اور آسانی دینے کے قرآنی اصول پر جمعہ وجماعت سے رخصت خود رسول اللہ ﷺ اور آپ کے بعض صحابہ کے علم وعمل کی روایتوں سے ثابت ہے۔ اِس باب کی بعض روایتیں درج ذیل ہیں:

۱۔ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، أَذَّنَ بِالصَّلاَةِ فِي لَيْلَةٍ ذَاتِ بَرْدٍ وَرِيحٍ، ثُمَّ قَالَ: أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ ج كَانَ يَأْمُرُ المُؤَذِّنَ إِذَا كَانَتْ لَيْلَةٌ ذَاتُ بَرْدٍ وَمَطَرٍ، يَقُولُ: «أَلاَ صَلُّوا فِي الرِّحَالِ».’’نافع کا بیان ہے کہ ایک رات سردی اور سخت ہوا چل رہی تھی۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے اذان دی، پھر کہا: لوگو، اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو۔ اِس کے بعد اُنھوں نے کہا: جب کبھی رات کو ٹھنڈ اور بارش ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اپنے مؤذن کو حکم دیتے کہ وہ اذان میں کہے :لوگو، اپنے اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو‘‘۔(صحيح بخاری، رقم۶۶۶۔ صحیح مسلم، رقم۶۹۷)۔

۲۔ حَدَّثَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الحَارِثِ أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ قَالَ لِمُؤَذِّنِهِ فِي يَوْمٍ مَطِيرٍ: إِذَا قُلْتَ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَلاَ تَقُلْ حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ، قُلْ: "صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ"، فَكَأَنَّ النَّاسَ اسْتَنْكَرُوا، قَالَ: فَعَلَهُ مَنْ هُوَ خَيْرٌ مِنِّي، إِنَّ الجُمْعَةَ عَزْمَةٌ وَإِنِّي كَرِهْتُ أَنْ أُحْرِجَكُمْ فَتَمْشُونَ فِي الطِّينِ وَالدَّحَضِ. ’’عبد اللہ بن حارث کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن عباس نے ایک بارش والے دن (جمعے کی اذان کے موقع پر) اپنے مؤذن سے کہا: تم أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ‘ کے بعد ’حَيَّ عَلَى الصَّلاَةِ‘ نہ کہنا، بلکہ اِس کے بجاے: ’صَلُّوا فِي بُيُوتِكُمْ‘ ’’(لوگو،) اپنے گھروں میں نماز پڑھ لو‘‘ کہنا۔ لوگوں نے یہ سنا تو اُنھیں تعجب ہوا۔ اِس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ اُس شخص (یعنی رسول اللہ ﷺ) کا فعل ہے جو مجھ سے کہیں بہترتھا۔ بلاشبہ، جمعے کی نماز فرض ہے، لیکن مجھے یہ بات بالکل پسند نہیں ہے کہ تمھیں تنگی میں ڈالوں اور تم (نماز کے لیے) کیچڑ اور پھسلن میں چلتے ہوئے آؤ‘‘(صحيح بخاری، رقم۹۰۱)۔

۳۔ عَنْ نَافِعٍ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ، ذُكِرَ لَهُ: أَنَّ سَعِيدَ بْنَ زَيْدِ بْنِ عَمْرِو بْنِ نُفَيْلٍ، وَكَانَ بَدْرِيًّا، مَرِضَ فِي يَوْمِ جُمُعَةٍ، فَرَكِبَ إِلَيْهِ بَعْدَ أَنْ تَعَالَى النَّهَارُ، وَاقْتَرَبَتِ الجُمُعَةُ، وَتَرَكَ الجُمُعَةَ. ’’نافع سے روایت ہے کہ ایک جمعے کے دن عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے ذکر کیا گیا کہ سعید بن زید بن عمرو بن نفیل ؓجو جنگ بدر میں شریک تھے، بیمار ہو گئے ہیں۔ اُس وقت دن روشن ہو چکا تھا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سنا تو سوار ہو کر (تیمارداری کے لیے) اُن کی طرف چل دیے۔ پھر جمعے کا وقت قریب آگیا اور اُنھوں نے نمازِ جمعہ ترک کردی‘‘۔(صحیح بخاری، رقم۳۹۹۰)

۴۔ عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ ﷺ: «إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ عَلَى الطَّعَامِ، فَلاَ يَعْجَلْ حَتَّى يَقْضِيَ حَاجَتَهُ مِنْهُ، وَإِنْ أُقِيمَتِ الصَّلاَةُ».’’ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص کھانا کھا رہا ہو تو اُس سے اپنی ضرورت پورا کرنے میں جلدی نہ کرے، (بلکہ اطمینان سے کھانا کھائے) اگرچہ نماز کھڑی ہو جائے‘‘(صحیح بخاری، رقم۶۷۴)۔

۵۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، عَنِ النَّبِيِّ ج قَالَ: «إِذَا حَضَرَ الْعَشَاءُ، وَأُقِيمَتِ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِالْعَشَاءِ».’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’رات کا کھانا حاضر ہو اور نماز کی جماعت کھڑی ہوجائے تو پہلے کھانا کھالیا کرو‘‘(صحیح مسلم، رقم۵۵۷)۔

۶۔ حَدَّثَ أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ ج قَالَ: «إِذَا قُرِّبَ الْعَشَاءُ، وَحَضَرَتِ الصَّلَاةُ، فَابْدَءُوا بِهِ قَبْلَ أَنْ تُصَلُّوا صَلَاةَ الْمَغْرِبِ، وَلَا تَعْجَلُوا عَنْ عَشَائِكُمْ». ’’انس بن مالک کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جب رات کا کھانا پیش کر دیا جائے اور نماز کا بھی وقت ہوجائے تو مغرب کی نماز پڑھنے سے پہلے (اطمینان سے) کھانا کھالیا کرو اور کھانا چھوڑ کر (نماز کے لیے) عجلت نہ کیا کرو ‘‘(صحیح مسلم، رقم۵۵۷)۔

۷۔ عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ، عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: "مَنْ أَكَلَ مِنْ هَذِهِ الْبَقْلَةِ، الثُّومِ - وقَالَ مَرَّةً: مَنْ أَكَلَ الْبَصَلَ وَالثُّومَ وَالْكُرَّاثَ فَلَا يَقْرَبَنَّ مَسْجِدَنَا، فَإِنَّ الْمَلَائِكَةَ تَتَأَذَّى مِمَّا يَتَأَذَّى مِنْهُ بَنُو آدَمَ ".’’جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا : ’’جس نے یہ سبزی، یعنی لہسن کھا یا ‘‘- اور ایک مرتبہ آپ نے فرمایا: ’’جس نے پیاز، لہسن اور گندنا کھایا تو وہ ہر گز ہماری مسجد کے قریب نہ آئے، اِس لیے کہ فرشتے بھی اُن چیزوں سے اذیت محسوس کرتے ہیں جن سے بنی آدم کو اذیت پہنچتی ہے‘‘(صحيح مسلم، رقم۵۶۴)۔

۸۔ عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: إِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ ج يَقُولُ: «لَا صَلَاةَ بِحَضْرَةِ الطَّعَامِ، وَلَا هُوَ يُدَافِعُهُ الْأَخْبَثَانِ». ’’سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :’’کھانا سامنے آجائے تو نماز نہیں پڑھنی چاہیےاور نہ شخص نماز کے لیے حاضر ہوجس پر رفع حاجت کا تقاضا غالب ہو‘‘ (صحیح مسلم، رقم ۵۶۰)۔

۹۔ اِسی طرح معلوم ہے کہ رسول اللہ ﷺ مرض وفات میں نماز پڑھانے کے باہر تشریف نہیں لائے اور آپ نے ہدایت فرمائی تھی کہ ابو بکر سے کہو کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائیں(صحیح بخاری، رقم۶۷۸)۔ (جاری)

B