HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage

اسلامی شریعت میں رفع حرج اور آسانی (۶)

Author :
ڈاکٹر محمد عامر گزدر
Blog-image

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

۴۔ خطرے کے موقع پر رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز اور قرآنی رخصتیں

قصر نماز کی رخصت کے متصل بعد، نماز ہی کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے ایک ایسی مشکل کا حل بیان فرمایا ہے جس کا تعلق خاص نبی ﷺ کی موجودگی اور آپ کی اقتدا میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے نماز پڑھنے سے تھا۔

اِس کی تفصیل یہ ہے کہ سفر میں خطرے کی ایسی حالت میں نماز کا وقت ہوجائےکہ رسول اللہ ﷺ اور آپ کے صحابہ میدان جنگ میں ہوں تو ایسی غیر معمولی صورت حال میں یہ مسئلہ تھا کہ نماز کی جماعت کھڑی کی جائے اور رسالت مآب ﷺ امامت کرائیں تو آپ کا کوئی صحابی اُس جماعت کی شرکت سے محروم رہنے پر راضی نہیں ہو سکتا تھا۔ ایسی نازک صورت حال میں اللہ کے حضور اُس کے رسول کی اقتدا میں حاضری کے شرف سے، ظاہر ہے کہ کوئی شخص محروم رہنا نہیں چاہے گا۔ آپ کی معیت میں ہر سپاہی کی یہ آرزو ہوتی کہ وہ آپ ہی کی اقتدا میں نماز ادا کرے۔ یہ ظاہر ہے کہ ایک فطری خواہش تھی، لیکن اِس کے ساتھ دفاع کا اہتمام بھی ضروری تھا۔

چنانچہ قرآن مجید نے اِس صورت حال کے لیے بالخصوص یہ تدبیر بتائی کہ اہل لشکر کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے۔ امام اور مقتدی، دونوں قصر نماز پڑھیں اوردونوں گروہ یکے بعد دیگرے آپ کے ساتھ آدھی نماز میں شامل ہوں اور آدھی نماز اپنے طور پر ادا کر لیں۔ چنانچہ ایک گروہ پہلی رکعت کے سجدوں کے بعد پیچھے ہٹ کر حفاظت ونگرانی کا کام سنبھالے اور دوسرا گروہ، جس نے نماز نہیں پڑھی ہے، آپ کے پیچھے آ کر دوسری رکعت میں شامل ہو جائے۔ ارشاد فرمایا کہ:’وَإِذَا كُنتَ فِيهِمْ فَأَقَمْتَ لَهُمُ الصَّلَاةَ فَلْتَقُمْ طَائِفَةٌ مِّنْهُم مَّعَكَ وَلْيَأْخُذُوا أَسْلِحَتَهُمْ فَإِذَا سَجَدُوا فَلْيَكُونُوا مِن وَرَائِكُمْ وَلْتَأْتِ طَائِفَةٌ أُخْرَىٰ لَمْ يُصَلُّوا فَلْيُصَلُّوا مَعَكَ وَلْيَأْخُذُوا حِذْرَهُمْ وَأَسْلِحَتَهُمْ ۗ وَدَّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ تَغْفُلُونَ عَنْ أَسْلِحَتِكُمْ وَأَمْتِعَتِكُمْ فَيَمِيلُونَ عَلَيْكُم مَّيْلَةً وَاحِدَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِن كَانَ بِكُمْ أَذًى مِّن مَّطَرٍ أَوْ كُنتُم مَّرْضَىٰ أَن تَضَعُوا أَسْلِحَتَكُمْ ۖ وَخُذُوا حِذْرَكُمْ ۗ إِنَّ اللَّـهَ أَعَدَّ لِلْكَافِرِينَ عَذَابًا مُّهِينًا‘.’’اور (اے پیغمبر)، جب تم اِن کے درمیان ہو اور (خطرے کی جگہوں پر) اِنھیں نماز پڑھانے کے لیے کھڑے ہو تو چاہیے کہ اُن میں سے ایک گروہ تمھارے ساتھ کھڑا ہو اور اپنا اسلحہ لیے رہے۔ پھر جب وہ سجدہ کر چکیں تو تمھارے پیچھے ہوجائیں اور دوسرا گروہ آئے، جس نے ابھی نماز نہیں پڑھی ہے اور تمھارے ساتھ نماز ادا کرے۔ وہ بھی اپنی حفاظت کا سامان اور ضروری اسلحہ لیے ہوئے ہوں۔ یہ منکر تو چاہتے ہیں کہ تم اپنے ہتھیاروں اور اپنے سامان سے ذرا غافل ہو تو تم پر یک بارگی ٹوٹ پڑیں۔ اِس میں، البتہ کوئی حرج نہیں کہ اگر بارش کی تکلیف محسوس کرو یا بیمار ہو تو اپنا اسلحہ اتار دو۔ ہاں، یہ ضروری ہے کہ حفاظت کا سامان لیے رہو۔ تم یقین رکھو کہ اللہ نے اِن منکروں کے لیے بڑی ذلت کی سزا تیار کر رکھی ہے‘‘(النساء: ۱۰۲)۔

یہ بات کہ اِس تدبیر کا تعلق خاص نبی ﷺ کی موجودگی سے تھا، آیت کے آغازمیں ’وَإِذَا كُنْتَ فِيهِمْ‘ (اور جب تم اُن کے درمیان ہو) کے الفاظ سے صاف واضح ہے۔ ظاہر ہے کہ آپ کے بعد مسلمانوں میں کسی ایک ہی امام کی اقتدا کی خواہش نہ اتنی شدید ہو سکتی ہے اور نہ اِس طرح کی آرزو کو اتنی اہمیت حاصل ہوسکتی ہے جواِس طرح کی باجماعت نماز کی متقاضی ہو۔ چنانچہ آپ کے بعد خطرے کے کسی بھی موقع پر قیام جماعت کا موقع ہو تو لوگ اب الگ الگ اماموں کی اقتدا میں نہایت آسانی کے ساتھ نماز ادا کرسکتے ہیں۔

نبی ﷺ کی موجودگی کے ساتھ خاص اِس قرآنی حکم کو ہم یہاں اِس لیے زیر بحث لائے ہیں کہ اِس میں رفع حرج اور آسانی کی بنا پر دی گئی رخصتوں پر غور کیا جائے کہ خطرے کی ایسی صورت میں اللہ تعالیٰ نے عام حالات کے بر خلاف کہ نماز کو قصر کرنے کے علاوہ اُس میں نقل وحرکت اور ساز وسامان کو اُٹھائے رکھنے کی اجازت تک عنایت فرما دی ہے۔ جب کہ یہ معلوم ہے کہ نماز کے اعمال میں اللہ تعالیٰ کو بندوں سے اصلاً ’قنوت‘ مطلوب ہے۔ ارشاد فرمایا ہے: ’وَقُومُوا لِلَّهِ قَانِتِينَ ‘(اور اللہ کے حضور میں نہایت ادب کے ساتھ کھڑے ہو جاؤ)۔ اِسی طرح دیکھیے کہ اِس حکم میں ہر گروہ کے لیے آدھی نماز نبی ﷺ کی اقتدا میں پڑھنے کے بعد باقی آدھی خود سے پڑھنے کو بھی روا رکھا گیا ہے۔ چنانچہ صلاۃ الخوف کی اِس قرآنی ہدایت سے ثابت ہوا کہ اسلامی شریعت کے احکام میں مسلمانوں کے لیے کوئی عسرت اور زحمت نہیں رکھی گئی ہے، بلکہ انسانی حالات کی رعایت سے اِس میں نہایت آسانی دی گئی ہے۔

۵۔ حالت خوف میں پیدل یا سواری پر نماز پڑھنے کی رخصت

خطرے کی حالت اگر اِس درجے کی ہو کہ معمول کے طریقے پر نماز پڑھنا ممکن نہ رہے تو اللہ تعالیٰ نے سورۂ بقرۃ کی آیت ۲۳۹ میں مزید رخصت عنایت کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ: ’فَإِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا أَوْ رُكْبَانًا ۖ فَإِذَا أَمِنتُمْ فَاذْكُرُوا اللَّـهَ كَمَا عَلَّمَكُم مَّا لَمْ تَكُونُوا تَعْلَمُونَ۔ ’’پھر اگر خطرے کا موقع ہو تو پیدل یا سواری پر، جس طرح چاہے (نماز) پڑھ لو۔ لیکن جب امن ہو جائے تو اللہ کو اُسی طریقے سے یاد کرو، جو اُس نے تمھیں سکھایا ہے، جسے تم نہیں جانتے تھے‘‘۔

اِس آیت سے جس طرح نماز کی اہمیت واضح ہوتی ہے کہ خطرات میں بھی کوئی مسلمان اُسے نظر انداز نہیں کر سکتا، اِسی طرح اِس میں یہ بات بھی بصراحت بیان ہوگئی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے احکام شریعت میں اِس قدر آسانی اور سہولت اور اُن احوال کی اِس درجے میں رعایت رکھی ہے کہ نماز کا وقت خطرے کی حالت میں آجائے اور اُنھیں کہیں اطمینان سے نماز پڑھنے کا موقع بھی میسر نہ ہو تو پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر، جس طرح ممکن ہو، وہ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اِس میں بھی کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔

اِس رخصت کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ نماز کے اعمال میں نہ صرف یہ کہ ’قنوت‘ کی مذکورہ بالا صفت مجروح ہوتی ہے، بلکہ نماز کے مطلوب آداب، لازمی اعمال، اور شریعت میں اُن کی مقرر کردہ ہیئت بھی مجروح ہوجاتی ہے۔اِسی طرح اِس کے نتیجے میں جماعت کا اہتمام بھی، ظاہر ہے کہ ممکن نہیں رہتا۔ چنانچہ غور کیجیے کہ نماز جیسی غیر معمولی عبادت اور اُس کی مشروع ہیئت میں اِس سب کچھ کو اللہ تعالیٰ نے گوارا فرمایا اور اپنے بندوں کے لیے آسانی اور رفع حرج کو ترجیح دی ہے۔

نماز کوچلتے ہوئے یا سواری پر پڑھ لینے کی یہ رخصت بھی اگرچہ ’اِنْ خِفْتُمْ‘ (اگر تمھیں اندیشہ ہو) کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہے، لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیﷺ نے قافلے کو رکنے کی زحمت سے بچانے کے لیے نفل نمازیں بھی سواری پر بیٹھے ہوئے پڑھ لی ہیں۔ (بخاری ، رقم ۱۱۰۴)

نماز کے باب میں اوپر بیان کی گئی قرآنی رخصتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ سفر میں خطرے کی حالت ہو تو نماز کو قصر کیا جاسکتا ہے، بلکہ بعض نمازوں کوایک وقت میں جمع بھی کیا جاسکتا ہے۔ دوسرے یہ کہ اِن رخصتوں سے مسلمان اپنے عام سفروں میں فائدہ اُٹھاسکتے ہیں۔ تیسرے یہ کہ حالتِ جنگ میں رسول اللہ ﷺ کی اقتدا میں نماز کا موقع ہو تو آپ کے صحابہ کو اللہ تعالیٰ کی طرف مزید کچھ رعایتیں دی گئی تھیں۔ چوتھے یہ کہ سفر میں خطرے کی حالت انتہائی سنگین ہو تو نماز پیدل چلتے ہوئے یا سواری پر بیٹھے ہوئے بھی پڑھی جاسکتی ہے۔

۶۔بیمار کے لیے نماز میں رعایت

نماز میں قیام، رکوع، قومہ، سجود اور قعدہ؛ عام حالات میں یہ سب نماز کے لازمی اعمال میں سے ہیں۔ تاہم آدمی بیمار ہو اور قیام کرنا اُس کے لیے باعثِ مشقت ہو تو رسول اللہ ﷺ نے یہ رخصت دی ہے کہ وہ بیٹھ کر نماز پڑھ لے اور اگر بیٹھ کر نماز پڑھنا بھی اُس کے لیے باعث زحمت ہو تو آپ نے مزید رعایت دی ہے کہ آدمی پہلو کے بل لیٹ کر بھی نماز پڑھ سکتا ہے(صحیح بخاری، ۱۱۱۷)۔

بیمار کو یہ رعایتیں بھی، ظاہر ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے قرآن مجید کے رفع حرج اور آسانی دینے کے ضابطے ہی پر دی ہیں اور اِن میں بھی دیکھ لیجیے کہ صرف بیماری کی مشقت کی وجہ سے یہ گوارا کر لیا گیا ہے کہ آدمی نماز کے لازمی ارکان تک کو بے شک ترک کردے۔ اِس میں اُس کے لیے کو ئی حرج کی بات نہیں ہے۔

دقت نظر سے دیکھیے کہ بیمار شخص کو قیام سے رخصت دینے کا لازمی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قیام کے علاوہ اُس کو نماز کے دوسرے لازمی ارکان، یعنی رکوع اور قومہ کو بھی اصل مشروع صورت میں بجالانے سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا ہے۔ اِسی طرح مریض جب پہلو کے بل لیٹ کر نماز پڑھے گا تو اِس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اُس کو قعدے اور سجود سے بھی رخصت دے دی گئی ہے۔ (جاری)

B