HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage

اسلامی شریعت میں رفع حرج اور آسانی (۵)

Author :
ڈاکٹر محمد عامر گزدر
Blog-image

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

جمع بین الصلاتین – دوسرا سوال

سوال: یہاں ضمناً ایک سوال یہ پیدا ہوسکتا ہے کہ اِس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ قرآن مجید کے اشارے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کو جمع کرنے کی رخصت کا استنباط کرکے عملاً صرف ظہر وعصر یا مغرب وعشا ہی کو باہم جمع کرکے پڑھا ہے؟ فجر کو ظہر کے ساتھ یا عصر کو مغرب کے ساتھ کیوں جمع نہیں فرمایا؟

جواب۔ اِس کی وجہ اگر غور کیا جائے تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ شب وروز کی پانچ نمازوں کے اوقات اپنی نوعیت کے اعتبار سے اصلاً تین اوقات ہیں۔ یعنی یہ پانچ اوقات در اصل شب وروز کے تین بڑے اوقات سے لیے گئے ہیں، جن کی طرف قرآن مجید میں اشارہ موجود ہے۔ ارشاد فرمایا کہ:’أَقِمِ الصَّلَاةَ لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ وَقُرْآنَ الْفَجْرِ إِنَّ قُرْآنَ الْفَجْرِ كَانَ مَشْهُودًا‘۔’’سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک نماز کا اہتمام رکھو اور خاص کر فجر کی قراءت کا، اِس لیے کہ فجر کی قراءت روبرو ہوتی ہے‘‘(بنی اسرائیل:۷۸) ۔

اِن تین اوقات کو دقت نظر سے دیکھا جائے تو اِس طرح سمجھا جاسکتا ہے کہ ایک وہ وقت ہے جس میں سورج اور اُس کی روشنی آسمان پر موجود رہتی ہے۔ یعنی طلوعِ آفتاب سے غروبِ آفتاب تک کا وقت۔اِس پورے وقت کے اندر سورج کے ڈھلنے کے اوقات میں ظہر وعصر کے وقت آتے ہیں۔ تاہم اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے یہ پورا دورانیہ ایک ہی ہے، یعنی سورج کی موجودگی اور دن کا وقت۔ دوسرا وہ وقت ہے جو سورج کی عدم موجودگی اور رات کی تاریکی کا وقت ہے۔ یہ غروبِ آفتاب کے بعد سے طلوعِ فجر سے پہلے تک کا وقت ہے۔ اِس پورے دورانیے میں مغرب وعشا کی نمازوں کے اوقات معلوم ہیں۔ اِنھی دونوں وقتوں کو، جن میں اِن چاروں نمازوں کے اوقات آتےہیں، قرآن مجید نے ’لِدُلُوكِ الشَّمْسِ إِلَى غَسَقِ اللَّيْلِ‘ ’سورج ڈھلنے کے وقت سے لے کر رات کے اندھیرے تک‘ کے الفاظ سے بیان کیا ہے۔ تیسرا تنہا نمازِ فجر کا وقت ہے، جو طلوعِ فجر سے شروع ہوتا اور طلوعِ آفتاب پر ختم ہوجاتا ہے۔ یہ اِس اعتبار سے دوسرے دونوں اوقات سے یکسر مختلف اور منفرد ہے کہ اِس میں سورج موجود ہوتا ہے، نہ رات کی تاریکی ہوتی ہے۔

چنانچہ نمازوں کے پانچ اوقات کو اِس تناظر میں سمجھا جائے تو واضح ہوجاتا ہے کہ ظہر وعصر میں جمع کی اجازت غالباً اِس بنا پر دی گئی ہے کہ نوعیت کے اعتبارسے اِن دونوں نمازوں کے اوقات در حقیقت ایک ہی ہیں۔ اور وہ ’دُلُوكِ الشَّمْسِ‘، یعنی سوج کے ڈھلنے کے اوقات ہیں۔ اِسی طرح مغرب وعشا کی نمازوں کو جمع کرکے پڑھنے کی رخصت اِس بنا پر دی گئی ہے کہ اصلاً اِن کے اوقات بھی ایک ہی ہیں اور وہ ’غَسَقِ اللَّيْلِ‘، یعنی سورج کی عدم موجودگی اور رات کی تاریکی کے اوقات ہیں۔ اِس سے واضح ہے کہ عصر ومغرب کی نمازوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیوں جمع نہیں فرمایا۔

یہ صرف نمازِ فجر کا وقت ہے جو باقی چاروں نمازوں کے اوقات سے اصلاً ایک منفرد وقت ہے، جیسا کہ سورۂ بنی اسرائیل کی مذکورہ بالا آیت میں بھی اِس کا ذکر الگ سے آیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ فجر کی نماز کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نماز کے ساتھ جمع نہیں فرمایا ہے۔ غرض یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورت کے مواقع پر قرآن مجید ہی کی اساس پر صرف اُنھی دو دو نمازوں کو جمع کرلینے کی رعایت دی ہے جن کے اوقات اصلاً ایک ہی نوعت کے وقت میں آتے ہیں۔

حج میں نمازوں کا قصر وجمع

رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازوں کے قصر وجمع کی اِسی رعایت کو حجاج بیت اللہ کے لیے مشاعر مقدسہ میں بطور سنت قائم فرمایا ہے، جس کے مطابق مشاعر مقدسہ میں موجود حجاج مقیم ہوں یا مسافر، وہ منیٰ میں قصر اور عرفات ومزدلفہ میں قصر اور جمع، دونوں کریں گے۔ اِس کی وجہ ظاہر ہے کہ جمع وقصر کی قرآنی رخصت کی علت کا اشتراک ہی ہے، اِس لیےکہ حج کے موقع پر مشاعر مقدسہ میں نہ صرف یہ کہ دنیا بھر کےحجاج کے اجتماع وازدحام کی بنا پر ہمیشہ سفر ہی کی مانند آپا دھاپی کی کیفیت برپا رہتی ہے، بلکہ اِس کے مناسک کی ادائیگی میں ابلیس کے خلاف جنگ کو بھی علامتی اعمال میں ممثل کیا جاتا ہے۔ (جاری)

B