۲۔سفر میں نماز کو کم کرلینے کی رخصت
سفر میں خطرے کی حالت پیش آجائے تو قرآن مجید نے یہ رخصت دی ہے کہ لوگ نماز میں کمی کرسکتے ہیں، جس کو اصطلاح میں قصر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے کہ:’ وَإِذَا ضَرَبْتُمْ فِي الْأَرْضِ فَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَن تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلَاةِ إِنْ خِفْتُمْ أَن يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا ۚ إِنَّ الْكَافِرِينَ كَانُوا لَكُمْ عَدُوًّا مُّبِينًا‘۔’’تم لوگ (اِس جہاد کے لیے) سفر میں نکلو تو تم پرکوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لو، اگر اندیشہ ہو کہ منکرین تمھیں ستائیں گے، اِس لیے کہ یہ منکرین تمھارے کھلے دشمن ہیں‘‘(النساء: ۱۰۱)۔ نماز میں کمی کی اِس رخصت کے حوالے سے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ سنت یہ ہے کہ صرف چار رکعت والی نمازیں دو رکعت پڑھی جائیں گی۔ فجر اور مغرب کی نمازوں میں اِس طرح کی صورت حال میں بھی کوئی کمی نہ ہوگی، بلکہ وہ پوری پڑھی جائیں گے۔
قرآن مجید کی اِس رخصت پر غور کیجیے کہ نماز کو قصر کرنے کی یہ رخصت مذکورہ بالا آیت میں ’اِنْ خِفْتُمْ‘ (اگر تمھیں اندیشہ ہو) کی شرط کے ساتھ بیان ہوئی ہے۔لیکن روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس رعایت کی تعمیم فرمائی ہے۔ آپ نے اپنے زمانے کے عام سفروں کی پریشانی، افراتفری اور آپادھاپی کو بھی اِس پر قیاس فرمایا اور اُن میں بالعموم قصر نماز ہی پڑھی ہے( مسلم، رقم ۱۶۱۹)۔ آپ کی اِس تعمیم اور بغیر کسی خطرے کے اِس طرح قصر کر لینے پر سیدنا عمر کو تعجب ہوا۔ چنانچہ اُنھوں نے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ اللہ کی عنایت ہے جو اُس نے تم پر کی ہے، سو اللہ کی اِس عنایت کو قبول کرو(مسلم، رقم ۱۵۷۳، ۱۵۷۴)۔
استاذ گرامی غامدی صاحب لکھتے ہیں کہ:’’ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اِس جواب سے واضح ہے کہ آپ کے اِس استنباط کی تصویب اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی ہو گئی تھی ‘‘(البیان، ج۱، ص538)۔
۳۔سفر میں نمازوں کو جمع کرنے کی اجازت
نماز کو قصر کر لینے کی مذکورہ بالا قرآنی رعایت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کے اوقات میں تخفیف کا استنباط بھی کیا ہے اور اپنے سفروں میں ظہر وعصر،اور مغرب اور عشا کی نمازیں جمع کر کے پڑھائی ہیں۔ (مسلم، رقم 703، ۷۰۴)۔ اوقات میں تخفیف کا مطلب یہ ہے کہ سفر میں آپ نے پانچ نمازوں کوتین اوقات میں پڑھایا ہے۔
سیدنا معاذ بن جبل کی روایت ہے کہ غزوۂ تبوک کے سفر میں آپ کا طریقہ بالعموم یہ رہا کہ اگر سورج کوچ سے پہلے ڈھل جاتا تو ظہر وعصر کو جمع کر لیتے اور اگر سورج کے ڈھلنے سے پہلے کوچ کرتے تو عصر کے لیے اترنے تک ظہر کو موخر کر لیتے تھے۔ مغرب کی نما زمیں بھی یہی صورت ہوتی۔ سورج کوچ سے پہلے غروب ہو جاتا تو مغرب اور عشا کو جمع کرتے اور اگر سورج غروب ہونے سے پہلے کوچ کرتے تو عشا کے لیے اترنے تک مغرب کو موخر کر لیتے اور پھر دونوں نمازیں جمع کر کے پڑھتے تھے۔ (مسلم، رقم ۷۰۵۔ ابوداؤد، رقم ۱۲۲۰)
جمع بین الصلاتین – پہلا سوال
سوال۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے سفروں میں ظہر وعصر اور مغرب وعشا کی نمازوں کو جمع کرنا تو روایتوں سے ثابت ہے، لیکن یہ بات کہ آپ نے یہ رعایت قصر نماز کی قرآنی رخصت سے مستنبط فرمائی ہے، اِس کا ماخذ اور دلیل کیا ہے؟ دینی علم کی روایت میں کس صاحب علم نے بیان کی ہے؟ قصر نماز کی رعایت اوپر جس آیت میں بیان ہوئی ہے، اُس میں تو بظاہر اوقات کی تخفیف اور نمازوں کو جمع کرنےکی رخصت کا کوئی اشارہ تک معلوم نہیں ہوتا۔
جواب۔ قرآن مجید کی روشنی میں یہ علمی نکتہ راقم الحروف کے علم کی حد تک علمِ دین کی پوری روایت میں پہلی مرتبہ جس صاحب علم نے بجا طور پر دریافت کیا ہے، وہ استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب ہیں۔ اُن کی اِس غیر معمولی علمی دریافت کی ہم یہاں قارئین کے لیے ذرا توضیح کریں گے، تا کہ اوپر بیان کیے گئے سوال کا کوئی پہلو تشنہ نہ رہے۔
در اصل بات یہ ہے کہ سیاق کلام میں اللہ تعالیٰ نے پہلے نماز کو قصر کرنے کی رخصت دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ ’’تم لوگ سفر میں نکلو تو تم پرکوئی حرج نہیں کہ نماز میں کمی کر لو‘‘(النساء:101)۔ پھر آگے فرمایا کہ ”پھر جب تم اطمینان میں ہوجاؤ تو پوری نماز پڑھو“(النساء:103)۔اِس کے متصل بعد اِسی آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ: ”نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے“(النساء:103)۔ اِس آخری ارشاد سے ظاہر ہے کہ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اِس سیاق میں نماز کو قصر کرنے کی اجازت بیان ہو رہی تھی ہے، یک بیک یہاں نماز کے وقت کی بات کیسے اور کیوں آئی ہے؟ اِن دونوں باتوں کا، یعنی: ”پھر جب تم اطمینان میں ہوجاؤ تو پوری نماز پڑھو،نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے“، باہمی ربط کیا ہے؟ آخری بات بظاہر پچھلے کلام سے معنوی طور پر غیر متعلق اور بالکل بے ربط محسوس ہوتی ہے۔
چنانچہ اِن دونوں باتوں کے مابین ایک مقدر جملے کا حذف ہے جس کو استاذ محترم غامدی صاحب نے کھول کر ربط کلام کو واضح کردیا ہے۔بیانِ محذوف کے بعد دیکھیے، پوری بات کس طرح واضح اور مربوط ہوجاتی ہے: ’’لیکن جب اطمینان میں ہو جاؤ تو اہتمام کے ساتھ پوری نماز پڑھو (اور اِس کے لیے جو وقت مقرر ہے، اُس کی پابندی کرو)، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے‘‘۔ عربیت کی رو سے اِس حذف کو کھول دیا جائے تو قرآن مجید کا یہ اشارہ آپ سے آپ واضح ہوجاتا ہےکہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں، لیکن یہ یاد رہے کہ نماز مسلمانوں پروقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے، اِس لیے جب اطمینان میں ہو جاؤ تو جس طرح پوری نماز پڑھو گے، اسی طرح اِس کے مقرر کردہ اوقات کی بھی مکمل رعایت کرنا ہوگی۔
استاذ گرامی لکھتے ہیں: ’’اِس استنباط کا اشارہ خود قرآن میں موجود ہے ۔ سورۂ نساء میں یہ حکم جس آیت پر ختم ہوا ہے، اُس میں ’إِنَّ الصَّلَاةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ كِتَابًا مَوْقُوتًا‘ کے الفاظ عربیت کی رو سے تقاضا کرتے ہیں کہ اِن سے پہلے ’اور وقت کی پابندی کرو‘ یا اِس طرح کا کوئی جملہ مقدر سمجھا جائے۔ اِس سے یہ بات آپ سے آپ واضح ہوتی ہے کہ قصر کی اجازت کے بعد یہ بھی ممکن ہے کہ لوگ نماز کی رکعتوں کے ساتھ اُس کے اوقات میں بھی کمی کر لیں۔ چنانچہ ہدایت کی گئی کہ جب اطمینان میں ہو جاؤ تو پوری نماز پڑھو اور اِس کے لیے مقرر کردہ وقت کی پابندی کرو، اِس لیے کہ نماز مسلمانوں پر وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے‘‘(میزان، ص312)۔
اِس دقیق علمی دریافت سے نہ صرف یہ کہ کلام الہٰی کا معنوی ربط واضح ہوا ہے، بلکہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے نمازوں کو جمع کرنے کے عمل کی اساس بھی خود قرآن مجید ہی میں متعین ہوگئی ہے۔ مزید یہ کہ اِس سے یہ بھی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ خود رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا فہمِ قرآن کس عالی مقام اور درجے کا تھا۔ قرآن مجید کے اشارات کو آپ نے کس طرح مسلمانوں کے لیے اپنے علم وعمل سے واضح فرمایا اور دین کے احکام کی تعمیل میں اُن کی مشکلات کو رفع فرمایا ہے۔
(جاری)