HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage

اسلامی شریعت میں رفع حرج اور آسانی (۳)

Author :
ڈاکٹر محمد عامر گزدر
Blog-image

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

نماز کی شریعت میں رخصتیں

قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی روایتوں سے معلوم ہوتا ہےکہ نماز کی عبادت میں بھی مسلمانوں کے لیے عسرت کے موقعوں پر اللہ تعالیٰ نے بہت سی آسانیاں اور رعایتیں عنایت فرمائی ہیں۔نماز کو شریعت کی مقرر کردی کردہ اصل ہیئت میں پڑھنا اور اِس کے آداب وشرائط کو پوری طرح بجالانا ہمارے لیے مشکل ہوجائے تو رفع حرج ہی کے اصول پر خود شریعت نے مختلف پہلؤوں سے رخصتیں بیان کردی ہیں، جن کی تفصیلات درج ذیل ہیں:

۱۔شرائط نماز میں رعایت

شرائطِ نماز کے باب میں اللہ تعالیٰ نے یہ رخصت بیان فرمائی ہے کہ سفر، بیماری یا پانی کی نایابی کی صورت میں کسی کے لیے وضو یا غسل، دونوں مشکل ہوجائیں تو اُس کے لیے حرج اور زحمت کی کوئی بات نہیں ہے، وہ تیمم کرسکتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کوئی پاک جگہ دیکھ کر اُس سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کرلے۔ ارشاد فرمایا کہ: ’يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ وَأَيْدِيَكُمْ إِلَى الْمَرَافِقِ وَامْسَحُوا بِرُءُوسِكُمْ وَأَرْجُلَكُمْ إِلَى الْكَعْبَيْنِ وَإِنْ كُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّهَّرُوا وَإِنْ كُنْتُمْ مَرْضَى أَوْ عَلَى سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِنْكُمْ مِنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ مِنْهُ‘ ’’ایمان والو، (یہی پاکیزگی خدا کے حضور میں آنے کے لیے بھی چاہیے، لہٰذا) جب نماز کے لیے اٹھو تو اپنے منہ اور ہاتھ کہنیوں تک دھو لو اور سروں کا مسح کرو اور ٹخنوں تک پاؤں بھی دھو لو، اور اگر جنابت کی حالت میں ہو تو نہا کر پاک ہو جاؤ۔ اور اگر (کبھی ایسا ہو کہ) تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی رفع حاجت کر کے آئے یا عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تم کوپانی نہ ملے تو کوئی پاک جگہ دیکھو اور اُس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو‘‘(المائدہ: ۶) ۔

چنانچہ معلوم ہوا کہ نماز پڑھنے والے کو مشقت کے اِن موقعوں پر تیمم کا یہ عمل ہر طرح کی حالتِ نجاست میں نماز کفایت کرے گا، یعنی یہ وضو اورغسل ِجنابت، دونوں کا متبادل ہو گا ۔ وضو کے نواقض میں سے کوئی چیز پیش آجائے تو تیمم اُس کے بعد بھی کیا جاسکتا ہے اور یہ مباشرت کے بعد غسل جنابت کی جگہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اِسی طرح یہ رخصت بھی دی گئی ہے کہ مرض اور سفر کی حالت میں پانی موجود ہوتے ہوئے بھی آدمی تیمم کر سکتا ہے۔ امام امین احسن اصلاحی لکھتے ہیں: ’’...مرض میں وضو یا غسل سے ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے، اِس وجہ سے یہ رعایت ہوئی ہے۔ اِسی طرح سفر میں مختلف حالتیں ایسی پیش آسکتی ہیں کہ آدمی کو تیمم ہی پر قناعت کرنی پڑے۔ مثلاً، پانی نایاب تو نہ ہو، لیکن کم یاب ہو، اندیشہ ہو کہ اگر غسل وغیرہ کے کام میں لایا گیا تو پینے کے لیے پانی تھڑ جائے گا یا یہ ڈر ہو کہ اگر نہانے کے اہتمام میں لگے تو قافلے کے ساتھیوں سے بچھڑ جائیں گے یا ریل اور جہاز کا ایسا سفر ہو کہ غسل کرنا شدید زحمت کا باعث ہو‘‘۔ (تدبر قرآن ۲/ ۳۰۳)

شریعت کی اِس رخصت پر ذرا غور کیجیے کہ وضو اورغسل جنابت، دونوں شرائطِ نماز میں سے ہیں، جن کے بغیر عام حالات میں نماز پڑھی ہی نہیں جاسکتی، لیکن خدا کے بندوں کے لیے سفر، مرض یا پانی کی نایابی کی نوعیت کے عام اعذار کی بنا پر نماز کے اِن شرائط کو بجالانا مشکل ہوجائے تو اللہ تعالیٰ نے اُن کی اِس دشواری اور تنگی کو نہ صرف یہ کہ قبول کیا ہے، بلکہ اِس کی رعایت سے ایک متبادل آسان اور قابل عمل حکم دے کر اپنے بندوں کے لیے آسانی پیدا فرمائی ہے۔ تیمم، اگر غور کیجیے تو وضو اور غسل کا ایک ایسا متبادل ہے، جس سے نہ صرف یہ کہ بظاہر کوئی پاکیزگی حاصل نہیں ہوتی، بلکہ وہ ظاہر میں وضو اور غسل سے حاصل ہونے والی حسی نظافت کے برعکس معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اِس کی حکمت اور اِس کا فائدہ کیا ہے؟ استاذ مکرم جناب جاوید احمد غامدی صاحب اِس سوال کے جواب میں لکھتے ہیں: ’’یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ تیمم سے بظاہر کوئی پاکیزگی تو حاصل نہیں ہوتی، لیکن اصل طریقۂ طہارت کی یادداشت ذہن میں قائم رکھنے کے پہلو سے اِس کی بڑی اہمیت ہے۔ شریعت میں یہ چیز بالعموم ملحوظ رکھی گئی ہے کہ جب اصلی صورت میں کسی حکم پر عمل کرنا ممکن نہ ہو تو شبہی صورت میں اُس کی یادگار باقی رکھی جائے۔ اِس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ حالات معمول پر آتے ہی طبیعت اصلی صورت کی طرف پلٹنے کے لیے آمادہ ہو جاتی ہے‘‘ (میزان، ص۲۸۷)۔

شرائط نماز کے باب میں اِس بیانِ رخصت کےساتھ بھی اللہ تعالیٰ نے رفع حرج کا ضابطہ بصراحت بیان کیا ہے کہ مطالباتِ شریعت میں اُس کا منشا اپنے بندوں کو کسی زحمت اور تنگی میں ڈالنا ہرگز نہیں ہے۔ ارشاد فرمایا کہ: ’مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ وَلَـٰكِن يُرِيدُ لِيُطَهِّرَكُمْ، وَلِيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ‘۔ ’’اللہ تم پر کوئی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا، لیکن یہ ضرور چاہتا ہے کہ تمھیں پاکیزہ بنائے، (اِس لیے وضو اور غسل کا پابند بناتا ہے) اور چاہتا ہے کہ اپنی نعمت تم پر تمام کرے، (اِس لیے مجبوری کی حالت میں تیمم کی اجازت دیتا ہے) تاکہ تم اُس کے شکرگزار ہو‘‘(المائدة: 6) ۔

اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی گئی تیمم کی اِسی رخصت پر قیاس کرتےہوئے رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی وضو اور غسل سے متعلق کچھ مزید رخصتیں بیان فرمائی ہیں، جن کی تفصیل درج ذیل ہے:

۱۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے موزوں اور عمامے پر مسح کیا اور لوگوں کو اجازت دی ہے کہ اگر موزے وضو کر کے پہنے ہوں تو اُن کے مقیم ایک شب و روز اور مسافر تین شب و روز کے لیے موزے اتار کر پاؤں دھونے کے بجاے اُن پر مسح کر سکتے ہیں۔(بخاری ، رقم۱۸۲، ۲۰۳، ۲۰۵۔ مسلم ، رقم ۶۲۲، ۶۳۳۔مسلم، رقم ۶۳۹)

۲۔ غسل کے معاملے میں عورتوں کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ رخصت بیان فرمائی ہے کہ اُن کے بال اگرگندھے ہوئے ہوں تو اُنھیں کھولے بغیر اوپر سے پانی بہا لینا ہی کافی ہے( مسلم ، رقم ۷۴۴)۔

۳۔ جن چیزوں سے غسل واجب ہوتا ہے، وہ اگر بیماری کی صورت اختیار کر لیں تو ایک مرتبہ غسل کر لینے کے بعد باقی نمازیں اُس کے بغیر بھی پڑھی جا سکتی ہیں ( بخاری، رقم۲۲۸، ۳۰۶۔ مسلم، رقم۷۵۳)۔ (جاری)

B