HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage

اسلامی شریعت میں رفع حرج اور آسانی (۲)

Author :
ڈاکٹر محمد عامر گزدر
Blog-image

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

رمضان کے روزوں میں رخصت

سورۂ بقرہ میں مسلمانوں پر رمضان کے پورے مہینے کے روزوں کی بیانِ فرضیت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اُن کے لیے اِس حکم کے ضمن میں ایک آسانی اور رخصت بیان فرمائی ہے اور وہ یہ ہے کہ سفر یا بیماری (یعنی کسی مشقت) کی وجہ سے آدمی کے لیے روزہ رکھنا تکلیف کا باعث بن جائے تو ایسی صورت میں وہ رمضان کا فرض روزہ بھی چھوڑ سکتا ہے، اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ تاہم چھوٹے ہوئے روزوں کو بعد میں رکھ کر اُسے اِس مہینے کے روزوں کی گنتی پوری کرنا ہوگی (البقرۃ: 183-184)۔ پھراِس بیانِ رخصت کے متصل بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی شریعت میں موجود تیسیر کا ضابطہ بھی بیان فرمادیا ہے کہ: ’’يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ ‘‘۔’(یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے‘(البقرة: 185)۔

یہ تیسیر اور رفع حرج کے اصول کی رعایت سے شریعت کی ایک فرض عبادت کی ادائیگی کو ایک عام مشقت کی وجہ سے مؤخر کردینے کی صریح مثال ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ کہ دین کے احکام کی بجا آوری میں مسلمانوں کے لیے کوئی سختی نہیں رکھی گئی ہے۔

بیماروں اور معذوروں کے لیے جہاد سے رخصت

مشقت اور عذر کی بنا پر بعض اوقات اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو دین کے لازمی مطالبات سے بھی بالکل مستثنیٰ کردیتے ہیں۔اِس کی ایک مثال قرآنی شریعت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں قتال فی سبیل اللہ کے باب میں دیکھ لی جاسکتی ہے۔ بعض موقعوں پر اللہ تعالیٰ نےاپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں جہاد کے لیے مسلمانوں سے اپنے جان ومال پیش کرنے کا مطالبہ رکھا تو اُن موقعوں پر بھی اللہ تعالیٰ نے ساتھ ہی رفع حرج کا اپنا ضابطہ بیان فرما کرحقیقی معذورین کے لیے آسانی پیدا فرمائی اور اُن کو اِس لازمی مطالبے سے رخصت دے کر واضح فرمادیا کہ ایسے کمزور، مریض اور تنگ حال مسلمان جو جہاد کے لیے تو بے قرار ہیں، لیکن اِس راہ میں خرچ کرنے کے لیے اُن کے پاس کچھ ہے، نہ وہ زاد راہ اور اپنی سواری کا بندوبست کرنے پر قادر ہیں۔ ایسے معذور مسلمان جہاد میں شامل نہ ہو سکیں تو ان پر کوئی گناہ نہیں ہے، بشرطیکہ یہ اللہ کے دین اور اُس کے رسول کے خیرخواہ رہیں۔ ارشاد فرمایا کہ: ’’لَيْسَ عَلَى الضُّعَفَاءِ وَلَا عَلَى الْمَرْضَى وَلَا عَلَى الَّذِينَ لَا يَجِدُونَ مَا يُنْفِقُونَ حَرَجٌ إِذَا نَصَحُوا لِلَّهِ وَرَسُولِهِ مَا عَلَى الْمُحْسِنِينَ مِنْ سَبِيلٍ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ. وَلَا عَلَى الَّذِينَ إِذَا مَا أَتَوْكَ لِتَحْمِلَهُمْ قُلْتَ لَا أَجِدُ مَا أَحْمِلُكُمْ عَلَيْهِ تَوَلَّوا وَّأَعْيُنُهُمْ تَفِيضُ مِنَ الدَّمْعِ حَزَنًا أَلَّا يَجِدُوا مَا يُنفِقُونَ‘‘۔’ اُن لوگوں پر، البتہ کوئی گناہ نہیں جو کمزور ہیں اور اُن پر جو بیمار ہیں اور اُن پر بھی جو خرچ کرنے کے لیے کچھ نہیں پاتے، جب کہ وہ اللہ اور اُس کے رسول کی خیر خواہی کرتے رہیں۔ ایسے نیکو کاروں پر کوئی الزام نہیں ہے اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے۔ اِسی طرح اُن پر بھی کوئی الزام نہیں ہے کہ جب تمھارے پاس آتے ہیں کہ اُن کے لیے سواری کا بندوبست کر دو، تم کہتے ہو کہ میں تمھارے لیے سواری کا بندوبست نہیں کرسکتا تو اِس طرح لوٹتے ہیں کہ اُن کی آنکھوں سے اِس غم میں آنسو بہ رہے ہوتے ہیں کہ وہ اپنے خرچ پر جانے کی مقدرت نہیں رکھتے‘(التوبۃ: 91-۹۲)۔

جہاد کے باب میں معذورین کے لیے اِسی طرح کا استثنا اور رفع حرج سورۂ فتح میں بھی دیکھ لیا جا سکتا ہے، ارشاد فرمایا ہے کہ: ’’لَيْسَ عَلَى الْأَعْمَى حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْأَعْرَجِ حَرَجٌ وَلَا عَلَى الْمَرِيضِ حَرَجٌ وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ وَمَنْ يَتَوَلَّ يُعَذِّبْهُ عَذَابًا أَلِيمًا‘ ’(اِس جہاد سے صرف معذورین مستثنیٰ ہوں گے، اِس لیے کہ) اندھے پر کوئی گناہ نہیں، (اگر وہ جہاد کے لیے نہ نکلے۔ اِسی طرح) لنگڑے پر بھی گناہ نہیں اور نہ مریض پر کوئی گناہ ہے، (اگر وہ اطاعت پر قائم ہوں)۔ اور جو اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت پر قائم رہے گا، اللہ اُس کو ایسے باغوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور جو روگردانی کرے گا، اُسے وہ دردناک عذاب کی سزا دے گا‘(الفتح: ۱۶-۱۷)۔

رخصت کے اِس حکم میں دیکھ لیجیے کہ معذور اور بیمار لوگوں کواللہ تعالیٰ نے جہاد فی سبیل اللہ کے ایک لازمی مطالبے سے مستثنیٰ قرار دے کر بالکلیہ رخصت عنایت فرمادی ہے۔

حج وعمرہ میں رفع حرج اور رخصتیں

۱۔حج یا عمرہ کرنے والے کے لیےحالتِ احرام کی ممنوعات میں سے ایک ممانعت خشکی کے جانوروں کا شکار ہے۔تاہم مُحرم کے لیےدریائی جانوروں کا شکار کرنا اللہ تعالیٰ نے جائز رکھا ہے۔ ارشاد فرمایا کہ:’’أُحِلَّ لَكُمْ صَيْدُ الْبَحْرِ وَطَعَامُهُ مَتَاعًا لَكُمْ وَلِلسَّيَّارَةِ وَحُرِّمَ عَلَيْكُمْ صَيْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي إِلَيْهِ تُحْشَرُونَ‘‘۔ ’تمھارے لیے دریا کا شکار اور اُس کا کھانا جائز ہے، تمھارے اور تمھارے قافلوں کے زادراہ کے لیے۔ جب تک تم احرام کی حالت میں ہو، خشکی کا شکار، البتہ تم پر حرام کیا گیا ہے۔ (اِس کے قریب نہ جاؤ) اور اللہ سے ڈرتے رہو جس کے حضور میں تم سب حاضر کیے جاؤ گے‘(المائدہ : ۹۶)۔

غور کیجیے تو یہ رخصت بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو رفع حرج ہی کی اساس پر دی ہے۔اِس لیے کہ خشکی کے سفر میں اگر زاد راہ تھڑ جائے تو اُسے کسی نہ کسی طرح حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن دریا ئی سفر میں اِس طرح کے موقعوں پر شکار کے سوا کوئی دوسرا راستہ باقی نہیں رہتا۔ یعنی اسلامی شریعت میں محظورات احرام بھی یہ چیز ملحوظ رکھی گئی ہے کہ کوئی پابندی لوگوں کے لیے تنگی کا باعث کا نہ ہو۔

۲۔ قرآن مجید نے ہمیں بتایا ہے کہ حج یا عمرہ کے لیے سفر کرنے والے اگر کسی جگہ گھِر جائیں اوراُن کے لیے بیت الحرام تک جانا ممکن نہ رہے تو اِس طرح کی صورت حال میں بھی اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے کوئی تنگی نہیں رکھی، بلکہ آسانی اور سہولت پر مبنی یہ حکم دیا ہے کہ وہ اونٹ، گاے، بکری میں سے جو جانور میسر ہو، اُسے قربانی کے لیے بھیج دیں یا بھیجنا ممکن نہ ہو تو اُسی جگہ قربانی کر دیں اورسرمنڈوا کر احرام کھول دیں۔یعنی اِس صورت میں صرف قربانی کرنا ضروری ہو گا اور مجبوری کی اِس حالت میں یہ حج و عمرہ کے تمام مناسک کی قائم مقام ہو جائے گی۔ ارشاد فرمایا کہ :’’ وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ لِلَّـهِ ۚ فَإِنْ أُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۖ وَلَا تَحْلِقُوا رُءُوسَكُمْ حَتَّىٰ يَبْلُغَ الْهَدْيُ مَحِلَّهُ ۚ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ بِهِ أَذًى مِّن رَّأْسِهِ فَفِدْيَةٌ مِّن صِيَامٍ أَوْ صَدَقَةٍ أَوْ نُسُكٍ‘‘۔’اور حج وعمرہ (کی راہ اگر تمھارے لیے کھول دی جائے تو اُن کے تمام مناسک کے ساتھ اُن) کو اللہ ہی کے لیے پورا کرو۔ پھر اگر راستے میں گھر جاؤ تو ہدیے کی جو قربانی بھی میسر ہو، اُسے پیش کردو، اور اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈو، جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے، پھر جو تم میں سے بیمار ہو یا اُس کے سر میں کوئی تکلیف ہو (اور وہ قربانی سے پہلے ہی سر منڈانے پر مجبور ہو جائے) تو اُسے چاہیے کہ روزوں یا صدقے یا قربانی کی صورت میں اُس کا فدیہ دے‘(البقرہ ۲: ۱۹۶)۔ چنانچہ یہ معلوم ہے کہ صلح حدیبیہ کے موقع پر اِسی طرح کی صورت حال میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایسا ہی کیا تھا(بخاری، رقم ۱۸۱۱، ۱۸۱۲)۔

اِس مثال میں دیکھ لیجیے کہ لوگوں کے لیے حج یا عمرہ میں اِس طرح کی مشکل پیش آجانے کی صورت میں اللہ تعالیٰ نے رعایت کا ایک آسان حکم بجا لانے پر بقیہ تمام مناسک حج وعمرہ کی ادائیگی سے رخصت دے دی ہے۔

۳۔مذکورہ بالا آیت میں جب اللہ تعالیٰ نے یہ پابندی عائد کی کہ گھِر جانے والے اپنے سر اُس وقت تک نہ مونڈیں، جب تک قربانی اپنی جگہ نہ پہنچ جائے تو دقت نظر سے دیکھیے کہ اِس مقام پر بھی بیماروں اور سر کی تکلیف میں مبتلا لوگوں کے لیے قرآن مجید نےرفع حرج اور رخصت ہی کا حکم بیان کیا ہے کہ وہ اپنے عذر اور تکلیف کی وجہ سے قربانی سے پہلے بھی سر منڈاسکتے ہیں ۔ اُن کے لیے اِس میں کوئی حرج کی بات نہیں ہے۔ تاہم روزوں یا صدقے یا قربا نی کی صورت میں اُن کو اِس کا فدیہ دینا ہوگا۔ روایتوں میں بیان ہوا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اِس فدیے کے متعلق تفصیل پوچھی گئی توآپ نے فرمایا: تین دن کے روزے رکھ لیے جائیں یا چھ مسکینوں کو کھانا کھلادیا جائے یا ایک بکری ذبح کردی جائے توکافی ہو جائے گا( بخاری، رقم ۱۸۱۴۔ مسلم، رقم ۲۸۷۷)۔

غور کیجیے کہ مریض کو اِس مشکل سے بھی اللہ تعالیٰ نے ایک فدیے کے بدلے میں نکال کر اُس کے لیےآسانی کی راہ پیدا فرمائی ہے۔

۴۔مناسک حج میں تیسیر کے اُصول پر آسان متبادل حکم کی صورت میں رعایت دینے کی ایک اور مثال یہ ہے کہ حج اور عمرہ کے لیے الگ الگ سفر کرنے کے بجاے باہر سے آنے والا کوئی شخص حج کے سفر میں عمرے کی ادائیگی کا فائدہ بھی اُٹھالے تو اِس کی اجازت ہے۔لیکن ایسے حاجی پراللہ تعالیٰ نے ایک فدیہ عائد کیا ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ متمتع پر اونٹ، گاے اور بکری میں سے جو جانور بھی میسر ہو،اُس کی قربانی کرنا لازم ہوگا۔ تاہم وہ قربانی کی استطاعت نہ رکھتا ہو تو آسانی اور رفع حرج ہی کی بنیاد پر اُس کے لیے یہ رخصت خود قرآن مجید نے بیان کی ہے کہ وہ قربانی کے بجاے دس روزے رکھ لے۔ پھر ظاہر ہے کہ حج کے اُنھی ایام میں حاجی کے لیے دس روزے رکھنا بھی مشقت کا باعث تھا تو اللہ تعالیٰ نے فدیے کی اِس صورت میں بھی اُس کے لیے آسانی پیدا کردی اور فرمایا کہ تین روزے حج کے دنوں میں رکھ لیے جائیں اورسات حج سے واپسی کے بعد۔ارشاد فرمایا کہ:’’فَإِذَا أَمِنتُمْ فَمَن تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ فَمَا اسْتَيْسَرَ مِنَ الْهَدْيِ ۚ فَمَن لَّمْ يَجِدْ فَصِيَامُ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ فِي الْحَجِّ وَسَبْعَةٍ إِذَا رَجَعْتُمْ ۗ تِلْكَ عَشَرَةٌ كَامِلَةٌ ۗ ذَٰلِكَ لِمَن لَّمْ يَكُنْ أَهْلُهُ حَاضِرِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ وَاتَّقُوا اللَّـهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّـهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ‘‘۔ ’پھر جب تمھارے لیے امن کی حالت پیدا ہو جائے تو جو کوئی اِس سفر سے یہ فائدہ اٹھائے کہ حج کا زمانہ آنے تک عمرہ بھی کر لے تو اُسے قربانی کرنا ہو گی، جیسی بھی میسر ہو جائے۔ اور اگر قربانی میسر نہ ہو تو روزے رکھنا ہوں گے: تین دن حج کے زمانے میں اور سات، جب (حج سے) واپس آئو۔ یہ پورے دس دن ہوئے۔ (اِس طریقے سے ایک ہی سفر میں حج کے ساتھ عمرے کی) یہ (رعایت) صرف اُن لوگوں کے لیے ہے جن کے گھر بار مسجد حرام کے پاس نہ ہوں۔ (اِس کی پابندی کرو) اور اللہ سے ڈرتے رہو، اور خوب جان لو کہ اللہ سخت سزا دینے والا ہے‘(البقرہ: ۱۹۶)۔۔

اِس حکم کی مذکورہ بالا تفصیل سے صاف واضح ہے کہ باہر سے آنے والے عازمین بیت اللہ سے رب کعبہ کو اصلاً یہ مطلوب ہے کہ حج ہو یا عمرہ، ہر ایک عبادت کے لیے لوگ پورے اہتمام سے الگ الگ سفر کر کے آئیں۔تاہم دور دراز کے لوگوں کے حج اور عمرہ، دونوں کے لیے الگ الگ سفر کرنا آسان نہیں ہے۔ اِس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک فدیے کے بدلے اُن کے لیے اِس معاملے میں آسانی فرمائی اور اجازت دی کہ اپنے حج کے سفر میں عمرہ بھی کرلیں۔ مزید یہ کہ فدیے کی ادائیگی میں اُن کے لیے سہولت پیدا فرمائی کہ جانور کی قربانی کی استطاعت نہ ہو تو دس روزے رکھ لیے جائیں اور پھر روزے رکھنے میں بھی مشکل اور تنگی کو اُٹھالیا ہے کہ تین روزے ایام حج میں اور باقی سات اپنے گھر پہنچنے کے بعد رکھ لیے جائیں۔

۵۔یوم عرفہ کی رات مزدلفہ کے میدان میں گزارنا حج کے لازمی مناسک میں سے ہے اور اِس میں یہ سنت قائم کی گئی ہے کہ صبح روشن ہونے تک حجاج وہیں ٹھیرے رہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوہ سے ثابت ہےکہ فجر کی نماز کے بعد روشنی کے پوری طرح پھیل جانے تک آپ مشعر الحرام کے پاس کھڑے دعا ومناجات کرتے رہے(صحیح مسلم، رقم 2950)۔ تاہم اِس رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں، بوڑھوں، بچوں اور بعض اجازت چاہنے والوں کو رخصت دی کہ وہ صبح کو حجاج کے ازدحام میں مشقت اُٹھانے کے بجاے رات ہی میں منیٰ کے لیے روانہ ہوجائیں (مسند طیالسی، رقم 2881 ۔ مسند احمد، رقم 1811۔ صحیح بخاری، رقم 1680، 1676 ۔صحیح مسلم، رقم 1292۔ شرح مشکل الآثار، طحاوی، رقم 3521)۔

یہ رعایت بھی دیکھ لیجیے کہ دین میں رفع حرج کے اصول پر دی گئی ہے اور منجملہ مظاہر تیسیر کے ہے۔

۶۔ ایام تشریق میں جمرات کی رمی حج کے ضروری مناسک میں سے ہے، جب کہ اِن کی راتوں میں قیام منیٰ بھی ایک مطلوب سنت ہے۔اِس کے باوجود یہ معلوم ہے کہ علاقے کے بعض چرواہوں نے رات منیٰ میں گزارنے کے بجاے اپنے ریوڑوں کے پاس چلے جانے کی اجازت چاہی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اجازت دے دی اورفرمایا : ’یوم النحر کوکنکریاں مارنے کے بعد باقی دو دن کی کنکریاں ایک ہی دن مارلینا‘(ابوداؤد، رقم ۱۹۷۵،۱۹۷۶)۔ یعنی تیسیر وتخفیف کے اصول پر آپ نے نہ صرف یہ کہ اُنھیں ایام تشریق میں قیام منیٰ سے رخصت دی، بلکہ اِن ایام میں رمی کو مؤخر کر کے آخری دن اکٹھی کنکریاں مارنے کی رعایت بھی دے دی ۔

دیکھ لیجیے، یہ عذر کی بنا پر اسلامی شریعت کے حکم سے رخصت دینے اور حکم کی تعمیل کو اپنے اصل وقت اور موقع سے مؤخر کردینے کی ایک ثابت شدہ رعایت ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے بعض مناسک میں رفع حرج کے اصول پر لوگوں کو دی ہے۔

۷۔ حجۃ الوداع کے موقع پر رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں لوگوں کے سوالوں کا جواب دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو کسی نے پوچھا: مجھے معلوم نہ تھا، میں نے قربانی سے پہلے بال منڈوا لیے ہیں؟ آپ نے فرمایا: اب قربانی کرلو، کوئی حرج نہیں۔ کسی نے پوچھا: مجھے معلوم نہ تھا، میں نے رمی سے پہلے قربانی کر لی ہے ؟ آپ نے فرمایا: اب رمی کر لو، کوئی حرج نہیں۔ غرض یہ کہ کسی بھی چیز کی تقدیم وتاخیر کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے یہی کہا کہ اب کر لو، کوئی حرج نہیں۔(بخاری، رقم۱۷۳۶، ۱۷۳۷۔ مسلم، رقم۳۱۵۷)

اِس موقع پر بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ارشاد سےواضح فرمایا ہے کہ دین کے احکام کی انجام دہی میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیےکوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔ آپ نے کسی شخص پر دم دینا واجب نہیں کیا۔ بلکہ یہ بھی واضح فرمادیا کہ تعبدی امور میں لاعلمی کی وجہ سے اور اور نادانستہ طور پر ہونے والی خلاف ورزی پر اللہ تعالیٰ کے ہاں کوئی مواخذہ نہیں ہے۔ یہ اِس لیے کہ ارشادِ خداوندی ہے کہ : ’’وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ فِيمَا أَخْطَأْتُم بِهِ وَلَـٰكِن مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوبُكُمْ ۚ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا‘‘۔’تم سے جو غلطی ہوئی ہے، اُس کے لیے توتم پر کوئی گرفت نہیں، لیکن تمھارے دلوں نے جس بات کا ارادہ کر لیا، اُس پر ضرور گرفت ہے۔ اور اللہ بخشنے والا ہے، اُس کی شفقت ابدی ہے‘ (الاحزاب:۵)۔

۸۔اِسی طرح یہ معلوم ہے کہ ضرورت کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سواری پر طواف کرنے کی اجازت دی ہے۔ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں بیمار تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ذکر کیا تو آپ نے مجھے سواری پر طواف کر لینے کی ہدایت فرمائی (بخاری،رقم ۱۶۲۶۔ مسلم،رقم۳۰۷۸)۔ (جاری)

B