HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
Homepage

اسلامی شریعت میں رفع حرج اور آسانی (۱)

Author :
ڈاکٹر محمد عامر گزدر
Blog-image

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسانوں کو جو شریعت انبیا علیہم السلام کے ذریعے سے دی گئی ہے، اُس میں اللہ تعالیٰ ایسا کوئی حکم کبھی نہیں دیتے جو انسان کے تحمل سے باہر اور اُس کی برداشت اور استطاعت سے بڑھ کر ہو۔ ایمان اور عمل صالح کی جو ذمہ داری اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر ڈالتا ہے، وہ اُسی حد تک ہے، جس حد تک اُن کے امکان میں ہے۔ یہ ذمہ داری اُن کی حد وسع سے زیادہ نہیں ہوا کرتی۔شریعت خداوندی کے تمام احکام میں یہ معیار ہمیشہ سے قائم ہے کہ لوگوں کی طاقت سے زیادہ کوئی بوجھ اُن پر نہ ڈالا جائے اور جو حکم بھی دیا جائے، انسان کی فطرت اور اُس کی صلاحیتوں کے مطابق دیا جائے۔

اِس باب میں اللہ تعالیٰ کی یہی سنت سورۂ بقرۃ میں اِس طرح بیان ہوئی ہے کہ : "لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا" ’’اللہ کسی پر اُس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتا‘‘(البقرۃ: 286)۔

سورۂ انعام، اعراف اور المؤمنون میں اپنا یہی ضابطہ اللہ تعالیٰ نے اِس اسلوب میں بیان فرمایا ہے کہ "لَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَاَ" ’’ہم کسی جان پر اُس کی استطاعت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے‘‘(الانعام: ۱۵۲، الاعراف: ۴۲، المؤمنون: ۶۲) ۔

قرآن مجید سے پوری صراحت کے ساتھ یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے دین کے احکام ومطالبات کی انجام دہی میں مسلمانوں کے لیے کسی قسم کی کوئی تنگی اور مشقت نہیں رکھی ہے۔ بلکہ اِس کے برعکس ہم یہ جانتے ہیں کہ شریعت کے احکام وآداب اور دینی شعائر کی بجا آوری میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے رعایت اور رخصت دینے، آسانی پیدا کرنے اور تنگی کو اُٹھا دینے کا قاعدہ اپنایا ہے۔سورۂ حج میں ایک مقام پر خدا کی بندگی کے بنیادی تقاضوں کو بیان کرنے کے بعد قرآن مجید نے اپنی شریعت میں رفع حرج کا یہ اصول اِس طرح بیان فرمایا ہے کہ: "وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّينِ مِنْ حَرَجٍ مِّلَّةَ أَبِيكُمْ إِبْرَاهِيمَ"۔ ’’اور (جو) شریعت (تمھیں عطا فرمائی ہے، اللہ تعالیٰ نے اُس) میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی ہے۔تمھارے باپ-ابراہیم- کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی ہے‘‘۔(الحج: 78)

اسلامی شریعت نے رفع حرج کا اِس قدر لحاظ رکھا ہے کہ سورۂ نساء کی آیت (۲۸) میں اللہ تعالیٰ نے اُن پابندیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ،جو علما کی فقہی موشگافیوں کے باعث لوگوں پر لگ چکی تھیں، ارشاد فرمایا ہے کہ"يُرِيدُ اللَّـهُ أَن يُخَفِّفَ عَنكُمْ ۚ وَخُلِقَ الْإِنسَانُ ضَعِيفًا"۔’’اللہ تم پر سے پابندیوں کو ہلکا کرنا چاہتا ہے، (اِس لیے کہ تمھاری کمزوریوں کی رعایت کرے) اور حقیقت یہ ہے کہ انسان بڑا ہی کمزور پیدا کیا گیا ہے‘‘۔

اِسی طرح رمضان کے روزوں سے متعلق ایک رخصت کو بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے بطور اصول فرمایا ہے کہ "يُرِيدُ اللَّهُ بِكُمُ الْيُسْرَ وَلَا يُرِيدُ بِكُمُ الْعُسْرَ"۔ ’’(یہ رخصت اِس لیے دی گئی ہے کہ) اللہ تمھارے لیے آسانی چاہتا ہے اور نہیں چاہتا کہ تمھارے ساتھ سختی کرے‘‘(البقرة: 185)۔

وضو اور غسل کے حوالے سے ایک رخصت دینے کے متصل بعد اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ "مَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيَجْعَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ حَرَجٍ"۔ ’’اللہ تم پرکوئی تنگی نہیں ڈالنا چاہتا‘‘ (المائدة: 6) ۔

شریعت اسلامی میں رفع حرج اور رعایت دینے کا یہ مقدمہ جس صراحت کے ساتھ قرآن مجید مین بیان ہوا ہے، رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کےارشادات اور آپ کی تعلیمات میں بھی اللہ تعالیٰ کے اِسی ضابطے کے شواہد جگہ جگہ دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔آپ کے علم وعمل کی روایتوں میں دین میں آسانی اور رخصت دینے اور مشقت اور تنگی کی نفی کرنے پر مبنی جو اصولی رہنمائی ہمیں ملتی ہے، وہ درج ذیل احادیث میں پوری وضاحت کے ساتھ بیان ہوگئی ہے:

ا۔ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قِيلَ لِرَسُولِ اللَّهِ ﷺ: أَيُّ الْأَدْيَانِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ؟ قَالَ: «الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ» ۔ ’’ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھاکہ اللہ کی بارگاہ میں سب سے زیادہ پسندیدہ دین کون سا ہے؟ آپ نے فرمایا: جو سب سے یکسو ہو کر صرف اللہ کے لیے ہو اور جس میں سہولت ہو‘‘(مسند احمد، رقم 2107) ۔

یہ اسلام کی تعریف ہے، جس طرح کہ خدا کے پیغمبروں نے اُسے پیش کیا ہے۔چنانچہ قرآن سے اُس کی جو صورت سامنے آتی ہے، اُس میں زمین وآسمان کے پروردگار کےلیےوہی یک سوئی اور عمل کے لحاظ سے وہی سہولت ہے جس کا ذکر اِس روایت میں ہوا ہے۔

2۔عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کے مطابق ایک دوسرے موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا: ’«إِنَّ دِينَ اللَّهِ الْحَنِيفِيَّةُ السَّمْحَةُ»۔’’ اللہ کا دین وہ ہے جس میں صرف اللہ کے لیے یک سوئی ہوتی ہے اور جس میں سہولت اور آسانی ہے‘‘( المعجم الاوسط، طبرانی، رقم 794)۔

۳۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ: «إِنَّ هَذَا الدِّينَ يُسْرٌ، وَلَنْ يُشَادَّ الدِّينَ أَحَدٌ إِلَّا غَلَبَهُ، فَسَدِّدُوا وَقَارِبُوا، وَأَبْشِرُوا، وَيَسِّرُوا، وَاسْتَعِينُوا بِالْغَدْوَةِ وَالرَّوْحَةِ، وَشَيْءٍ مِنَ الدَّلْجَةِ»۔’’ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِس میں شبہ نہیں کہ دین آسان ہے، اِس میں شدت اختیار کر کے جو شخص بھی اِسے پچھاڑنے کی کوشش کرے گا ، یہ اُس کو عاجز کردے گا۔ سو راہ راست کی رہنمائی کرو اور میانہ روی اختیار کرو اور لوگوں کو بشارت دواور اُن کے لیے آسانی پیدا کرو اور صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں اللہ سے مدد مانگتے رہو‘‘(السنن الصغری، نسائی، رقم 5034)۔

۴۔عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: «يَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا، وَسَكِّنُوا وَلَا تُنَفِّرُوا»۔’’انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں کے لیے آسانی پیدا کرو، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالواور اُنھیں اطمینان دلاؤ، اُن کو بھگاؤ نہیں‘‘( مسند طیالسی، رقم 2199)۔

مطلب یہ ہے کہ اُن کے سامنے دین کو اِس طرح مشکل بنا کر پیش نہ کرو کہ وہ اُس سے گریز وفرار کے راستے تلاش کرنے لگیں۔یہ اِس لیے فرمایا کہ ایک ہی چیز بعض اعتبار سے سہل اور بعض اعتبار سے مشکل ہوتی ہے۔چنانچہ دعوت کی ابتدا میں اگر اُس کے وہی پہلو نمایاں کیے جائیں جو بےگانہ سے بے گانہ لوگوں کے لیے بھی اپنے اندر دل آویزی کا بہت کچھ سامان رکھتے ہیں تو بعد میں توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے طبائع سے بظاہر ناموافق چیزوں کو بھی بتدریج قبول کرلیں گے۔

۵۔عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ إِذَا بَعَثَ أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِهِ فِي بَعْضِ أَمْرِهِ قَالَ: «بَشِّرُوا وَلَا تُنَفِّرُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا»۔’’ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب اپنے صحابہ میں سے کسی کو اپنے کسی کام کے حوالے سے کہیں بھیجتے تو فرماتے تھے: تم لوگوں کو خوش خبری دو، اُنھیں بھگاؤ نہیں اور اُن کے لیے آسانی پیدا کرو، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالو‘‘( صحیح مسلم، رقم 1732)۔

۶۔ عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ بَعَثَهُ وَمُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ [لَهُمَا]: [«انْطَلِقَا فَادْعُوَا النَّاسَ إِلَى الْإِسْلَامِ،] يَسِّرَا وَلاَ تُعَسِّرَا، وَبَشِّرَا وَلاَ تُنَفِّرَا، وَتَطَاوَعَا وَلاَ تَخْتَلِفَا»۔’’ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کو اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا تو دونوں سے کہا: تم لوگ جاؤ اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دو اور (یاد رکھو، اپنی اِس دعوت میں) اُن کے لیے آسانی پیدا کرنا، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالنااور اُنھیں بشارت دینا ، اُن کو بھگانا نہیں اور ایک دوسرے کی بات ماننا ، آپس میں اختلاف نہ کرنا‘‘(صحیح مسلم، رقم1733۔مسند احمد، رقم19742۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم6561) ۔

اِس سے مراد وہ اختلاف ہے جو ضدم ضدا کی صورت اختیار کر لےاور جس کے نتیجے میں لوگ اجتماعی معاملات کو بھی حق وباطل کا مسئلہ بنا کر کسی نظم کے تحت کام کرنے سے انکار کردیں۔اِس طرح کی صورت حال پیدا ہوجائے تو تجربہ یہی ہے کہ تمام کوششیں پھر ایک دوسرے کی نفی ہی میں صرف ہونے لگتی ہیں اور لوگ جس مقصد کے لیے اکٹھے ہوئے تھے، وہ بالکل پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔

۷۔ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ ایک موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم سے فرمایا: «إِنَّمَا بُعِثْتُمْ مُيَسِّرِينَ، وَلَمْ تُبْعَثُوا مُعَسِّرِينَ»۔ ’’تم آسانی پیدا کرنے کے لیے اُٹھائے گئے ہو، لوگوں کو مشکل میں ڈالنے کے لیے نہیں اُٹھائے گئے‘‘۔(مسند حمیدی، رقم 967)۔

۸۔ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہی سے ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ سے فرمایا: «عَلِّمُوا، وَيَسِّرُوا وَلَا تُعَسِّرُوا» ۔ ’’ لوگوں کو سکھاؤ اور اُن کے لیے آسانی پیدا کرو ، اُنھیں مشکل میں نہ ڈالو ‘‘(مسند شافعی، رقم 22) ۔

عَنْ مِحْجَنِ بْنِ الْأَدْرَعِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ «[إِنَّ]خَيْرَ دِينِكُمْ أَيْسَرُهُ» قَالَهَا ثَلَاثًا۔ ’’مِحجَن بن اَدرَع رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےتمھارا بہترین دین وہی ہے جو آسان تر ہو۔آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی‘‘(مسند طیالسی، رقم1392۔ مسند احمد، رقم 20349) ۔

دین سے مراد یہاں دینی رویہ ہےجو کوئی شخص دین کو سمجھ کر اُس پر عمل کے لیے اختیار کرتا ہے۔

10۔وَعَنْهُ فِي رِوَايَةٍ قَالَ: «إِنَّ اللهَ تَعَالَى رَضِيَ لِهَذِهِ الْأُمَّةِ الْيُسْرَ، وَكَرِهَ لَهَا الْعُسْرَ» قَالَهَا ثَلَاثًا۔’’اِنھی مِحجَن بن اَدرَع سے مروی ہے کہ آپ نے اِس موقع پر فرمایا: اللہ نے اِس اُمت کے لیے آسانی کو پسند فرمایا اور مشکل کو نا پسند کیا ہے۔آپ نے یہ بات تین مرتبہ دہرائی‘‘(المعجم الکبیر، طبرانی، رقم707) ۔

11۔جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک موقع پر سیدہ عائشہ سےفرمایا: «إِنَّ اللَّهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّفًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا ... »۔’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا بنا کر مبعوث نہیں فرمایا ہے، بلکہ مجھے سکھانے والا اور آسانی پیدا کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘(مسنداحمد، رقم 14515) ۔اِسی روایت کے ایک طریق میں یہ الفاظ نقل ہوئے ہیں کہ «إِنَّ اللهَ لَمْ يَبْعَثْنِي مُعَنِّتًا، وَلَا مُتَعَنِّتًا، وَلَكِنْ بَعَثَنِي مُعَلِّمًا مُيَسِّرًا»۔’’اللہ تعالیٰ نے مجھے سختی کرنے والا اور لوگوں کے لیے مشکلات ڈھونڈنے والا بنا کر نہیں بھیجا، بلکہ اللہ نے مجھے تعلیم دینے والا اور آسانی کرنے والا بنا کر بھیجا ہے‘‘ (صحیح مسلم، رقم 1478) ۔

12۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ: «مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ بَيْنَ أَمْرَيْنِ، أَحَدُهُمَا أَيْسَرُ مِنَ الْآخَرِ إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا مَا لَمْ يَكُنْ إِثْمًا ... »۔ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی ایسے دو کاموں میں سے ایک کا انتخاب کرناہوتا جن میں سے ایک دوسرے کی نسبت آسان ہوتا تو آپ اُن میں سے آسان تر کاانتخاب فرماتے، جب کہ تک اُس میں گناہ کی کوئی بات نہ ہو‘‘ (مسنداحمد، رقم 25288)۔

احکامِ شریعت میں تیسیر اور رفع حرج کے اِس اصول پر قائم رخصت اور تخفیف کے بہت سے احکام ہیں جو قرآن وسنت اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے علم وعمل کی روایتوں میں دیکھ لیے جاسکتے ہیں۔ ذیل میں ہم اِن احکام کی چند مثالیں پیش کریں گے، جن میں اللہ اور اُس کے رسول نے رخصت اور رفع حرج کا مذکورہ بالا اصول اپنی شریعت کے بہت سے احکام میں پوری طرح منطبق کر کے واضح فرمادیا ہے ۔ (جاری)

B