HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

دین کا مخاطب: فرد یا سماج

قرآن مجید میں متعدد ایسی آیتیں ہیں جن سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دین کا مخاطب اصلاً فرد ہے۔ قرآن مجید اس عظیم خبرکی منادی ہے کہ ایک دن قیامت برپا ہو گی اور تم سب کو اللہ کی عدالت میں پیش ہونا ہے:

فَاِذَا بَرِقَ الْبَصَرُ. وَخَسَفَ الْقَمَرُ. وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ. يَقُوْلُ الْاِنْسَانُ يَوْمَئِذٍ اَيْنَ الْمَفَرُّ. كَلَّا لَا وَزَرَ. اِلٰي رَبِّكَ يَوْمَئِذِ اِۨلْمُسْتَقَرُّ. يُنَبَّؤُا الْاِنْسَانُ يَوْمَئِذٍۣ بِمَا قَدَّمَ وَاَخَّرَ. (القیامہ ۷۵:۷ - ۱۳)
’’پھر جب دیدے پتھرائیں گے اور چاند گہنائے گا اور سورج اور چاند، دونوں اکٹھے کر دیے جائیں گے۔ تو یہی انسان اُس دن کہے گا: اب کہاں بھاگ کر جاؤں۔ ہرگز نہیں، اب کہیں پناہ نہیں! اُس دن تیرے رب ہی کے سامنے جا ٹھیرنا ہو گا۔ اُس دن انسان کو بتایا جائے گا کہ اُس نے کیا آگے بھیجا اور کیا پیچھے چھوڑا ہے۔‘‘

قرآن مجید نے ایک مقام پر صراحت کر دی ہے کہ اللہ کے دربار میں یہ حاضری انفرادی ہو گی:

وَلَقَدْ جِئْتُمُوْنَا فُرَادٰي كَمَا خَلَقْنٰكُمْ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّتَرَكْتُمْ مَّا خَوَّلْنٰكُمْ وَرَآءَ ظُهُوْرِكُمْﵐ وَمَا نَرٰي مَعَكُمْ شُفَعَآءَكُمُ الَّذِيْنَ زَعَمْتُمْ اَنَّهُمْ فِيْكُمْ شُرَكٰٓؤُاﵧ لَقَدْ تَّقَطَّعَ بَيْنَكُمْ وَضَلَّ عَنْكُمْ مَّا كُنْتُمْ تَزْعُمُوْنَ.(الانعام ۶ : ۹۴)
’’لو، بالآخر ویسے ہی اکیلے اکیلے ہمارے پاس آگئے ہو، جیسے پہلی مرتبہ ہم نے تمھیں پیدا کیا تھا۔ جو کچھ (دنیا میں) تمھیں دیا تھا، وہ سب پیچھے چھوڑ آئے ہو، اور تمھارے ساتھ ہم تمھارے اُن سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھ رہے جن کے بارے میں تم سمجھتے تھے کہ تمھارے معاملے میں ہمارے شریک ہیں۔ تمھارے سب رشتے ٹوٹ گئے اور جو کچھ گمان تم کیے بیٹھے تھے، وہ سب تم سے جاتے رہے ہیں۔‘‘

سورۂ مریم میں ہے:

وَكُلُّهُمْ اٰتِيْهِ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ فَرْدًا.(۱۹: ۹۵)
’’اُن میں سے ہر ایک قیامت کے دن اُس کے سامنے اکیلا حاضر ہوگا۔‘‘

ان آیات کا مضمون اصلاً تو یہ ہے کہ وہاں کسی کا کوئی ساتھی اور مدد گار نہیں ہو گا، لیکن اس کا یہ نتیجہ بھی سمجھ میں آتا ہے کہ وہاں ہر ایک کو اپنے اعمال کا بوجھ خود اٹھانا ہے، یعنی وہ اپنے کیے کا خود ذمہ دار ہے اور اسے ہی اس کا حساب دینا ہے ۔ یہ حقیقت قرآن مجید میں ان الفاظ میں بیان ہوئی ہے:

اَلَّا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰي. وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰي.(النجم ۵۳ : ۳۸ -۳۹)
’’یہ کہ کوئی جان دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گی اور یہ کہ انسان کو آخرت میں وہی ملے گا جو اُس نے دنیا میں کمایا ہے۔‘‘

ان آیات اور متعدد دوسری آیتوں سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اللہ اور دین کا معاملہ فرد سے ہے۔ہر فرد اپنی انفرادی حیثیت میں حق پرستی، حق گوئی، حق ادائی اور اتباع حق کے امتحان میں ہے۔

دوسری طرف یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ قرآن مجید میں ایسے احکام بھی دیے گئے ہیں جن کی تعمیل کا ذمہ دار نظم اجتماعی ہے۔ جیسے جرائم کی سزائیں، زکوٰۃ کا اخذ و صرف ، مساجد کا اہتمام اور جہاد وغیرہ۔

اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ مسلمانوں کی ذمہ داری ہے یا نہیں کہ وہ اپنے اجتماعی وجود میں بھی دین کی تعلیمات کو پوری طرح اپنائیں؟ بطور خاص یہ سوال اس حادثے کے بعد زیادہ شدت اختیار کر گیا ہے جب مغربی قوموں نے مسلمانوں کے مفتوح ممالک کو مغربی ریاستوں کے منہج پر استوار کر دیا۔ مراد یہ ہے کہ قانون وہ نافذ ہو گیا جو انسانوں کا بنایا ہوا تھا۔ ریاست کا سانچا وہ بنا دیا گیا جسے ’قومی ریاست‘ کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔

جس طرح مسلمان قیامت کے دن اپنی ذاتی زندگی میں دین کے احکام کی خلاف ورزی پر ماخوذ ہوں گے ، کیا اسی طرح اپنی اجتماعی زندگی میں دین سے بے گانگی پر ماخوذ نہ ہوں گے؟

اللہ کے احکام کی تعمیل میں کوتاہی عملاً تو ہو سکتی ہے، لیکن کوئی مسلمان اصولاً کسی دینی حکم سے انحراف کو درست قرار دینے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ انفرادی زندگی میں جسے اللہ توفیق دے وہ پوری کوشش کرتا ہے کہ دین کے اوامرو نواہی کی پابندی کرے اور جہاں کوتاہی یا نافرمانی ہوتی ہے، اللہ سے معافی کا طلب گار ہوتا ہے۔ دین کے اجتماعی تقاضے پورے کرنے میں بھی مسلمانوں نے ہر جگہ اسی حساسیت کا اظہارکیا۔ چنانچہ اس باب میں بنیادی طور پر دو نقطۂ نظر ہیں:

ایک نقطۂ نظر یہ ہے کہ ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی ہیئت اجتماعی کو اسلام کے مطابق ڈھالنے کی سعی کرے۔ اس نقطۂ نظر کے حاملین دو طریقوں سے اس مقصد کو حاصل کرنے کی سعی کر رہے ہیں: ایک یہ کہ انقلابی جماعت بنائی جائے اور انقلابی جدوجہد کرکے اس مقصد کو حاصل کیا جائے۔ دوسرے یہ کہ مذہبی سیاسی جماعت بنائی جائے اور وہ انتخاب جیت کر ریاست کو اسلامی بنانے کا کام کرے۔ ایک موقف اور بھی ہے اور وہ یہ کہ مسلمان دین سے دور ہیں، اسی لیے ان کی ریاست بھی بے دین ہے۔ چنانچہ تبلیغی جدو جہد کی جائے ۔ جب یہ جدوجہد مسلمانوں کی بڑی اکثریت کو دین پر باعمل بنا دے گی، وہ قیادت بھی خود بخود پیدا ہو جائے گی جو ریاست کو دین کے احکام کے مطابق چلائے گی۔

دوسرا نقطۂ نظر یہ ہے کہ یہ ذمہ داری ہر مسلمان کی نہیں ہے۔ یہ ذمہ داری ان ذمہ داریوں میں سے ہے جو فرد پر اس کی حیثیت کے اعتبار سے عائد ہوتی ہے۔ مثلاً زکوٰۃ صرف اسی پر فرض ہے جو صاحب مال ہے ۔ اگر کوئی صاحب مال نہیں تو وہ زکوٰۃ کی عدم ادائیگی پر گناہ گار بھی نہیں ہے، حتیٰ کہ اس کی یہ ذمہ داری بھی نہیں ہے کہ وہ اتنا مال جمع کرنے کی کوشش کرے کہ زکوٰۃ کا فرض ادا کر سکے۔ اسی طرح جو لوگ اپنی صلاحیت، جدوجہد اور کچھ سماجی حالات کے توافق سے یہ حیثیت حاصل کر لیتے ہیں کہ وہ ارباب حل و عقد ہیں، یہ ان کی ذمہ داری ہے اور قیامت کے دن اپنی اس باب میں بے عملی پر وہی جواب دہ ہوں گے۔اس نقطۂ نظر کے حاملین کے نزدیک عام آدمی تو اپنی بساط کے مطابق دین پر عمل کرنے اور اپنے ماحول میں حق کی تلقین کرنے ہی کا مکلف ہے۔ البتہ اہل علم کی جہاں یہ ذمہ داری ہے کہ وہ عام مسلمانوں کی دینی تعلیم و تربیت کا کام کریں، وہاں ان کے پاس اگر اس بات کا موقع ہے کہ وہ ارباب حل و عقد کو ان کے فرائض یاد دلائیں تو ان کو یہ بھی کرنا چاہیے۔

جہاں اس سوال پر غور ہونا ضروری ہے کہ ان میں سے کون سا نقطۂ نظر درست ہے، کون سی حکمت عملی ٹھیک ہے، وہاں یہ سوال بھی تدبر و تفکر کا تقاضا کرتا ہے کہ مسلمانوں کی ہیئت اجتماعی کے اندرونی اور بیرونی اہداف کیا ہیں؟ فرد اپنی اسلامی شناخت کے کن پہلوؤں کو ہیئت اجتماعی کے بغیر قائم رکھ سکتا اور کن پہلوؤں سے محروم ہو جاتا ہے۔ اسی ضمن میں ایک سوال یہ بھی ہے کہ جس طرح کوئی شخص اپنےانفرادی وجود ، شعور اور شناخت کی بقا اور نمو سے دست بردار نہیں ہو سکتا تو کیا وہ اپنے اجتماعی وجود، شعور اور شناخت کی بقا اور نمو سے دست بر دار ہو سکتا ہے؟ قابل غور نکتہ یہ بھی ہے کہ دینی ذمہ داریاں ایک تو وہ ہیں جو نصوص قرآن و سنت میں بیان ہوئی ہیں۔ کیا میری ذمہ داریاں وہ نہیں ہیں جو میرے دین کے ساتھ تعلق کے تقاضے سے پیدا ہوتی ہیں؟

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B