قرآن مجید میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو پیغمبری کے منصب پر فائز کرنے کے بعد جو ہدایات دی گئیں، ان میں سے ایک نماز سے متعلق بھی تھی۔ ارشاد ہوا:
وَاَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوْحٰي. اِنَّنِيْ٘ اَنَا اللّٰهُ لَا٘ اِلٰهَ اِلَّا٘ اَنَا فَاعْبُدْنِيْ وَاَقِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ.(طٰہٰ ۲۰: ۱۳- ۱۴)
’’اور میں نے تمھیں چن لیا ہے، لہٰذا جو وحی کیا جائے، اسے دھیان سے سنو۔میں ہی اللہ ہوں، میرے سوا کوئی الٰہ نہیں۔ سو میری ہی بندگی کرو اور میری یاد کے لیے نماز پڑھو۔‘‘
اس آیت سے یہ نکتہ واضح ہوتا ہے کہ نماز سب سے بنیادی مطالبہ ہے۔ جہاں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ہدایت ربانی کو پورے اہتمام سے سننے کی ہدایت ہوئی، وہیں یہ ہدایت بھی ہوئی کہ وہ نماز کو اپنے معمول کا حصہ بنائیں، اس کی غایت بھی واضح کر دی کہ یہ اللہ کو یاد رکھنے کے لیے ہے۔نماز سے متعلق یہ ہدایت بھی دی :
اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ.(طٰہٰ ۲۰: ۴۲)
’’ تم اور تمھارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جاؤ اور میری یاد میں سستی نہ کرنا ‘‘
اس آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ نماز میں مستعدی اور حاضر باشی مطلوب ہے۔قرآن مجید میں نماز کے آداب اور اوقات پر بھی متعدد آیات میں روشنی ڈالی گئی ہے۔نماز کے اوقات کے حوالے سے اصولی بات یہ واضح کی کہ نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض کی گئی ہے:
اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا.(النساء ۴: ۱۰۳)
’’نماز اہل ایمان پر وقت کے تعین کے ساتھ فرض کی گئی ہے۔‘‘
پھر اس کے اوقات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ غُرُوْبِهَاﵐ وَمِنْ اٰنَآئِ الَّيْلِ فَسَبِّحْ وَاَطْرَافَ النَّهَارِ.(طٰہٰ ۲۰: ۱۳۰)
’’اور اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کرو سورج کے طلوع ہونے سے پہلے اور سورج کے غروب ہونے سے پہلے، رات کے اوقات میں اور دن کے اطراف میں۔‘‘
ایک اور مقام میں اسی طرح اوقات کی تفصیل الفاظ کے فرق کے ساتھ اس طرح آئی ہے:
فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِيْنَ تُمْسُوْنَ وَحِيْنَ تُصْبِحُوْنَ. وَلَهُ الْحَمْدُ فِي السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَعَشِيًّا وَّحِيْنَ تُظْهِرُوْنَ.(الروم ۳۰: ۱۷- ۱۸)
’’اللہ کی پاکی ہے جب تم شام کرتے ہو اور جب صبح کرتے ہو، آسمانوں اور زمین میں اسی کی حمد ہے عشا کے وقت اور جب تم ظہر کرتے ہو۔‘‘
نماز کے اوقات جس طرح قرآن میں بیان ہوئے ہیں، اس سے یہ تلقین نمایاں ہوتی ہے کہ نماز رات اور دن کی تمام سرگرمیوں کو اپنے گھیر ے میں لیے رہے۔
نماز کا سب سے بڑا ادب یہ ہے کہ نماز خشوع کے ساتھ پڑھی جائے۔ سورۂ مومنون میں ارشاد ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ. الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ.( ۲۳: ۱- ۲)
’’وہ مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نمازوں میں خشوع والے ہیں۔‘‘
استاد محترم نے اپنی کتاب ’’میزان‘‘ میں خشوع کو واضح کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’اللہ تعالیٰ کی ہیبت اور اُس کی عظمت وجلال کے صحیح تصور سے جو تواضع، عجز اور فروتنی انسان کے اندر پیدا ہوتی ہے، قرآن اُسے خشوع سے تعبیر کرتا ہے۔یہ ایک قلبی کیفیت ہے جو اُسے خدا کے سامنے بھی جھکاتی ہے۔‘‘(۲۵۴)
مراد یہ کہ نماز پڑھتے وقت اللہ کے حضور عاجزی اور فروتنی کا احساس طاری ہونا چاہیے ، کیونکہ نمازی اس کائنات کے مالک و خالق کے حضور میں اپنی تسبیح و حمد اور دعا و مناجات کے ساتھ حاضر ہوا ہے اور رکوع سجود سے اپنی فروتنی کو مجسم کیے ہوئے ہے۔
منافقین کی نماز پر تنقید کرتے ہوئے قرآن نے یہ بیان کیا ہے کہ ان کی نماز میں خدا کی یاد کم ہی ہوتی ہے اور یہ بے دلی سے آتے ہیں۔ ارشاد ہے:
وَاِذَا قَامُوْ٘ا اِلَي الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰيﶈ يُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَلَا يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِيْلًا.(النساء ۴: ۱۴۲)
’’اور جب یہ نماز کے لیے اٹھتے ہیں تو کسمساتے ہوئے محض لوگوں کو دکھانے کے لیے اٹھتے ہیں اور اللہ کو کم ہی یاد کرتے ہیں۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ مومن صادق کی نماز مستعدی ، آمادگی اور نشاط سے متصف ہوتی ہے اور خدا کے ذکر سے معمور ہوتی ہے۔پھر یہ کہ یہ خلوص کے ساتھ پڑھی جارہی ہوتی ہے۔
نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا:
لَا تَقْرَبُوا الصَّلٰوةَ وَاَنْتُمْ سُكٰرٰي حَتّٰي تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ.(النساء ۴: ۴۳)
’’ جب تم نشے میں ہو تو نماز کی طرف رخ نہ کرو،جب تک جو کہہ رہے ہو، اسے جان کر کہو۔‘‘
اس سے یہ معلوم ہوا کہ نماز کے اذکار، تسبیحات اور دعائیں ذہن کی حاضری کے ساتھ ادا ہونی چاہییں۔ قرآن مجید نے ان سب آداب کو ایک لفظ ’قنوت‘ میں سمو دیا ہے ۔ سورۂ بقرہ میں ہے:
وَقُوْمُوْا لِلّٰهِ قٰنِتِيْنَ.(۲: ۲۳۸)
’’اور اللہ کے لیے قنوت کے ساتھ کھڑے ہو۔‘‘
لفظ ’قنوت‘ بندگی کی تمام کیفیات کا جامع ہے ؛ حاضری ، اطاعت ، عاجزی اور تسلیم و رضا۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث جبریل میں احسان، یعنی کمال بندگی کی وضاحت کرتے ہوئے عبادت کا حقیقی ذوق و شوق پانے کی راہ دکھائی:
قال: ما الإحسان؟ قال: أن تعبد اللّٰه كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنه يراك. (بخاری، رقم ۵۰)
’’پوچھا: احسان کیا ہے؟(جواب میں) فرمایا: تم اللہ کی اس طرح عبادت کرو، جیسے کہ تو اسے دیکھ رہا ہے۔ اگرچہ تم اسے نہیں دیکھتے، وہ تمھیں دیکھتا ہے۔‘‘
نماز الٰہ العٰلمین کے حضور حاضری ہے۔ اس کی قدرت و عظمت کے ادراک کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قول و فعل کا مرقع ہے۔جس بندۂ خدا کے ہاں نماز نہیں ہے ، اس نے بندگی کی مٹھاس نہیں چکھی۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ