HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : ڈاکٹر وسیم مفتی

مہاجرین حبشہ (۲۴)

[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]

حضرت عروہ بن ابو اثاثہ رضی اللہ عنہ

نام و نسب

حضرت عروہ بن ابو اثاثہ كے والد كا نام اثاثہ اور ابو اثاثہ، دونوں طرح نقل كیا گیا ہے۔ عبدالعزیٰ بن حرثان ان كے داد ا اور عدی بن كعب ساتویں جد تھے۔حضرت عروہ كو ان كے دادا كی نسبت سے عروه بن عبدالعزیٰ بھی كہا جاتا ہے۔حضرت عمرو بن العاص حضرت عروه بن ابواثاثہ كے ماں شریك بھائی تھے۔بنوعنزہ كی نابغہ بنت خزیمہ (حرملہ:ابن عبدالبر،حریملہ:ابن اثیر) ان دونوں كی والده تھیں۔حضرت عمرو بن العاص سے برسر منبر سوال كیا گیا تو انھوں نے بتایا:بنو عنزہ كی شاخ بنو جلان كی سلمیٰ بنت حرملہ میری والدہ تھیں،نابغہ ان كا لقب تھا۔ كسی غارت گری میں قید ہو كر بازار عكاظ لائی گئیں تو فاكہ بن مغیرہ نے خرید لیا، اس سے عبدالله بن جدعان نے اور پھر میرے والد عاص بن وائل نے خریدا،تب انھوں نے مجھے جنم دیا(الاستیعاب ۱۱۸۵۔ اسد الغابۃ ۴/ ۱۱۶)۔

عروه یا عمرو

كچھ علماے نسب حضرت عروه بن اثاثہ اور حضرت عمرو بن اثاثہ كو ابو اثاثہ بن عبدالعزی ٰ كے دو بیٹے قرار دیتے ہیں اور ان دونوں كو مہاجرین حبشہ میں شمار كرتے ہیں، ماں ایك ہونے كی وجہ سے دونوں سگے بھائی ہوئے (نسب قریش،مصعب زبیری۳۸۱۔جمہرة انساب العرب،ابن حزم۱۵۸۔ اسدالغابۃ، ابن اثیر۳/۴۰۴،بحوالہ زبیر بن بكار)۔ ابن عبدالبر كہتے ہیں :حضرت عروہ ہی كو عمرو بن ابواثاثہ كہا گیا ہے، گویا یہ ایك ہی شخصیت ہیں۔ اس كے باوجود انھوں نے عمرو كے باب میں حضرت عمرو بن اثاثہ كا الگ ذكر بھی كیا ہے۔ابن سعد نے محض حضرت عروه بن ابواثاثہ كو مہاجرین و انصار كے طبقۂ ثانیہ میں شامل كیا ہے،انھوں نے عمرو بن اثاثہ كا ذكر تك نہیں كیا(الطبقات الكبریٰ،رقم۳۹۹) ۔


شرف اسلام

حضرت عروه بن اثاثہ اسلام كے ابتدائی زمانے میں نور ایمان سے منور ہوئے۔

ہجرت حبشہ

نبی صلی الله علیہ وسلم نے مكہ كے مقہور و مجبور مسلمانوں كو مملكت اكسوم، حبشہ ہجرت كرنے كا مشورہ دیا تو حضرت عروہ بن ابواثاثہ حبشہ كو جانے والے دوسرے قافلے میں شامل ہو گئے۔بنو عدی كے حضرت معمر بن عبدالله،حضرت عدی بن نضلہ اور حضرت نعمان بن عدی بھی ہجرت ثانیہ كے شركا تھے،جب كہ بنو عدی كے حلیف حضرت عامر بن ربیعہ اور ان كی اہلیہ حضرت لیلیٰ بنت ابوحثمہ ہجرت اولیٰ میں حبشہ جا چكے تھے۔

كچھ مؤرخین نے حضرت عروه بن ابواثاثہ كو فتح مكہ كے مہاجرین میں شمار كیا ہے۔ابن اثیر كہتے ہیں:یہ وہم ہے اور كسی كاتب كی غلطی ہے۔اس بیان میں دو غلطیاں ہیں:ایك تو فجر اسلام میں فتح مكہ كے بعد ہجرت ختم ہو گئی تھی،دسرا حضرت عروہ بن ابو اثاثہ قدیم الاسلام تھے اور قیام حبشہ كے دوران میں وفات پا چكے تھے۔

مورث اول

 كتب صحابہ میں یہ روایت نقل ہوئی ہے كہ حضرت عمرو بن اثاثہ ( حضرت عروہ بن ابواثاثہ ) دور اسلام كے پہلے فرد تھے جن كی وراثت منتقل ہوئی۔ اس بات كا درست ہوناممكن نہیں، كیونكہ حضرت عروہ كی اولاد نہ تھی جو ان كی وارث بنتی۔ بلاذری نے وضاحت كی ہے كہ حبشہ میں سب سے پہلے وفات پانے والے مہاجرحضرت عدی بن نضلہ عہد اسلامی كے پہلے مورث تھے۔ ان كے دو بیٹے نعمان اور امیہ ان كے وارث بنے۔حضرت نعمان بن عدی كو خلیفہ ٔ ثانی حضرت عمر فاروق نےموجوده ایران كی سرحد پر واقع عراقی صوبےمیسان كا گورنر بنایا، پھر كچھ عشقیہ اشعار كہنے پر معزول كر دیا اور كہا:اب تو كبھی بھی میرا عامل نہیں بنے گا (انساب الاشراف، بلاذری ۱/۲۴۹۔ جمہرة انساب العرب،ابن حزم۱۵۷۔المنتظم،ابن جوزی۹۹۵)۔ابن سعد نے حضرت عدی بن نضلہ كی تین اولادوں نعمان،نعیم اور آمنہ كا ذكر كیا اور صرف حضرت نعمان بن عدی كا وارث ہونا بتایا ہے (الطبقات الكبریٰ، رقم ۳۹۸)۔

وفات

حضرت عروه بن ابو اثاثہ حبشہ ہجرت كرنے كے بعد دار الہجرت ہی میں انتقال كر گئے۔وفات كا وقت معلوم نہیں۔

وفیات حبشہ

قیام حبشہ كے دوران میں سات صحابہ اور تین صحابیات نے انتقال كیا۔ سب سے پہلے حضرت عدی بن نضلہ نے داعی  اجل كو لبیك كہا۔شاہ نجاشی نے خود ان كی تدفین میں حصہ لیا۔دوسرے وفات پانے والے اصحاب حضرت حاطب بن حارث ، حضرت حطاب بن حارث ، حضرت عبد الله بن حارث ، حضرت عروه بن ابو اثاثہ (عبد العزیٰ)، حضرت عمرو بن امیہ اور حضرت مطلب بن ازہر ہیں۔یہ كل سات ہوئے، جب كہ آٹھویں عبید الله بن جحش نصرانی ہو كر مرے۔حبشہ میں وفات پانے والی تین صحابیات حضرت ام حرملہ بنت عبد الاسوداہلیہ حضرت جہم بن قیس، حضرت ریطہ بنت حارث زوجہ حضرت حارث بن خالد اور حضرت فاطمہ بنت صفوان زوجہ حضرت عمرو بن سعید ہیں۔

 قیام حبشہ كے دوران میں حضرت حارث بن خالد كے ہاں چار بچے ہوئے: موسیٰ،عائشہ،زینب اورفاطمہ۔ ایك روایت كے مطابق چاوں حبشہ ہی میں انتقال كر گئے۔اس طرح مرحومین حبشہ كی تعدادپندرہ مكمل ہوجاتی ہے۔تاہم دوسری روایت كےمطابق موسیٰ،عائشہ اور زینب كا انتقال مدینہ واپسی كے سفرمیں زہر آلود پانی پینے سے ہوا اور فاطمہ زنده رہی۔

مسجد نجاشی كے عقب میں شارع صحابہ پرواقع احاطے میں پندره صحابہ كے مزارات اب بھی موجود ہیں۔ ان میں حضرت عدى بن نضلہ، حضرت حاطب بن حارث، حضرت حطاب بن حارث، حضرت عبدالله بن حارث، حضرت عروہ بن ابو اثاثہ،حضرت مطلب بن ازہر اورحضرت فاطمہ بنت صفوان كی قبروں كی شناخت ممكن ہے۔

 ایتھوپیا كی خانہ جنگی میں مسجد اور مزارات كو شدید نقصان پہنچاتو تركی كی فلاحی تنظيم  TIKAنےمرمت اور تعمیر نوكا كام كیا۔

روایت حدیث

ابتداے اسلام میں وفات پا جانے كی وجہ سےحضرت عروه بن ابو اثاثہ سے كوئی روایت مروی نہیں۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الكبریٰ (ابن سعد)، انساب الاشراف (بلاذری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبد البر)،جمہرة انساب العرب(ابن حزم)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم (ابن جوزی)،اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،تجرید اسماء الصحابۃ (ذہبی)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔

ـــــــــــــــ


محمیہ بن جزء رضی الله عنہ

اجدادو اكابرین

حضرت محمیہ بن جزء كے دادا كا نام عبدیغوث بن عویج تھا۔ زبید اصغرمنبہ بن ربیعہ ان كے پانچویں جد اور زبید اكبرمنبہ بن صعب نویں جد تھے۔ حضرت محمیہ كےبارھو یں جد مالك بن اود كو مذحج بھی كہا جاتاہے،اسی نام سے ان كا قبیلہ منسوب ہے۔یشجب بن عریب ان كے چودھویں اور كہلان بن سبا سترهویں جد تھے۔ حضرت محمیہ اپنے اجداد ،زبید اصغر اور زبید اكبر كی نسبت سے زبیدی كہلاتے ہیں۔

مالك بن اود كے پانچ بیٹے جلدمراد،عنس،سعد العشیرہ اور لمیس ہوئے۔حضرت محمیہ سعد العشیره كی اولاد میں سے ہیں۔ انھیں سعد العشیرہ كا نام اس لیے دیا گیا كہ حج كے دنوں میں وه اپنے دس بیٹوں كےساتھ سفر كرتے اور كہتے:یہ میرا كنبہ ہے(ثمار القلوب فی المضاف و المنسوب،ثعالبی، رقم ۱۴۶۔المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام، جواد علی ۴/ ۱۵۶)۔دوسری روایت كے مطابق ان كی اولاد میں سے تین سو گھڑ سوار ان كے شریك سفر ہوتے (جمہرة انساب العرب،ابن حزم۴۰۵)۔سعد العشیره كے مختلف بیویوں سے جنم لینے والے نو بیٹوں كے نام ہیں: حكم،صعب، نمرہ، جعفی، عائذ الله، اوس الله، زید الله، انس اللہ، حر(جمہرة انساب العرب،ابن حزم ۴۰۷)۔ دوسری روایت كے مطابق ان كے دس بیٹے ہوئے۔

صعب بن سعد العشیرہ كے دو بیٹے اود اور منبہ (زبید اكبر)ہوئے۔ منبہ كے چچاؤں اور چچیروں كی كثرت ہو گئی تو  كہا: كون بنو اود كے خلاف بڑھ چڑھ كر میری مدد كرے گا؟ سب نے ہامی بھر لی تو زبید كے نام سے موسوم ہوگئے۔ منبہ بن صعب زبید اكبراور منبہ بن ربیعہ زبید اصغر كہلانے لگے۔ منبہ بن صعب پر بنو مذحج (مالك بن اود) كی شاخ بنو زبید كی تكمیل ہو جاتی ہے(الطبقات الكبریٰ،رقم ۴۱۶)۔زُبید زُبد كی تصغیر ہے، زُبد كے معنی ہیں: مكھن، كسی بھی شے كا عمده و افضل حصہ، عطا، خیر۔ بنو زبید كی شجاعت مشہور ہے ( بأس زبید۔ الاغانی ۱۲ /۱۷ )۔

 حضرت محمیہ بنوسہم كے حلیف تھے( ابن اسحٰق،ابن عبدالبر،ابن حجر)۔ابن كلبی انھیں بنو جمح كا حلیف بتاتے ہیں۔

دیگر اقارب

حضرت محمیہ كی والده ہند یاخولہ بنت عوف حمیر سے تھیں۔حضرت عباس بن عبدالمطلب كی اہلیہ حضرت ام الفضل لبابہ بنت حارث حضرت محمیہ كی ماں شریك بہن تھیں۔ اصحاب اہل صفہ میں سے حضرت عبدالله بن حارث زبیدی ان كے بھتیجے تھے ۔ حضرت عمرو بن معدی كرب بھی بنو زبید سے تعلق ركھتے تھے۔

قبول اسلام

حضرت محمیہ بن جزء دعوت اسلام کے ابتدائی ایام میں مكہ میں ایمان لائے۔

ہجرت حبشہ

۵ ؍ نبوی میں نبی صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ كو حبشہ نقل مكانی كرنےكا مشوره دیا تو حضرت محمیہ اپنے حلیف قبیلے بنو سہم كے حضرت خنیس بن حذافہ،حضرت عبدالله بن حذافہ، حضرت ہشام بن العاص اور دیگر دس اہل ایمان كے ساتھ حبشہ كی ہجرت ثانیہ میں شریك ہوئے۔

ہجرت مدینہ

حضرت محمیہ بن جزء كی مدینہ آمد كے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔ابن اسحٰق كا كہنا ہے كہ وه ۷ھ میں حضرت جعفر بن ابو طالب اور حضرت عمروبن امیہ ضمری كے ساتھ كشتی پر سوار ہو كر مدینہ پہنچے۔ابن ہشام نے اسی كا تتبع كیا ہے۔بلاذری اور ابن عبدالبر كہتے ہیں كہ وه ۶ھ میں مدینہ پہنچے جب جیش اسلامی غزوۂ مریسیع كے لیے روانہ ہو رہا تھا۔ابن سعد آگے بڑھ كر بتاتے ہیں كہ اسی غزوه میں آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے انھیں خمس كا عامل بنایا۔

غزوۂ بنو المصطلق یا غزوۂ مریسیع

 بنو خزاعہ كی شاخ بنو المصطلق نے جنگ احد میں قریش كا ساتھ دیا تھا، اس كے بعد بھی وه ریاست مدینہ كے خلاف سازشیں كرتے رہے۔ شعبان ۶ھ(ابن ہشام،طبری،ابن اثیر ۔شعبان ۵ھ: ابن سعد،ابن جوزی)میں نبی صلی الله علیہ وسلم كو خبر ملی كہ ان كے سر دا ر حارث بن ضرارنے اپنی قوم اور زیر اثر افراد كو ملا كر ایك فوج جمع كر لی ہے ۔ چنانچہ آپ سات سو صحابہ اور تیس گھوڑے لے كر مقابلے كے لیے نكلے۔اسی اثنا میں حضرت محمیہ بن جزء مدینہ پہنچے، انھیں بھی اپنے پہلے غزوه میں شریك ہونے كا موقع ملا(انساب الاشراف، بلاذری ۱/۲۴۸۔ الاستیعاب،ابن عبدالبر،رقم۲۵۲۴)۔

قُدید كے قریب مریسیع كے ذخیرۂ آب(یاكنویں) پر دونوں فوجوں كا سامنا ہوا۔ ان کے دس افراد ہلاک ہوگئے تو وہ فرار ہونا شروع ہو گئے۔ دو ہزار اونٹ اور پانچ ہزار بھیڑیں مسلمانوں كو مال غنیمت کے طور پر ملے۔ لاتعداد مرد، عورتیں اور بچے بھی اسیران جنگ میں شامل تھے۔اسی غزوه كے بعد ام المومنین حضرت جویریہ بنت حارث ،قید سے آزاد ہونے كے بعد نبی صلی الله علیہ وسلم كے عقد میں آئیں اور اسی كے بعد افك سیده عائشہ كا واقعہ پیش آیا ۔

 ابن سعدكے بیان كے مطابق غزوۂ بنوالمصطلق یا غزوۂ مریسیع ہی میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت محمیہ بن جزء کو خمس کا عامل مقرر فرمایا(الطبقات الكبریٰ،ابن سعد ۱/۳۹۰)۔ آپ نے مال غنیمت سے خمس نكالا اور حضرت محمیہ كے پاس جمع كرا دیا۔اسی میں سے آپ حسب منشا تصرف فرماتےرہے ۔

وكیل نبی

ذی القعد ۷ھ:حضرت میمونہ بنت حارث آخری ام المومنین تھیں جو نبی صلی الله علیہ وسلم كے عقد میں آئیں۔ حضرت عبدالله بن عباس روایت كرتے ہیں: آپ نے حضرت محمیہ بن جزء اور دوسرے دو اصحاب كو نكاح كا پیغام دے كر مكہ بھیجا۔حضرت میمونہ نے فیصلہ اپنی اور حضرت محمیہ كی بہن حضرت ام الفضل بنت حارث پر چھوڑ دیا ،انھوں نے معاملہ اپنے شوہر حضرت عباس بن عبدالمطلب كے سپرد كردیا۔چنانچہ حضرت عباس نے حضرت میمونہ كا نكاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے كیا(سنن دار قطنی، رقم ۳۶۰۳) ۔ ابن سعد كہتے ہیں: آپ نے مكہ روانہ ہونے سے پہلے حضرت اوس بن خولی انصاری اور حضرت ابورافع كو پیام نكاح دے كر حضرت عباس كے پاس بھیجا (الطبقات الكبریٰ،رقم ۴۱۲۹)۔ ابن سعد نے وضاحت نہیں كی، شاید ان كی مراد آپ كے آزاد كردہ حضرت ابورافع اسلم قبطی ہیں۔

سریۂ ابو حدرد یا سر یۂ خضره

شعبان ۸ھ: مدینہ سے سات میل دور وادیوں اور جنگلوں پر مشتمل غابہ كے مقام پربنو قیس كی شاخ بنوجشم كے رفاعہ بن قیس نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے جنگ كرنے كے لیے فوج جمع كرنا شروع كی تو آپ نے حضرت ابوحدرد اسلمی كی قیادت میں تین (سولہ:طبری) اصحاب پر مشتمل سریہ روانہ كیا۔ حضرت ابوقتادہ بھی اس میں شامل تھے۔ غابہ پہنچ كر حضرت ابوحدرد اور ان كے ساتھی گھات لگا كر بیٹھ گئے اور جونہی رفاعہ سامنے آیا ،حضرت ابوحدرد نے اس كا سینہ تیر سے چھلنی كر دیا ،اس كے مرنے كے بعد اس كی قوم منتشر ہو گئی ۔ حضرت ابوحدرد رفاعہ كاكٹا سر ، مال غنیمت سے لدے ہوئے باره اونٹ اور چار قیدی عورتیں مدینہ لائے۔ ان میں سے ایک خوب صورت باندی حضرت ابوقتاده كے حصے میں آئی ۔ حضرت محمیہ بن جزء نے اسے حاصل كرنے كے لیے آپ سے درخواست كی اور كہا:آپ نے پہلے مال فے میں سے مجھے باندی دینے كا وعده كیا تھا۔ آپ نے حضرت ابوقتاده سے پوچھا تو انھوں نے بتایا كہ میں نے اپنے حصے كا مال غنیمت دے كر اسے خریدا ہے۔ آپ نے فرمایا: یہ مجھے ہبہ كر دو۔ آپ كو مل گئی تو آپ نے حضرت محمیہ كو ہبہ كر دی (تاريخ الامم والملوك، طبری ۲/ ۱۴۸)۔

ابن سعد كا اس سریہ كے بارے میں بیان مختلف ہے، جسے ابن جوزی نے بھی اختیار كیا ہے۔رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ابوقتاده بن ربعی كی سربراہی میں پندره اصحاب پر مشتمل ایك سریہ مدینہ كے جنوب میں واقع وادی خضره بھیجا، جہاں بنوغطفان آماده بہ جنگ تھے۔آپ نے حكم دیا كہ رات كو سفر كرو اور دن كو چھپے رہو۔ قتال كے بعد دوسو اونٹ،دو ہزار بكریاں اور بےشمار قیدی ان كے ہاتھ آئے۔خمس نكالنے كے بعدہر صحابی كے حصہ میں باره اونٹ آئے ،حضرت ابوقتاده كو ایك خوب صورت باندی ملی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لے لی اور حضرت محمیہ بن جزء كو ہبہ كر دی (الطبقات الكبری، ابن سعد ۱/ ۴۳۹۔ كتاب المغازی، واقدی ۲/ ۷۸۰۔ المنتظم،  ابن جوزی۸۳۶)۔

صدقات اور آل محمد

حضرت ربیعہ بن حارث اور حضرت عباس بن عبدالمطلب نے اپنے بیٹوں حضرت عبد المطلب اور حضرت فضل سے كہا:رسول الله صلی الله علیہ وسلم كے پاس جاؤ اور ان سے درخوا ست كرو كہ انھیں زكوٰة و صدقات وصول كرنے كا عامل مقررفرما دیں تاكہ وہی ذمہ داری ادا كریں جو عاملین زكوٰة ادا كرتے ہیں اور وہی معاوضہ لیں جو وه لیتے ہیں ۔اس اثنا میں حضرت علی آگئے اور انھوں نے منع كیا كہ انھیں نہ بھیجو، كیونكہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہرگز نہ مانیں گے۔حضرت ربیعہ بن حارث ناراض ہو كر بولے :علی، آپ حسد كی وجہ سے ایسا كہہ رہے ہیں۔آپ كو نبی صلی الله علیہ وسلم كی دامادی كا شرف حاصل ہے، لیكن ہم آپ سے حسد نہیں كرتے۔ حضرت علی نے تكرار نہ كی اور كہا:بھیج دو ان دونوں كو، اور خود لیٹ كر ان كی واپسی كا انتظار كرنے لگے۔ نبی صلی الله علیہ وسلم ظہر كی نماز پڑھا كر ام المومنین حضرت زینب بنت جحش كے حجرے كی طرف جانے لگے تو یہ دونوں پہلے ہی وہاں پہنچ گئے ۔آپ نے ان كے كان مروڑ كر فرمایا: ظاہر كردو جو تم نے دل میں جمع كر ركھا ہے۔دونوں حجرے میں داخل ہوئے اور ایك بولا : یا رسول الله ،آپ سب سے زیاده حسن سلوك اور صلۂ رحمی كرنے والے ہیں،ہمار ی شادی كی عمر ہو رہی ہے اورہمارے والدین كے پاس مہر میں دینے كے لیے كچھ نہیں۔ہم اس لیے حاضر ہوئے ہیں كہ ہمیں زكوٰ ة كی كوئی مد وصول كرنے كا عامل مقررفرما دیں تاكہ ہم وہی ذمہ داری ادا كریں جو لوگ اداكرتے ہیں اور وہی معاوضہ لیں جو دوسرے لیتے ہیں ۔ آپ نے طویل سكوت كیا،پھر فرمایا :محمد اور آل محمد كو صدقہ نہ لینا چاہیے ،یہ لوگوں كی میل كچیل ہوتے ہیں۔ خمس كے عامل محمیہ بن جز ء اورنوفل بن حارث كو بلاؤ۔  وه حاضر ہوئے تو آپ نے حضرت محمیہ كو ارشاد كیا كہ اس لڑكے فضل بن عباس سے اپنی بیٹی بیاه دو ۔پھر حضرت نوفل بن حارث سے فرمایا:اپنی بیٹی كا نكاح اس لڑكے عبدالمطلب بن ربیعہ سے كر دو۔ آخر میں حضرت محمیہ كو حكم دیا: خمس میں سے ان دونو ں كی بیویوں كے مہر ادا كردو (مسلم، رقم ۲۴۸۱۔ ابوداؤد، رقم ۲۹۸۴۔ احمد: المعجم الكبیر، طبرانی، رقم ۴۵۶۶۔ السنن الكبریٰ، بیہقی، رقم ۱۳۲۳۹۔ صحیح ابن حبان ، رقم ۴۵۲۶۔ صحیح ابن خزیمہ، رقم ۲۳۴۲) ۔

عہد فاروقی

رجب ۱۳ھ:حضرت ابوبكركی وفات كے بعد حضرت شداد بن اوس،حضرت محمیہ بن جزء اور خلیفہ ٔ ثانی حضرت عمر كے غلام یرفا حضرت ابوبكر كی وفات، حضرت عمر كے خلیفہ بننے كی خبر پہنچانے اور حضرت خالد بن ولید كی معزولی كا حكم سنانے شام پہنچے۔ابن ہشام نے یرفا كا نام نہیں لیا۔ اسلامی فوج اس وقت یاقوصہ (یرموك: ابن ہشام) میں رومیوں كے ساتھ برسرپیكار تھی، اس لیے انھوں نے فتح حاصل ہونے كا انتظار كیا اور اس كے بعد خلیفۂ ثانی كے انتخاب كی خبر، حضرت خالد كی معزولی اور حضرت ابوعبیدہ بن الجراح كی تعیناتی كے بارے میں ان كا حكم سنایا۔

وفات

شاذ روایت كے مطابق حضرت محمیہ بن جزء نے فتح مصر میں حصہ لیا ، وہیں قیام پذیر ہوئے اور وہیں وفات پائی۔

اولاد

حضرت محمیہ بن جزء كی ایك بیٹی حضرت عمرو بن العاص كے بیٹے عبدالله سے بیاہی ہوئی تھی، اسی سے ان كا بیٹا محمد پیدا ہوا، جس سے وه ابومحمد كنیت كرتے تھے۔ دوسری بیٹی كا نكاح آں حضور صلی الله علیہ وسلم نے خود حضرت عباس بن عبدالمطلب كے بیٹے حضرت فضل بن عباس سے كرایا اور ان سے كلثوم كی ولادت ہوئی۔

مطالعۂ مزید: السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق)،السیرة النبویۃ(ابن ہشام)،الطبقات الكبریٰ(ابن سعد)،انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم و الملوك(طبری)،الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب(ابن عبد البر)، المنتظم فی تواریخ الملوك والامم(ابن جوزی)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)،البدایۃ والنہایۃ (ابن كثیر)،  الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B