HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

متفرق سوالات

جاوید احمد غامدی / طالب محسن

’’اشراق‘‘ کے نام خطوط میں پوچھے گئے قارئین کے سوالات پر مبنی مختصر جوابات کا سلسلہ


انفاق کا ایک مسئلہ  


سوال: ایک صاحبِ علم کہتے ہیں کہ ہمارے پاس اپنی ضرورتوں سے جو زائد مال ہے وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرنا چاہیے۔ میں سوچتا ہوں کہ اگر میں اپنی حال اور مستقبل کی ضرورتوں کا لحاظ کروں تو شاید کچھ بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کر سکوں۔ میری تین بیٹیاں ہیں۔ رہنے کے لیے گھر نہیں ہے۔ اگر میں گھر بنانے اور بیٹیوں کی شادی کے لیے پس انداز کرنا شروع کروں تو اللہ کی راہ میں ایک پیسہ بھی خرچ نہ کر سکوں۔  

میرا دل یہ کہتا ہے کہ اگر کوئی ضرورت مند ہے تو جو کچھ ہاتھ میں ہے وہ اسے دے دوں۔ میرا اللہ مالک ہے۔ میں اس کے بندوں کی مدد اس کی رضا کے لیے کروں گا تو وہ میری مدد ضرور کرے گا۔ لیکن وہ صاحبِ علم کہتے ہیں کہ یہ انتہا پسندی ہے اور یہ اسلامی رویہ نہیں ہے ۔ 

اب چونکہ ایک مثال میرے سامنے ہے تو آپ کی رائے جاننا آسان ہو گا۔ اخبار میں ایک خاتون کی حسبِ ذیل اپیل ’’دکھی ماں کی اپیل‘‘ کے عنوان سے چھپی ہے: 

’’میری اٹھارہ سالہ نوجوان بیٹی تین سال خون کے کینسر میں مبتلا رہی۔ اسے مرض الموت سے بچانے کے لیے ہم نے سرتوڑ کوشش کی۔ اخبارات اور کالم نگاروں نے اس کوشش میں ہمارا بھر پور ساتھ دیا۔ سابق  وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو نے اس کے علاج کے لیے بیرونِ ملک بھجوانے کی منظوری بھی دی۔ مگر نوکر شاہی نے روڑے اٹکائے اور وزیرِ اعظم کی منظوری کے باوجود ڈیڑھ سال کے طویل انتظار کے بعد ہماری بیٹی بغیر علاج موت کے منہ میں چلی گئی۔ یوں ہماری بیٹی تو مرکر تمام دکھوں سے بے نیاز ہو گئی۔ مگر ہم لوگ زندہ درگور ہو گئے ہیں۔ کیونکہ اپنی بیٹی کی تین سالہ بیماری کے دوران میں ہمارا گھر بار بک گیا۔ ہمارے دیگر بچوں کی تعلیم ختم ہو گئی اور ہم لوگ تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے کے مقروض ہو گئے۔ اب ایک طرف نوجوان بیٹی کی موت کا غم ہے اور دوسری طرف قرض خواہوں نے اس قدر پریشان کر رکھا ہے کہ جینا دوبھر ہو گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ مصیبت اکیلے نہیں آتی۔ اب کچھ عرصہ سے میرا خاوند گردے کے مرض میں مبتلا ہو گیا ہے اور کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔ یوں ہماری مالی حالت مزید خراب ہو گئی ہے اور کئی دفعہ تو نوبت فاقوں تک پہنچ جاتی ہے۔ اپنے سابقہ تلخ تجربات کی بنا پر مجھے حکومتی اداروں سے کوئی امید تو نہیں مگر مجبوراً ایک بار پھر اپیل کرتی ہوں کہ میری مدد کی جائے۔ امید ہے کہ اہلِ ثروت بھی ہماری مدد کریں گے۔‘‘ ( آفتاب بیگم معرفت شیخ طاہرمحمود مکان نمبر ایف ۵۴۳، مسلم کالونی، آریہ محلہ، راولپنڈی)

 میں نے برسوں کی نوکری میں تقریباً ڈیڑھ لاکھ بچایا ہے۔ اتنی ہی رقم کی اس خاتون کو ضرورت ہے۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ اپنی ساری بچت ان کو دے دوں تاکہ ان کا مسئلہ حل ہو جائے۔ پھر اس صاحبِ علم کی باتیں یاد آئیں۔ آپ سے درخواست ہے کہ مجھے بتائیں کہ صحیح اسلامی رویہ کیا ہے تاکہ آیندہ بھی ایسے معاملات میں وہ میرے لیے رہنما اصول کے طور پر رہے۔  

جواب: اپنی ضرورت پر دوسروں کی ضرورت کو ترجیح دینا نہایت پسندیدہ صفت ہے۔ اسے انتہا پسندی کیسے قرار دیا جا سکتا ہے؟ قرآنِ مجید نے انصار کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: ’ویوثرون علی انفسھم ولو کان بھم خصاصة‘ ۱؎۔ تاہم اس کے لیے بڑا حوصلہ چاہیے اور یہ حوصلہ ہر شخص میں نہیں ہوتا۔ آدمی اس طرح کا کوئی اقدام اپنے پروردگار پر بڑے اعتماد اور توکل ہی کے ساتھ کر سکتا ہے۔ یہ چیز میسر نہ ہو تو اس راستے پر قدم نہیں رکھنا چاہیے۔ (جاوید احمد غامدی)


اسوۂ نبی اور تمدن  


سوال: آپ نے ایک تقریر میں فرمایا ہے کہ خدا کی سچی محبت پیدا کرنے کا ایک نسخہ قرآن نے یہ بتایا ہے کہ ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اتباع کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اختیار کریں پھر آپ نے یہ کہا کہ مگر یہاں یہ بات پیشِ نظر رکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ نمونہ، حضور کے تمدن یا آپ کی شخصی زندگی میں نہیں ہے۔  

مجھے اس فقرے کی تفہیم میں دشواری ہو رہی ہے۔ کیا واقعی آپ اسوۂ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس تقسیم کے قائل ہیں ؟ 


جواب: نبی صلی اللہ علیہ وسلم دین و اخلاق سے متعلق تمام معاملات میں ہمارے لیے واجب الاطاعت ہادی اور اسوۂ حسنہ ہیں۔ اس دائرے سے باہر کی چیزیں مثلاً یہ کہ آپ ایک خاص طرح کا کرتا پہنتے اور تہ بند باندھتے تھے، سر پر عمامہ رکھتے تھے، آنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے، خچر پر سواری کرتے تھے، ایک خاص طرزِ تعمیر کے مطابق بنے ہوئے گھر میں رہتے تھے، کھانے پینے میں بعض چیزوں کو طبعاً پسند اور بعض کو ناپسند فرماتے تھے، جنگ میں تیر، تلوار اور گھوڑے اور اونٹ استعمال کرتے تھے، وغیرہ ہرگز اسوہ نہیں ہیں اور نہ دین و شریعت کی رو سے ان کا اتباع کوئی مطلوب چیز ہے۔ میرے جن جملوں کو سمجھنے میں آپ کو دقت ہوئی ان سے میرا مدعا یہی تھا۔ اس کے بعد بھی کوئی اشکال باقی رہے تو مجھے وضاحت سے خوشی ہو گی۔ (جاوید احمد غامدی)  



بنی اسماعیل

سوال: آپ حضرات مشہور حدیث ’امرت ان اقاتل الناس‘ (مجھے لوگوں کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔) میں ’الناس‘ کو بنی اسماعیل کے ساتھ خاص قرار دیتے ہیں۔ اس کی دلیل کیا ہے؟

جواب: یہ قاعدہ ہر زبان میں موجود ہے کہ لفظ اپنے اطلاق میں عام ہے لیکن متکلم کا منشا عام نہیں ہوتا۔ مثلاً دیکھیے، آپ کہتے ہیں کہ استاد نے طلبہ کو مضمون لکھنے کے لیے کہا۔ اس میں طلبہ کا لفظ اگرچہ عام ہے لیکن اس سے ایک متعین اسکول کی متعین کس کے طلبہ مراد ہیں۔ اس تعیین کے قرائن بعض اوقات تحریر کے سیاق و سباق میں اور بعض اوقات خارج میں موجود ہوتے ہیں۔ یہی معاملہ اس حدیث کے زیرِ بحث جملے کا بھی ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اگرچہ یہی فرمایا ہے کہ مجھے ’لوگوں‘ کے ساتھ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے لیکن اس سے سارے لوگ مراد نہیں ہیں۔ اس تخصیص کی دلیل خود قرآنِ مجید میں موجود ہے۔ سورۂ توبہ میں بنی اسماعیل کے معاملے میں تو یہی حکم دیا گیا ہے کہ وہ ایمان نہ لائیں تو انھیں قتل کر دیا جائے۔ لیکن یہود و نصاریٰ کے معاملے میں اس کے برعکس جزیہ لے کر ماتحت شہریوں کی حیثیت سے رکھنے کا حکم دیا گیا اور انھیں قتل کر دینے کا حکم نہیں دیا گیا۔ اس سے یہ بات یقینی طور پر متعین ہو جاتی ہے کہ حدیث میں ’’لوگ‘‘ کا لفظ عام نہیں خاص ہے۔ (طالب محسن)  



فکرِ پرویز

سوال: غلام احمد پرویز کی فکر کیا ہے، کیا وہ مسلمان ہیں؟

جواب: غلام احمد صاحب پرویز اس دور کی باقیات میں سے ہیں جب جدید سائنس اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے افکار نے مذہب کو چیلنج کیا تھا اور اس کے نتیجے میں بعض لوگ دین کو قابلِ قبول بنانے کے لیے دین کی صورت تبدیل کرنے پر راضی ہو گئے۔  

پرویز صاحب کے بارے میں یہ بات غلط ہے کہ وہ حدیث کے منکر ہیں۔ حقیقت میں وہ ہر اس بات کے منکر ہیں جو جدید فکری ذہن کو قبول نہیں ہے خواہ وہ قرآنِ مجید ہی میں کیوں نہ بیان ہوئی ہو۔ 

جہاں تک ان کے مسلمان ہونے کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں ہم یہی کہتے ہیں کہ کسی عام آدمی یا عالم کا کسی کو غیر مسلم قرار دینا ایک خلافِ دین امر ہے۔ ہمارا کام صرف یہ ہے کہ ہم دوسرے کو اس کی غلطی بتا دیں۔  (طالب محسن)


’مشرق‘ اور ’مغرب‘ کے معنی

سوال: قرآن مجید میں مشرق اور مغرب کے الفاظ کیوں آئے ہیں۔ سائنس دانوں کے نزدیک نہ سورج طلوع ہوتا ہے نہ غروب؟

جواب: قرآنِ مجید میں مغرب اور مشرق کے الفاظ اپنے معروف معنی میں استعمال ہوئے ہیں۔ سائنسی حقیقت نہ قرآن میں زیرِ بحث ہے نہ ان الفاظ سے اس کے متضاد کوئی مفہوم نکلتا ہے۔ سورج کا نکلنا اور غروب ہونا اہلِ زمین کا آنکھ سے روز مرہ کا مشاہدہ ہے۔ سائنس کی تحقیقات سے معلوم ہوا کہ یہ مشاہدہ زمین کی محوری گردش کا مرہون ہے۔ قرآنِ مجید کے اولین مخاطب ان باتوں سے ناواقف تھے۔ لہٰذا ان کی سطح کے مطابق ان سے بات کی گئی ہے۔ یہاں یہ بات بھی آپ کے لیے دل چسپی کا باعث ہو گی کہ یہی سائنس دان اپنی روزمرہ کی گفتگو میں سورج کے طلوع و غروب اور مشرق و مغرب کے الفاظ اپنے روایتی معنی ہی میں بولتے ہیں۔ (طالب محسن) 

___________

۱؎  الحشر ۵۹: ۹۔ ’’ اور وہ ان کو اپنے اوپر ترجیح دے رہے ہیں اگرچہ انھیں خود احتیاج ہو۔‘‘

B