(زیر ترتیب کتاب ’’قرآن وسنت کا باہمی تعلق“ کی ایک فصل)
ہم تفصیل سے دیکھ چکے ہیں کہ قرآن اور اخبار آحاد کے باہمی تعلق کے حوالے سے امام شافعی کے پیش کردہ نقطۂ نظر اور استدلال کے مقابلے میں حنفی فقہا نے اپنا متوازی نقطۂ نظر پوری قوت کے ساتھ پیش کرنے کی ضرورت محسوس کی، جس کا حاصل یہ ہے کہ قرآن کے مجمل احکام کی توضیح وتفصیل اور قرآن کے ظاہری عمومات کی تحدید وتقیید کے حوالے سے سنت کی اہمیت اور اس کا عملی کردار فقہاے اسلام کے ہاں مسلم ہے۔ تاہم جہاں قرآن میں ایسے مجمل احکام کا پایا جانا مسلم ہے جو مختلف پہلوؤں سے توضیح و تفصیل کا تقاضا کرتے ہیں، وہاں اس نکتے کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ اس کے بہت سے احکام فی نفسہٖ واضح ہیں اور ان احکام میں عموم کا مراد ہونا بھی ظاہری قرائن سے صاف سمجھ میں آتا ہے۔ ایسی صورت میں اگر کوئی روایت قرآن کے حکم کی تحدید یا اس میں کوئی اضافہ کر رہی ہو تو حنفی فقہا کے نزدیک اس طرح کی تمام تخصیصات، تقییدات اور زیادات کو نسخ کا عنوان دیا جاتا ہے اور ایسی تخصیص کو قبول کرنے کے لیے یہ شرط عائد کرتے ہیں جس حدیث کی بنیاد پر تخصیص کی جا رہی ہے، وہ خبر واحد نہیں، بلکہ مشہور ومستفیض حدیث ہو یا اگر خبر واحد ہو تو اسے فقہا کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہو۔ اگر خبر واحد ان میں سے کسی بھی معیار پر پوری نہ اترتی ہو تو احناف اسے متعارض ہونے کی بنیاد پر ترک کر دیتے ہیں۔
فقہاے احناف کے مذکورہ موقف کے حوالے سے مختصراً یہ دیکھنا مناسب ہوگا کہ اس پر جمہور اصولیین کی طرف سے کس نوعیت کی تنقیدات سامنے آئیں اور احناف نے ان اعتراضات کے حوالے سے کیا پوزیشن اختیار کی ۔
ائمۂ احناف کے زاویۂ نظر پر باقاعدہ علمی تنقید کا آغاز امام شافعی نے کیا تھا اور ’’ کتاب الام‘‘ کے متعدد مقامات کے علاوہ خاص طور پر ’كتاب الدعوٰي والبينات‘ میں ’الخلاف في الیمین مع الشاھد‘ کے زیر عنوان طویل بحث میں امام شافعی نے قرآن کے ظاہری عموم سے استدلال کے حوالے سے حنفی فقہا کے انداز فکر پر اپنا نقد بے شمار مثالوں اور تفصیلی تجزیے کے ساتھ پیش کیا ہے۔
نا امام شافعی کی تنقید کا محوری نکتہ یہ ہے کہ قرآن کے ظاہر کو قطعی یا محتمل سمجھنے اور اخبار آحاد کو قرآن کا بیان یا اس کے معارض تصور کرنے کے حوالے سے احناف کے منہج میں تضاد پایا جاتا ہے۔ چنانچہ وہ ’الیمین مع الشاھد‘ کی روایت کو تو قرآن کے ظاہر کے معارض ہونے کی بنا پر رد کر دیتے ہیں، لیکن اس کے علاوہ درجنوں مسائل، مثلاً مسح علی الخفین، نصاب سرقہ، زنا کی سزا ، قاتل اور غیر مسلم کو وراثت سے محروم قرار دینے، قرض کی ادائیگی کو وصیت سے مقدم کرنے، حق وصیت کو ایک تہائی تک محدود کرنے، کچلی والے درندوں کے گوشت کی حرمت اور اس جیسے دیگر کئی مسائل میں وہ اخبار آحاد سے ثابت احکام کو قبول کرتے ہیں، اگرچہ وہ بظاہر قرآن کے عموم کے خلاف ہیں۔[1]
اس اعتراض کے جواب میں امام شافعی نے احناف کی طرف سے اس وضاحت کا ذکر کیا ہے کہ وہ صرف ایسی احادیث سے قرآن کے عموم میں تخصیص کے قائل ہیں جو مشہور ومعروف اور بہت سے صحابہ سے مروی ہوں۔ تاہم امام شافعی کے نزدیک یہ وضاحت تشفی بخش نہیں، کیونکہ بعض مثالوں میں احناف نے ایسی احادیث سے بھی قرآن کے ظاہر کی تخصیص کو قبول کیا ہے جنھیں صحت کے ساتھ صرف ایک صحابی نے نقل کیا ہے، جیسے پھوپھی اور بھتیجی سے بہ یک وقت نکاح کی ممانعت کے راوی صرف ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں اور پانچ وسق سے کم غلے میں زکوٰة واجب نہ ہونے کی روایت صرف ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے روایت کی ہے [2]، بلکہ بعض مثالوں میں مختلف فیہ احادیث کو بھی احناف نے جواز تخصیص کی بنیاد مانا ہے، جیسے وارث کے حق میں وصیت کے عدم جواز کی روایت جو علماے حدیث کے نزدیک سنداً ثابت نہیں۔ [3] اسی طرح احناف ایسی صورت میں جب شوہر محدود فی القذف ہو اور اپنی بیوی پر زنا کا الزام لگائے، دونوں کے مابین لعان کے قائل نہیں، جب کہ اس ضمن میں عمرو بن شعیب کی نقل کردہ حدیث کم زور اور ناقابل استدلال ہے۔ [4]
اس سے بھی بڑھ کر بعض مثالوں میں احناف نے حدیث کے بغیر، بعض صحابہ کے قول کی بنا پر ظاہر قرآن میں زیادت کو قبول کیا ہے۔ مثلاً قرآن میں بیوی سے ہم بستری سے پہلے اسے طلاق دینے کی صورت میں نصف مہر کی ادائیگی لازم قرار دی گئی ہے، لیکن احناف سیدنا عمر کے قول کی بنیاد پر کہتے ہیں کہ خلوت صحیحہ کی صورت میں ہم بستری کے بغیر بھی پورا مہر ادا کرنا لازم ہوگا۔[5] اسی طرح حالت احرام میں قرآن نے عمداً جانور کا شکار کرنے پر کفارے کی ادائیگی لازم کی ہے، لیکن احناف سیدنا عمر اور عبد الرحمٰن رضی اللہ عنہما کے آثار کی روشنی میں غلطی سے جانور کو قتل کرنے والے پر بھی کفارہ لازم قرار دیتے ہیں۔[6]
احناف کے منہج میں تضاد کے اس اعتراض کو امام شافعی کے بعد دیگر اصولیین نے بھی بیان کیا ہے [7] اور اس حوالے سے سب سے مفصل بحث علامہ ابن القیم کے ہاں ملتی ہے جنھوں نے حنفی فقہا کے اجتہادات میں دو درجن سے زائد ایسی مثالیں پیش کر کے جن میں انھوں نے اخبار آحاد سے قرآن کی تخصیص یا اس پر زیادت کو قبول کیا ہے، ان کے منہج کے تناقض کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے۔[8]
تاہم ذرا غور سے واضح ہوتا ہے کہ جمہور اصولیین کا یہ اعتراض علمی طور پر زیادہ وزنی نہیں، کیونکہ احناف جس طرح اپنے اصولی موقف کی تفصیل بیان کرتے اور تخصیص وزیادت کو قبول کرنے یا نہ کرنے کے لیے جن قیود وشرائط کی وضاحت کرتے ہیں، ان کو پیش نظر رکھتے ہوئے منطقی طور پر ان کے انداز فکر کو داخلی تضاد پر مبنی کہنا درست معلوم نہیں ہوتا۔ حنفی فقہا کا موقف، جیسا کہ تفصیلاً واضح کیا گیا، یہ نہیں کہ کتاب اللہ کا ظاہری عموم ہر ہر حالت میں یقینی طور پر مراد ہوتا ہے اور کسی بھی حالت میں اپنی وضاحت کے لیے اخبار آحاد کا محتاج نہیں ہوتا۔ ان کا اختلاف جمہور اہل علم سے اس نکتے میں ہے کہ کتاب اللہ کا ظاہر مطلقاً اور ہر حالت میں محتمل الدلالۃ ہوتا ہے اور شارع کی طرف سے کسی حکم کے متعلق کسی بھی نوعیت کی مزید توضیح کو اصل حکم ہی کی مراد کا بیان سمجھنالازم ہے۔
احناف کا کہنا یہ ہے کہ اصل حکم کے علاوہ وارد ہونے والی اضافی توضیحات کی نوعیت کا تعین خود اصل حکم کے اسلوب اور ا س کو محیط قرائن پر منحصر ہے۔ اگر حکم کے اسلوب یا اس کی تفسیر میں سلف کے اختلاف سے یہ واضح ہو رہا ہو کہ اس کی دلالت عموم پر قطعی نہیں ہے تو بلاشبہ اس کی تخصیص وتقیید وغیرہ کو اصل حکم ہی کی تبیین کہا جا سکتا ہے، لیکن اگر اصل حکم کا اسلوب بیان اور اس کو محیط قرائن یہ واضح کرتے ہوں کہ یہ ایک مکمل حکم کا بیان ہے اور اس کا ظاہری عموم ہی مراد ہے تو پھر بعد میں وارد ہونے والی توضیحات کی نوعیت تبیین کے بجائے نسخ اور تغییر کی ہوگی۔ اس بنیادی مقدمے کی روشنی میں احناف نے کتاب اللہ کے قطعی عموم میں تخصیص یا زیادت کے لیے حدیث کے مشہور ومستفیض ہونے یا خبر واحد کی صورت میں اہل علم کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہونے کی شرط عائد کی اور اس معیار پر پورا اترنے والی بہت سی احادیث کی روشنی میں تخصیص یا زیادت کو قبول کرتے ہوئے بعض اخبار آحاد کو جنھیں تلقی بالقبول حاصل نہیں تھا، قرآن کے ظاہر کے معارض ہونے کی بنا پر رد کر دیا۔
اس ضمن میں قرآن کے عمومات کی تخصیص کی جتنی بھی مثالوں کا ذکر امام شافعی یا امام ابن القیم نے کیا ہے، ان سب کی توجیہ حنفی اصولیین ایسے انداز سے کرتے ہیں کہ ان کا قراردادہ اصول برقرار رہتا ہے اور کسی بھی مثال میں خبر واحد کی تخصیص کو قبول کرنے یا نہ کرنے کی وجہ بتائی جا سکتی ہے۔ چنانچہ امام ابوبکر الجصاص نے ’’الفصول فی الاصول‘‘ کے ’الباب الثامن‘ میں ناقدین کے اس اعتراض سے بھی تعرض کیا اور مختلف مثالوں کے حوالے سے احناف کے موقف کی وضاحت کی ہے۔ ان میں سے بیش تر مثالوں کا ذکر احناف کے اصولی موقف کے ذیل میں ہو چکا ہے، تاہم زیر بحث اعتراض کے تناظر میں ان کا اعادہ یہاں مفید ہوگا۔
۱۔ معترض کا اعتراض یہ ہے کہ احناف نے پھوپھی اور بھتیجی کے ساتھ بہ یک وقت نکاح کی ممانعت کے حوالے سے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت کو قبول کیا ہے، حالاں کہ یہ خبر واحد ہے اور قرآن کی دو عام آیتوں ’وَاُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ‘اور ’فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ‘ کی تخصیص کر رہی ہے۔
جصاص اس کے جواب میں لکھتے ہیں کہ اس روایت کو ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ ابن عباس اور ابو سعید خدری رضی اللہ عنہما وغیرہ نے بھی نقل کیا ہے، اور سلف کی طرف سے تلقی بالقبول حاصل ہونے کی وجہ سے یہ حدیث خبر متواتر کے درجے میں آ چکی ہے جس کے ذریعے سے قرآن کے حکم میں تبدیلی جائز ہے۔ جہاں تک ’فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ‘ کا تعلق ہے تو اس کی دلالت، عموم کے مراد ہونے پر قطعی نہیں، کیونکہ فقہا کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ اباحت، مطلق نہیں، بلکہ شریعت میں وارد دیگر شرائط اور نواہی کی رعایت کے ساتھ مشروط ہے۔[9]
۲۔ معترض کا اعتراض ہے کہ احناف نے ابو ثعلبہ خشنی، حکم بن عمرو الغفاری اور مقداد بن معدی کرب رضی اللہ عنہم کی نقل کردہ اخبار آحاد کی بنیاد پر، جن میں تمام کچلی والے درندوں، چنگال والے پرندوں اور گھریلو گدھوں کا گوشت کھانے کی ممانعت کی گئی ہے، قرآن کی عام آیت ’قُلْ لَّا٘ اَجِدُ فِيْ مَا٘ اُوْحِيَ اِلَيَّ ‘ کی تخصیص قبول کی ہے۔
جصاص کا جواب یہ ہے کہ اول تو آیت کا مدعا ان چار چیزوں کے علاوہ باقی اشیا کی حرمت یا حلت کا حکم بیان کرنا نہیں، بلکہ صرف یہ بتانا ہے کہ (اس آیت کے نزول کے وقت تک) وحی میں صرف چار چیزوں کی حرمت نازل کی گئی ہے۔ باقی اشیاسے آیت میں کوئی تعرض نہیں کیا گیا، اس لیے ان کے متعلق اس کے بعد اگر تحریم کا حکم دیا گیا ہو تو اس سے مذکورہ آیت کی تخصیص لازم نہیں آتی۔ مزید یہ کہ آیت کا روے سخن خاص طور پر مشرکین کی طرف ہے جنھوں نے بعض حلال چیزوں، یعنی سائبہ اور وصیلہ وغیرہ کو اپنی طرف سے حرام قرار دے رکھا تھا۔ گویا اس حصر کا مقصد حلال وحرام کے کسی عمومی ضابطے کا بیان نہیں، بلکہ مشرکین کے مشرکانہ توہمات کی تردید کرنا ہے۔ اس کے علاوہ اس آیت کے ظاہری عموم کے مراد نہ ہونا سلف کے باہمی اختلاف سے بھی واضح ہوتا ہے اور ایسی صورت میں آیت کے ظاہری عموم کی تخصیص احناف کے اصول کی رو سے بھی درست ہے۔ [10]
۳۔ معترض کا اعتراض ہے کہ احناف نے رفاعہ قرظی کی روایت کی بنیادپر یہ شرط عائد کی ہے کہ ایک شوہر سے تین طلاقیں ملنے کے بعد دوسرے شوہر سے نکاح کرنے والی عورت جب تک دوسرے شوہر کے ساتھ ہم بستر نہ ہو، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی، حالاں کہ قرآن مجید میں ایسی صورت میں صرف نکاح کی شرط بیان کی گئی ہے اور مذکورہ خبر واحد قرآن کے ظاہر پر اضافہ کر رہی ہے۔
جصاص اس کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم بستری کی شرط خود قرآن کے الفاظ سے ماخوذ ہے، کیونکہ قرآن نے یہاں ’حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ‘کے الفاظ استعمال کیے ہیں۔ ان میں سے ’زَوْجًا ‘کا لفظ نکاح پر اور ’تَنْكِحَ ‘ کا لفظ ہم بستری پر دلالت کر رہا ہے، یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ جب تک عورت دوسرے شوہر کے ساتھ ہم بستری نہ کر لے، وہ پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہو سکتی۔ یوں رفاعہ کی نقل کردہ حدیث، قرآن پر اضافہ نہیں کر رہی، بلکہ اس کی تفسیر بیان کر رہی ہے۔ علاوہ ازیں اس روایت کو بھی سلف کے ہاں تلقی بالقبول حاصل ہے اور بالفرض اگر یہ قرآن کے عموم میں تخصیص بھی کر رہی ہو تو فقہاے صحابہ کے ہاں تلقی بالقبول کی وجہ سے اسے متواتر کا درجہ حاصل ہو جاتا ہے جو قرآن کی تخصیص کی بنیاد بن سکتی ہے۔ [11]
۴۔ معترض کا اعتراض ہے کہ احناف نے روایات کی روشنی میں جن میں ہاتھ کاٹنے کے لیے مسروقہ مال کی قیمت ایک ڈھال کے برابر ہونے کی شرط بیان کی گئی ہے، قرآن کے ظاہر کی تخصیص قبول کی ہے۔
جصاص لکھتے ہیں کہ قرآن کی زیر بحث آیت کا ظاہری عموم مراد نہ ہونے پر سلف کا اتفاق ہے اور بعض شاذ آرا سے قطع نظر کرتے ہوئے، تمام اہل علم ’السَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ‘کے مبنی بر خصوص ہونے پر متفق ہیں، اور ایسی آیت کی تخصیص احناف کے نزدیک خبر واحد سے کی جا سکتی ہے۔ [12]
ان مثالوں کے بعد جصاص نے چند ایسے اعتراضات کا بھی ذکر کیا ہے جن کا حاصل یہ ہے کہ احناف نہ صرف بہت سی مثالوں میں جمہور کے مذہب کے مطابق اخبار آحاد سے قرآن کی تخصیص کرتے ہیں، بلکہ بعض مثالوں میں جمہور سے بھی آگے بڑھ کر کم زور روایتوں کی بنیاد پر بھی قرآن کے ظاہر میں تخصیص کر دیتے ہیں۔ مثلاً قرآن مجید میں پانی کے ساتھ وضو کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جب کہ حنفیہ ایک ضعیف روایت کی بنیاد پر کھجور کی نبیذ کے ساتھ بھی وضو کے جواز کے قائل ہیں۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ اپنے اعمال کو باطل نہ کرو، جب کہ حنفیہ ایک کم زور روایت کی بنیاد پر قہقہہ لگانے والے کے وضو کو باطل قرار دیتے ہیں۔ مزید یہ کہ قرآن میں مقدمے کا فیصلہ کرنے کے لیے دو مردوں یا ایک مرد اور دو عورتوں کی گواہی لینے کا ذکر کیا گیا ہے، جب کہ احناف بچے کی پیدایش کے معاملے میں تنہا بچے کی دائی کی گواہی کو قبول کرتے ہیں۔ اورآخری اعتراض یہ کہ قرآن میں قسم کے کفارے میں تین روزوں کا ذکر کسی قید کے بغیر مطلق وارد ہوا ہے، جب کہ احناف عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت کی بنیاد پر، جو اخبار آحاد سے نقل ہوئی ہے، اس میں یہ شرط عائد کرتے ہیں کہ یہ تین روزے مسلسل رکھنا لازمی ہے۔
جصاص ان اعتراضات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ پہلا اعتراض اس لیے درست نہیں کہ قرآن میں پانی کا لفظ مطلق استعمال ہوا ہے اور اس میں بالکل خالص پانی بھی شامل ہے اور کسی دوسری چیز کے ساتھ ملا ہوا پانی بھی، اس لیے پانی کے مفہوم میں نبیذ بھی داخل ہے۔ یوں مذکورہ روایت قرآن کے خلاف نہیں، بلکہ اس کے مطابق ہے۔[13]
دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ یہ آیت اس مسئلے سے کلیتاً غیر متعلق ہے، کیونکہ قرآن کی مراد یہ ہے کہ ایسے گناہوں کا ارتکاب نہ کرو جس کی وجہ سے تمھاری کی ہوئی نیکیاں بھی برباد ہو جائیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا اس مسئلے سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں بنتا کہ نماز کی حالت میں قہقہہ لگانے سے آدمی کا وضو ٹوٹ جاتا ہے یا نہیں۔[14]
تیسرے اعتراض کا جواب جصاص نے یہ دیا ہے کہ قرآن میں دو گواہوں کی گواہی کا ذکر مالی لین دین، وصیت، رجوع اور بدکاری وغیرہ کے معاملات میں ہوا ہے۔ بچے کی ولادت پر گواہی کا مسئلہ قرآن میں زیر بحث نہیں آیا، اس لیے اس معاملے میں صرف خاتون کی گواہی قبول کرنا کسی لحاظ سے قرآن کے حکم کے معارض نہیں۔ [15]
آخری اعتراض کے جواب میں جصاص وضاحت کرتے ہیں کہ عبد اللہ بن مسعود کی قراءت ائمۂ احناف تک خبر واحد سے نہیں، بلکہ تواتر سے پہنچی تھی اور اہل کوفہ کے ہاں اس وقت زید بن ثابت اور ابن مسعود، دونوں کی قراءتیں رائج اور معروف تھیں، چنانچہ ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ قرآن کے معلمین ہمیں درس گاہوں میں ابن مسعود کی قراءت بھی اسی طرح سکھایا کرتے تھے جیسے زید بن ثابت کی قراءت سکھاتے تھے، جب کہ سعید بن جبیر رمضان میں قیام اللیل میں ایک رات زید بن ثابت کی قراءت کے مطابق، جب کہ اگلی رات ابن مسعود کی قراءت کے مطابق تلاوت کیا کرتے تھے۔ البتہ جب لوگوں نے ابن مسعود کی قراءت کو ترک کر دیا تو بعد کے دور کے لوگوں تک اس کے پہنچنے کا ذریعہ خبر واحد رہ گیا، ورنہ پہلے زمانے میں اس کی حیثیت متواتر قراءت ہی کی تھی۔ [16]ک
اس تجزیے سے واضح ہے کہ جمہور اصولیین کی طرف سے حنفی منہج میں داخلی تضاد کا اعتراض زیادہ وزنی نہیں اور کم سے کم منطقی لحاظ سے یہ کہنا بے حد مشکل ہے کہ احناف کسی خاص اصول کی پابندی کیے بغیر الل ٹپ طریقے سے بعض مثالوں میں اخبار آحاد سے قرآن کی تخصیص قبول کر لیتے اور بعض میں ظاہر قرآن پر اصرار کرنے لگتے ہیں۔ جیسا کہ واضح کیا گیا، احناف مختلف مثالوں میں مختلف طریقے اختیار کرنے کا باقاعدہ علمی جواز پیش کرتے اور اپنے قراردادہ اصولی منہج کے تحت تمام متعلقہ مثالوں میں تخصیصات کے قبول یا عدم قبول کی توجیہ کرتے ہیں۔ اس منہج کے اصولی مفروضات سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور بعض دوسرے پہلوؤں سے بھی اس پر سوالات اٹھائے جا سکتے ہیں، لیکن اسے الل ٹپ اور بے قاعدہ قرار دینے کا اعتراض اتنی آسانی سے وارد نہیں کیا جا سکتا۔
البتہ جمہور اصولیین کی تنقیدات اور احناف کی داخلی بحثوں کے نتیجے میں دلالت عموم کی نوعیت کے حوالے سے کچھ اہم تنقیحات ضرور حنفی اصول فقہ کا حصہ بنی ہیں، جن کی وضاحت یہاں مناسب معلوم ہوتی ہے۔
امام شافعی نے موقف اختیار کیا تھا کہ عموم کا اسلوب بذات خود قطعی طور پر یہ طے نہیں کرتا کہ متکلم کی مراد عموم ہی ہے، بلکہ اس میں دونوں احتمال ہوتے ہیں اور متکلم کی مراد متعین کرنے کے لیے اضافی دلائل وقرائن کی ضرورت ہوتی ہے۔ چنانچہ بعض جگہ عموم کے اسلوب سے فی الواقع عموم ہی مراد ہوتا ہے، لیکن بعض مقامات پر عموم مراد نہیں ہوتا، بلکہ کچھ خاص مصداقات کا ذکر عموم کے الفاظ سے کر دیا جاتا ہے۔ اس بنیادی نکتے سے امام شافعی نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ جب اسلوب عموم سے واقعتاً عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں تو سنت میں کتاب اللہ کے حکم کی جو تخصیص وارد ہو، اسے متکلم کی مراد کی وضاحت اور تبیین ہی قرار دیا جائے گا، یعنی حکم میں تغییر یا اس کی تنسیخ تصور نہیں کیا جائے گا، چاہے تخصیص کا کوئی ظاہری قرینہ قرآن کے حکم میں موجود نہ ہو۔ تاہم اسلوب عموم کو اپنی دلالت میں قطعی نہ ماننے کے باوجود امام شافعی اس کے قائل نہیں کہ کسی بھی بنیاد پر حکم میں تخصیص کی جا سکتی ہے۔ ان کے نزدیک اگر خود قرآن کے اندر یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت میں تخصیص کا کوئی قرینہ نہ ہو تو ایسے عموم کو محض امکانی احتمال کی بنیاد پر ظاہر سے صرف کرنا درست نہیں۔
حنفی اصولیین نے امام شافعی کے موقف سے اختلاف کرتے ہوئے یہ قرار دیا کہ قرآن میں عموم کے اسلوب میں بیان ہونے والے احکام کی دو قسمیں ہیں: ایک قسم ان احکام کی ہے جو بظاہر عام ہیں، لیکن عموم پر ان کی دلالت قطعی اور حتمی نہیں، بلکہ وہ توضیح وتفصیل کا احتمال رکھتے ہیں۔ ان سے متعلق اگر سنت میں کوئی تخصیص وارد ہو تو اسے حکم میں تبدیلی نہیں، بلکہ اس کی وضاحت اور بیان کہا جائے گا۔ دوسری قسم ان احکام کی ہے جن میں عموم کے اسلوب سے عموم ہی مراد ہونا واضح ہو اور کوئی ایسی دلیل بھی موجود نہ ہو جس سے یہ معلوم ہوتا ہو کہ یہاں عموم مراد نہیں۔ ایسی صورت میں اگر سنت میں وارد تخصیص اصل حکم کے ساتھ ہی بیان کی گئی ہو تو بھی اس کی حیثیت تبیین کی ہوگی، لیکن اگر تخصیص، زمانی وقفے کے بعد ایک مستقل حکم کی حیثیت سے بیان کی گئی ہو تو پھر اسے حکم میں تغییر ، یعنی جزوی نسخ تصور کیا جائے گا۔
احناف کے نزدیک جن دلائل سے یہ معلوم ہو سکتا ہے کہ کہاں اسلوب عموم سے اللہ تعالی ٰ کی مراد عموم ہے اور کہاں نہیں، ان میں عقلی قرائن اور لفظ کے محتمل ہونے کے علاوہ ایک اہم دلیل یہ بھی ہے کہ ظاہری عموم کے مراد نہ ہونے پر علماے سلف کا اتفاق ہو یا ان کے مابین اجتہادی اختلاف واقع ہوا ہو اور انھوں نے اس اختلاف پر کوئی نکیر نہ کر کے یہ واضح کر دیا ہو کہ زیر بحث نص میں عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں ۔ ان میں سے کسی بھی دلیل سے یہ معلوم ہو جائے کہ آیت کا ظاہری عموم اللہ تعالی ٰ کی مراد نہیں تو اس کی تخصیص خبر واحد یا قیاس کے ذریعے سے کی جاسکتی ہے۔ اسی طرح اگر ایک دفعہ کسی حکم میں یقینی دلیل سے تخصیص ثابت ہو چکی ہو تو بھی خبر واحد اور قیاس کی بنیاد پر اس کی مزید تخصیص کی جا سکتی ہے۔ حنفی اصول فقہ میں عام کی اسی دوسری قسم کے بارے میں ائمۂ احناف کا مذہب یہ بیان کیا جاتا ہے کہ وہ اس کے قطعی ہونے کے قائل ہیں اور قطعیت میں خاص کے مساوی ہونے کی وجہ سے وہ ایسی دلیل عام کو دلیل خاص کے لیے ناسخ بھی قرار دیتے ہیں، جب کہ امام شافعی کا مسلک اس کے برخلاف یہ ہے کہ عام کی دلالت ظنی ہوتی ہے، اس لیے وہ دلیل خاص کے معارض نہیں ہو سکتا۔
یہاں حنفی اصولیین کا دو الگ الگ نوعیت رکھنے والے دلائل کو اس بات کا قرینہ تسلیم کرنا کہ متکلم کی مراد حکم میں عموم نہیں ہے، ایک اشکال پیدا کرتا ہے، اور وہ یہ کہ اگر آیت کے اپنے اسلوب اور قرائن کے لحاظ سے دلالت عموم کا قطعی نہ ہونا سمجھ میں آ رہا ہو تو کسی خارجی دلیل مثلاً حدیث میں وارد تخصیص کو بیان قرار دینا قابل فہم ہے، لیکن اگر آیت فی نفسہٖ محتمل نہ ہو تو علماے سلف کے اجماعی فہم یا باہمی اختلاف کی صورت میں عدم نکیر کو، جس کی حیثیت بہرحال ایک خارجی دلیل کی ہے، عموم مراد نہ ہونے کی دلیل کے طور پر قبول کرنا بیان کی اس تعریف کی رو سے محل نظر ہے جو حنفی اصولیین کے نزدیک معتبر ہے۔ اس تعریف کی رو سے اگر کلام فی نفسہٖ واضح اور محتاج تفسیر نہ ہو تو کسی خارجی دلیل کی بنیاد پر اس میں تخصیص پیدا کرنا بیان نہیں ہو سکتا۔ اسی وجہ سے حنفی اصولیین، خبر واحد کو شہرت واستفاضہ اور تلقی بالقبول حاصل ہونے کی صورت میں اس سے ثابت تخصیص کو قرآن کے ناسخ کے طور پر ہی قبول کرتے ہیں، اسے تبیین نہیں قرار دیتے۔ علماے سلف کے اجماعی فہم کو چونکہ بدیہی طور پر آیت کے ظاہری عموم کا ناسخ قرار نہیں دیا جا سکتا، اس لیے حنفی اصولیین کے پاس اسے عدم عموم کے ایک داخلی قرینے کا درجہ دیے بغیر کوئی چارہ نہیں، لیکن اس کی حقیقی نوعیت بہرحال ایک خارجی دلیل کی ہے اور اس کی بنیاد پر آیت کے ظاہری عموم میں تخصیص کو قبول کرنے سے ان کی وضع کردہ بیان کی تعریف برقرار نہیں رہتی۔
یہ صورت حال حنفی اصولیین کے لیے ایک مخمصہ پیدا کر دیتی ہے اور امام شافعی کے اس اعتراض میں وزن پیدا ہو جاتا ہے کہ اگر آیت کے اندر تخصیص کا کوئی ظاہری قرینہ نہ ہونے کے باوجود علماے سلف کا فہم اس کی دلیل بن سکتا ہے کہ آیت کے عموم کو محتمل اور قابل تفسیر قرار دیا جائے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں تخصیص کا ورود کیوں اس کی دلیل نہیں بن سکتا کہ آیت کے عموم کو قطعی کے بجاے محتمل اور قابل تفسیر مانا جائے۔ اگرچہ جمہور حنفی اصولیین کے پاس اس کا یہ تکنیکی جواب موجود ہے کہ ان کے نزدیک آیت کو ظاہری عموم سے صرف کرنے کے لیے ایک یقینی دلیل چاہیے جو علماے سلف کا اجماعی فہم تو ہو سکتا ہے، لیکن خبر واحد بہ اعتبار ثبوت ظنی ہونے کی وجہ سے یہ درجہ نہیں رکھتی، تاہم یہ جواب بیان کی تعریف کے حوالے سے مذکورہ اشکال کا حل پیش نہیں کرتا۔ اس جواب سے یہ تو واضح ہوتا ہے کہ علماے سلف کے اجماعی فہم اور خبر واحد میں فرق کی بنیاد کیا ہے، لیکن اس کی توجیہ نہیں ہوتی کہ ایک خارجی دلیل سے ثابت ہونے والی تخصیص کو کیوں بیان کی حیثیت سے قبول کیا جا رہا ہے اور دوسری خارجی دلیل سے کیوں نہیں کیا جا رہا۔
اسی الجھن کے تناظر میں حنفی اصولیین کے ایک گروہ نے اس بحث میں امام شافعی اور جمہور علماے اصول کے نقطۂ نظر کو زیادہ راجح تصور کرتے ہوئے یہ قرار دیا ہےکہ کتاب اللہ میں اسلوب عموم میں وارد احکام میں عموم کا مراد ہونا قطعی نہیں، بلکہ محتاج تبیین ہے اور دیگر دلائل وقرائن سے ہی حتمی طور پر یہ متعین کیا جا سکتا ہے کہ کس حکم میں فی الواقع عموم مراد ہے اور کس میں نہیں۔ اس نقطۂ نظر کی نسبت حنفی روایت میں علماے ماوراء النہر کی طرف کی جاتی ہے اور بنیادی طو رپر اسے ایک اصولی موقف کے طور پر امام ابو منصور ماتریدی نے بیان کیا ہے۔ مثال کے طور پر آیت میراث کی تفسیر میں وہ لکھتے ہیں کہ آیت میں اولاد کے حصوں کا ذکر بظاہر عموم کے اسلوب میں ہے، لیکن اس سے مراد خاص اولاد ہے، کیونکہ کافر وارث اور غلام ترکے میں حصے کے حق دار نہیں ہیں جیسا کہ حدیث میں واضح کیا گیا ہے۔ [17] اسی طرح میاں بیوی کے ایک دوسرے کا وارث بننے کا ذکر عموم کے اسلوب میں ہے، لیکن اس سے مراد خاص ہے، کیونکہ کافر یا مملوک ہونے کی صور ت میں میاں بیوی ایک دوسرے کے وارث نہیں بن سکتے۔ اس مثال سے عام کی دلالت کے متعلق ایک عمومی اصول اخذ کرتے ہوئے امام ماتریدی لکھتے ہیں
دل أن لیس لأحد الاحتجاج بعموم المخرج، علی ما ذکرنا في الولد والوالد والأم وغیرھم أنه إذا لم یکن بعضھم علی وصف بعض لم یجز بینھما التوارث، دل أن عموم مخرج الخطاب لا یدل علی عموم المراد. (تاویلات اہل السنۃ ۳/ ۵۷)
”اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حکم کے عام وارد ہونے سے استدلال کرنا کسی کے لیے درست نہیں، کیونکہ ہم نے اولاد اور والدین اور دیگر ورثا کے متعلق ذکر کیا ہے کہ اگر ان میں سے بعض ان مخصوص اوصاف کے حامل نہ ہوں تو آپس میں وارث نہیں بن سکتے۔ پس معلوم ہو گیا کہ خطاب کا اسلوب عموم میں وارد ہونا مراد کے عام ہونے کی دلیل نہیں ہوتا۔“
ااسی طرح آیت سرقہ کی تفسیر میں واضح کرتے ہیں کہ اس آیت میں چوری کی تمام صورتیں نہیں، بلکہ بعض صورتیں مراد ہیں۔ یہاں بھی دلالت عموم کی نوعیت کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
فھذا کله یدل علی أن لیس في مخرج عموم اللفظ دلیل عموم المراد ولا في مخرج خصوص اللفظ دلیل خصوصه بل یعرف ذالک کله بالدلیل، یقوم العموم بدلیل العموم والخصوص بدلیل الخصوص، فهذا ینقض قول من یقول: إنه علی العموم حتی یقوم دلیل الخصوص واللہ أعلم.(تاویلات اہل السنۃ ۳/ ۵۱۲)
”یہ تمام مثالیں اس بات کو واضح کرتی ہیں کہ الفاظ کا عام ہونا مراد کے عام ہونے کی دلیل نہیں اور اسی طرح لفظ کا خاص ہونا بھی اس کی دلیل نہیں کہ مراد خاص ہے، بلکہ یہ سب باتیں کسی دوسری دلیل سے معلوم ہوتی ہیں، یعنی عموم کی دلیل سے عموم ثابت ہوتا ہے اور خصوص کی دلیل سے خصوص۔ اس سے ان لوگوں کے موقف کی تردید ہو جاتی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ کلام کو عموم پر محمول کیا جائے گا جب تک کہ اس کے خصوص کی دلیل سامنے نہ آ جائے۔“
متاخرین میں سے علامہ انور شاہ کشمیری نے بھی عام کی دلالت کے حوالے سے یہی نقطۂ نظر اختیار کیا ہے۔ چنانچہ احناف کے دو گروہوں، یعنی علماے عراق اور علماے ماوراء النہر کے متعلق بتاتے ہیں کہ ان میں سے اول الذکر کا مسلک یہ ہے کہ عام قطعی ہوتا ہے، جب کہ موخر الذکر اس کے ظنی ہونے کے قائل ہیں۔ پھر فرماتے ہیں کہ یہی اکثر شوافع اور حنابلہ کا مذہب ہے اور میرے نزدیک بھی یہی مختار ہے۔[18]
ایک بحث میں امام بخاری کے استدلال کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
أخذ من الحدیث الأول أن الأصل الاستدلال بالخاص، فإذا لم یوجد الخاص في الباب فبالعام، وھذا وإن کان مختار الشافعي إلا أنه قوي عندي من حیث الدلیل وعلیه اعتمادي. (فیض الباری ۶/ ۵۳۹)
”امام صاحب نے پہلی حدیث سے یہ اخذ کیا ہے کہ اصل یہ ہے کہ (کسی مسئلے میں وارد) دلیل خاص سے استدلال کیا جائے۔ اگر اس باب میں دلیل خاص نہ ملے تو پھر دلیل عام سے استدلال کیا جائے۔ یہ مسلک اگرچہ امام شافعی کا اختیار کر دہ ہے، تاہم میرے نزدیک دلیل کے لحاظ سے قوی ہے اور اسی پر میرا اعتماد ہے۔“
شاہ صاحب نے اس ضمن میں عراقیین کی طرف عام کی قطعیت کی نسبت میں بھی تردد ظاہر کیا ہے۔ فرماتے ہیں:
وما نسب إلی العراقیین أیضًا محل تردد لما في البدائع والمیزان ما یدل علی إنکارھم القطعیة، والحق عندي کما اختاره الشیخ ابن الھمام رحمه اللہ تعالیٰ أنه قطعي في الدلالة، لأن اللفظ وضع لمعنی العموم وظني في المراد. قلت: وعلیه فلیحمل مذھب العراقیین، یعني أن مرادھم بالقطع ھو القطع في الدلالة فقط دون المراد. (فیض الباری ۱/ ۵۶)
”عراقیین کی طرف جو بات منسوب کی گئی ہے، وہ بھی محل تردد ہے، کیونکہ بدائع اور میزان میں ایسی عبارات موجود ہیں جو اس پر دلالت کرتی ہیں کہ یہ حضرات قطعیت کے منکر ہیں۔ میرے نزدیک حق بات وہی ہے جسے شیخ ابن الہمام نے اختیار کیا ہے کہ عام دلالت میں تو قطعی ہے، کیونکہ لفظ کو عموم ہی کے لیے وضع کیا گیا تھا، لیکن مراد کے لحاظ سے ظنی ہوتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ عراقیین کے مذہب کو بھی اسی پر محمول کرنا چاہیے، یعنی ان کی مراد بھی یہ ہے کہ عام صر ف دلالت کے اعتبار سے قطعی ہے، نہ کہ مراد کے لحاظ سے۔“
شاہ صاحب یہاں دلالت اور مراد کی تعبیرات سے جس فرق کو واضح کرنا چاہ رہے ہیں، وہ وہی ہے جسے امام شاطبی نے ’وضع لغوی‘ اور ’وضع استعمالی‘ کی تعبیرات سے بیان کیا ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ لفظ کی ایک دلالت وہ ہوتی ہے جس کے لیے اسے لغت میں وضع کیا جاتا ہے، جب کہ دوسری دلالت وہ ہوتی ہے جو لفظ کو اپنے کلام میں استعمال کرتے ہوئے متکلم کے پیش نظر ہوتی ہے۔ شاطبی کہتے ہیں کہ عموم کے الفاظ لغت میں تو اسی مفہوم کے لیے وضع کیے گئے ہیں کہ وہ لفظ کے جملہ مشمولات پر دلالت کریں، لیکن جب کوئی کلام کرنے والا انھیں اپنی گفتگو میں استعمال کرتا ہے تو یہ لغوی دلالت علی ٰ حالہٖ برقرار نہیں رہتی، بلکہ متکلم کے ارادے اور مقصد کے لحاظ سے ایک نئی دلالت پیدا ہوتی ہے جو لفظ کی لغوی دلالت کے مساوی نہیں ہوتی، یعنی اس میں کئی طرح کی تخصیصات مضمر ہوتی ہیں جو سیاق وسباق اور قرائن کے علاوہ متکلم کی دیگر توضیحات سے واضح ہوتی ہیں۔ [19] علامہ انور شاہ اس نکتے کو واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وإذا علمت أن المدلول لا یلزم أن یکون مساویًا لغرض المتکلم دائمًا فاعلم أن معنی العموم قد یقصده المتکلم وحینئذ یکون عمومه موکدًا ولا یلائم تخصیصه، وقد لا یقصده المتکلم فیضعف جدًا ویجوز تخصیصه ولو بالرأي. (فیض الباری ۱/ ۵۷)
”جب یہ بات تمھیں معلوم ہو گئی کہ لفظ کے مدلول کا متکلم کی مراد کے ساتھ ہمیشہ مساوی ہونا لازم نہیں تو یہ بھی جان لو کہ بعض دفعہ عموم (لفظ کا مدلول ہونے کے ساتھ ساتھ) متکلم کی مراد بھی ہوتا ہے اور اس صورت میں اس کا عموم بہت موکد ہوتا ہے جس کی تخصیص (خارجی دلیل سے) مناسب نہیں، لیکن بعض دفعہ متکلم کی مراد عموم نہیں ہوتی اور اس صورت میں عموم بہت ہی کم زور ہوتا ہے جس کی تخصیص کرنا جائز ہوتا ہے، چاہے راے سے ہی کی جائے۔“
شاہ صاحب اسی بنیاد پر حنفی اصولیین کے اس موقف سے بھی اختلاف کرتے ہیں کہ قیاس کی بنیاد پر عام کی تخصیص ابتداءً جائز نہیں۔ فرماتے ہیں:
ثم أن العام إذا کان قطعیًا عندھم أشکل علیھم تخصیصه بالرأي، فإذا اضطروا إلیه في بعض المواضع رکبوا ھناک تأویلات باطلة أخری مع أن التخصیص بالرأي جائز عندنا ولو ابتداء .... ثم رأیت أنھم کلھم لا یکترثون بتخصیص الأحادیث الواردة في الأخلاق والمعاملات ویخصصونھا بالرأي ابتداء بلا نکیر بخلاف العبادات، وذالک لظھور المناط في الطائفة الأولی وخفائه في الثانیة، فعلم أن مناط التخصیص علی انجلاء الوجه لا غیر، فحیث یکون المناط ظاھرًا یجوز التخصیص وحیث یکون خفیًا لا یجوز. (فیض الباری ۱/ ۵۸)
”پھر چونکہ عام ان حضرات کے نزدیک قطعی ہے، اس لیے راے اور قیاس سے اس کی تخصیص کرنا ان کے لیے باعث اشکال بن گیا اور جب بعض مقامات پر وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوئے تو انھیں کئی دیگر باطل تاویلات سے کام لینا پڑا، حالاں کہ ہمارے نزدیک قیاس سے عموم کی تخصیص کرنا بھی جائز ہے، چاہے بالکل ابتداءً ہو۔ پھر میں نے دیکھا کہ یہ سب حضرات اخلاق اور معاملات میں وارد احادیث کی ، قیاس کی بنیاد پر ابتداءً اور بلا نکیر تخصیص کرتے ہیں، لیکن عبادات میں نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اخلاق اور معاملات میں حکم کا مناط واضح اور عبادات میں پوشیدہ ہوتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قیاساً تخصیص کا جواز صرف مناط حکم کے روشن ہونے پر مبنی ہے، دوسری کسی چیز پر نہیں۔ چنانچہ جہاں مناط واضح ہوگا، وہاں قیاساً تخصیص بھی درست ہوگی اور جہاں مخفی ہوگا، وہاں درست نہیں ہوگی۔“
حنفی اصولی فکر میں اس اہم تنقیح کی روشنی میں یہ دیکھنا اہم ہوگا کہ قرآن کے ظاہری عموم میں تخصیص کرنے والی احادیث کی تفہیم وتعبیر کے حوالے سے اطلاق وانطباق کی سطح پر حنفی اصولیین کے ان دونوں گروہوں کے زاویۂ نظر میں کس نوعیت کے امتیازات پائے جاتے ہیں، تاہم یہ تحقیق کا ایک مستقل موضوع ہے جس کی تفصیلات کا، ہمارا موجودہ مطالعہ متحمل نہیں ہو سکتا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
۱۔الام ۸/ ۵۲۔
۲۔ الام ۳/ ۷۶۔ ۸/ ۴۸۔
۳۔ الام ۸/ ۴۹۔
۴۔ الام ۸/ ۶۲۔
۵۔ الام ۸/ ۵۰۔
۶۔ الام ۸/ ۵۳۔
۷۔مثلاً دیکھیے: ابن حزم، الاحکام فی اصول الاحکام ۱/ ۱۱۷- ۱۱۸۔ ایضاً ۲/ ۶۶- ۶۷۔
۸۔ دیکھیے: اعلام الموقعین عن رب العالمین ۴/ ۱۱۰-۱۲۹۔
۹۔ الفصول فی الاصول ۱/ ۱۸۶- ۱۸۷۔
۱۰۔ الفصول فی الاصول ۱/ ۱۸۹۔
۱۱۔ الفصول فی الاصول ۱/ ۱۸۹- ۱۹۱۔
۱۲۔ایضاً۱/ ۱۹۲۔
۱۳۔ الفصول فی الاصول ۱/ ۸۸۱۔
۱۴۔ ایضاً ۱/ ۱۹۱۔
۱۵۔ ایضاً ۱/ ۱۹۱۔
۱۶۔ الفصول فی الاصول ۱/ ۱۹۹۔ شرح مختصر الطحاوی ۶/ ۱۶۶۔
۱۷۔ تاویلات اہل السنۃ ۳/ ۴۲۔
۱۸۔ فیض الباری ۱/ ۵۶۔
۱۹۔ الموافقات ۳/ ۲۱۴- ۲۱۶۔