بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گزشتہ سے پیوستہ)
لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلٰکِنَّ الْبِرَّ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَالْمَلٰٓئِکَۃِ وَالْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَاٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبیٰ وَ الْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَابْنَ السَّبِیْلِ وَالسَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَاَقَامَ الصَّلٰوۃَوَاٰتَی الزَّکوٰۃَ وَالْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عَاھَدُوْا وَالصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَالضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ ۔ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ ۔ {۱۷۷}
(یہ سمجھتے ہیں کہ اللہ سے وفا کا حق مذہب کی کچھ رسمیں پوری کر دینے سے ادا ہو جاتا ہے ۔ تمھیں معلوم ہونا چاہیے کہ ) اللہ کے ساتھ وفا داری ۴۴۸ صرف یہ نہیں کہ تم نے (نماز میں) اپنا رخ مشرق یا مغرب کی طرف کر لیا ، ۴۴۹ بلکہ وفا داری تو اُن کی وفا داری ہے جو پورے دل سے اللہ کو مانیں ۴۵۰ اور قیامت کے دن کو مانیں ۴۵۱ اور اللہ کے فرشتوں کو مانیں ۴۵۲ اور اُس کی کتابوں کو مانیں ۴۵۳ اور اُس کے نبیوں کو مانیں ۴ ۴۵ اور مال کی محبت کے باوجود ۴۵۵ اُسے قرابت مندوں ، ۴۵۶ یتیموں، ۴۵۷ مسافروں اور مانگنے والوں ۴۵۸ پر اور لوگوں کی گردنیں چھڑانے میں خرچ کریں ، ۴۵۹ اور نماز کا اہتمام کریں اور زکوٰۃ ادا کریں ۔ ۴۶۰ اور (اُن کی ہے کہ ) جب عہد کر بیٹھیں ۴۶۱ تو اپنے اِس عہد کو پورا کرنے والے ہوں ۴۶۲ اور بالخصوص (اُن کی) جو تنگی اور بیماری میں اور جنگ کے موقع پر ۴۶۳ ثابت قدم رہنے والے ہوں ۔ یہی ہیں جو (اللہ کے ساتھ اپنے عہدِ وفا میں) سچے ہوئے اور یہی ہیں جو فی الواقع پرہیز گار ہیں ۔ ۱۷۷
۴۴۸؎ اصل میں لفظ ’البر‘ استعمال ہوا ہے ۔ امام فراہی کی تحقیق کے مطابق اس کا اصل مفہوم کسی کے حق کو پورا کرنا ہے۔ اس میں وہ حقوق بھی شامل ہیں جو انسان کے وجود ہی سے اس پر عائد ہو جاتے ہیں ، مثلاً اللہ کے ، ماں باپ کے اور اس کے بندوں کے حقوق اور وہ بھی جو معاہدات، قول و قرار اور حلف و ولاسے پیدا ہوتے ہیں ۔ لفظ کی اس وسعت کے باعث وہ تمام نیکیاں اس کے مفہوم میں شامل ہو جاتی ہیں جو عدل یا احسان کے زیرِ عنوان بیان کی جا سکتی ہیں ۔ اردو زبان میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو اس کے اس پورے مفہوم کو ادا کر دے ۔ وفا داری کا لفظ ، ہمارے نزدیک لفظ کی اصل روح ایک حد تک ادا کر دیتا ہے ۔
۴۴۹؎ یہ یہود ونصاریٰ پر تعریض ہے جنھوں نے تورات و انجیل کی اصل تعلیمات تو طاقِ نسیاں پر رکھ دی تھیں ، لیکن اس پر لڑنے مرنے کے لیے تیار تھے کہ قبلہ مشرق کی طرف ہونا چاہیے یا مغرب کی طرف ۔ معلوم ہوتا تھا کہ سارے دین کا انحصار ان کے نزدیک ، بس اسی ایک مسئلے پر ہے ۔ سیدنا مسیح علیہ السلام کے الفاظ میں ، گویا مچھروں کو چھانتے اور اونٹوں کو نگلتے تھے ۔
۴۵۰؎ یعنی بغیر کسی شائبۂ شرک کے اپنے آپ کو پورا کا پورا اپنے پروردگار کے حوالے کر دیں ۔
۴۵۱؎ یعنی اس بات کو تسلیم کریں کہ مرنے کے بعد وہ لازماً اٹھائے جائیں گے ، ایمان و عمل صالح کے سوا وہاں کوئی چیز ان کے کام نہ آئے گی ، اپنے ہرقول و فعل کے لیے وہ خدا کے سامنے جواب دہ ہوں گے اور اذنِ خداوندی کے بغیر وہاں کسی کو یارا نہ ہو گا کہ ان کے حق میں ایک لفظ بھی کہہ دے ۔
۴۵۲؎ یعنی یہ مانیں کہ فرشتے اللہ تعالیٰ کی ایک معصوم اور قدسی صفت مخلوق ہیں ، اس کی ہدایت انسانوں کو پہنچاتے ہیں، اس میں پوری طرح امین اور قابلِ اعتماد ہیں اور قضا و قدر کے فیصلے ان کے ذریعے سے نافذ کیے جاتے ہیں ۔ فرشتوں پر یہ ایمان ، اگر غور کیجیے تو بے حد ضروری ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانوں کو خدا کی ہدایت اگر انبیاو رسل کے ذریعے سے ملتی ہے تو ان انبیا و رسل تک یہ ہدایت بالعموم انھی فرشتوں کے ذریعے سے پہنچتی ہے ۔ اللہ تعالیٰ کی مخلوقات میں یہی ایک ایسی مخلوق ہیں جو عالم لاہوت اور عالم ناسوت ، دونوں کے ساتھ یکساں ربط رکھ سکتے ہیں ۔ اپنی نورانیت کے باعث یہ تجلیاتِ الہٰی کے بھی متحمل ہو جاتے ہیں اور مخلوق ہونے کے لحاظ سے انسانوں کے ساتھ بھی اتصال پیدا کر لیتے ہیں ۔ چنانچہ جس طرح نوح ، ابراہیم، موسیٰ اور یوحنا و مسیح ہمارے لیے خدا کے رسول ہیں ، اسی طرح فرشتے ان رسولوں کے لیے خدا کے رسول ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتابیں اور صحائف انھی فرشتوں کے ذریعے سے انبیا و رسل پر نازل کیے ہیں اور زمین پر اس کی دینونت بھی ہمیشہ انھی کے ذریعے سے برپا ہوئی ہے ۔
۴۵۳؎ یعنی اس بات پر ایمان لائیں کہ انبیا علیہم السلام جس چیز کو کتابِ الہٰی کی حیثیت سے پیش کر رہے ہیں ، وہ اللہ تعالیٰ کا اتارا ہوا صحیفۂ ہدایت ہے ۔ اللہ نے اسے حق و باطل کے لیے کسوٹی بنا کر نازل کیا ہے ، اور اس لیے نازل کیا ہے کہ دین کے معاملے میں لوگ ٹھیک انصا ف پر قائم ہو جائیں ۔
۴۵۴؎ یعنی یہ تسلیم کریں کہ انبیا انسانوں کے لیے خدا کی طرف سے مامور اور واجب الاطاعت ہادی ہیں ، ان کا علم بے خطا ہے ، ان کا عمل زندگی کے لیے اسوہ ہے اور ان کی اطاعت ، اتباع اور محبت ہر شخص کے لیے ضروری ہے ۔
۴۵۵؎ اصل الفاظ ہیں : ’واٰتی المال علی حبہ‘ ۔ اس کے معنی عربیت کی رو سے یہ بھی ہو سکتے ہیں کہ اس نے اپنا مال خدا کی محبت میں خرچ کیا ہے ، لیکن ہمارے نزدیک وہ معنی قابلِ ترجیح ہیں جو ہم نے ترجمے میں اختیار کیے ہیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ قرآن کے نظائر سے اسی مفہوم کی تائید ہوتی ہے۔ سورۂ آلِ عمران (۳) کی آیت ۹۲ اور سورۂ حشر (۵۹) کی آیت ۹ میں قرآن نے صراحت کے ساتھ بتایا ہے کہ اللہ کی وفاداری کا اعلیٰ مرتبہ انسان کو اس مال کے خرچ کرنے سے حاصل ہوتا ہے جو اسے محبوب ہو ۔ یہاں بھی یہی بتایا جا رہا ہے کہ یہ مرتبہ انسان کو کس قسم کے انفاق سے حاصل ہوتا ہے ۔ لہٰذا موقع کلام کا تقاضا ہے کہ اسی مفہوم کو ترجیح دی جائے ۔
۴۵۶؎ انفاق کے مصارف میں سب سے پہلے قرابت مندوں کا ذکر ہوا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ آدمی کے اعزہ و اقربا اگر ضرورت مند ہوں تو اس کی اعانت کے سب سے زیادہ مستحق وہی ہیں ۔
۴۵۷؎ یعنی قرابت مندوں کے بعد معاً یتیموں کا ذکر اس بات کو واضح کرتا ہے کہ اپنے عزیزوں کے بعد آدمی کی پہلی نظر ان بچوں پر پڑنی چاہیے جو باپ کے سایے سے محروم ہو چکے ہیں اور جن کی کفالت کی ذمہ داری اب شرعاً و عرفاً معاشرے پر عائد ہوتی ہے ۔
۴۵۸؎ یعنی وہ لوگ جو اپنی ضرورت لے کر کسی کے پاس آ جائیں ۔ مساکین کے بعد ان کے مستقل ذکر سے یہ بات نکلتی ہے کہ جو شخص مانگنے کے لیے آجائے ، اس کے متعلق زیادہ تحقیق کی ضرورت نہیں ہے کہ وہ فی الواقع مستحق ہے یا نہیں ہے۔ ہمارا حق صرف یہ ہے کہ مدد کر سکتے ہوں تو مدد کریں ، ورنہ شایستہ انداز سے اس کے سامنے اپنی معذرت پیش کر دیں۔
۴۵۹؎ اس سے مراد غلاموں کی گردنیں ہیں اور یہ قرآن کی انھی ہدایات میں سے ہے جو اس نے غلامی کے رواج کو بتدریج ختم کرنے کے لیے دی ہیں ۔ اس زمانے میں کوئی شخص اگر کسی ضرورت مند کو اس کے قرض ، تاوان یا اس طرح کی کسی دوسری مصیبت سے نجات دلائے تو یہ بھی ان شاء اللہ اسی درجے کی نیکی ہو گی ۔
۴۶۰؎ ایمان و انفاق کے بعد یہ نماز اور زکوٰۃ کا ذکر ان دونوں کے قانونی اور عملی مظاہر کی حیثیت سے ہوا ہے ۔ ایمان کی عظیم حقیقت عملاً نماز سے ظاہر ہوتی ہے اور انفاق کی عظیم حقیقت زکوٰۃ سے ۔ یہ ان دونوں کا کم سے کم تقاضا ہے ۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا اصلی حق اٹھتے بیٹھتے خدا کے ذکر اور اس کی راہ میں فیاضانہ انفاق سے ادا ہوتا ہے ۔
۴۶۱؎ یہ قیدان وفا پرستوں کے عزم و استقلال کو ظاہر کرتی ہے ۔ یعنی جب کوئی عہد کربیٹھتے ہیں تو خواہ کچھ ہو جائے ، بڑے سے بڑا نقصان اٹھا کر اور جان کی بازی لگا کر بھی وہ اسے پورا کرتے ہیں ۔
۴۶۲؎ اصل الفاظ ہیں : ’والموفون بعھدھم‘۔ ان میں ، اگر غور کیجیے تو اسلوبِ کلام دفعۃً بدل گیا ہے ۔ اس سے پہلے ایمان، انفاق، نماز اور زکوٰۃ کا ذکر فعل کے صیغوں میں تھا ۔ یہ انھی پر معطوف ہے ، لیکن اسمِ فاعل کی صورت میں ہے ۔ پھر آگے ’الصابرین فی الباسائ‘ میں ایک اور تبدیلی یہ ہوئی ہے کہ ’الموفون‘ پر معطوف ہونے کے باوجود وہ ’الصابرون‘ کے بجائے ’الصابرین‘ ، یعنی حالتِ نصب میں ہو گیا ہے ۔ استاذ امام اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
’’عربی زبان کے طلبہ اس بات سے واقف ہیں کہ عربی میں فعل کے صیغے تو صرف کسی فعل کے وقوع کو ظاہر کرتے ہیں لیکن صفت کے صیغے کسی مستقل صفت، کسی خصلت اور کسی کردار کو ظاہر کرتے ہیں ۔ بلکہ ان کے اندر ایک عزم و جزم کی روح بھی پوشیدہ ہوتی ہے ۔ اسی طرح یہ بات بھی اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ سلسلۂ کلام میں اگر کسی صفت کا ذکر بغیر کسی ظاہری سبب کے حالتِ نصب میں ہو تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ متکلم اس پر خاص طور پر زور دینا چاہتا ہے ۔ ہمارے اہلِ نحو اس بات کو ’علی سبیل المدح‘ یا ’ علی سبیل الاختصاص‘ کی اصطلاح میں تعبیر کرتے ہیں ۔ مثلاً یہاں ’موفون‘ کے بعد دفعۃً اس سے بالکل مختلف اسلوب میں ’الصابرین‘ جو آ گیا ہے تو اس سے معنی میں یہ اضافہ ہو جائے گا کہ گویا متکلم یہ کہنا چاہتا ہے کہ ’انا اخص بالذکر الصابرین‘ میں صابرین کا ذکر خاص طور پر کرنا چاہتا ہوں ۔‘‘(تدبرِ قرآن ۱/ ۴۲۷)
اس سے معلوم ہوا کہ دین میں اصل اہمیت کی چیز سیرت و کردار ہے ۔ یہی دین کا مغز اور اس کی روح ہے ۔ آزمایش کا اصلی میدان بھی یہی ہے ۔ انسان کو انفرادی زندگی میں یہی چیز بروتقویٰ کے مقام پر فائز کرتی ہے اور اجتماعی زندگی میں بھی یہی اسے صالحین و ابرار کے زمرے کا آدمی بناتی ہے ۔ چنانچہ ضروری ہوا کہ اسے خاص اہتمام کے ساتھ بیان کیا جائے ۔
استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اس کے متعلق ایک اہم نکتہ اور بھی واضح فرمایا ہے ۔ وہ لکھتے ہیں :
’’ایک سوال یہاں اور بھی پیدا ہو سکتا ہے ۔ وہ یہ کہ یہاں سیرت و کردار سے متعلق صرف دو ہی چیزوں کا ذکر فرمایا ۔ ایک ایفائے عہد کا ، دوسری صبر کا ۔ اس فہرست میں اور بھی چیزیں شامل ہو سکتی تھیں ، آخر ان کا ذکر کیوں نہیں فرمایا ۔ اس کا جواب یہ ہے کہ یہ دونوں چیزیں درحقیقت سیرت و اخلاق سے متعلق تمام اجزا کے لیے بمنزلۂ شیرازہ ہیں ۔ ایفاے عہد کے اندر تمام چھوٹے بڑے حقوق و فرائض آ جاتے ہیں ، خواہ وہ خلق سے متعلق ہوں یا خالق سے ؛ خواہ وہ کسی تحریری معاہدہ سے وجود میں آتے ہوں یا کسی نسبت ، تعلق ، رشتہ داری اور قرابت سے ؛ خواہ ان کا اظہار و اعلان ہوتا ہو یا وہ ہر اچھی سوسائٹی میں بغیر کہے ہوئے سمجھے اور مانے جاتے ہوں ۔ اللہ اور رسول ، ماں اور باپ ، بیوی اور بچے ، خویش و اقارب ، کنبہ اور خاندان، پڑوسی اور اہلِ محلہ ، استاذ اور شاگرد ، نوکر اور آقا، ملک اور قوم ، ہر ایک کے ساتھ ہم کسی نہ کسی ظاہری یا مخفی معاہدہ کے تحت بندھے ہوئے ہیں اور یہ برو تقویٰ کا ایک لازمی تقاضا ہے کہ ان تمام معاہدوں کے حقوق ادا کرنے والے بنیں ۔ گویا ایفائے عہد کی اصل روح ایفائے حقوق ہے اور ایفائے حقوق انسان کے تمام چھوٹے بڑے فرائض کو محیط ہے ۔
اس کے ساتھ صبر کی صفت کو جمع کر کے یہ واضح فرما دیا کہ ہر وہ مزاحمت جو ایفائے حقوق کی اس راہ میں حائل ہو مومن عزیمت و استقامت کے ساتھ اس کا مقابلہ کرے اور کسی حال میںبھی طمع، پست ہمتی یا خوف سے مغلوب نہ ہو۔‘‘
(تدبر قرآن ۱/ ۴۲۸)
۴۶۳؎ یہی تین حالتیں ہیں جن میں انسان کے عزم و استقلال کی آزمایش ہوتی ہے ۔ ان میں اگر کوئی شخص ثابت قدم رہے تو یقیناً برو تقویٰ کے اعلیٰ مقام پر فائز ہے ۔ قرآن نے آگے یہی کہاہے اور اس طرح یہ بات واضح کر دی ہے کہ جو لوگ چند ظاہری رسوم سے خدا کی وفاداری کا حق ادا کرنا چاہتے ہیں ، ان کے پاس نہ تقویٰ ہے اور نہ وہ اپنے عہدِ وفا میں سچے ہیں۔
(باقی)
ــــــــــــــــــــــــــــــــ