زیر نظر مقالہ احمدیت کے بنیادی استدلالات کے تنقیدی جائزے پر مشتمل ہے۔ احمدیت کے بنیادی مستدل دو ہیں: تسلسل نبوت کا اثبات اور مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کے دعویٰ نبوت کا اثبات۔
اس تنقیدی جائزے کی بنیاد اوّل تا آخر قرآن مجید پر رکھی گئی ہے، یہ اس لیے کہ دینی اختلافات میں فیصلہ کن اتھارٹی کا مقام فقط قرآن مجید ہی کو حاصل ہے:
کَانَ النَّاسُ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً ۟ فَبَعَثَ اللّٰہُ النَّبِیّٖنَ مُبَشِّرِیۡنَ وَ مُنۡذِرِیۡنَ ۪ وَ اَنۡزَلَ مَعَہُمُ الۡکِتٰبَ بِالۡحَقِّ لِیَحۡکُمَ بَیۡنَ النَّاسِ فِیۡمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ ؕ وَ مَا اخۡتَلَفَ فِیۡہِ اِلَّا الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡہُ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَتۡہُمُ الۡبَیِّنٰتُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ۚ فَہَدَی اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَا اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ مِنَ الۡحَقِّ بِاِذۡنِہٖ ؕ وَ اللّٰہُ یَہۡدِیۡ مَنۡ یَّشَآءُ اِلٰی صِرَاطٍ مُّسۡتَقِیۡمٍ .(البقرہ ٢: ٢١٣)
’’لوگ ایک ہی امت تھے۔ پھر (اُن میں اختلاف پیدا ہوا تو) اللہ نے نبی بھیجے، بشارت دیتے اور انذار کرتے ہوئے اور اُن کے ساتھ قول فیصل کی صورت میں اپنی کتاب نازل کی تاکہ لوگوں کے درمیان وہ اُن کے اختلافات کا فیصلہ کر دے۔ یہ جن کو دی گئی، اِس میں اختلاف بھی اُنھی لوگوں نے کیا، نہایت واضح دلائل کے اُن کے سامنے آجانے کے بعد، محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے۔ پھر یہ جو (قرآن کے) ماننے والے ہیں، اللہ نے اپنی توفیق سے اُس حق کے بارے میں اِن کی رہنمائی کی جس میں یہ اختلاف کر رہے تھے۔ اور اللہ جس کو چاہتا ہے، (اپنے قانون کے مطابق) سیدھی راہ کی ہدایت عطا فرماتا ہے۔‘‘
حق و باطل کے درمیان قرآن مجید کو میزان اور فرقان بنا کر نازل کیا گیا ہے:
اَللّٰهُ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَﵧ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيْبٌ.(الشوریٰ٤٢: ١٧)
’’اللہ ہی ہے جس نے اپنی یہ کتاب قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے اور (اِس طرح حق و باطل کو الگ الگ کرنے کے لیے) اپنی میزان نازل کر دی ہے۔ (اِنھیں توفیق ہو تو اِس سے فائدہ اٹھا لیں، ورنہ) تم کو کیا پتا کہ شاید قیامت قریب ہی آ لگی ہو!‘‘
تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًا.(الفرقان٢٥: ١)
’’بہت بزرگ، بہت فیض رساں ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے پر یہ فرقان اتارا ہے، اِس لیے کہ وہ اہل عالم کے لیے خبردار کرنے والا ہو۔‘‘
قرآن مجید کی اس حیثیت کا تقاضا تھا کہ اسےغیر مبہم، قطعیت الدلالت، لسان مبین میں نازل کیا جائے۔ یہ بالکل غیر معقول ہوتاکہ جس کتاب نے دین کے بارے میں پیدا ہونے والے اختلافات میں درست راہ دکھانی ہے، خود اس کے بیان میں کوئی ایسی کجی،کمی یا ابہام رہ جائے،جس سے کسی غلط عقیدے اور نظریے کو کوئی حقیقی جڑ مل سکے یا کوئی ایسا جواز ہاتھ آ جائے جس کا قطعی رد علم وعقل کی بنیاد پر ممکن نہ ہو :
هُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ عَلٰي عَبْدِهٖ٘ اٰيٰتٍۣ بَيِّنٰتٍ لِّيُخْرِجَكُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَي النُّوْرِﵧ وَاِنَّ اللّٰهَ بِكُمْ لَرَءُوْفٌ رَّحِيْمٌ.(الحدید٥٧: ٩)
’’وہی ہے جو اپنے بندے پر یہ روشن آیتیں نازل کر رہا ہے تاکہ تمھیں تاریکیوں سے نکال کر روشنی میں لے آئے، اور حقیقت یہ ہے کہ اللہ تم پر نہایت شفیق اور بے حد مہربان ہے۔‘‘
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ عَلٰي عَبْدِهِ الْكِتٰبَ وَلَمْ يَجْعَلْ لَّهٗ عِوَجًا. قَيِّمًا.(الکہف ١٨: ١ـ٢)
’’شکر اللہ ہی کے لیے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب اتاری اور اِس میں کوئی کج پیچ نہیں رکھا ہے۔ ہر لحاظ سے ٹھیک اور سیدھی۔‘‘
قرآن مجید میں زبان و دلائل کے وضوح کے اہتمام کےباوجودانسان کے قصورفہم، قلت تدبر، علم و استدلال کی کوتاہیوں اور تعصبات کے سبب فکری کجی کا پیدا ہونا بھی ناگزیر ہے۔ اس کا حل پھر قرآن مجید ہی سے علم و عقل اور زبان و بیان کے مسلمات کی روشنی میں درست استدلال کی بنیاد پراس کے درست مفاہیم کی طرف توجہ دلانا ہے۔ قرآن مجید کے درست مفاہیم تک رسائی کے لیے ضروری ہے کہ اس کی زبان و بیان اور اسالیب کلام سے اچھی آگاہی ہو اورآئینۂ نظر کو دیانت داری سے ذاتی اور نظریاتی تعصبات اور رجحانات سے مصفا کر لیا جائے تاکہ بات واضح ہوجانے کےبعد اسےقبول کرنے میں دشواری نہ ہو ۔ انسان کی اصل آزمایش یہی ہے۔ روزقیامت اس سے یہی سوال ہوگا کہ اس نے تلاش حق کے لیے کتنی دیانت داری سے جستجو کی اور حق بات سامنے آنے پر کیسا رویہ اختیار کیا؟ یہ انسان کے اپنے اخروی اور ابدی مفاد کا مسئلہ ہے کہ وہ اس سوال کی جواب دہی کے لیے تیاری کرے اور خود کو کسی وابستگی پر قربان نہ ہونےد ے۔
ہمارے ہاں مباحثے کی ایک بنیادی خرابی یہ ہے کہ مسئلے کے بنیادی استدلال کو طے کیے بغیر ہی تفصیلات،جزئیات اور اس سے آگے بڑھ کر ذاتیات پر بحث شروع کر دی جاتی ہے،جس سے مباحثہ نتیجہ خیز ہونے کے بجاے خلط مبحث کا شکار ہو کر بھول بھلیوں میں بھٹک جاتا ہےاور منصف مزاج قاری کے لیے فیصلہ کن نہیں ہوپاتا۔
اس کتاب میں احمدیت کے فقط بنیادی استدلالات کو زیر بحث لایا گیا، تفصیلات اور ذاتیات اس کتاب کے مقرر کردہ احاطۂ علمی سے خارج ہیں۔
رد قادیانیت کے وسیع و و قیع لٹریچر کے ہوتے ہوئے، اس کتاب کی تصنیف کا جواز چند محرکات بنے:
· ضرورت محسوس ہوئی کہ بالکل اصولی انداز میں احمدیت کے بنیادی استدلالات کا جائزہ زبان و بیان کے مسلمات، جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا، کی اساس پر قرآن مجید کی آیات بینات کی روشنی میں لیا جائے تاکہ نتائج پوری طرح منقح اور متعین ہو کر فیصلہ کن جگہ پر آجائیں۔
· یہ احساس ہوا کہ نبوت اور ختم نبوت سے متعلق احمدیت اور غیر احمدی بیانیے کے درمیان کچھ ایسی مشترک بنیادیں ہیں جن کو تسلیم کرلینے کے بعد بعض پہلوؤں سے مرزا غلام احمد صاحب قادیانی کےدعویٰ نبوت کی کلی یا قطعی نفی نہیں ہو پاتی یا مخالف پر حجت تمام ہونے سے رہ جاتی ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان مقامات کو بھی قرآن مجید کی آیات بینات کی روشنی میں قطعیت سےطے کیا جانا ضروری ہے۔
ہمارے استدلالات کی بنیادیں اور خصوصیات درج ذیل ہیں:
· استدلال کے لیے زبان و بیان کے مسلمہ علمی و عقلی اصولوں، جن سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا، کو مدنظر رکھا گیا ہے۔
· تسلسل نبوت کے تصور اور اس کی بنا پر مرزا صاحب کےنبی ہونے کا معاملہ اگر کوئی حقیقت رکھتا ہے تو یہ اس قدر اہم بات ہے کہ سب سے پہلے قرآن مجید سے اس کا اثبات واضح الفاظ میں موجودہونا چاہیے ۔ قرآن مجید سے اگر فقط نبوت کا تسلسل ہی ثابت ہو تو بھی آیندہ انبیا کے لیے گنجایش نکل سکتی ہے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ نہایت اہم ہےکہ ان عقائد و نظریات کوقرآن مجید کی روشنی ہی میں طے کیا جائے۔
· عقائد کے معاملے میں قرآن مجید ہر لحاظ سے حرف آخر ہے۔ عقائد مابعد الطبیعیاتی حقائق کا بیان ہیں۔ یہ معلومات ظاہر کرنے کا علم اور اختیار اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کو نہیں ہے۔ چنانچہ اس بحث میں حدیث و روایات کو بنیادی طور پر محل استدلال نہیں بنایا جا سکتا کہ اس قدر اہم معاملے کا انحصار روایت بالمعنیٰ، جو قوی و ضعیف راویوں کے شعوری اور لاشعوری تصرفات سے مبرا نہیں، پر نہیں کیا جا سکتا ۔ اصولی طور پر کسی قطعی نوعیت کےمعاملے کا اثبات اور نفی کسی ظنی نوعیت کے ماخذ سے کرنا درست نہیں۔ اس بنا پر روایات و اخبارات سے احمدیت کے استدلالات ہمارے لیے درخور اعتنانہیں۔ تاہم، روایات کی اپنی اہمیت کی بنا پر ہم نے ضمناً ان کو شامل بحث کیا ہے اور تائیداً انھیں پیش کیا ہے۔
· اشاری اور باطنی تفسیری نکات اور متصوفانہ اقوال بھی ہمارے مقرر کردہ علمی دائرہ سے باہر ہیں۔ یہ موضوعی نوعیت کی چیزیں ہیں جن کو علم و استدلال کے میدان میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
· دور از کار نکتہ آفرینیاں، جو مرزا صاحب اور ان کے متبعین کے استدلالات میں بہ کثرت پائی جاتی ہیں، شامل بحث نہیں کی گئیں۔ اس ذہانت آمیزی کی داد تو دی جا سکتی ہے، مگرعلم و استدلال کی دنیا میں اس سے ثابت کچھ نہیں ہوتا اور نہ کوئی حجت قائم ہوتی ہے۔
· منطقیانہ نوعیت کے دلائل بھی زیر بحث نہیں لائے گئے۔ یہ جیسے اثبات کے لیے دیے جا سکتے ہیں، نفی کے لیے بھی دیے جا سکتے ہیں، منطقیانہ دلائل میں مخاطب کے مانے ہوئے کسی مقدمے سے یہ جانچے بغیر استدلال کیا جاتا ہے کہ خود مقدمہ درست ہے بھی یا نہیں۔ یہ طریقہ مناظرانہ اسلوب میں کوئی وقتی فتح دلا دے تو الگ بات ہے، اس سے کوئی حتمی اور فیصلہ کن نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔
· علم کی دنیا میں کسی بیانیے کی پیش کش کے لحاظ سے پہلے دعو یٰ، پھر اس کی دلیل اور اس کے بعداس کا استدلال پیش کیا جاتا ہے،لیکن کسی بیانیے کے تجزیے اور تحلیل کے لیے اس ترتیب کے بالعکس، پہلے استدلال کو جانچا جاتا ہے،اس کے بعد دعویٰ خود بخود ثابت یا رد ہو جاتا ہے۔اس بنا پر ہماری ساری بحث کا محور احمدیت کا استدلال ہےاور یہ ہم اس کتاب میں قرآن مجید کی آیات بینات کی اساس پر کریں گے کہ درحقیقت فیصلہ کن جگہ یہی ہے۔
احمدیت کے نقطۂ نظر کے بیان میں ان کی نمایندہ تفسیر، ’’تفسیر صغیر‘‘سے آیات قرآنی کا ترجمہ لیا گیاہے، جب کہ ہمارے مدعا کے بیان میں پیش کردہ آیات قرآنی کا ترجمہ جناب جاوید احمد غامدی صاحب کے ترجمۂ قرآن ’’القرآن الکریم‘‘ سے لیا گیا ہے۔
اس کتاب کو چار ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے:
· پہلا باب احمدیت کے موضوعی استدلالات پر مشتمل ہے۔ اس باب میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس قسم کے استدلالات علمی استدلال بننے کی اہلیت نہیں رکھتے، اس لیے استدلال کی بحث میں ان کو لانا کوئی اہمیت نہیں رکھتا۔
· باب دوم میں تسلسل نبوت، اثبات نبوت اور ختم نبوت پر ہم نے اپنے مواقف دلائل کے ساتھ پیش کیے ہیں۔
· باب سوم میں احمدیت کے استدلالات کا جا ئزہ علم و عقل اور زبان و بیان کے مسلمات کی اساس پر قرآن مجید کی روشنی میں لیا گیا ہے۔
· باب چہارم عمومی نوعیت کے چند مختصر، مگر اہم تبصروں پر مشتمل ہے۔
کتاب میں مذکور استدلالات کی استواری اور تنقیح میں استاد محترم جناب جاوید احمد غامدی کی رہنمائی نے بنیادی کردار ادا کیا۔ جناب افتخار تبسم اور ڈاکٹر شہزاد سلیم نے اس کاوش کو توقع سے بڑھ کر سراہا اور مصنف کی حوصلہ افزائی کی۔ جناب افتخار تبسم کے توسط سے بعض اہم علمی ماخذوں سے آگاہی حاصل ہوئی، جس سے کتاب کی وقعت میں گراں قدر اضافہ ہوا۔ میں ان سب اساتذہ کا شکرگزار ہوں۔
خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں اپنی کتاب کا درست فہم نصیب کرے اور وہی عقائد اختیار کرنے کی توفیق دے جو اس نے اپنی کتاب میں بیان کر دیے ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ