وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ، بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ، یَاْمُرُوْنَبِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ.(التوبہ ۹: ۷۱)
’’مومن مرد اور مومن عورتیں، وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں ۔ (اِن منافقوں کے برخلاف) وہ بھلائی کی تلقین کرتے اور برائی سے روکتے ہیں۔‘‘
اِس آیت میں بھلائی کی تلقین کے لیے ’اَمْر‘ کا لفظ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ جس طرح حکم دینے کے لیے آتا ہے، اُسی طرح تلقین، نصیحت، مشورے اورترغیب کے معنی میں بھی آتا ہے۔ ’وَالْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ‘ کے الفاظ سے آیت کی ابتدا دلیل ہے کہ یہاں یہ اِسی مفہوم میں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ انسانی فطرت میں جو باتیں خیر کی حیثیت سے پہچانی جاتی ہیں، اُن کی تلقین کی جائے اور جن کو فطرت نا پسند کرتی ہے، اُن سے لوگوں کو روکا جائے۔ سورۂ عصر میں یہی مضمون ایک دوسرے پہلو سے ’تَوَاصَوْا بِالْحَقِّ‘ اور ’تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ‘ کے الفاظ میں بیان ہوا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
وَالْعَصْرِ ، اِنَّ الاِْنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ ، اِلاَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.( ۱۰۳: ۱۔۳)
’’زمانہ گواہی دیتا ہے،یہ انسان خسارے میں پڑ کر رہیں گے۔ہاں، مگر وہ نہیں جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے، اور ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کی اور (حق پر) ثابت قدمی کی نصیحت کی ۔‘‘
اِس سے واضح ہے کہ یہ ہر فرد کی ذمہ داری اور ایمان کے بنیادی تقاضوں میں سے ایک ہے۔ ہم عارف ہوں یا عامی، ہمارا قیام کسی بستی میں ہو یا جنگل میں ، ہم غیرمسلموں کے ملک میں رہتے ہوں یا مسلمانوں کی کسی منظم ریاست کے شہریوں کی حیثیت سے زندگی بسر کر رہے ہوں، ہر حال میں اِس کے مکلف ہیں ۔ بندۂ مومن نیک عمل کرے اور ایمان کا یہ تقاضا بھی پورا کر دے تو قرآن نے ضمانت دی ہے کہ دنیا اور آخرت میں خدا کے عذاب سے محفوظ رہے گا اور جنت کی ابدی بادشاہی اُسے حاصل ہو جائے گی ۔
اِس کام کی جو نوعیت اِن آیتوں میں بیان ہوئی ہے ، اُس سے یہ بھی واضح ہے کہ دعوت کی اِس صورت میں داعی اور مدعو الگ الگ نہیں ہیں ،بلکہ ہر شخص ہر وقت جس طرح داعی ہے ، اُسی طرح مدعو بھی ہے ۔ ’بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآءُ بَعْضٍ‘کے الفاظ سے قرآن نے اِسی طرف اشارہ کیا ہے۔یہ فرض باپ کو بیٹے کے لیے اور بیٹے کو باپ کے لیے، بیوی کو شوہر کے لیے اور شوہر کو بیوی کے لیے ،بھائی کو بہن کے لیے اور بہن کو بھائی کے لیے ،دوست کو دوست کے لیے اور پڑوسی کو پڑوسی کے لیے ، غرض یہ کہ ہر شخص کو اپنے ساتھ متعلق ہرشخص کے لیے ادا کرنا چاہیے ۔ وہ جہاں یہ دیکھے کہ اُس کے متعلقین میں سے کسی نے کوئی خلاف حق طریقہ اختیار کیا ہے ،اُسے چاہیے کہ اپنے علم اور اپنی استعداد و صلاحیت کے مطابق اُسے راستی کی روش اپنانے کی نصیحت کرے ۔ یہ ہو سکتا ہے کہ صبح ہم کسی شخص کو بھلائی کی ترغیب دیں اور شام کے وقت وہ ہمارے لیے یہ خدمت انجام دے ۔ آج ہم کسی کو کوئی حق پہنچائیں اور کل وہ ہمیں اُس کی تلقین کرے ۔ غرض یہ کہ جب موقع میسر آئے ، ہر مسلمان کو اپنے دائرۂ عمل میں یہ کام لازماً انجام دیتے رہنا چاہیے ۔
پھر اِس دائرے میں یہ بھی ضروری ہے کہ الاقرب فالاقرب کی ترجیح قائم ر کھی جائے اور آدمی سب سے بڑھ کر اپنے اہل و عیال کو دوزخ سے بچانے کی کوشش کرے۔ اُسے متنبہ رہنا چاہیے کہ وہ اگر دوسروں کے دروازے پر دستک دیتا رہا اور اُس کے اپنے گھر والے شب و روز جہنم کے لیے ایندھن فراہم کرتے رہے تو ہو سکتا ہے کہ ساری جدوجہد کے باوجود اُس کی یہی کوتاہی دنیا اور آخرت میں اُس کے لیے وبال بن جائے ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ، قُوْٓا اَنْفُسَکُمْ وَاَھْلِیْکُمْ نَارًا وَّقُوْدُھَا النَّاسُ وَالْحِجَارَۃُ ، عَلَیْھَا مَلآءِکَۃٌ غِلَاظٌ شِدَادٌ ، لَّا یَعْصُوْنَ اللّٰہَ مَآ اَمَرَھُمْ وَیَفْعَلُوْنَ مَا یُؤْمَرُوْنَ.(التحریم ۶۶: ۶ )
’’ایمان والو، (جب پیغمبر اور اُس کی بیویاں بھی احتساب سے بالا نہیں تو) تم بھی اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو اُس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے، (جنھیں وہ پوجتے رہے)،جس پر تند خواور سخت گیر فرشتے مقرر ہوں گے۔ اللہ جو بات اُنھیں فرمائے گا، اُس کی تعمیل میں نافرمانی نہ کریں گے اور وہی کریں گے جس کا حکم اُنھیں دیا جائے گا۔‘‘
یہاں یہ بات بھی واضح رہنی چاہیے کہ اِس دائرۂ عمل میں ہر شخص کا ایک دائرۂ اختیار بھی ہے۔ دنیا میں اللہ کا قانون یہی ہے کہ سن رشد کو پہنچنے کے بعد آدمی کسی عورت کا شوہر اور اِس کے نتیجے میں بچوں کا باپ بنے۔ بنی آدم کی یہ دونوں حیثیتیں دین و فطرت کی رو سے اُن کا ایک دائرۂ اختیار پیدا کرتی ہیں ۔ شوہر کی حیثیت سے بیوی اور باپ کی حیثیت سے بچوں پر یہی اختیار ہے جس کی بنا پر ہر شخص مکلف ہے کہ وہ اپنے اِس دائرۂ اختیار میں رہنے والوں کے تمام معاملات کے لیے مسؤل قرار پائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے :
ألا، کلکم راع وکلکم مسؤول عن رعیتہ.( بخاری، رقم ۲۵۵۴)
’’آگاہ رہو کہ تم میں سے ہر شخص چرواہا بنایا گیا ہے اور ہر ایک سے اُس کے گلّے کے بارے میں پوچھا جائے گا۔‘‘
انسان کا یہی دائرۂ اختیار ہے جس کے بارے میں مسلمانوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اگر اِس میں کوئی منکر دیکھیں تو اُس کا ازالہ کرنے کی کوشش کریں۔ آپ کا ارشاد ہے :
من راٰی منکم منکرًا فلیغیرہ بیدہ ، فإن لم یستطع فبلسانہ ، فإن لم یستطع فبقلبہ، وذلک أضعف الإیمان.(مسلم ، رقم ۱۷۷)
’’تم میں سے کوئی شخص (اپنے دائرۂ اختیار میں) کوئی برائی دیکھے تو اُسے چاہیے کہ ہاتھ سے اُس کا ازالہ کرے۔ پھر اگر اِس کی ہمت نہ ہو تو زبان سے، اور اگر یہ بھی نہ ہو سکے تو دل سے اُسے ناگوار سمجھے اور یہ ایمان کا ادنیٰ ترین درجہ ہے۔‘‘
’إن لم یستطع‘ کے الفاظ یہاں اُس استطاعت کے لیے استعمال نہیں ہوئے جو آدمی کو کسی چیز کا مکلف ٹھیراتی ہے، بلکہ ہمت اور حوصلے کے معنی میں استعمال ہوئے ہیں جو ایمان کی قوت اور کمزوری سے کم یا زیادہ ہوتا ہے ۔ لہٰذا ہرشخص کے دائرۂ اختیار میں اُس کا پہلا کام یہی ہے کہ خود دین ہی کی کوئی مصلحت مانع نہ ہو تو قوت سے منکر کو مٹا دے ۔ زبان سے روکنے کا درجہ اِس دائرے میں دوسرا ہے اور دل کی نفرت وہ آخری درجہ ہے کہ آدمی اگر اِس پر بھی قائم نہ رہا تو اِس کے معنی پھر یہی ہیں کہ ایمان کا کوئی ذرہ بھی اُس کے دل میں باقی نہیں رہ گیا ہے ۔
قرآن کی روشنی میں روایت پر غور کیا جائے تو اِس کی صحیح تاویل یہی ہو سکتی ہے جو ہم نے بیان کر دی ہے ۔ شوہر،باپ، حکمران، سب اِس روایت کی رو سے اپنے اپنے دائرۂ اختیار میں ، اِسی کے مکلف ہیں کہ منکر کو قوت سے مٹا دیں۔ اِس سے کم جو صورت بھی وہ اختیار کریں گے، بے شک ضعف ایمان کی علامت ہے، لیکن اِس دائرے سے باہر اِس طرح کا اقدام جہاد نہیں، بلکہ بدترین فساد ہے جس کے لیے دین میں ہرگز کوئی گنجایش ثابت نہیں کی جا سکتی ۔ قرآن اِس معاملے میں بالکل واضح ہے کہ داعی کی حیثیت سے خدا کے کسی پیغمبر کو بھی تذکیر اور بلاغ مبین سے آگے کسی اقدام کی اجازت نہیں دی گئی ۔ ارشاد فرمایا ہے :
اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَکِّرٌ، لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ.(الغاشیہ ۸۸: ۲۱۔۲۲)
’’(اے پیغمبر)، تم یاددہانی کرنے والے ہی ہو، تم اِن پر کوئی داروغہ نہیں ہو۔‘‘