موجودہ زمانے میں کامیاب ممالک کے تجزیے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آگے بڑھنے اور باوقار زندگی گزارنے کے لیے درج ذیل چار عوامل لازم ہیں۔ تعلیم سب کے لیے، جس کا مطلب یہ ہے کہ ہر بچے کی پہلی بارہ سال کی تعلیم مفت لازمی اور یکساں ہو، ملک کے اندر سائنسی تعلیم کا جال بچھا ہوا ہو، عزت کی سب سے بڑی شرط تعلیم ہو اور تعلیم ہی مملکت کی اولین ترجیح ہو۔
یہ کتاب ایک عام تعلیم یافتہ مسلمان کو مدنظر رکھ کر لکھی گئی ہے۔ اس لیے اس کی زبان قصداً سادہ رکھی گئی ہے اور کتابوں کے زیادہ حوالے نہیں دیے گئے۔ پیچیدہ مباحث سے اجتناب کیا گیا ہے اور ہر بات کو اختصار کے ساتھ بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس لیے علما کرام کو اس کتاب میں تشنگی نظر آئے ، تو یہ اس کتاب کے اسلوب کا تقاضا تھا۔ دعا ہے کہ رب کریم اس سعی کو دنیا اور آخرت میں مقبول فرمائے۔
According to the Qur’ān, the establishment of religious truths rests on two key pillars: (1) the innate moral insight (fitrah) with which every human being instinctively discriminates between truth and falsehood—with assistance from reason and empirical observation—and (2) divine revelation, serving as external corroboration of these innate truths, which culminated in the Qur’ān as the ultimate expression of prophetic testimony. The Qur’ān utilizes the former to substantiate core tenets such as the existence of God and the concept of the Hereafter. The latter, by referencing past prophecies and their subsequent fulfilment, serves to validate the prophetic tradition itself.
اسلامی شریعت کی تعبیر وتشریح سے متعلق علمی مباحث میں ’جہاد‘ ایک معرکہ آرا بحث کا عنوان ہے۔ اسلام میں ’جہاد‘ کا تصور، اس کی غرض و غایت اور اس کا بنیادی فلسفہ کیا ہے؟ یہ سوال ان اہم اور نازک ترین سوالات میں سے ہے جن کا جواب بحیثیت مجموعی پورے دین کے حوالے سے ایک متعین زاویہ نگاہ کی تشکیل کرتا اور دین کے اصولی و فروعی اجزا کی تعبیر و تشریح پر نہایت گہرے طور پر اثر انداز ہوتا ہے۔
دعا انسان کو اس کے رب سے ملاتی ہے۔ قرآن میں اللہ اپنے برگزیدہ بندوں کی دعائیں اور اذکار نقل کرتا ہے ، ان کی قبولیت کا اعلان کرتا اور ان کی تحسین فرماتا ہے۔ذخیرہ احادیث میں بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت سی اذکار اور دعائیں منقول ہیں۔ان اذکار اور دعاوں کے سیکھنے کا مقصد اپنے دل کو ہمہ وقت خدا کی یاد سے معمور رکھنا ہے۔انسان کا دل بلا شبہ خدا کی یاد ہی سے زندہ اور آباد رہتا ہے۔اس یاد میں ہمیشگی اور پختگی اسی طرح ضروری ہے جیسا کہ زندہ رہنے کے لیے سانس۔
یہ ایک ناقابلِ تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہو چکا ہے۔ امانت، دیانت، صدق، عدل، ایفائے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزور پڑتی جا رہی ہیں۔ کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ ظلم و ناانصافی کا دور دورہ ہے۔ لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اور اپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہو چکے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔ یہ وہ صورتحال ہے جس پر ہر شخص کفِ افسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔ ایسے میں ضروری ہے کہ اس مسئلے کا تفصیلی جائزہ لے کر ان عناصر کی نشاندہی کی جائے جو ہمارے اجتماعی بگاڑ کا سبب بن رہے ہیں۔ البتہ اس سے قبل یہ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ دنیوی اعتبار سے اخلاقی اقدار کی قدر و قیمت کو واضح کیا جائے تاکہ یہ اندازہ ہو سکے کہ اگر ہم نے اصلاح کی کوشش نہ کی تو اس کے کتنے سنگین نتائج نکل سکتے ہیں۔