نوازش منعم
[مندرجہ ذیل تحریرنہ افسانہ ہے نہ سفرنامہ... یہ محض چند ناتراشیدہ احساسات ہیں جو دوران حج دل پر وارد ہوئے... اور کم و بیش وہیں قلم بند کیے گئے... چنانچہ سفر کی دیگر تفصیلات کا ذکر نہیں ہے۔]
بس رُصیفہ( مکہ) سے صبح ۸:۳۰ بجے نکلی۔تقریباً ۸۰ عدد حاجی صاحبان اس میں سوار ہوئے۔اپنے اپنے فوڈ پیکٹس، جوس اور پانی کی ٹھنڈی بوتلیں لیے سبھی نے خوشی خوشی اپنی اپنی سیٹیں سنبھال لیں۔ اخاہ !! ہم طائف جا رہے تھے ...۔
بس مکہ کے راستے سے طائف کی طرف جونہی چلنے لگی، دل کی دھڑکن تیز ہوتی چلی گئی...۔راستے کے دونوں طرف پہلےپہل مکہ کی آبادی چلتی رہی، پھر پہاڑیاں شروع ہوگئیں۔ جب سے ہم مکہ آئے تب سے پہلی بار ریگستانی علاقہ دیکھنے کا موقع ملا۔ ریت...دور دور تک ریت...جن کے بیچ سے سڑکیں نکال لی گئی ہیں۔ ریت کے طویل میدان اور ان میں اگی ہوئی خشک ریگستانی جھاڑیاں...جا بجا...ریت کا رنگ الگ الگ نظر آیا۔ کہیں سفیدی مائل، کہیں بھورا،کہیں سنہرا...روایتی صحرا، اس کے اونچے نیچے ٹیلے،روپہلی ریت پر ہواؤں کے بہنے کے نشانات، فضاؤں کا سناٹا، اس منجمد سکوت کو توڑتی فراٹے بھرتی کاریں، لحیم شحیم بسیں، عظیم الشان عمارتیں، حسین مساجد،شان دار ہوٹل، طعام خانے، دکانیں ہی دکانیں...مکہ سے طائف کے سفر میں پہلے پہل تو یہی نظر آتا رہا۔ بس چلتی رہی۔ پھر پہاڑیاں اور تاحد نظر ریتلے میدان آگئے۔ میں نے سوچا...آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پیدل طائف گئے تھے۔ اتنا فاصلہ تو ہوگا کہ کوئی پیدل جا سکے۔وقت چلتا رہا...بس بھی چلتی رہی...خیالات بھی چلتے رہے...اتنی دور !!! پیدل؟؟؟؟ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم!!! میری جان آپ پر نثار ...دین کی خاطر، اللہ کی خاطر، امت کی خاطر...وہ میرا اُمی!! میرا محسن !! پیدل سفر کرتا رہا ؟؟!! میرا دل غم سے بھر گیا۔ میں نے کھڑکی کے باہر، دور تلک پھیلے، مہیب صحرا پر نظر ڈالی۔ ذہن دھندلے خیالوں کی تجسیم کرنے لگا...اور احساسات نےکھڑکی کے پار ...ریت کی چادر پر ...تاریخ کی منظر کشی شروع کردی ...آہ !!! خاتم المرسلیں ! رحمۃً للعٰلمیں! زید بن حارثہ کے ساتھ چلے جا رہے تھے۔ دو دھندلے خیال ...دو مدھم خاکے ...میں نے خیالوں ہی خیالوں میں اپنے دل پر ان امیدوں کو حاوی کیا جو طائف جاتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دل میں جاگ رہی تھیں...۔
اہل طائف توحید کی دعوت قبول کر لیں گے۔ میری پکار پر لبیک کہہ اٹھیں گے۔ مسلمانو ں کو اہل مکہ کے جور و ستم سے نجات مل جائےگی۔ دین پھیلنے لگے گا۔کفر کی سیاہی چھٹ جائے گی۔ زمین تو حید کے نور سے جگمگا اٹھے گی !!!
میرے احساسات گہرے ہوتے گئے ...آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سردا رانِ طائف سے ملاقات،ان کے سخت اور استہزا ئی جوابات، پھر ان حاسدوں کی وہ انتقامی رسوا کن کارروائی...اوباشوں کے ذریعے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تاک تاک کرگھٹنوں کے نیچے پتھر مارنا تاکہ آپ لڑکھڑا کر گر جائیں...میرے احساسات کا پردہ تھا اور سیرت رسول کی وہ فلم...پوری آب و تاب سے سارے مناظر یکے بعد دیگرے روشن ہو رہے تھے۔ وہ مناظر، جنھیں میں نے، آپ نے، کئی بار پڑھا، کئی بار سُنا، کئی بار دہرایا ہے...یا ربی !! وہ پاے مبارک، وہ دُکھتے زخم، وہ خون سے بھرےجوتے، جسم سے بہتا خون، روح سے رستا خون، امیدوں کا خون ! آرزوؤں کا خون ! ...ٹپ ٹپ ٹپ...۔دل کا غم آنکھوں کے راستے بہ نکلا ! وہ آنکھ ہی کیا جو اپنے محسن کے دکھ پر رو نہ سکے !!
میری آنکھوں سے بہتے نمکین پانی نے ریتلے میدانوں کا منظر تو دھندلا دیا، مگر احساسات ...احساسات گہرے ہوتے گئے !! یا اللہ !! سر پر آگ برساتا آسمان، نیچے جھلستی ریت...واپسی کا سفر آخر کیسے طے کیا ہوگااُن مبارک زخمی پیروں نے...؟؟
لگژری بس کے AC کا blow عین سر پر اور بہت تیز تھا۔ اس ٹھنڈک میں، آرام دہ reclining chair پر بیٹھی ...میں مسلسل باہر دیکھتی رہی۔ پتھروں، کانٹوں،جھاڑیوں سے، گرم تپتی ریت سے، کبھی نشیب تو کبھی فراز سے، میرے احساسات گزرتے رہے۔ AC کی ٹھنڈک سے میرے ہاتھ پیر سُن ہونے لگے تھے۔دس بج چکے تھے، مگر طائف ابھی آیا نہیں تھا۔ میں نے بس کےافراد پر اک طائرانہ نظر ڈالی۔ سارے لوگ لگژری کا مزہ لے رہے تھے۔ بغور دیکھا تو معلوم ہوا کہ وہ تمام تونیند کی وادیوں میں کھو چکے تھے۔ میں نے دوبارہ نظر دوڑائی...کوئی تو درد مند دل ہوگاجو جاگ رہا ہوگا !!! ...مگر حیف !! سارے حاجی صاحبان گہری نیند سو رہے تھے۔ ایک آہ میرے لبوں سے آزاد ہوئی...ساری امت بھی تو سو رہی ہے۔ آج اسلام زخموں سےچُور ہے، پتھر تاک تاک کر مارے جا رہے ہیں تاکہ خدا کا دین لڑکھڑا کر گر پڑے۔ اُس کے دامن کو داغ دار کیا جارہا ہے۔ اُس کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔
مگر امت !! متاع الدنیا کی لگژری بس میں، خوابِ غفلت میں پڑی، زندگی کا سفر طے کیے جا رہی ہے۔بس کے مسافر بھی غافل پڑے تھے۔ اُس خطۂ زمیں سے غافل جہاں سے اُن کا محسن،اُنھی کے تاب ناک مستقبل کے لیے، گھنٹوں ...تپتی دھوپ میں، تپتے صحرا سے گزرا تھا...اُس فکر سے بے پروا، جس فکر نے اُس جواں سال حُسن کو بوڑھا کردیا تھا۔ اُس درد سے نا آشنا، جس درد نے ایک حساس، ذمہ دار دل کو ایسا مضطر کر رکھا تھا کہ ذمہ داری سونپنے والے کو خود کہنا پڑا۔ ... ’فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلٰ٘ي اٰثَارِهِمْ اِنْ لَّمْ يُؤْمِنُوْا بِهٰذَا الْحَدِيْثِ اَسَفًا‘، ’’اے محمد، اگر یہ لوگ اس کلام پر ایمان نہ لائیں گے تو شاید تم اِن کے پیچھے اپنی جان ہی گنوا بیٹھو گے!‘‘ (الکہف ۱۸: ۶)۔
میں نے شیشے سرکا کر بس کی کھڑکی ذرا سی کھولی۔ گرم لُو کا اک زبردست تھپیڑا تیزی سےاندر چلا آیا۔ اُس حدت کو میں اپنے چہرے پر محسوس کرنا چاہ رہی تھی جو میرے محسن نے ... کئی میل ... بے سروسامان ... پیدل چلتے ہوئے جھیلی تھی! کچھ دیر تو میں برداشت کرتی رہی...مگر جب سانس لینا بھی دُشوار ہو گیا... تو میں نےکھڑکی بند کردی... بےاختیار...!!!!...میرے لبوں سے درودجاری ہوگیا اور آنکھوں سے پانی...!!
وہ جانِ حیاتِ کون و مکاں
وہ روحِ نجاتِ انسانی
وہ جس کی بلندی کے آگے
افلاک ہوئے پانی پانی
وہ فقر کا پیکر، جس کے قدم
چُھوتا ہے شِکوۂ سُلطانی
اُن ہی سے مجھے نِسبت ہے مگر
کب اُن کی حقیقت پہچانی؟
احساسِ خطا کی پلکوں سے
آنسو بن کر گر جاتا ہوں !
کہنے کو مسلماں میں بھی ہوں
لیکن... ... ... کہتے شرماتا ہوں
اسلام کی یہ تاریخِ الم !
طوفان اُٹھے،بھونچال آئے
وہ جن کی نظر تھی عرش رساں
گرتے گرتے ... ... پاتال آئے
روحوں کی بصیرت سلب ہوئی
دل کےشیشوں میں بال آئے
پیغامِ عمل دُہراتے ہُوئے
چودہ سو پریشاں سال آئے !!
محصُور جہادِ ہستی میں
قربانی سے گھبراتا ہوں
کہنے کو مسلماں... میں بھی ہوں
لیکن... ... ... کہتے شرماتا ہوں
طائف میں مقدس خُوں ٹپکا !
مکے میں کبھی... پتھر کھائے
بس ایک تڑپ تھی... کیسی تڑپ!!
انسان... ... ہدایت پا جائے !
ہر غم کو لگا کر سینے سے
درماں کے طریقے... سکھلائے
کیا قہر ہے؟؟ یہ انساں...
اُسی محسن کو بھلا کرکھوجائے!!
اُف...! کتنے گناہوں کے ہاتھوں...
دِینی بنیادیں ڈھاتا ہوں !
کہنے کو... مسلماں میں بھی ہوں
لیکن... ... ... کہتےشرماتا ہوں
ـــــــــــــــــــــــــ