باب ۱۷
امین احسن نے اپنی تحریروں اور گفتگوؤں میں رسمی اور غیر رسمی انداز میں مختلف نام ور شخصیات کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس سے بھی امین احسن کی شخصیت کے مختلف پہلو نمایاں ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ ذکر رسمی اور غیر رسمی ،دونوں اسالیب میں ہوا، اس لیے بعض شخصیات کا ذکر باقاعدہ اور تفصیلی اور بعض شخصیات کا ذکر مختصر اور سرسری سا ہے۔ اس سرسری بیان سے بھی امین احسن کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ امین احسن کا برصغیر پاک وہند کی بڑی بڑی شخصیات کے ساتھ ملنا جلنا رہا ،اس لیے ان شخصیات کے بارے میں ان کی آرا تاریخی اہمیت بھی رکھتی ہیں۔
کتاب ’’سقراط‘‘ کے مصنف ڈاکٹر منصورالحمیدلکھتے ہیں:
’’۱۹۹۶ء کی گر میوں میں دما م (سعودی عرب) سے پا کستا ن گیا تو میں نے اپنی کتا ب ’’سقراط‘‘مو لا نا اصلاحی ؒ کی خدمت میں پیش کی ۔ مو لا نا ان دنوں اپنی بیما ری کے با عث پڑھنے سے تقریباً معذور تھے اور بمشکل چند صفحات الٹ پلٹ لیتے تھے لیکن سقراط کی شخصیت سے دلچسپی کی بنا ء پر انہوں نے میر ی کتاب کے پچا س سا ٹھ صفحا ت تک پڑھ ڈالے ۔ اس مو قع پر میں برابر ان کی خدمت میں حاضر ہو تا رہا۔ تین چار نشستوں میں مو لا نا ؒ کی گفتگو کا مو ضو ع سقراط ہی رہا۔ میں نے یہ گفتگو اس وقت ریکا رڈ کر لی اور اسے مر تب کر کے مضمو ن کی صورت میں ارسا ل کر رہا ہو ں ۔ یہ حتی الامکا ن مو لا نا مر حوم کے الفاظ ہی میں ہے:
’’مجھے جس طر ح قرآن مجید سے دل چسپی ہے، ایک زما نے میں اسی طر ح سقراط سے بھی دل چسپی رہی ہے۔ گو میں نے دیگر فلا سفہ کو بھی پڑھا ہے لیکن سقراط کو نہا یت غور سے اور حرف بحرف پڑھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس کی با تیں عقل و فطرت کے مطا بق ہیں۔ وہ انسا نی ذہن کے تقا ضوں کے مطا بق با ت کر تا ہے۔ قدیم یو نا نی حکماء میں سے ارسطو نہا یت پڑھا لکھاآدمی ہے لیکن واقعہ یہ ہے کہ براہ راست انسا نی فطرت سے اسے کو ئی دل چسپی نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ مجھے ارسطو میں اپنے ذوق کی غذانہیں ملی جبکہ سقراط کی با تیں مجھے فطرت کے قریب محسوس ہو تی ہیں ۔ شا ید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ کہتے ہیں کہ وہ مصنو عی طور پر پڑھا لکھا نہیں تھا ۔
میری دل چسپی کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ وہ ان الجھنوں کو جو میرے ذہن میں ہو تی تھیں، ایک نہایت حکیما نہ سوال کی شکل میں سا منے لے آتا تھا ۔ اگر چہ اس کے جو جوا با ت نقل ہو ئے ہیں مجھے اس میں کمیاں محسوس ہو تی ہیں لیکن مجھے ا س کے جوا با ت سے کم اور اس کے سو ا لا ت سے زیا دہ دل چسپی رہی ہے ۔ پھر وہ جس طرح جرح کرکے انسانی ذہن کواضطراب میں ڈال دیتاہے ،یہاں تک انسان غور کرنے پر مجبور ہو جا تا ہے ۔یہ با ت قرآن مجید کے عین مطا بق ہے قرآن مجید بھی انسا ن کی غور و فکر کی صلا حیتوں ہی کو بیدار کر نا چا ہتا ہے ۔ یہ واقعہ ہے کہ سقرا ط کو پڑھنا ، میر ے لیے قرآن مجید سمجھنے میں بھی ممدو معا ون ثا بت ہو ا ہے ۔
فلسفہ کی تار یخ میں بیشتر فلا سفہ ناقل ہیں ۔ جو کچھ پہلے کہا گیا اسی کو تھوڑا سا بدل کر ذرا مختلف انداز میں بیان کردیتے ہیں ۔ سقراط میں یہ خو بی ہے کہ وہ خلاق بھی ہے اور مو جد بھی۔ دوسری بات یہ ہے کہ اکثر فلا سفہ انسا نی فطر ت سے براہ راست تعر ض نہیں کر تے جبکہ سقراط میں خا ص با ت یہ ہے کہ وہ انسا نی فطر ت کو براہ راست چھیڑتا ہے ۔پے درپے سوالات سے ہما رے اندر کی الجھنوں کو اتنا واضح کر دیتا ہے کہ انسا ن خود سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔ تیسری با ت یہ کہ فلا سفہ معا شرہ سے ڈرتے بلکہ معا شرہ کے اسیر ہو تے ہیں۔ سقراط نہ معا شرہ سے ڈرتا ہے نہ معا شرہ کا اسیر ہے۔ اس کی زندگی کسی با د شا ہ یا حکو مت سے وابستہ نہیں رہی ۔ اس کا سب سے الگ اپنا ہی ایک دائرہ ہے جس میں اسی جیسے کچھ لو گ ہیں۔ اس لیے وہ محض مفکر ہی نہیں ایک لیڈر بھی ہے ۔
سقراط کی زندگی بے عیب ہے، اس کا اخلا ق نہا یت پا کیزہ ہے ، علم اس کی با توں سے بر ستا ہے ، اس لیے یہ کوئی تعجب کی با ت نہیں کہ وہ نبی رہا ہو۔ انبیا ء جتنے بھی ہیں وہ سب کے سب قرآن مجید میں مذکورنہیں ہیں۔ سقراط میں وہ اوصا ف پا ئے جا تے ہیں جو انبیا ء میں ہو تے ہیں۔ ابنیا ء کا علم انسا نی فطرت کے مطا بق ہو تا ہے اور محسو س ہو تا ہے کہ براہ را ست ہے ۔ یہی حا ل سقراط کا ہے ۔ واقعہ یہ ہے کہ سقراط کو پڑھنے کے ابتدائی دور ہی میں میر ی یہ رائے تھی کہ نبی ہو نے کے لیے جن اوصا ف کی ضرورت ہے وہ سب اس میں مو جو د ہیں پھر جس زما نے اور جس ملک میں وہ پیدا ہوا اس میں اسی طر ح کا آدمی نبی ہو سکتا تھا ۔
تا ریخ کی کسی قدیم شخصیت کو نبی ما ننا یا نہ ما ننا خدا کو ما ننے یا نہ ما ننے کے مترادف نہیں ہے۔ یہ کو ئی عقید ے اور ایما ن کا مسئلہ بھی نہیں ہے ۔ نبی پر خدا کی وحی آتی ہے اورمیر ا خیا ل ہے کہ سقراط کے ضمن میں اس کے شواہد پا ئے جا تے ہیں۔ کم سے کم اتنی با ت تو طے ہے کہ سقراط بہر حا ل ہے پڑھے جا نے کی چیز۔ اس کے پا س علم بھی ہے ، اخلاق بھی ہے اور کردار بھی ۔ دنیا کو ایسے لو گو ں کی ضرورت ہے۔ ان کے بار ے میں کچھ لکھنا اور شا ئع کر نا درحقیقت دنیا پر احسان کر نا ہے۔‘‘ ‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء،ص ۴۴)
اسی موضو ع پر ڈاکٹر زاہد منیر عامر امین احسن کے ساتھ اپنی ایک ملاقات کی تفصیل بتاتے ہیں:
’’با ت سو فسطا ئیہ سے چل کر مو لا نا اصلا حی کے استا د گرامی اور سقراط پر آپہنچی ہے اس روز مو لا نا اصلا حی سے گفتگو میں بھی یہی ہوا ، البتہ پہلے سقراط پر با ت ہو ئی اور پھر مو لا نا فراہی پر ۔
مو لا نا نے یو نانی فلسفے کی تاریخ کے حوالے سے فرما یا کہ آغا ز کے تین فلسفیوں کو چھو ڑ کر باقی سب فلسفی یونہی ہیں۔یہ تین فلا سفر سقراط ، افلا طون اور ارسطو ہیں ۔ان میں بھی سقراط اصل فلسفی ہے، با قی دونوں اس کے سلسلے سے وابستہ ہیں اور تینوں کے خیا لا ت اسلا م سے کا مل مطابقت رکھتے ہیں ۔ مجھے اس با ت سے تعجب ہوا لیکن بعد ازاں سقراط سے متعلق اکثر ما خذ سے یہ معلوم ہو ا مثلاً ول ڈیو راں (Will Durant)نے The Story of Philosophyمیں بتا یا ہے کہ سقراط نہ صرف تو حید پر ست تھا بلکہ حیا ت بعد الموت کے عقید ے پر بھی ایما ن رکھتا تھا ۔ چند بر س قبل ’’سقراط‘‘ کے عنوان سے منصور الحمید صا حب کی کتا ب منظر عا م پر آئی تو اس میں یہ بحث اور زیا دہ وضا حت سے ابھر ی ، یہ کتا ب بہت محنت اور سلیقے سے لکھی گئی ہے۔ اگر چہ اس میں با ت کچھ بڑھ گئی ہے۔
سقراط کی تو حید پر ستی کی حد تک تو با ت قا بل تسلیم ہے لیکن افلا طون اور ارسطو کے حوالے سے اسلا می تعلیما ت سے کا مل مطا بقت کی با ت زیا دہ قا بل فہم نہیں تھی۔ اگرچہ افلا طون اور ارسطو بھی ذات با ری تعا لیٰ پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن ان کے بعض افکار اسلامی تعلیما ت سے ’’کامل مطابقت‘‘ نہیں رکھتے ۔
بہر حا ل یہ با ت اطمینا ن بخش ہے کہ ۱۹۹۱میں جب ’’فلسفے کے بنیا دی مسا ئل‘‘سے متعلق مو لا نا کی کتاب شا ئع ہو ئی تو اس میں نہ صرف یہ کہ افلا طون اور ارسطوکے افکار کو اسلا می تعلیمات کے مطا بق قرار نہیں دیا گیا بلکہ مو لانا نے ’’افلا طون کے فلسفہ کی غلطی اور ’’ارسطو کے فلسفہ کی خامی‘‘کی نشان دہی بھی کی ۔
مو لا نا اصلا حی اپنی زندگی میں جس شخصیت سے سب سے زیا دہ متا ثر ہو ئے وہ ان کے استاد گرامی مو لا نا حمید الدین فراہی کی شخصیت تھی ۔ انہوں نے اپنے استاد گرامی کے طریقۂ تعلیم کو ’’سقرا طی طریقۂ تعلیم‘‘قرار دیا ہے۔ مولانا کے نزدیک ’’سقراطی طریقۂ تعلیم‘‘کیا ہے اس کی وضاحت انہوں نے اپنے ایک ریڈیو انٹرویو میں کی تھی:
’’مو لا نا کا طریقۂ تعلیم ایسا نہیں تھا کہ پکا پکایاسا منے رکھ دیا جا ئے ۔ درحقیقت وہ طالب علم کی استعداد اور ذہانت کو بیدار کر تے تھے ۔اس کے اندر سوالا ت پیدا کر تے تھے ۔ اگر وہ مسائل پرغور کر نے کی صلا حیت ظاہر کرتا تو وہ کچھ رہنمائی دیتے تھے ورنہ خامو ش ہو جا تے ۔ یہ ’’سقراطی طریقۂ تعلیم ہے۔‘‘‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء،ص ۶۱)
عبد الرزاق صاحب اپنی۲۸ ؍ جنوری ۱۹۹۴ء کی ڈائری میں فلسفی ما رکس آریلیئس کے حوالے سے امین احسن کی راے بیان کرتے ہیں:
’’مو لا نا نے خا ص طور پر ما رکس آریلیئس کا نا م لیا اور کہا کہ میں فلسفہ میں اس کا مرید ہوں۔ اس فلسفی سے مو لانا بڑے متا ثر نظر آرہے تھے۔ انھوں نے اپنے سا تھیوں کو نصیحت کی کہ اگر وہ اپنے آپ کو پہچاننا اور زندگی کی حقیقت کو جا ننا چا ہتے ہیں تو وہ مختلف حکما ء اور فلسفیوں کی کتا بو ں کو ضرور پڑھیں ان کو پڑھنے کے بعد آپ کو پتہ چلے گا کہ جس فلسفی کو حقیقت کا ادراک ہو گیا اس کو سب کچھ مل گیا ۔وہ روم اور ایران کی بادشا ہی کو اپنے قدموں تلے کچل دیتا ہے ۔ اس میں اتنی ہمت ہو تی ہے کہ وہ با دشا ہ کی کسی غلطی پر اسے پورے دربار کے سا منے ڈانٹ پلادیتا ہے ۔ ایسا شخص باد شا ہ کو بھی خا طر میں نہیں لا تا ۔‘‘ (سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۷۷)
ڈاکٹر زاہدمنیر عامر کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے امین احسن نے مسئلۂ ارتقا اورڈارون کے بارے میں کہا:
’’ کائنا ت ارتقا ء ہی کے ذریعے سے وجو دپذیر ہو ئی ہے۔ ارتقاء بجا ئے خود صحیح ہے لیکن ڈارون کی تو جیہ غلط ہے۔
انسان پہلے کیچڑہی میں تھا ۔ ایک خاص فارم سے اس نے ترقی کی، ارتقا ء ہوتے ہو تے وہ اس فارم میں آیا کہ وہ ایک انسان بن سکے ۔ اللہ نے ارادہ کیا اور اس چیز ( فارم) سے آدم وجود میں آئے اور ان کا جو ڑا پیدا کیا گیا ۔ سائنس والے ما نتے ہیں کہ حقیقت میں ایک ہی چیز تھی جس میں نر اور ما دہ دونوں کے جراثیم مو جو د تھے۔ لیکن یہ سب ایک مدبر ، حکیم اور خبیر نے کیا … آخر اس کی کیا توجیہ ہے کہ کیو نکر ایک چیز بنتی چلی گئی ۔ آپ سے آپ تو کچھ بھی نہیں ہوتا، ایک درخت کی شا خ بھی ایک خا ص سکیم کے تحت ظا ہر ہو تی ہے۔ ڈارون کی تقریر پر ہمیں اعتراض ہے اس میں جگہ جگہ معقولیت نہیں ہے۔ ( تا ہم ) جب ارتقائے آدم ہو گیا اور جب آدم وجود میں آگئے تو نسل اِنسانی وجو د پذیر ہو گئی ۔ اب وہ پہلا دور ختم ہو گیا۔ ایک فٹسٹ (Fittest)جب وجود میں آجائے تو دوسری چیز اس میں مدا خلت نہیں کر تی Survival of the Fittest (بقائے اصلح) کا یہی مطلب ہے کہ جب ایک Fittestو جود میں آجائے اپنے راستے پر چلے گا ۔
ہم ارتقا ء کے اصول کے بقائے اصلح Survival of the Fittestکے قائل ہیں۔ یہ اصول ہے لیکن ڈارون کی توجیہ نہا یت احمقانہ ہے ۔ وہ ایک مصنف ہے ایک تقریر کر نے والا ہے اسے زیادہ اہمیت نہ دی جائے۔‘‘(سہ ماہی تدبر، اپریل ۱۹۹۸ء، ص ۶۶)
اپریل ۱۹۳۸ء میں’’بلبلِ نالاں‘‘ کی روح ’’اجڑے گلستان‘‘سے پرواز کر گئی۔ اس المیہ نے امین احسن کو بے حد متاثر کیا۔ انھوں نے اس پر کچھ اس انداز سے لکھا کہ مولانا الطاف حسین حالی کے بارے میں بھی ان کے خیالات سے آگاہی حاصل ہوگئی:
’’یہ دور ہمارے عروج و اقبال کا دور نہیں، بد بختی و ادبار کا دور ہے ۔ ہم پاتے کم ہیں کھوتے زیادہ ہیں۔ اونچے درجے کے اشخاص ہم میں اولاً تو پیدا نہیں ہوتے اور اگر دو چار پیدا ہوتے ہیں تو قبل اس کے کہ ان کے جانشین پیدا ہوں، وہ اپنی جگہ خالی چھوڑ کر چل دیتے ہیں۔ اپنی قوم کے ان لوگوں کو گنیے جن کے دم سے آج ہماری آبرو قائم ہے اور پھر دیکھیے کہ ایک ایک کر کے ان کی صف کس طرح ٹوٹتی جا رہی ہے اور کوئی نہیں جوان کی جگہ لینے کے لیے آگے بڑھے۔ قوموں کے مرنے اور جینے کا ایک اصول ہے جو ہمارے موجودہ فلسفۂ قلت و کثرت سے بالکل مختلف ہے۔ ہم صرف سروں کو گننے کے عادی ہو رہے ہیں حالانکہ زندگی سروں سے نہیں بلکہ دماغوں سے زیادہ دلوں سے ہے۔
غالباً ۱۹۱۲ء یا ۱۹۱۷ء کا واقعہ ہے ۔ استاد مرحوم مولانا عبد الرحمٰن نگرامی ، طلبہ کی مجلس میں اقبال کا شکوہ پڑھ رہے تھے۔ میں اس مجلس میں موجود تھا۔ یہ پہلی مجلس ہے جس میں میں نے شعر کے اثر کو آنکھوں سے دیکھا ۔ آنکھوں سے اس لیے کہ اس وقت تک میرے دماغ میں شعر کی خوبیوں اور نزاکتوں کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں پیدا ہوئی تھی۔ میں مجلس میں بیٹھا ہوا صاف سن رہا تھا کہ اقبال کے شعروں کی صدائے باز گشت در و دیوار سے بلند ہو رہی ہے اور آنکھوں سے علانیہ مشاہدہ کر رہا تھا کہ آسمان سے کوئی چیز برس رہی ہے اور ساری زمین ہل رہی ہے ۔ میں نے آج تک کوئی مجلس اتنی پُر اثر نہیں دیکھی اور اس ایک مرتبہ کے علاوہ شاید کبھی میرے دل نے شاعر بننے کی آرزو نہیں کی ،لیکن یہ آرزو پوری نہیں ہوئی کیونکہ میں نے اقبال بننے کی آرزو کی تھی اور اقبال صرف ایک ہی ہوتا ہے۔...
شاید وکٹر ہیوگو نے کہا ہے۔ زندگی کتنی ہی شاندار اور عظیم الشان ہو لیکن تاریخ اپنے فیصلہ کے لیے ہمیشہ موت کا انتظار کرتی ہے ۔ دنیا کے لیے ممکن ہے یہ ایک مسلمہ حقیقت ہو ۔ لیکن اقبال کے لیے تاریخ نے اپنے اس کلیہ کو توڑ دیا۔ اقبال کی عظمت کی گواہی دلوں نے ان کی زندگی میں دے دی، اب تاریخ کے لیے صرف یہ باقی رہ گیا ہے کہ وہ دلوں کے تاثرات کو محفوظ اور قلم بند کر لے۔...
مولانا حالی کی زبان بھی تیغ و سناں سے کم نہ تھی، ان کا تیشہ بھی ہمارے عمل و اعتقاد کے ہر گوشہ کے لیے بے امان تھا۔ وقت کی سوسائٹی جن عناصر سے مرکب تھی ان میں سے ایک ایک کو چن کر حالی نے پکڑا اور قوم کی عدالت میں مجرم ٹھیرا کر ان کو بے دریغ سزا دے دی اپنی بے پناہ قوت سے ہمارے تمام اعمال و معتقدات کو ایک نئی راہ پر لگا دیا ۔ لیکن حالی کا کام آسان تھا۔ وہ قوم کو زمانہ کے ساتھ لے جانا چاہتے تھے۔
چلو تم ادھر کو ہوا ہو جدھر کو
اور زمانہ اپنی تمام رعنائیوں اور دلربائیوں کے ساتھ ان کی رفاقت کے لیے آمادہ کار ہوچکا تھا۔ ان کو جو دیواریں ڈھانی تھیں و ہ خود متزلزل ہوچکی تھیں اور جو عمارت بنانی تھی اس کے لیے دست ِ غیب خود چونہ اور گارا مہیا کر رہا تھا۔ وہ خزاں کی بلبل ضرور تھے مگر موسم گل کی آمد آمدان کو شہ بھی دے رہی تھی۔...
اگر اقبال نہ پیدا ہوتے تو یقیناً ہمارے کالجوں او ر یونیورسٹیوں کی تعلیم ہمارے نوجوانوں کو اس طرح مسخ کر ڈالتی کہ ان کے اندر دین و ملت کے لیے حمیت و غیرت کا کوئی شائبہ باقی نہ رہ جاتا، وہ جس طرح ظاہر میں مسخ ہوگئے ہیں اس سے زیادہ ان کا باطن مسخ ہوجاتا ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے اقبال کو بھیجا جو معلوم نہیں کس طرح ظلمات کے ان توبر تو پردوں کو چاک کر کے ان کے دلوں میں بیٹھ گئے اور جب تک ان کی روحِ شعر اس کائنات کے اندر کار فرما ہے اس قوت تک ان شاء اللہ ان میں درد کی ایک کسک باقی رہے گی، اگرچہ دلوں کی جگہ سینوں میں پتھر پیدا ہونے لگیں۔ماہنامہ الاصلاح،اعظم گڑھ، مئی ۱۹۳۸ء۔‘‘ (مقالات اصلاحی ۲/ ۴۰۲-۴۰۶)
۸/ جون ۱۹۹۰ء کی بات ہے۔امین احسن نے اپنی ہفتہ وار نشست میں اقبال پر بات کرتے ہوئے کہا:
’’اقبال بہت بڑے شاعر ہیں، بہت اچھے شاعر ہیں۔ انھوں نے شاعری کو عالمگیر بنادیا۔ ان کی شاعری کی زد سے کوئی چیز نہیں بچتی۔ جہاں چاہے چلے جائیں۔ اس بات نے مجھے بہت متاثر کیا۔ اس لیے کہ شاعری کا ایک محدود مفہوم تھا۔ کوئی یار ہو، کوئی زلف ہو، سروقدہو، کچھ ہجر ہو، کچھ اس طرح کی چیزیں۔ اقبال نے تو پورا جہان ہی بنا دیا۔ ہر چیز ان کے دائرے میں ہے۔ ہر جگہ نشانہ لگاتے ہیں۔ اور یہ ہے کہ شاعری کا معیار گرنے نہیں پاتا۔ دوسرے یہ کہ ان کے اندر بڑائی ایک اور بھی ہے۔ وہ یہ ہے کہ شعر میں کچھ نہیں ہوتا، لیکن شکوئی الفاظ سے شعر ہوجاتا ہے۔ یہ واقعہ ہے۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض شعر بالکل غلط اور بے معنی ۔ لیکن وہ شکوئی الفاظ میں شعر بن گیا۔ ‘‘
ایک مرتبہ امین احسن سے یہ سوال دریافت کیا گیا کہ علامہ اقبال نے وحی کی نفی کی ہے، وہ کہتے ہیں کہ وحی ایک وجدانی کیفیت ہوتی ہے، جب کہ اسلامی نظریہ یہ ہے کہ وحی فرشتوں کے ذریعے نازل ہوتی ہے۔ وضاحت فرمائیں۔
امین احسن نے اس کا جواب کچھ اس انداز سے دیا کہ فارابی اور دیگر مسلم فلسفیوں کے بارے میں بھی ان کا نقطۂ نظر واضح ہوگیا۔علامہ اقبال کا کلام ، جب کبھی مجھے فرصت ہوتی ہے، میں پڑھتا ہوں۔ جہاں تک میں ان سے واقف ہوں مجھے ان کی باتیں معقول معلوم ہوتی ہیں بلکہ واقعہ یہ ہے کہ ان کے کلام میں دین اور حکمت کی باتیں پائی جاتی ہیں۔ اس کلام میں مجھے کہیں ایسی فضول بات نظر نہیں آئی، جس کا حوالہ آپ نے دیا ہے۔ باقی رہ گئے ان کے خطبات تو ان میں انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہی ہیں جو میرے نزدیک قابل اعتراض ہیں لیکن ان میں بھی یہ بات میں نے نہیں پڑھی۔ ہو سکتا ہے کسی نے غلط روایت کردی ہو یا کہیں علامہ صاحب نے فلاسفہ کا کوئی خیال نقل کیا ہو اور وہ خود ان کی طرف منسوب کر دیا گیا ہو۔
آپ نے جو خیال نقل کیا ہے یہ فارابی نے پیش کیا ہے۔ فارابی کے نزدیک وحی اندر کی کیفیات کا ایک بخار ہوتا ہے۔ میں فارابی کو لغو قسم کا آدمی سمجھتا ہوں۔ فارابی اور اس طرح کے دوسرے فلسفی صرف فلسفۂ یونان کے ناقل تھے۔ یہ قابل ذکر لوگ نہیں ہیں۔ یہ اسلامی فلسفہ کو تو کیا سمجھتے ، یونانی فلسفہ کے بھی وہ کچھ غلط ناقل ہی ہیں۔ یہی حال ہمارے متکلمین کا بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ میں فلسفہ کی بحثوں میں ان نام نہاد اسلامی فلاسفہ کا حوالہ نہیں دیا کرتا۔‘‘ (سہ ماہی تدبر ،فروری ۱۹۸۹ء، ص ۴۵)
امین احسن مولانا محمدعلی جوہر رحمۃ اللہ علیہ کے بارے میں ماہنامہ ’’میثاق‘‘ میں’’مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ، مدرستہ الاصلاح میں‘‘کے زیر عنوان خود لکھتے ہیں:
’’ فاضل محترم مولانا رئیس احمد جعفری نے مجھ سے فرمایش کی ہے کہ مولانا محمد علی جوہر رحمۃ اللہ علیہ سے متعلق میں چند تاثرات قلم بند کر دوں ۔ میں اس فرمایش کی تعمیل کے لیے آمادہ تو ہو گیا ہوں لیکن یہ بات مضمون کے پہلے مرحلہ ہی میں واضح کر دینا ضروری سمجھتا ہوں کہ مجھے مولانا سے صرف نسبت غائبانہ عقیدت ہی کی حاصل ہے ، ان سے ملنے جلنے کے مواقع تو درکنار ان کو دور دور سے دیکھ لینے کی سعادت بھی شاید دو تین بار سے زیادہ مجھے حاصل نہیں ہوئی ہے۔ تحریک خلافت کے شباب کے زمانے میں ،سن ٹھیک طرح یاد نہیں (غالباً ۱۹۲۱ء یا ۱۹۲۲ء میں) مولانا مدرستہ الاصلاح (سرائے میر ، اعظم گڑھ ، یو پی بھارت) کے سالانہ جلسہ میں تشریف لائے۔ میں اس وقت مدرستہ الاصلاح میں آخری درجوں کا طالب علم تھا۔ اس جلسہ میں مجھے یاد ہے کہ مولانا کا نام سن کر مدرستہ کے وسیع میدان میں بے پناہ خلقت جمع ہوئی ۔ مولانا کے ساتھ وقت کے بعض دوسرے اکابر و مشاہیر بھی تشریف لائے ، میرے استاذ مولانا حمید الدین فراہی کسی جلسہ میں کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے ، لیکن اس جلسہ میں وہ بھی شریک ہوئے ۔
بڑا عظیم اجتماع تھا ، میں نے اس سے پہلے اس سے بڑا اجتماع کوئی نہیں دیکھا تھا، جلسہ کھلے میدان میں تھا۔ ہوا نہایت تند چل رہی تھی ۔ اس زمانہ تک لاؤڈ سپیکر کا رواج نہیں ہوا تھا۔ اس وجہ سے اندیشہ تھا کہ مولانا کی تقریر سنی نہ جا سکے گی جس سے جلسہ میں انتشار پیدا ہو جائے گا ۔ لیکن جب مولانا تقریر کے لیے کھڑے ہوئے تو ان کے رعب و دبدبہ نے ہر شخص کو اس طرح مرعوب و مسحور کر لیا کہ جو شخص جس جگہ کھڑا یا بیٹھا تھا وہیں پیکر تصویر بن کر رہ گیا...مولانا کی بلند اور پرشکوہ آواز کی تندی اور مجمع کی غیر معمولی وسعت کے باوجود ہر گوشہ میں پہنچنے لگی ۔ اور تقریر کے اثر کا عالم یہ ہوا کہ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ ایک آنکھ بھی ایسی نہ تھی جو رو نہ رہی ہو۔ یہ مجمع بالکل دیہاتیوں کا تھا۔ اس میں پڑھے لکھے لوگ بہت تھوڑے سے تھے، ان دیہاتیوں کے لیے مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ جیسے شخص کی کسی تقریر کو سمجھنا کچھ آسان کام نہیں تھا۔ لیکن ان کی تقریر میں ایمان و یقین کی ایسی گرمی اور سوز ودرد کی ایسی گھلاوٹ تھی کہ اس سے متاثر ہونے کے لیے شاید اس کو زیادہ سمجھنے کی ضرورت نہیں تھی ۔
اس موقع کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے ، جو قابل ذکر ہے ۔ مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر جب ختم ہو گئی تو ہم نے دیکھا کہ مجمع کے ایک کنارے سے ایک بوڑھادیہاتی اٹھا اور مجمع کوچیرتا پھاڑتا سیدھا اسٹیج کی طرف چلا۔ اگرچہ اسٹیج تک پہنچنے میں اس کو سخت مزاحمتوں سے سابقہ پیش آیا لیکن وہ اپنی دھن کا ایسا پکا نکلا کہ اس نے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کے پاس پہنچ کر ہی دم لیا۔ اورپہنچتے ہی ان کی ڈاڑھی پر ہاتھ رکھ کر اپنے مخصوص لہجے میں بولا کہ :
’’محمد علی جو تو نے کیا وہ کسی سے نہ ہو سکا ۔‘‘ یہ کہہ کر جب وہ واپس مڑا تو مولانا رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ
’’اس طرح کی داد بھی آپ کے سوا مجھے کسی اور سے نہیں ملی ۔‘‘
اس موقع پر مولانا رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت کا ایک او رپہلو میرے سامنے اپنے استاذ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ کے تاثرات سے واضح ہوا۔ اس جلسہ میں تقریر کر کے ، مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ اعظم گڑھ شہر کے لیے روانہ ہو گئے جہاں شب میں ان کو ایک جلسۂ عام میں تقریر کرنی تھی ، وہ گئے تو ان کے ساتھ ’مدرستہ الاصلاح‘ کا سارا جلسہ بھی چلا گیا یہاں تک کہ خود مولانا فراہی بھی جو مدرسہ کے ناظم تھے ان کی تقریر میں شرکت کے لیے ان کے ساتھ چلے گئے ۔ انھوں نے چلتے وقت ہمیں یہ ہدایت کی کہ کچھ کٹے ہوئے کاغذ اور چند اچھی پنسلیں ان کے سامان میں رکھ دی جائیں تاکہ وہ اعظم گڑھ میں ہونے والی مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر نوٹ کر سکیں ۔ یہ معاملہ میرے لیے نہایت حیرت انگیز تھا ، میں اس بات سے تو واقف تھا کہ مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا آزاد رحمۃ اللہ علیہ سے محبت کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی کی تقریر سے مولانا رحمۃ اللہ علیہ کا اس درجہ میں متاثر ہونا کہ وہ خود اس کے نوٹ کرنے کا اہتمام کریں میرے تصور سے مافوق تھا۔ مولانا نہ تو جذباتی آدمی تھے نہ کوئی سیاسی آدمی ۔ وہ ایک محقق ایک فلسفی اور ایک حکیم تھے ، وہ جیسا کہ میں نے اوپر عرض کیا وعظ و تقریر کے جلسوں میں خواہ وہ مذہبی ہوں یا سیاسی ، کبھی مشکل ہی سے شریک ہوتے تھے لیکن مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی تقریر میں شریک ہونے کے لیے نہ صرف یہ کہ سفر کے لیے آمادہ ہوگئے بلکہ ان کی تقریر کے نوٹ لینے کے لیے یہ اہتمام فرمایا ۔ مولانا کے اس اہتمام نے میرے دل میں مولانا محمد علی رحمۃ اللہ علیہ کی عظمت بہت بڑھا دی ۔ میں نے اس سے یہ نتیجہ نکالا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مولانا محمد علی ایک عظیم سیاسی لیڈر ہی نہیں بلکہ وہ علمی و عقلی اعتبار سے بھی ایسا بلندپایہ آدمی ہیں کہ مولانا فراہی جیسے لوگ بھی ان کی تقریروں کو یہ درجہ دیتے ہیں کہ ان کے نوٹ لیتے ہیں ۔
اس واقعہ کے دوسرے ہی دن مجھ پر یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ مولانا محمد علی کی تقریر میں وہ کیا چیز تھی جس سے استاذ مرحوم اس درجہ متاثر ہوئے ... دوسری صبح کو جب مولانا فراہی رحمۃ اللہ علیہ مدرسہ پر واپس آئے تو منتظمین میں سے بعض نے ان سے دبی زبان سے یہ شکایت کی کہ مولانا محمد علی کے ساتھ ان کے چلے جانے کے سبب سے خود مدرسہ کا جلسہ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ مولانا نے اس کا جواب یہ دیا کہ ’’جو کام کی باتیں تھیں ، وہ محمد علی نے اپنی تقریر میں کہہ دی تھیں ، اس کے بعد کسی اور تقریر کی اب کیا ضرورت باقی رہی تھی۔‘‘
مولانا نے یہ بات اس اعتماد اور یقین کے ساتھ فرمائی کہ ہر شخص پر یہ بات واضح ہو گئی کہ مولانا کو مدرسہ کے جلسہ کے درہم برہم ہو جانے کا ذرہ برابر بھی افسوس نہیں ہے ، ان کے نزدیک سننے کی باتیں وہی تھیں جو مولانا محمد علی نے کہہ دی تھیں اور لوگوں نے وہ سن لی تھیں ، اس کے بعد جلسہ کا جاری رہنا ان کے نزدیک گویا اضاعت وقت کے حکم میں تھا۔ مولانا نے اس کے بعد متعدد بار مولانا محمد علی کی تقریر پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرماتے ہوئے یہ بھی کہا کہ :
’’محمد علی کی تقریر میں ایمان ہوتا ہے ۔‘‘
ایک مرتبہ بطور لطیفہ کے یہ بھی فرمایا کہ :
’’چونکہ محمدعلی بہت ذہین آدمی ہیں اس وجہ سے لوگوں کو قرآن کے نظم کی طرح ان کی تقریروں اور تحریروں کے نظم کو سمجھنے میں بھی بسا اوقات زحمت پیش آتی ہے ۔ ‘ ‘
پھر فرمایا کہ :
’’کچھ اسی قسم کا حال مولانا محمد علی قاسم رحمۃ اللہ علیہ کی تقریروں اور تحریروں کا بھی ہے۔‘‘ ‘‘(جولائی ۱۹۶۴ء)
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ