ایک سیکولر مسلمان تاجر سے ملاقات ہوئی۔انھوں نے بتایا کہ وہ خدا اور ’مذہب‘ میں یقین نہیں رکھتے، البتہ قرآن کو وہ ایک ’’ونڈر فل کتاب‘‘ (wonderful book)مانتے ہیں۔ قرآن سے متعلق انھوں نے اپنی کئی ’دریافتیں‘ بتائیں۔مثلاً انھوں نے کہا کہ قرآن کی آیت ’فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ‘، ’’تو اُن کے ساتھ جو عورتیں ہیں، اُن میں سے جو تمھارے لیے موزوں ہوں، اُن سے نکاح کرلو ‘‘ (النساء ۴: ۳) سے مراد معروف معنوں میں، عورتوں سے نکاح کرنا نہیں، بلکہ اِس کا مطلب: سماج کے بے چین افراد سے مل کر اُن کے ساتھ ہم دردی اور تعاون کا معاملہ کرناہے ۔
اِس مجتہدانہ تفسیر کی لغوی تحقیق پر روشنی ڈالتے ہوئے اپنے مخصوص استدلالی انداز میں انھوں نے فرمایا کہ عربی لغت میں ’الناس‘ اور ’النساء‘، دونوں الفاظ کا مادہ (root) ’’ن، س، و‘‘ہے۔انھوں نے بتایا کہ عربی زبان میں اِس مادے کا بنیادی مفہوم ہے: بے چین و مضطرب افراد۔ اِسی طرح انھوں نے بتایاکہ لفظ ’النساء‘ اسمِ جنس (generic noun) ہے، وہ اسمِ تخصیص (particular noun) نہیں ہے۔ لہٰذا ’فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا، فَوَاحِدَةً ‘[1]؎سے مراد ایک سے زیادہ نکاح نہ ہونے کی صورت میں، صرف ایک عورت سے ’نکاح‘ کرلینا ہرگز مراد نہیں ہوسکتا۔
میں نے عرض کیا:اسم جنس سے مراد وہ اسم ہے جو کسی نوع کے ہر فرد کے لیے مستعمل ہو، مگر وہ اُس فرد کے صرف کسی ایک جزو پر نہ بولا جا سکے۔جیسے آدمی، عورت، وغیرہ۔ لہٰذا مثال کے طورپر، آدمی یا عورت کے کسی عضو کو آدمی یا عورت یقیناً نہیں کہاجاسکتا۔
تاہم قرآن کی مذکورہ آیت کے وہ معانی جو آپ نے ارشاد فرمائے، مستند اور متداول لغات عرب میں سرتاسر اجنبی ہیں۔ آپ کے ارشاد ’فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا، فَوَاحِدَةً ‘ سے مراد ایک عورت سے نکاح نہیں، کیونکہ لفظ ’النِّسَآء‘ اسم جنس ہے۔اِس ارشاد کے متعلق عرض ہے کہ زیربحث آیت میں لفظ ’وَاحِدَة‘ ایک سے زیادہ نکاح نہ ہونے کی صورت میں، واضح طورپر صرف ایک عورت سے نکاح کے مفہوم پر دلالت کررہاہے۔انھوں نے اِس بات کی تردید میں مزید’دلائل‘ دیے ،جو اُنھی کے الفاظ میں یہاں نقل کیے جارہے ہیں:
An-Nisa (النساء) :The urges. The root word is noon-seen-alif means urge, desire- I have no idea why all scholars ignore this root word. The popular root word of nisa is noon-seen-waw_ . (ن س و) Please check the basic meaning of 'Nisa' in Edward William Lane (1801-1876) -Arabic-English Lexicon- page 2785.
For the basic meaning of nisa- urge - Staff or stick with which cattle's or beasts are driven is called منسأة- Quran 34: 14 -مِنسأته-his stick/ staff; منسأة is one of the derivative of nisa . [نسا] Al-Nisa means specific urge of an individual. When I inquired the reason for ignoring ن س أ as the root word of نساء they would simply defend by saying it is against the convention, no valid reason was given.
چنانچہ اِس لغت غریب اوراِس عجیب ’تحقیق‘ کے مطابق، سورۂ نساء کی آیت نمبر ۴ کا ترجمہ خود موصوف محترم کے اپنے الفاظ میں سنیے اوراِس نادرترین نکتہ سنجی پر سر دھنیے:
وَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِي الْيَتٰمٰي فَانْكِحُوْا مَا طَابَ لَكُمْ مِّنَ النِّسَآءِ مَثْنٰي وَثُلٰثَ وَرُبٰعَﵐ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا، فَوَاحِدَةً اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْﵧ ذٰلِكَ اَدْنٰ٘ي اَلَّا تَعُوْلُوْا:
If you fear that you shall not be able to deal justly to yourself, concerning the unmatched/ unique/ isolated urges, then merge (فَانْكِحُوْا) what seems suitable from the urges [nisa] of your choice, two or three or four; but if you fear that you shall not be able to deal justly with them, then only one, or which you can control, that will be more suitable, to prevent you from doing injustice to you.
زبان کے اِس عجیب بیان واستدلال پرماتم کے سوا اور کیا کیا جاسکتاہے :
بریں علم ودانست، بباید گریست!
یہاں مجھے لفظ اور معنی کے اِس رشتے سے متعلق استاذ وحیدالدین خاں کی ایک قیمتی تحریر یاد آرہی ہے۔ ذیل میں صرف اُس کا ایک متعلق حصہ ملاحظہ فرمائیں:
’’ہر لفظ کا ایک مفہوم ہوتا ہے۔ یہ مفہوم لفظ کے ساتھ اُس کے جزوِ لاینفک (inseparable part) کے طورپر شامل رہتا ہے۔ جس طرح لفظ تاریخ میں سفر کرتاہے، اُسی طرح اُس کا مفہوم بھی ساتھ ساتھ سفر کرتا رہتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ زبان ہر دور کے لوگوں کے لیے باہم ایک قابل فہم وسیلہ بنی رہتی ہے۔ اگر لفظ اور معنی کے درمیان خلا واقع ہوجائے تو انسانوں کے درمیان بامعنی تبادلۂ خیال ختم ہوجائے گا اور انسانی بستیاں عملاً گونگے لوگوں کی بستیاں بن کر رہ جائیں گی۔
اِس معاملے کو عام طورپر اہلِ علم نے بیان کیا ہے۔چنانچہ شاہ اسماعیل شہید دہلوی اپنی کتاب ’’عبقات‘‘ میں اِس نقطۂ نظر پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’لا یخفی علی من له أدنی ممارسة بأسالیب الکلام أن هذا القول ناش عن جهل متراکم، إذ وضع الألفاظ لمعانیها من المتواترات‘ (عبقۃ: ۵) یعنی اسالیب کلام پر جس شخص کو ادنیٰ تعلق اور ممارست حاصل ہے، اُس سے یہ بات مخفی نہیں رہ سکتی کہ یہ نقطۂ نظر (کہ لفظ اپنے معنی کے ساتھ متواتر نہیں ہوتا) سرتاسر جہالت ہے۔اِس لیے کہ لفظ کا اپنے معنی کے لیے وضع ہونا ایک ایسا عمل ہے جو تواتر پر مبنی ہے۔ (’میزان‘، جاوید احمد غامدی ۳۳)
اِس معاملے کو سمجھنے کے لیے ایک مثال لیجیے۔ عربی زبان کا ایک لفظ ’أخ‘ ہے۔ یہ لفظ اپنے ابتدائی لغوی مفہوم کے لحاظ سے، سگے بھائی (blood brother) کے لیے استعمال ہوتا ہے، مگر اِسی کے ساتھ اِس کا ایک استعاراتی مفہوم (metaphorical meaning) بھی ہے، یعنی کسی کو غیر خونی رشتے کے باوجود اظہار تعلق کے لیے بھائی کہنا۔ ’أخ‘ کا یہ استعاراتی مفہوم بھی قدیم زمانے سے چلا آرہا ہے اور اب تک مسلسل طور پر وہ اُسی طرح لوگوں کے درمیان بولا اور سمجھا جاتاہے۔
عرب میں ظہور اسلام سے قبل کا جو زمانہ تھا، اُس کو جاہلیت کا زمانہ کہاجاتا ہے۔ ابو تمام الطائی (وفات: ۲۳۱ھ) نے قدیم عرب شعرا کے کلام کا ایک منتخب مجموعہ تیار کیا تھا جو بعد کو ’’دیوان الحماسة‘‘ کے نام سے شائع ہوا۔ اِس مجموعے میں جاہلی دور کے ایک تغلبی شاعر عمیر بن شییم بن عمروالقطامی (وفات: ۱۳۰ھ) کے کچھ اشعار نقل کیے گئے ہیں۔ اِن میں سے ایک شعر یہ ہے:
وأحیانًا علٰی بکر أخینا
إذا ما لم نجد إلا أخانا
’’اور کبھی ہم اپنے بھائی بنو بکر سے لڑ جاتے ہیں۔ جب ہم اپنے بھائی کے سوا کسی اور کو نہیں پاتے۔‘‘
عرب شاعر کے اِس شعر میں ’أخ‘ کا لفظ اپنے ابتدائی مفہوم میں نہیں ہے، یعنی وہ سگے بھائیوں کے لیے استعمال نہیں ہوا ہے۔ اِس شعر میں یہ لفظ اپنے استعاراتی مفہوم میں استعمال ہوا ہے۔ شاعر نے جب یہ لفظ اپنے شعر میں اس کے استعاراتی مفہوم میں استعمال کیا۔اُس وقت یہ لفظ اپنے اِس مفہوم کے لحاظ سے ایک معروف لفظ بن چکا تھا، اِس لیے کسی کو اس کے سمجھنے میں مشکل پیش نہیں آئی۔
اِسی طرح ۱۹۲۸ء میں شیخ حسن البنا کی قیادت میں مصر میں عربوں کی ایک مذہبی تنظیم بنی۔ اِس کا نام ’’الإخوان المسلمون‘‘ رکھا گیا۔ تنظیم کے اِس نام میں ’’الإخوان‘‘ کا لفظ اپنے ابتدائی لغوی معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ اپنے استعاراتی معنی میں ہے، یعنی سگے بھائیوں کے معنی میں نہیں، بلکہ اسلامی بھائیوں کے معنی میں۔
اب اگر کوئی شخص یہ کرے کہ وہ ’الإخوان المسلمون‘کے نام کو اُس کے ابتدائی لغوی معنی میں لے اور یہ کہے کہ یہ سگے بھائیوں (blood brothers) کی ایک تنظیم ہے، تواُس کی یہ بات بلا شبہ ایک غیر علمی بات ہوگئی۔ کوئی بھی ذی علم آدمی اِس کو اہمیت نہیں دے گا اور نہ وہ اِس کی ضرورت سمجھے گا کہ اِس کا جواب دیا جائے ــــــ یہی معاملہ تمام مستعمل عربی الفاظ کا ہے۔‘‘ (ماہ نامہ الرسالہ، اگست ۲۰۱۴ء)
حقیقت یہ ہے کہ لفظ ہمیشہ اپنے مفہوم کے ساتھ سفر کرتاہے، اُس سے بالکل مجرد ہوکر نہیں۔مزید یہ کہ لفظ کا یہ مفہوم محض لغات کی بنیاد پر متعین نہیں ہوتا، بلکہ اُس کا تعین ہمیشہ اہل زبان کے اپنے استعمالات (usages)کی بنیاد پر کیا جاتاہے۔ایسی حالت میں ، کسی لفظ کا ایسا مفہوم بیان کرنا جو زبان کے اصل مفہوم سے معریٰ اور اُس کے استعمالات کے خلاف ہو، اُس سے استدلال ہرگز درست قرار نہیں دیاجاسکتا۔اِس طرح کے کسی استدلال کے لیے ضروری ہے کہ لفظ زبان و لغت اور استعمالات، دونوں اعتبار سے، اپنی واضح علمی بنیا د رکھتاہو۔[یکم جنوری ۲۰۲۴ء]
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]؎ النساء ۴: ۳۔ ’’ پھر اگر ڈر ہو کہ (اُن کے درمیان) انصاف نہ کر سکو گے تو (اِس طرح کی صورت حال میں بھی)ایک ہی بیوی رکھو ‘‘۔