HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

علامات قیامت: بائیبل اور قرآن کی روشنی میں (۱)

ڈاکٹر محمد سعد سلیم

 

[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]

 

تعارف

یہ مضمون بائیبل اور قرآن کی پیشین گوئیوں کا تجزیہ کرتے ہوئے قیامت کی نشانیوں کو سمجھنے کے لیے ایک منفرد فریم ورک فراہم کرتا ہے۔ احادیث میں بیان کردہ قیامت کی نشانیاں جغرافیائی، سماجی اور تاریخی تغیرات کی پیچیدہ عکاسی کرتی ہیں، جو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو رؤیا کی صورت میں دکھائی گئیں۔ اس مضمون میں ان نشانیوں کی تعبیر الہامی کتب کی روشنی میں کی گئی ہے۔

یہ علامتی انداز نہ صرف ان اہم پیغامات کو موثر طریقے سے بیان کرتا ہے، بلکہ انھیں نسل در نسل منتقل کرنے میں بھی مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ساتھ ہی، یہ مستقبل کے مخصوص حالات کو ایک حد تک پوشیدہ رکھتا ہے۔ جب ان پیشین گوئیوں کو تاریخی تناظر میں غیر جانب دار اور وسیع ذہن کے ساتھ پرکھا جائے تو یہ متعدد تاریخی حقائق سے ہم آہنگ نظر آتی ہیں۔ ان پیشین گوئیوں کا مقصد ماضی کے انسانی اعمال کی اخلاقی توثیق یا تنقید نہیں، بلکہ اللہ کے کامل علم، قدرت اور تاریخ میں اس کی حاکمیت کو اجاگر کرنا ہے۔

اس مضمون کے تین بنیادی مقاصد ہیں: پہلا مقصد یہ ہے کہ خدا کو کائنات کے خالق اور پروردگار کی حیثیت سے تسلیم کرنے کی دعوت دی جائے ــــــ  ایسا رب جو نہ صرف مومنین، بلکہ غیر مومنین پر بھی حاکم ہے ــــــ  تاکہ الہٰی حاکمیت کی عالم گیریت کو نمایاں کیا جا سکے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ پیشین گوئیوں کی روشنی میں عصر حاضر کی درست شناخت کی جائے تاکہ مسلمان اپنی فکری اور عملی سمت کا تعین کسی غلط مفروضے کی بنیاد پر نہ کریں۔ تیسرا اور نہایت اہم مقصد یہ ہے کہ واضح کیا جائے کہ یہ پیشین گوئیاں قرآن و سنت کی روشنی میں بیان کردہ موجودہ دینی فرائض کے علاوہ کسی نئی مذہبی ذمہ داری کا تقاضا نہیں کرتیں۔ اس وضاحت کے نتیجے میں اہل ایمان غیر ضروری فکری و عملی بوجھ سے آزاد ہو کر اپنی اصل دینی ذمہ داریوں پر یک سوئی سے توجہ دے سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر حدیث میں دجال کے فتنے کے دوران میں پہاڑوں میں پناہ لینے کا ذکر قرآن کے اس اصول سے ہم آہنگ ہے جو مذہبی جبر کے وقت ہجرت کی تلقین کرتا ہے۔ یہ الٰہی رہنمائی کا تسلسل ہے، اور یہ ظاہر کرتا ہے کہ یہ پیشین گوئیاں احکام دینے کے بجاے مومنین کو تاریخی اور عالمی واقعات میں خدا کی حاکمیت کو تسلیم کرنے اور اس کی تصدیق کرنے کے قابل بناتی ہیں۔

مضمون کا دعویٰ ہے کہ قیامت کی بہت سی نشانیاں بڑے عالمی واقعات کی نمایندگی کرتی ہیں، جن میں سے کئی شاید پہلے ہی وقوع پذیر ہو چکی ہیں۔ مضمون کے تمام حدیث کے حوالہ جات صرف صحیح مسلم اور صحیح بخاری پر مبنی ہیں تاکہ اس کی درستگی اور اعتبار کو یقینی بنایا جا سکے۔

مستقبل کی پیشین گوئیاں

اللہ نے اپنی مخلوق کو سیدھے راستے پر گام زن کرنے کے لیے اپنے پیغمبروں کو مبعوث کیا، جنھیں اپنے مشن کی تکمیل کے لیے الہٰی وحی عطا کی گئی۔ ان وحیوں میں بعض اوقات مستقبل کے واقعات کی جھلکیاں شامل ہوتیں، جو اللہ کے علم کامل کی واضح گواہی تھیں۔ کچھ مواقع پر یہ واقعات واضح الفاظ میں بیان کیے گئے، جیسا کہ قرآن مجید کی سورۂ روم میں رومیوں کی ساسانیوں پر فتح کا ذکر، جب کہ دیگر مواقع پر یہ وحی رؤیا کی صورت میں پیش کی جاتی۔ مثال کے طور پر حضرت یوسف علیہ السلام نے ایک خواب میں آسمانی اجسام کو اپنے سامنے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا، جو ان کی آزمایشوں کے بعد ان کے خاندان کی طرف سے عزت و تکریم کی علامت تھا۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک رؤیا میں اپنے بیٹے کی قربانی کا منظر دکھایا گیا، جو ان کے اور ان کے بیٹے کے لیے ایک عظیم آزمایش تھی۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کے بیٹے نے اسے اطاعت کی آزمایش سمجھتے ہوئے عظمت کا رویہ اپنایا اور اس پر من و عن عمل کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم اللہ کی مداخلت نے قربانی کو روک دیا ، کیونکہ اس خواب کی تعبیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے اپنے بیٹے کو اللہ کی راہ میں قربان، یعنی اللہ کے گھر کی خدمت کے لیے نذر کر دینا تھی۔[1]؎  اس آزمایش میں اللہ کے حکم کے سامنے مکمل اطاعت اور ہر قسم کی قربانی کے لیے آمادگی نے ان کے اس عمل کو بندگی، وفاداری اور خلوص کی عظیم مثال بنا دیا۔

تاہم، رؤیاؤں کی علامتی نوعیت انھیں اکثر غلط فہمی کا شکار بنا دیتی ہے۔ اس کی ایک نمایاں مثال کتاب مکاشفہ میں ملتی ہے، جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل کی گئی۔ یہ متن مختلف علامتی رؤیا پر مشتمل ہے، جن میں آفات، تاریخی واقعات اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ذکر شامل ہے۔ کتاب مکاشفہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ’’ذبح شدہ برہ‘‘[2]؎ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جو انبیا کی معصومیت، قربانی اور اللہ کے لیے مکمل وفاداری کی علامت ہے۔ یہ تمثیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے خواب ، جسے اوپر بیان کیا گیا ہے، سے مشابہت رکھتی ہے، جہاں قربانی کا تصور اللہ کی رضا اور حکم کے سامنے مکمل تسلیم و رضا کی نشان دہی کرتا ہے۔ تاہم عیسائیوں نے ’’ذبح شدہ برہ‘‘ کی اس علامت کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مصلوبیت کا حوالہ سمجھ لیا ۔ یہ غلط تشریح اس بات کی یاد دہانی ہے کہ علامتی روایات کو سمجھنے میں پہلے سے اپنائے گئے خیالات، جو محکم علمی طریقے سے حاصل نہ کیے گئے ہوں، غلط نتائج کی طرف لے جاتے ہیں۔

پیشین گوئیوں کو سمجھنے کے بنیادی اصول

اس مضمون میں حدیث میں بیان کردہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رؤیا میں دکھائی گئی پیشین گوئیوں کی تفہیم کے لیے درج ذیل اصولوں کو بنیاد بنایا گیا ہے۔

پہلا اصول: انسانی و حیوانی علامات کی تعبیر

احادیث میں پیشین گوئیوں کو علامتی انداز میں بیان کیا گیا ہے، جس طرح سابقہ الہامی کتابوں، جیسے کتاب دانیال اور مکاشفہ میں بھی مستقبل کے واقعات کو خواب اور رؤیا کی شکل میں بیان کیا گیا۔ ان متون میں جانوروں اور انسانوں کی علامات مختلف طاقتوں، جیسے سلطنتوں، ملکوں اور تنظیموں کی نمایندگی کرتی ہیں۔ مثال کے طور پر کتاب دانیال میں بابل کی سلطنت کے آخری دور میں اس سلطنت کو ایک انسان اور اس کے بعد آنے والی یونانی سلطنت کو ایک جانور کی صورت میں حضرت دانیال علیہ السلام کے خواب میں دکھایا گیا،[3]؎ جو اسی علامتی طرز بیان کا حصہ ہے جس کے تحت احادیث میں ’’دجال‘‘ کو ایک انسان اور ’’زمین کا جانور‘‘ کو ایک جانور کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔

دوسرا اصول: مقامات اور گروہوں کے علامتی معانی

احادیث میں مذکور جغرافیائی مقامات اور انسانی گروہوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور کے سیاسی اور تہذیبی سیاق و سباق میں سمجھنا ضروری ہے، بالکل اسی طرح جیسے قرآن کی تفہیم اُس وقت کی عربی زبان اور اس کے لسانی پس منظر کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ علامتی انداز بیان احادیث کو ایسی معنویت اور تسلسل عطا کرتا ہے جو وقت کے ساتھ بدلتے ہوئے سیاسی حالات اور جغرافیائی تقسیم کے باوجود بھی برقرار رہتا ہے۔

مثال کے طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں قسطنطنیہ بازنطینی عیسائیوں کا دارالحکومت تھا، اور اس کی فتح کے وقت بھی یہی حیثیت قائم تھی، اس لیے حدیث میں اسے اسی اصل نام سے بیان کیا گیا۔ اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ’’شام‘‘ بازنطینی سلطنت کے زیر اقتدار تھا، اس لیے ابتدائی دور سے متعلق پیشین گوئیوں میں ’’شام‘‘ سے مراد حقیقی جغرافیائی شام ہے۔ البتہ بعد کی پیشین گوئیوں میں ’’شام‘‘ ایک علامتی مفہوم اختیار کر لیتا ہے، جو عیسائی طاقتوں کے زیراثر علاقوں کی نمایندگی کرتا ہے۔

اسی سیاق میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے کچھ عرصے بعد خلافت کا مرکز عرب سے باہر منتقل ہو گیا، لہٰذا مدینہ کا ذکر بعد کے دور سے متعلق احادیث میں صرف ایک شہر نہیں، بلکہ پوری مسلم امت کی علامت کے طور پر کیا جاتا ہے، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں یہ مسلمانوں کی ریاست کا مرکز تھا۔ اسی طرح دیگر مقامات جیسے دمشق، لد اور یمن کو بھی اُن کے تاریخی اور تہذیبی پس منظر میں سمجھنا ضروری ہے تاکہ احادیث کی تعبیر درست ہو سکے۔

اسی اصول کے تحت احادیث میں ذکر کردہ انسانی گروہوں کو بھی اُن کے وقت کی تاریخی شناخت کے تناظر میں سمجھنا چاہیے۔ مثال کے طور پر بازنطینی رومیوں کی عیسائیت ان کی شناخت کا ایک بنیادی جزو تھی، اور اگرچہ ان کی سلطنت ۱۴۵۳ء میں ختم ہو گئی، احادیث میں بعد کے عیسائی گروہوں کو بھی ’’رومیوں‘‘ سے ہی پکارا گیا ہے۔[4]؎  اسی طرح، بنی اسحٰق اور اصفہان کے یہودیوں جیسے دیگر گروہوں کا ذکر بھی اُن کے مخصوص تاریخی سیاق میں ہی سمجھا جانا چاہیے تاکہ ان سے متعلق احادیث کی تعبیر درست ہو سکے۔

تیسرا اصول: تفصیلات کا الہٰی حکمت کے تحت مخفی ہونا

احادیث میں بیان کردہ پیشین گوئیوں میں بعض علامات اور تفصیلات کو اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت کے تحت پوشیدہ رکھا ہے تاکہ ان کی مکمل تفہیم صرف ظہور کے بعد ہی ممکن ہو۔ یہ علامات اکثر علامتی زبان میں بیان کی گئی ہیں، جو کسی بڑے واقعے کی طرف اشارہ کرتی ہیں، مگر اس کی جزئیات کو ظاہر نہیں کرتیں۔ مثال کے طور پر یاجوج و ماجوج کی گردنوں پر کیڑوں سے اچانک موت دراصل کسی بڑے عامل کی علامت ہے، جسے تفصیل سے بیان کرنے کے بجاے علامتی اسلوب میں پیش کیا گیا۔ اسی طرح، مدینہ میں تین جھٹکوں کے نتیجے میں منافقین اور کافروں کا دجال کی طرف لپکنا اُن آزمایشوں پر پردہ ڈالتا ہے جو جھٹکوں کی صورت میں ظاہر کی گئیں۔ ایسی پیشین گوئیوں کی صحیح تعبیر تاریخی سیاق میں اُن کے وقوع کے بعد ہی سامنے آتی ہے، جب یہ واضح ہو جاتا ہے کہ یہ علامات کن حقیقی واقعات کی نمایندگی کر رہی تھیں۔

قیامت کی دس بڑی نشانیاں

آیندہ حصوں میں قیامت سے پہلے پیش آنے والے اہم واقعات کا ذکر کیا گیا ہے، جیسا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں بیان ہوا ہے۔ یہ واقعات قیامت کی دس بڑی نشانیوں پر مبنی ہیں،[5]؎  جن کو حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے رؤیا میں دکھایا گیا۔[6]؎ مثال کے طور پر دجال کو معراج کے واقعے میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھایا گیا،[7]؎ جو ایک رؤیا تھی۔[8]؎

زمین کا جانور (دابة الأرض)

قیامت کی نشانیوں میں ریاستوں، سلطنتوں، بادشاہتوں اور تنظیموں کو اکثر جان دار مخلوق کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، جو طاقت ور قوتوں کو سمجھنے اور بیان کرنے کے لیے ایک علامتی انداز ہے۔ یہ علامتی اظہار مختلف مذہبی متون، جیسےبائیبل، قرآن اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں نمایاں ہے۔ زمین کا جانور (دابة الأرض) ان روایات میں ایک اہم استعارہ کے طور پر سامنے آتا ہے، جو جابر، وسیع اور اکثر ظالم ریاستوں کی نمایندگی کرتا ہے۔

پرانے عہد نامے سے مثالیں

پرانے عہد نامے میں خاص طور پر صحیفۂ دانیال میں، حضرت دانیال علیہ السلام کے خوابوں میں جانوروں کی علامات کو بڑی تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔ یہ جانور طاقت ور اور ظالم سلطنتوں کی تمثیل کے طور پر پیش کیے گئے ہیں۔ بائیبل کے موجودہ قدیم ترین نسخے یونانی زبان میں تحریر کیے گئے، جہاں ’’تھریون‘‘ کا مطلب ’’جانور‘‘ تھا، جو عربی لفظ ’دابة‘ سے مماثلت رکھتا ہے اور دونوں زبانوں میں ایک جیسے مفہوم کو ظاہر کرتا ہے۔ حضرت دانیال علیہ السلام کے خوابوں میں یہ جانور بڑی سلطنتوں کی نمایندگی کرتے ہیں، جو اپنی طاقت، ظلم اور وسعت کی خصوصیات رکھتے ہیں۔ کچھ جانوروں کو کئی سروں کے ساتھ دکھایا گیا، جو ایک سلطنت کے مختلف خاندانوں، گروہوں یا دھڑوں کی نمایندگی کرتے ہیں، جب کہ ان کے سینگ بادشاہوں، حکمرانوں یا بااثر رہنماؤں کی علامت ہیں ۔

چار جانور – چار قدیم عالمی سلطنتیں

چار جانوروں کا ذکر صحیفۂ دانیال[9]؎ میں ملتا ہے۔ یہ جانور ایک کے بعد ایک آنے والی عالمی سلطنتوں کی نمایندگی کرتے ہیں، جیسا کہ حضرت دانیال علیہ السلام کو وضاحت کی گئی:[10]؎

پہلا جانور – بابل کی سلطنت: پہلا جانور ایک شیر کے مانند ہے، جس کے عقاب کے پر ہیں، جو بعد میں ایک انسان کی شکل اختیار کر لیتا ہے اور اسے انسانی دماغ دیا جاتا ہے۔ یہ بابل کی سلطنت (۵۳۹- ۶۰۵قبل مسیح) کی نمایندگی کرتا ہے۔ یہ سلطنت اپنی طاقت، غلبے اور تیز رفتاری کے لیے مشہور تھی۔

دوسرا جانور – ہخامنشی سلطنت: دوسرا جانور ریچھ کے مانند ہے، جو مادی-فارس کی ہخامنشی سلطنت (۳۳۱-۵۳۹ قبل مسیح ( کی نمایندگی کرتا ہے۔ یہ سلطنت اپنی بے پناہ طاقت اور فتح کے لیے مشہور تھی اور اپنی درندگی کے سبب خوف پیدا کرتی تھی۔

تیسرا جانور – یونانی سلطنت: تیسرا جانور ایک تیندوا کے مانند ہے، جس کے چار پر اور چار سر ہیں۔ یہ یونانی سلطنت (۱۴۶ - ۳۳۱  قبل مسیح) کی نمایندگی کرتا ہے، جو سکندر اعظم کی قیادت میں عالمی سطح پر چھا گئی۔ اس کے چار سر سکندر کی وفات کے بعد اس کی سلطنت کے چار حصوں میں تقسیم ہو جانے کی علامت ہیں۔

چوتھا جانور – رومی سلطنت: چوتھا جانور لوہے کے دانتوں اور دس سینگوں کے ساتھ نہایت خوف ناک اور دہشت انگیز ہے۔ یہ رومی سلطنت (۱۴۶ قبل مسیح) کی نمایندگی کرتا ہے، جو بے مثال طاقت اور غلبے کی علامت تھی۔ اس کے لوہے کے دانت اس کی بے رحمی اور طاقت ور تسلط کو ظاہر کرتے ہیں۔

مینڈھا اور بکرا – ہخامنشی اور یونانی سلطنت

صحیفۂ دانیال میں بیان کردہ ایک اور رؤیا میں مینڈھے اور بکرے کا ذکر ملتا ہے۔[11]؎ حضرت جبریل علیہ السلام نے حضرت دانیال علیہ السلام کو اس رؤیا کی وضاحت کی۔[12]؎ مینڈھا دو سینگوں کے ساتھ ہخامنشی سلطنت کی نمایندگی کرتا ہے، اور یہ سینگ ہخامنشی سلطنت میں مادی اور فارس کی مشترکہ طاقت کی علامت ہیں۔ بکرا یونانی سلطنت کی نمایندگی کرتا ہے، جو مینڈھے کو شدت کے ساتھ ٹکر مار کر زمین پر گرا دیتا ہے اور اسے شکست دیتا ہے۔ بکرے کی آنکھوں کے درمیان ایک نمایاں سینگ سکندر اعظم کی طاقت اور قیادت کو ظاہر کرتا ہے۔ بکرے کے سینگ کا ٹوٹنا، اور اس کی جگہ چار چھوٹے سینگوں کا نمودار ہونا، سکندر اعظم کی وفات کے بعد اس کی عظیم سلطنت کے اس کے چار جرنیلوں میں تقسیم ہو جانے کی علامت ہے۔ یہ رؤیا تاریخ کے دھارے میں بڑی سلطنتوں کی طاقت، ان کا عروج اور ان کا زوال بیان کرتی ہے۔

نئے عہد نامہ سے مثالیں

جانوروں کے استعارے کا تسلسل نئے عہد نامے میں بھی جاری رہتا ہے، خاص طور پر کتاب مکاشفہ میں، جہاں تین علامتی جانوروں کا ذکر کیا گیا ہے۔

سمندر کا جانور – رومی سلطنت

کتاب مکاشفہ میں بیان کیا گیا یہ جانور رومی سلطنت کی نمایندگی کرتا ہے،[13]؎ جو اپنی طاقت ور بحری قوت اور سمندر کے ذریعے سے پھیلنے والے وسیع اثر و رسوخ کے لیے مشہور تھی۔ اس کا سمندر سے ابھرنا روم کی بحری طاقت کو ظاہر کرتا ہے ۔ اس کے سات سر سات شاہی ادوار کی نمایندگی کرتے ہیں، اور ہر سر پر تحریر گستاخانہ الفاظ اس کے خدا کے خلاف سرکشی اور تکبر کو ظاہر کرتے ہیں۔ اس جانور کو بیالیس مہینوں تک غرور اور کفر کے کلمات کہنے کی طاقت دی گئی۔[14]؎ یہ بیالیس مہینے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بعد ۶۶ء سے ۷۰ء میں رومیوں اور یہودیوں کی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہیں، جس کا انجام ۷۰ء میں رومیوں کے ہاتھوں یہودیوں کے معبد کی بے حرمتی اور مکمل تباہی پر ہوا۔

زمین کا جانور – کلیسا

کتاب مکاشفہ میں ذکر کردہ زمین کا جانور زمین پر مبنی ایک اتھارٹی کی علامت ہے، جو جھوٹے پیغامات کے ذریعے سے عوام کو دھوکا دیتی ہے۔ اسے ’’جھوٹا نبی‘‘ کہا گیا ہے، جو شیطانی اثر و رسوخ کے تحت کام کرتے ہوئے جھوٹے نظریات پھیلانے کی نمایندگی کرتا ہے۔ یہ جانور اپنی طاقت سمندر کے جانور کی اتھارٹی سے حاصل کرتا ہے اور اُس وقت ظاہر ہوتا ہے جب سمندر کے جانور کے ایک سر پر لگا مہلک زخم بھر چکا ہوتا ہے۔[15]؎ یہ زخم رومی سلطنت کے تیسری صدی کے بحران کی علامت ہے، جس کے بعد کلیسا ۳۲۵ عیسوی میں منعقد ہونے والی کونسل آف نائسیا کے نتیجے میں ایک باقاعدہ ادارے کے طور پر سامنے آیا۔ کلیسا نے رومی سلطنت کے اختیار کا استعمال کرتے ہوئے ان مخالف عیسائیوں کو ظلم و ستم کا نشانہ بنانا شروع کیا جو نائسین عقائد کے مخالف تھے، جیسے کہ آریئن، ڈوناٹسٹ، مارسیونائٹس اور مونٹینسٹ۔ ’’زمین کے جانور‘‘ کی علامت میں اس کے دو سینگ برہ کی طرح نظر آتے ہیں، جو ظاہر میں نرمی، تقدس اور معصومیت کا تاثر دیتے ہیں، لیکن اس کی زبان اژدھے کے مانند ہے، جو فریب، دھمکی اور گم راہی کی نمایندہ ہے۔ یہ دو سینگ کلیسا کے دو بڑے دھڑوں ــــــ قسطنطنیہ (مشرق) اور روم (مغرب) ــــــ کی مذہبی قوت کو ظاہر کرتے ہیں۔[16]؎

کتاب مکاشفہ میں سمندر اور زمین کے جانور کی شکست[17]؎  رومیوں کی وہ شکست ظاہر کرتی ہے جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ہاتھوں ہوئی، جس نے نہ صرف روم اور کلیسا کی طاقت و اثر و رسوخ کو کم زور کیا، بلکہ ان کے طریقۂ کار، فلسفہ اور نظریات پر بھی گہرا اثر ڈالا ۔

سرخ رنگ کا جانور – ایرانی سلطنت

کتاب مکاشفہ میں ذکر کردہ یہ جانور فارسی سلطنت کی نمایندگی کرتا ہے۔[18]؎ اس کے سات سر[19]؎ سات مختلف خاندانوں کی علامت ہیں۔ چھٹا سر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وقت کے پارتھیوں سے مطابقت رکھتا ہے، جب کہ ساتواں سر ساسانی سلطنت کی نمایندگی کرتا ہے۔[20]؎ اس کے دس سینگ اُن دس ساسانی بادشاہوں کی علامت ہیں[21]؎ جو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور ساسانیوں کے درمیان ہونے والی جنگوں سے قبل، کتاب مکاشفہ کے مطابق ’ایک گھڑی‘، یعنی نہایت مختصر مدت کے لیے اقتدار میں آئے۔[22]؎

قرآن میں جانور کا ذکر – قریش کے لیے تنبیہ

قرآن پاک کی سورۂ نمل[23]؎ میں زمین سے نکلنے والے جانور (دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ) کا ذکر ملتا ہے، جو منکرین حق سے گفتگو کرے گا۔ یہ آیت حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی قوم قریش کے لوگوں کے کفر اور انکار کے جواب میں بیان کی گئی ہے۔

قرآن کی اس تنبیہ میں ’دابه‘ کے ’’بولنے‘‘ کا موازنہ اگر نئے عہد نامے میں مذکور ’’سمندر کے جانور‘‘ سے کیا جائے ــــــ  جو بیالیس مہینے تک گستاخانہ اور متکبرانہ گفتگو کرتا ہے[24]؎ ــــــ  تو دونوں واقعات میں ایک گہری مماثلت نظر آتی ہے۔ نئے عہد نامے میں سمندر کے جانور کا بولنا بنی اسرائیل پر الہٰی غضب کی علامت ہے، جو ۶۶ء سے ۷۰ء کے درمیان یہودیوں کو مذہبی توہین، نفسیاتی دباؤ اور قومی ذلت کی صورت میں جھیلنا پڑا، اور جس کا انجام یروشلم کے ہیکل کی مکمل تباہی پر ہوا۔ بعینہٖ، قرآن میں اسی نوع کی تنبیہ قریش کے لیے کی گئی، جو ان کے کفر اور انکار حق کے جواب میں بطور عذاب پیش کی گئی ہے۔ تاہم جب قریش کی ایک بڑی تعداد نے اسلام قبول کر لیا تو یہ سزا ٹال دی گئی۔[25]؎

حدیث میں جانور کا ذکر – منگول سلطنت

قرآن اور بائیبل کی پیشین گوئیوں کی روشنی میں، احادیث میں بیان کردہ ’’زمین کا جانور‘‘  ــــــ  جو قیامت کی دس بڑی نشانیوں میں شمار ہوتا ہے  ــــــ  درحقیقت ایک طاقت ور اور جابر زمینی سلطنت کی علامت ہے۔ یہ ایسی سلطنت ہے جو خشکی کی راہوں سے اپنے اثر و رسوخ کو وسیع کرتی ہے، اور اپنی عسکری فتوحات، ظلم و استبداد اور عالمی سطح پر تہذیبی تبدیلیوں کے ذریعے سے دنیا پر گہرے اثرات مرتب کرتی ہے۔ یہ زمینی طاقت نئے عہد نامے میں مذکور ’’سمندر کے جانور‘‘ سے اس لحاظ سے مختلف ہے کہ وہ بحری طاقت کے ذریعے سے پھیلتا ہے ــــــ  جیسا کہ رومی سلطنت، جب کہ ’’زمین کا جانور‘‘ بری طاقت کی نمایندگی کرتا ہے۔

تاریخی تناظر میں یہ پیشین گوئی واضح طور پر تیرھویں صدی کی منگول سلطنت پر منطبق ہوتی ہے۔ منگول سلطنت انسانی تاریخ کی سب سے بڑی اور مہلک زمینی سلطنت کے طور پر ابھری، جس نے ایشیا سے یورپ تک پھیلے ہوئے وسیع خطے کو تاراج کیا۔ ان کی عسکری یلغار، سلطنتوں کا انہدام اور بین الاقوامی جغرافیائی و سیاسی نظام کی ازسرنو تشکیل اس حقیقت کو ثابت کرتی ہے کہ منگول سلطنت ہی ’’زمین کے جانور‘‘ کی علامت ہے، جیسا کہ احادیث میں بیان کیا گیا ہے۔

A map of the world with red countries/regions

Description automatically generated

شکل 1: منگول سلطنت اپنے عروج پر – تاریخ کی سب سے بڑی سلطنت جو زیادہ تر زمینی حملوں کے ذریعے سے پھیلی، اور حدیث میں ’’زمین کے جانور‘‘ کے طور پر علامتاً بیان کی گئی ہے[26]؎

مغرب سے سورج کا طلوع ہونا

احادیث میں قیامت کی بڑی نشانیوں میں مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کا ذکر کیا گیا ہے۔ ’’کسی تہذیب پر سورج کا طلوع ہونا‘‘ مختلف زبانوں اور ثقافتوں میں ایک استعارہ کے طور پر استعمال ہوتا ہے، جو کسی تہذیب کے اثر و رسوخ، طاقت اور عروج کی علامت ہے۔ اس استعارے میں سورج کا ذکر تہذیبوں کے عروج و زوال کے تاریخی ادوار کو نمایاں کرتا ہے، جہاں طاقت اور قیادت مختلف خطوں میں منتقل ہوتی رہتی ہے۔ کسی تہذیب پر سورج کا طلوع ہونا عام طور پر اس تہذیب کے عروج کی علامت سمجھا جاتا ہے اور کسی تہذیب پر سورج کا غروب ہونا عام طور پر اس کے زوال کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

علامات قیامت کے تناظر میں، مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کی تشریح مغربی تہذیب کے عروج کے طور پر کی گئی ہے۔ یہ عروج کا سفر بارھویں صدی کے قرون وسطیٰ کے نشاۃ ثانیہ[27]؎سے شروع ہوا، جو یورپ میں فکری اور علمی بیداری کا دور تھا، جس میں یونانی اور عربی علوم کے تراجم کے ذریعے سے قدیم دانش کی بازیافت، سکولاستیک فلسفے کی ترقی، یونیورسٹیوں کا قیام اور قانون، سائنس اور تعمیرات میں نمایاں پیش رفت ہوئی۔ اس دوران میں عوامی ادب میں ترقی، مذہبی اصلاحات اور صلیبی جنگوں کے نتیجے میں ثقافتی تبادلوں نے یورپی تہذیب و دانش کی بنیادوں کو مزید مضبوط کیا۔ بعد میں چودھویں سے سترھویں صدی کی نشاۃ ثانیہ اور سولھویں صدی کی اصلاحی تحریکوں نے بھی نمایاں کردار ادا کیا ۔ ان تحریکوں نے یورپ میں فکر، سائنس اور طرز حکمرانی میں گہرے انقلابات برپا کیے، جو بالآخر مغرب کو ایک غالب عالمی طاقت کے طور پر قائم کرنے کا باعث بنے۔

زمین کے جانور کے ساتھ قربت

حدیث [28]؎ میں مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کو قیامت کی نشانیوں میں پہلی نشانی کہا گیا اور زمین کے جانور کو اس کے فوراً بعد کی ایک بڑی نشانی کے طور پر بیان کیا گیا۔ مغرب سے سورج کے طلوع ہونے کی یہ نشانی دس بڑی نشانیوں [29]؎ میں سب سے پہلے پوری ہوئی۔ قرون وسطیٰ کی بارھویں صدی کی نشاۃ ثانیہ[30]؎ کے بعد زمین کا جانور، جس کی علامتی تشریح تیرھویں صدی میں منگول سلطنت ہے، کے نکلنے کا واقعہ رونما ہوا۔

ایمان لانے کا فائدہ نہ ہونا – ایک تنبیہ

حدیث[31]؎ میں بیان ہوا ہے کہ جب سورج مغرب سے طلوع ہوگا تو لوگ اسے دیکھ کر ایمان لے آئیں گے، لیکن اس وقت ایمان لانا بے سود ہوگا۔ بعض احاد یث [32]؎  میں زمین کے جانور اور دجال کو بھی ان نشانیوں میں شمار کیا گیا ہے جن کے ظاہر ہونے کے بعد ایمان لانا کسی نفع کا باعث نہیں ہوگا۔ اسی نوعیت کی ایک تنبیہ ہمیں سورۂ انبیاء[33]؎ میں یاجوج ماجوج کے کھلنے کے حوالے سے بھی ملتی ہے، جب لوگ اعتراف کریں گے کہ ’’بے شک، ہم ظالم تھے‘‘۔

یہ احادیث اور قرآن کی آیت ایک واضح تنبیہ ہیں، کیونکہ یہ نشانیاں قیامت کے قریب واقع ہوں گی۔ اور یہ قیامت کے دن کا منظرنامہ ہے کہ کسی شخص کا ایمان لانا اسے کوئی فائدہ نہیں دے گا اور لوگ اعتراف کریں گے کہ ’’بے شک، ہم ظالم تھے‘‘۔ یہ تنبیہ ان نشانیوں کے قیامت سے قریب الوقوع ہونے کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ نشانیاں قیامت سے کتنی قریب ہیں، اس کا علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے۔ یہ پیغام انسانوں کو دعوت دیتا ہے کہ وہ مہلت ختم ہونے سے قبل ایمان لے آئیں اور خالص توبہ کے ذریعے سے اپنی اصلاح کرلیں، اس سے پہلے کہ رجوع کا کوئی راستہ باقی نہ رہے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

[1]. Quran Exegesis 37:102-113

https://www.javedahmedghamidi.org/#!/quran?chapter=37&paragraph=13&type=Ghamidi#fn_60

[2]. Revelation 5:5-6: https://www.bible.com/bible/111/REV.5.5-6.NIV

[3]. Daniel 7:17–27: https://www.bible.com/bible/111/dan.7.17-27.NIV

[4]. Sahih Muslim 2898a: https://sunnah.com/muslim:2898a

[5]. Sahih Muslim 2901a: https://sunnah.com/muslim:2901

[6]؎ نزول مسیح، سید منظورالحسن، نومبر ۲۰۲۳ء، غامدی سینٹر آف اسلامک لرننگ، المورد امریکا، ۱۸۵ - ۲۱۷۔

[7]. Bukhari 3239: https://sunnah.com/bukhari:3239

[8]. Bukhari 7517: https://sunnah.com/bukhari:7517

[9]. Daniel 7:1–28: https://www.bible.com/bible/111/DAN.7.NIV

[10]. Daniel 7:17–27: https://www.bible.com/bible/111/dan.7.17-27.NIV

[11]. Daniel 8:1–27: https://www.bible.com/bible/111/DAN.8.1-27.NIV

[12]. Daniel 8:19–25: https://www.bible.com/bible/111/DAN.8.19-25.NIV

[13]. Revelation 13:1–10: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.1-10.NIV

[14] . Revelation 13:5–10: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.5-10.NIV

[15]. Revelation 13:11–12: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.11-12.NIV

[16]. Revelation 13:11: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.11

[17]. Revelation 19:19-21: https://www.bible.com/bible/111/REV.19.19-21

[18]. Revelation 17:3–14: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.3-14.NIV

[19]. Revelation 17:7: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.7.NIV

[20]. Revelation 17:10: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.10.NIV

[21]. Revelation 17:12–14: https://www.bible.com/bible/111/REV.17.12-14

[22]؎ ۱۔ قباد دوم (شیرویہ) ‎(۶۲۸)

۲۔ اردشیر سوم (۶۲۸ - ۶۳۰)

۳۔ شہروراز ‎(۶۳۰)

۴۔ بوران (۶۳۰ - ۶۳۲)

۵۔ خسرو سوم (۶۳۰)

۶۔ شابور بن شہروراز (۶۳۰)

۷۔ آزرمی دخت (۶۳۰ - ۶۳۱)

۸۔ ہرمیز ششم (۶۳۰ - ۶۳۲)

۹۔ فیروز دوم ‎(۶۳۲)

۱۰۔ ۱فرخزاد (معروف بہ خسرو پنجم) (۶۳۲)

[23]. Quran 27:82: https://quran.com/27/82

[24] . Revelation 13:5–10: https://www.bible.com/bible/111/REV.13.5-10.NIV

[25]. https://www.javedahmedghamidi.org/#!/quran?chapter=27&paragraph=35&type=Ghamidi

[26]. https://en.wikipedia.org/wiki/Mongol_Empire#/media/File:Mongol_Empire_map_2.gif

[27]https://en.wikipedia.org/wiki/Renaissance_of_the_12th_century

[28]. Sahih Muslim 2941a: https://sunnah.com/muslim:2941a

[29]. Sahih Muslim 2901a: https://sunnah.com/muslim:2901

[30]https://en.wikipedia.org/wiki/Renaissance_of_the_12th_century

[31]. Sahih Bukhari 4636: https://sunnah.com/bukhari:4636

[32]. Sahih Muslim 158: https://sunnah.com/muslim:158

[33]. Quran 21:96-97 https://quran.com/21/96-97


B