[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضرت رافع بن مالک کا تعلق بنو خزرج کی شاخ بنو زریق سے تھا۔ بنو عجلان بن عمرو ان کے دادا، زریق بن عامر پانچویں اور خزرج بن حارثہ دسویں (ابن ہشام)یا گیارھویں(ابن اثیر) جد تھے۔ان کی والدہ ماویہ بنت عجلان بھی خزرج سے تعلق رکھتی تھیں۔
حضرت رافع بن مالک کی کنیت ابو مالک اور ابو رفاعہ تھی۔اپنے قبیلہ بنو زریق کی نسبت سے زرقی کہلاتے تھے۔
’’ویکیبیدیا الموسوعۃ الحرۃ‘‘ کے مضمون میں حضرت رافع کو مالک بن عجلان خزرجی کا بیٹا بتایا گیا ہے۔ یہ بات درست نہیں، کیونکہ حضرت رافع خزرج کی شاخ بنو زریق سے تعلق رکھتے تھے، جب کہ مالک بن عجلان،رئیس خزرج جویثرب کے ــــــ نوبیاہتا دلہنوں کو نشانہ بنانے والے ــــــ عیاش یہودی بادشاہ فطیون کو قتل کر کے شام بھاگ گیا تھا،خزرج کی دوسری شاخ بنو سالم بن عوف سے تھا۔بیعت عقبۂ ثانیہ میں حضرت رافع کے ساتھی، غزوۂ احد میں ان کے ساتھ شہادت پانے والے حضرت عباس بن عبادہ اسی مالک بن عجلان کے پرپوتے تھے(جمہرۃ انساب العرب، ابن حزم۳۵۳)۔
حضرت رافع زمانۂ جاہلیت کے کاملین میں شمار ہوتے تھے۔جو صاحب شرف و نسب جوان عربی لکھنے کی صلاحیت رکھتا،تیراکی میں ماہر ہوتا، اچھا نیزہ انداز ہوتا،حساب میں طاق ہوتا،دلیرو شجاع ہوتا، شعری صلاحیت رکھتا توعرب اسے ’مرد کامل‘ کہتے۔
کاملین کا لقب جن اصحاب مروت نے پایا،ان کا شمار اس طر ح ہے:
حضرت سعد بن عبادہ، سید خزرج۔ غریبوں کو کھلاتے،اسلام لانے کے بعداصحاب صفہ ان کے دسترخوان سے فیض یاب ہوتے۔
حضرت رافع بن مالک زرقی۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عقبہ کی رات تک مکہ میں نازل ہوا قرآن عطا کیا۔
ربیع بن زیادعبسی۔ شاہ نعمان بن منذر کا مصاحب رہا۔شعراے جاہلیت میں سےتھا۔
حضرت اسید بن حضیر۔جاہلیت کے کامل، عہد اسلامی میں بنو عبد الاشہل کے نقیب۔
حضرت اوس بن خولی۔حضرت علی اور حضرت فضل بن عباس کے ساتھ مل کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو غسل دیا اور قبر مبارک میں اترے۔
حضرت سوید بن صامت۔شرف و نسب اور گہری سوجھ بوجھ کے حامل تھے، شعر بھی کہتے تھے۔
۱۱/ نبوی کے حج میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ کی گھاٹی میں تشریف فرما تھے کہ یثرب کے قبیلۂ خزرج کے چھ آدمیوں سے آپ کی ملاقات ہوئی۔ آپ نےقرآن مجید کی تلاوت کر کے انھیں اسلام کی دعوت دی۔ کلام الہٰی سن کر وہ بے حد متاثر ہوئے اور کہنے لگے کہ ہمارے ہم سایہ یہودی جن خاتم النبیین کی آمد کی خبردے کر ہمیں دھمکاتے ہیں،یہی ہیں۔چنانچہ سب آپ کے دست مبارک پر ایمان لے آئے،ان السابقون کے نام یہ ہیں: بنوزریق کےحضرت رافع بن مالک، بنو نجار کے حضرت اسعد بن زرارہ اور حضرت عوف بن عفراء،بنو سلمہ کے حضرت قطبہ بن عامر،بنو حرام کے حضرت عقبہ بن عامراور بنو عبید بن عدی کے حضرت جابر بن عبداﷲ بن رئاب۔یثرب جا کر انھوں نے اپنے اہل خاندان اور رشتہ داروں کو بھی اسلام کی دعوت دی۔
عروہ بن زبیر اور ابن سعد نےیثر ب کے السابقون الاولون کی تعداد آٹھ بتائی ہے: حضرت رافع بن مالک، حضرت معاذبن عفراء، حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت ذکوان بن عبد قیس، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت یزید بن ثعلبہ، حضرت ابوالہیثم بن تیہان اورحضرت عویم بن ساعدہ(مستدرک حاکم، رقم ۵۲۴۹)۔
تیسری روایت کے مطابق حضرت رافع بن مالک اور ان کے خالہ زاد بھائی حضرت معاذ بن عفراءعمرہ کرنے مکہ آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک درخت کے نیچے تشریف فرما پایا۔بیت اللہ کا طواف کر کے وہ آپ کے پاس چلےآئے اور سلام کر کے پوچھا:وہ شخص کہاں ہے جو دعواے نبوت کرتا ہے؟آپ نے فرمایا: میں ہی ہوں۔ان کے سوالات کے جواب میں آپ نے اسلام کی تعلیمات بیان فرمائیں۔ ارشاد کیا: اللہ جو آسمانوں،زمین اور پہاڑوں کا خالق ہے،عبادت کا حق رکھتا ہے، نہ کہ اس کی مخلوق،اس لیے تم پر واجب ہے کہ اپنے رب کی بندگی کرو۔ انھوں نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا تو آپ نے ان کو سورۂ یوسف اور سورۂ علق سکھائیں(طبقات ابن سعد، رقم ۱۶۱۔ مستدرک حاکم۴/۱۴۹۔ البدایۃ والنہایۃ ۳/ ۳۹۹)۔ ابن اسحٰق کہتے ہیں : یہ واقعہ چھ یا آٹھ انصار کی سبقت الی الایمان سے قبل پیش آیا۔ محمد بن عمر کہتے ہیں: ہمارے نزدیک پہلی روایت قوی اور مستند ہے جس میں چھ السابقون کے بیعت ایمان کرنے کا ذکر ہے۔
۱۲/ نبوی(جولائی ۶۲۱ء)کے حج میں یثرب کے بارہ اصحاب نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پربیعت کی۔۱۱؍ نبوی کی بیعت میں شامل پانچ اصحاب حضرت رافع بن مالک، حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عوف بن عفراء،حضرت عقبہ بن عامر، حضرت قطبہ بن عامر کے ساتھ سات مزید اہل ایمان بھی اس بیعت میں شامل ہوئے،ان کے نام ہیں: حضرت معاذ یاحضرت معوذ بن عفراء، حضرت ذکوان بن عبد قیس، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت یزید بن ثعلبہ،حضرت عباس بن عبادہ، حضرت ابوالہیثم بن تیہان اورحضرت عویم بن ساعدہ۔ حضرت ابو الہیثم اور حضرت عویم اوس سے تھے، جب کہ باقی دس صحابہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ مکہ سے منیٰ آتے ہوئے کوہ ثبیر کی ایک گھاٹی (عربی:عقبہ)سے گزرنا پڑتا ہے۔جمرۂ اولیٰ یا جمرۂ عقبہ یہیں واقع ہے، جب کہ باقی دو جمرے اور منیٰ کامیدان مشرق کی سمت میں ہیں۔ رمی جمرات کے بعد حاجیوں کا ہجوم یہاں سے چھٹ جاتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیعت لینے کے لیے اس گھاٹی یا عقبہ کو منتخب فرمایا۔ اس لیے انصار کے ان بارہ السابقون الاولون کی بیعت ایمان کو بیعت عقبۂ اولیٰ کہاجاتا ہے۔
حضرت رافع بن مالک نے اپنے شہر پہنچ کر اشاعت اسلام میں بڑی سرگرمی دکھائی۔ مدینہ میں بنو زریق کی مسجدمیں سب سے پہلے قرآن مجید پڑھا گیا،اس کے پڑھنے والے حضرت رافع تھے۔ سورۂ یوسف مدینہ میں انھوں نے پہنچائی۔ بیعت عقبۂ اولیٰ سے واپسی کے وقت جس قدر قرآن نازل ہوا تھا،لکھ کر ساتھ لیتے آئے اور اپنی قوم کو جمع کر کے سنایا۔ ایک روایت کے مطابق حضرت رافع مکہ میں تھے،جب سورۂ طٰہٰ نازل ہوئی،اسے لکھ کرمدینہ لے آئے اور اپنے اہل قبیلہ کو سنائی۔ان کی دعوت کے نتیجے میں مدینہ میں اسلام پھیل گیا،اب کوئی گھر نہ تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر نہ ہوتاتھا۔
اسلام کے ابتدائی دور میں حضرت ابوبکر کے فوراً بعدایمان لانے والے حضرت خالد بن سعید نے آیت بسملہ کی کتابت کی(الاصابہ فی تمییز الصحابۃ، رقم۲۱۶۹)۔پھر حضرت عبداللہ بن سعد بن ابو السرح کو کتابت وحی کی ذمہ داری ملی، لیکن ہجرت کے بعد وہ مرتد ہو کر مشرکین مکہ سے جا ملے۔فتح مکہ کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے قتل کا حکم صادر کر رکھا تھا، لیکن ان کے رضاعی بھائی حضرت عثمان کی درخواست پر انھیں معافی مل گئی اور انھوں نے اسلام کی طرف رجوع کر لیا۔مکہ میں حضرت ابوبکر، حضرت عمراور حضرت عثمان بھی قرآن کی کتابت کرتے رہے۔ بیعت عقبۂ اولیٰ کے وقت حضرت رافع بن مالک کو قرآن مجید کی کتابت کرنے والے اولیں صحابہ میں شامل ہونے کا شرف حاصل ہوا۔زندگی مہلت دیتی تو کاتبین وحی میں ان کا اہم مقام ہوتا۔
۱۳/ نبوی ( جون ۶۲۲ ء )کے موسم حج میں یثرب کے پچھتر مسلمان اپنے مشرک اہل وطن کے ساتھ فریضۂ حج ادا کرنے نکلے۔انھوں نے باہمی مشورے سے فیصلہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مکہ کے پہاڑوں میں پریشان و خائف نہ رہنے دیا جائے، بلکہ آپ کو یثرب منتقل ہونے کی دعوت دی جائے۔ مکہ پہنچ کر انھوں نے آپ سے رابطہ کیا تو ایام تشریق کی درمیانی رات، ۱۲/ ذی الحجہ کو منیٰ میں جمرۂ عقبہ کی گھاٹی میں خفیہ طور پر جمع ہونے کا فیصلہ ہوا۔آپ نے ارشاد فرمایا: سوئے ہوئے کو بیدار کیا جائے، نہ غیر موجود کا انتظار کیا جائے۔جب رات پرسکون ہو گئی تو دو صحابیات اور تہتر صحابہ چھپتے چھپاتے نکلےاورسست روی سے عقبہ پہنچ گئے۔ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے چچا جناب عباس کے ساتھ موجود تھے۔سب سے پہلےحضرت رافع بن مالک زرقی کی نگاہ آپ پر پڑی۔
جناب عباس نے اہل یثرب سےمرتے دم تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دینے کی ضمانت چاہی تو ان کی طرف سے حضرت براء بن عازب اور حضرت اسعد بن زرارہ نے پرجوش ہو کر کہا : ہم مال کی تباہی اور اشراف کے قتل کا خطرہ مول لے کر آپ کا ساتھ دیں گے۔
آپ نےقرآن مجید کی آیات تلاوت فرمائیں،اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسلام کی رغبت دلائی۔پھر فرمایا: اپنے رب کے لیے میرا مطالبہ ہے کہ اسی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤاور اپنے لیے اور اپنے صحابہ کے لیے مانگتا ہوں کہ ہمیں پناہ دو،ہماری نصرت کرو او ر ان معاملات میں ہمارا دفاع کروجن میں اپنا کرتے ہو۔ حاضرین انصار نے پوچھا: ہم نے ایسا کر لیا تو ہمیں کیا ملے گا؟فرمایا:تمھارے لیے جنت ہو گی (صحیح ابن حبان، رقم ۶۲۷۴)۔پھر بیعت کا سلسلہ شروع ہوا۔سب سے پہلے بیعت کرنے والوں میں حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت براء بن معروراورحضرت ابو الہیثم بن تیہان شامل تھے۔حضرت رافع بن مالک کوبھی بیعت عقبۂ ثانیہ یا بیعت الحرب میں حصہ لینے کاشرف حاصل ہوا۔
بیعت مکمل ہوچکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بارہ سربراہ منتخب کر لیے جائیں جو اپنی اپنی قوم کے نقیب ہوں اور اس بیعت کی دفعات کی تنفیذکے لیے اپنی قوم کی طرف سے ذمہ دار اور مکلف ہوں۔ خزرج سے نو اور اوس سے تین نقیب منتخب کیے گئے (احمد، رقم ۱۴۴۵۶۔المعجم الاوسط، رقم ۴۵۳۸)۔ آپ نے حضرت رافع بن مالک کو خزرج کی شاخ بنو ز ریق کا نقیب مقرر فر مایا۔حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت براء بن معرور، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام، حضرت سعد بن عبادہ، حضرت منذربن عمرو، حضرت سعد بن ربیع، حضرت عبد اللہ بن رواحہ، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت اسید بن حضیر، حضرت سعد بن خیثمہ اور حضرت رفاعہ بن عبد المنذراپنے اپنے قبیلوں کے نقیب مقرر ہوئے۔
ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک کے گھر مہاجرین و انصار کے مابین رشتۂمواخات قائم کیا تو حضرت سعیدبن زید کوحضرت رافع بن مالک کا مہاجر بھائی قرار فرمایا۔
سریۂ حمزہ بن عبد المطلب یا سریۂ سیف البحر تاریخ اسلام کاپہلا سریہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان یکم ہجری( ۶۲۳ء) کو حضرت حمزہ کی قیادت میں تیس مہاجرین پر مشتمل دستہ ابو جہل کی سربراہی میں شام سے آنے والے قریش کے تین سو رکنی قافلے کو روکنے کے لیے روانہ کیا۔بحر احمر کے ساحل (عربی میں سیف) پر ینبع اور مروہ کے درمیان عیص کے مقام پر ان کی مڈ بھیڑ ہوئی، لیکن قبیلۂ جہینہ کے سردارمجدی بن عمرو جہنی کی ثالثی سے، جو مسلمانوں اور قریش کا حلیف تھا، جنگ ٹل گئی۔ قریش کا قافلہ مکہ لوٹ گیا اور مسلمان مدینہ واپس آ گئے۔
واقدی کہتےہیں: یہ سریہ پندرہ مہاجرین اور پندرہ انصار پر مشتمل تھا۔مہاجرین میں انھوں نے حضرت ابوعبیدہ بن الجراح،حضرت ابوحذیفہ بن عتبہ،ان کے آزاد کردہ حضرت سالم، حضرت عامر بن ربیعہ،حضرت زید بن حارثہ،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے آزادکردہ حضرت انسہ اور انصار میں سے حضرت رافع بن مالک،حضرت ابی بن کعب، حضرت عبادہ بن صامت،حضرت اوس بن خولی، حضرت عبد اللہ بن عمرو بن حرام، حضرت قطبہ بن عامر اور دیگر صحابہ کے نام شمار کیے۔پھر خود ہی کہا:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوۂ بدر سے پہلے کسی مہم میں انصار کو شامل نہ کیا، کیونکہ آپ سمجھتے تھے کہ وہ شہر مدینہ کے اندررہ کر آپ کی نصرت کریں گے( کتاب المغازی، واقدی۹- ۱۰)۔ ابن سعد نے اسی کو ثابت شدہ قراردیا(الطبقات الکبریٰ ۱/ ۳۴۹)
حضرت رافع بن مالک کی اسلامی زندگی میں بدر و احد دو غز وات پیش آئے۔غزوۂ بدرمیں ان کی شرکت مشکوک ہے۔ابن اسحٰق سے مروی دو روایتوں میں سے ایک میں انھیں بدری بتایا گیا ہے(مستدرک حاکم، رقم ۵۰۲۲) اور دوسری میں ان کو اصحاب بدرمیں شمار نہیں کیا گیا (الاستیعاب۴۸۴۔اسد الغابہ۱۵۸)۔ زہری کا کہنا ہے: وہ معرکہ ٔ فرقان میں شریک تھے(الاستیعاب۴۸۴)۔مزی حضرت رفاعہ بن رافع کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: وہ اور ان کے والد غزوۂ بدر میں موجود تھے(تہذیب الکمال، رقم۱۹۱۵)۔ قاضی سلیمان منصور پوری نے حضرت رافع بن مالک کانام ’’اصحاب بدر‘‘ میں شامل نہیں کیا۔ابن حجر کہتے ہیں:صحیح بات ہے کہ وہ جنگ بدر میں شریک نہ تھے(تہذیب التہذیب، رقم۱۹۳۱)۔
حضرت رافع کے بیٹوں حضرت رفاعہ بن رافع اورحضرت خلاد بن رافع کا جنگ بدر میں حصہ لینا ثابت ہے، وہ بیعت عقبہ میں شریک نہ تھے۔
جنگ احد ۷/ شوال۳ھ (۲۳؍ مارچ۶۲۵ء) میں مسلمانوں اور مشرکین مکہ کے درمیان احد پہاڑ کے دامن میں لڑی گئی۔ مشرک لشکر کی سالاری ابوسفیان کے پاس تھی، جب کہ اہل ایمان نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں جمع تھے۔
غزوۂ بدرمیں ہزیمت اٹھانے کے بعد مشرکین مکہ اپنی بے عزتی کا بدلہ لینا چاہتے تھے۔ جنگ کے شعلے بھڑکانےمیں قریش کے سردار ابوسفیان، اس کی بیوی ہندہ اور ایک یہودی کعب الاشرف نے اہم کردار ادا کیا۔ جنگ کے لیے مال و دولت اکٹھاکیاگیا، تین ہزار سپاہی، دوسو گھوڑے اور تین سو اونٹ مہیا کیے گئے۔مکہ میں موجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا جناب عباس نے آپ کو خبر کردی۔ آپ نےانصار و مہاجرین سے مشورہ کیا کہ شہر میں رہ کر دفاع کیا جائے یا باہر جا کر جنگ لڑی جائے۔ فیصلہ آپ کی ترجیح کے خلاف مدینہ سے باہر لڑنے پر ہوا۔ چنانچہ ۶/ شوال کو نماز جمعہ کے بعد آپ ایک ہزار کی فوج لے کر مدینہ سے روانہ ہو گئے۔ اشواط کے مقام پرمنافق عبد اللہ بن ابی اپنے تین سو سواروں کے ساتھ واپس ہو گیا اور بہانہ یہ بنایا کہ شہر کے اندر رہ کر لڑنے کا اس کا مشورہ نہیں مانا گیا۔ دونوں فوجیں احد کے دامن میں آمنے سامنے آئیں تو احد کا پہاڑ مسلمانوں کی پشت پر تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےاحد کے درےپر حضرت عبد اللہ بن جبیر کی قیادت میں پچاس تیر اندازوں کا دستہ مقرر کیا تاکہ دشمن اس راستے سے میدان جنگ میں نہ آ سکے۔
جنگ کے آغاز میں مکہ کے نو مشرک آگے بڑھے جو سب قتل ہوئے۔ پھران کی فوج نے بھر پور حملہ کر دیا۔ زبردست جنگ میں مسلمانوں نےکئی دشمنوں کو قتل کیا۔وہ فرار ہونے لگے تومسلمان سمجھے کہ وہ جنگ جیت گئے ہیں۔ اس موقع پر درۂ عینین پر متعین اصحاب نے نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ ہدایت فراموش کر دی کہ درہ کسی قیمت پر نہیں چھوڑنا۔ان کی اکثریت نے میدان میں اتر کر مال غنیمت اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ صرف دس افراد درہ پر رہ گئے۔قریش کی فوج میں شامل خالد بن ولید نے موقع غنیمت جانتے ہوئے کوہ احد کا چکر لگا کر درہ پر قبضہ کر لیا اور مسلمانوں پر یک دم پیچھے سے ہلہ بول دیا۔ اسی اثنا میں یہ افواہ گرم ہوئی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہید کر دیے گئے ہیں۔ یہ سن کر اکثر اصحاب نے ہمت ہار دی اورمیدان جنگ سے فرار ہو گئے،کچھ اردگرد کی پہاڑیوں پر چڑھ گئے، کچھ نے سوچا کہ آپ کے بعد زندگی کسی کام کی نہیں، کچھ آپ کے ساتھ رہ گئے اور آپ کی بھر پور حفاظت کی۔
کچھ وقفےکے بعدصحابہ میدان میں واپس آنا شروع ہو گئے۔ یہ معلوم ہونے کے بعد کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم شہید نہیں ہوئے، مشرکین نے مکہ کی طرف واپسی اختیار کرلی۔
اس جنگ میں ستر مسلمان، جن میں حضرت رافع بن مالک شامل تھے، شہید ہوئے، جب کہ ستائیس مشرکین ہلاک ہوئے۔ جنگ کے نتیجہ کو کسی کی فتح یا شکست نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ دونوں طرف شدید نقصان ہوا اور کبھی مسلمان غالب آئے اور کبھی مشرکین، لیکن آخر میں مشرکین کا لشکر لڑائی ترک کر کے مکہ واپس چلا گیا۔ یہ واضح ہو گیا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات فراموش کرنے یا عسکری نظم و ضبط ترک کرنے کا کیا نتیجہ نکل سکتا ہے۔ اگر درۂ عینین پر تعینات لوگ درہ نہ چھوڑتے تو مسلمان فتح یاب ہو چکے تھے۔
حضرت رافع بن مالک نے شوال ۳ھ (۶۲۶ء) میں غزوۂ احد میں شہادت پائی۔ یہ معلوم نہیں کہ ان کی شہادت کیسے ہوئی۔ واقدی نے شہداے احد کے عنوان کے تحت دس مہاجرین اور اٹھاون انصار کے نام گنوائے اور ان کے قاتلوں کے نام لکھے، لیکن بنو زریق کے ایک ہی شہیدحضرت ذکوان بن عبد قیس کا ذکر کیا۔بلاذری نےاوس کے اکیس اور خزرج کے سینتیس شہداے احد کی تفصیل بیان کی، لیکن حضرت رافع بن مالک کے بارے میں کچھ نہیں بتایا۔
حضرت جابر بن عبداللہ کی روایت کے مطا بق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ شہداے احد کو خون آلود کپڑوں میں د فن کر دیا جائے۔آپ نے ان کی نماز جنازہ پڑھی، نہ انھیں غسل دیا گیا (بخاری، رقم ۴۰۷۹)۔ حضرت عقبہ بن عامرجہنی کی روایت میں غزوہ کے بعد نماز جنازہ پڑھنے کا ذکر ہے:ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ سے نکلے اور غزوۂ احد کے شہیدوں کی اسی طرح نماز جنازہ پڑھی، جس طرح آپ ہر میت کی پڑھتے تھے (بخاری، رقم۳۵۹۶۔ مسلم، رقم۶۰۴۱۔ ابوداؤد، رقم۳۲۲۳۔نسائی، رقم ۱۹۵۶۔احمد، رقم ۱۷۴۰۲)۔ ابن حجر کہتے ہیں:یہ جنگ احد کے آٹھ سال بعد آپ کی حیات مبارکہ کے آخری ایام کا واقعہ ہے (فتح الباری، شرح حدیث ۶۴۲۶)۔ احناف شہید کی نمازجنازہ کو واجب سمجھتے ہیں۔انور شاہ کشمیری نے اس باب میں سکوت کیااور کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا(فیض الباری، شرح حدیث ۱۳۴۳)۔
احد کے کچھ شہدا کی میتیں مدینہ منتقل کی جارہی تھیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں و اپس لاکر ان کی جاے شہاد ت پر دفن کرنے کی منادی کرائی(ابوداؤد، رقم ۳۱۶۵۔ ترمذی، رقم ۱۷۱۷۔ نسائی، رقم ۲۰۰۶۔ ابن ماجہ، رقم۱۵۱۶۔ احمد، رقم۱۵۲۸۱)۔ لگتا ہے کہ حضرت رافع کے لواحقین تک آپ کے منادی کی آواز نہیں پہنچی۔ عمر بن شبہ نمیری کہتے ہیں:حضرت رافع کو ان کے قبیلے بنو زریق میں آل نوفل بن مساحق کے محلے میں دفن کیاگیا(تاریخ المدینۃ المنورہ،ابن شبہ۱۳۰)۔
رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کی بہن حضرت ام مالک بنت ا بی حضرت رافع بن مالک کی زوجیت میں تھیں۔وہ سچی مومنہ تھیں۔ انھوں نےاسلام قبول کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر رکھی تھی۔ ان کے بطن سے حضرت خلاد بن رافع اورحضرت رفاعہ بن رافع نے جنم لیا۔ حضرت رفاعہ بیعت عقبہ، غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ احزاب اور صلح حدیبیہ میں شریک رہے۔وہ خلیفۂ سوم حضرت عثمان کے ناقدین میں شامل تھے۔ انھوں نے جنگ جمل وصفین میں حضرت علی کا ساتھ دیا۔ حضرت خلاد بن رافع نے بدر و احد کی جنگوں میں حصہ لیا۔
حضرت رافع بن مالک اپنے بیٹے حضرت رفاعہ سے کہا کرتے تھے:مجھے کوئی خوشی نہ ہوتی اگر میں بیعت عقبہ چھوڑ کر جنگ بدر میں شریک ہوتا(بخاری، رقم ۳۹۹۳)۔
ابن حجر کہتے ہیں: یہ بات حضرت رافع نے اپنے اجتہاد سے کہی۔ ایسے لگتا ہے،انھیں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم سے اہل بدر کی فضیلت سننے کا موقع نہ ملا۔بلاشبہ بیعت عقبۂ ثانیہ سے نصرت اسلام کی ابتدا ہوئی اور وہ ہجرت مدینہ کا سبب بنی، جس کے بعد مسلمانوں میں غزوۂ بدر اور تمام معرکوں میں حصہ لینےکی استعداد پیدا ہوئی، تاہم ’الفضل بید اللّٰه یؤتیه من یشاء‘ (فتح الباری،شرح حدیث۳۹۹۳)یہ بات اس سے پہلی روایت سے عیاں ہے۔ حضرت جبریل علیہ السلام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور سوال کیا :آپ اہل بدر کو اپنے ہاں کیسا سمجھتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: سب سے زیادہ فضیلت رکھنے والے مسلمانوں میں شمارکرتے ہیں۔ حضرت جبریل نے جواب دیا: اسی طرح وہ فرشتے بھی سب سے زیادہ صاحب فضیلت ہیں جنھوں نے بدر میں حصہ لیا (بخاری، رقم ۳۹۹۲۔ ابن ماجہ، رقم ۱۶۰۔ المعجم الاوسط، طبرانی، رقم ۱۳۱۔ معرفۃ الصحابہ، ابو نعیم، رقم ۲۶۴۱)۔
حضرت ر فاعہ بن رافع فرماتے ہیں:ایک بار میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ چھینک آنے پر میں نے یہ کلمات ادا کیے: ’الحمد للّٰه حمدًا کثیرًا طیبًا مبارکًا فیه کما یحب ربنا ویرضی‘( شکر ہے اللہ کا بے شمار شکر،پاکیزہ،برکت دیا ہواجیسے ہمارا رب پسند کرتا ہے اور راضی ہوتا ہے)۔ نمازپڑھانے کے بعد آپ مڑے اور دریافت فرمایا: نماز میں یہ کلمات ادا کرنے والا کون تھا؟میں بولا : میں تھا۔ آپ نے کلمات دوبارہ سنے،پھر فرمایا: اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، تیس سے زیادہ فرشتے ان کلمات کو اوپرلے جانےکے لیے لپکے۔
یہ روایت حضرت ر فاعہ بن رافع سے اور ان کے بارے میں مروی ہے، جیسا کہ سنن ابو داؤد، رقم ۷۷۳، جامع ترمذی ، رقم ۴۰۴، نسائی ، رقم ۹۳۲ اور معرفۃ الصحابۃ (ابونعیم اصفہانی) ، رقم۲۷۱۳ سے واضح ہے، لیکن حاکم نے اسے حضرت رافع بن مالک سے منسوب کر دیا ہے (مستدرک، رقم ۵۰۲۳)۔
مطالعۂ مزید:کتاب المغازی(واقدی۔Oxford University۱۹۷۷ء)،السیرة النبویۃ (ابن اسحٰق۔ دار الکتب العلمیۃ ۲۰۰۴ء)، السیرة النبویۃ (ابن ہشام۔دار الخیر۱۹۹۵ء)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد۔دارالفکر ۱۹۹۴ء )، انساب الاشراف(بلاذری۔دارالفکر۱۹۹۶ء)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر۔دارالجیل ۱۹۹۲ء)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم(ابن جوزی۔ دارالفکر ۱۹۹۵ء)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر۔ دار احیاء التراث العربی ۱۳۷۷ھ)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر۔ دار ابن کثیر ۲۰۰۷ء)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر۔ دارالمعرفۃ ۲۰۰۴ء)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ