علم النبی
ترجمہ و تحقیق: محمد حسن الیاس
حَدَّثَنَا مَعْبَدُ بْنُ هِلَالٍ الْعَنَزِيُّ، قَالَ: اجْتَمَعْنَا نَاسٌ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ، فَذَهَبْنَا إِلَى أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ1 وَذَهَبْنَا مَعَنَا بِثَابِتٍ الْبُنَانِيِّ إِلَيْهِ يَسْأَلُهُ لَنَا عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَإِذَا هُوَ فِي قَصْرِهِ، فَوَافَقْنَاهُ يُصَلِّي الضُّحَى، فَاسْتَأْذَنَّا، فَأَذِنَ لَنَا وَهُوَ قَاعِدٌ عَلَى فِرَاشِهِ، فَقُلْنَا لِثَابِتٍ: لَا تَسْأَلْهُ عَنْ شَيْءٍ أَوَّلَ مِنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: يَا أَبَا حَمْزَةَ، هَؤُلَاءِ إِخْوَانُكَ مِنْ أَهْلِ الْبَصْرَةِ جَاءُوكَ يَسْأَلُونَكَ عَنْ حَدِيثِ الشَّفَاعَةِ، فَقَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «إِذَا كَانَ يَوْمُ الْقِيَامَةِ مَاجَ النَّاسُ بَعْضُهُمْ فِي بَعْضٍ،2 فَيَأْتُونَ آدَمَ، [فَيَقُولُونَ: يَا آدَمُ، أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ، خَلَقَكَ اللہُ بِيَدِهِ، وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ ] 3 فَيَقُولُونَ: اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، حَتَّى يُرِيحَنَا مِنْ مَكَانِنَا هَذَا، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَيَذْكُرُ لَهُمْ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ، وَلَكِنِ ائْتُوا نُوحًا أَوَّلَ رَسُولٍ بَعَثَهُ اللہُ إِلَى الْأَرْضِ، فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُ: إِنِّي لَسْتُ هُنَاكُمْ، وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ،4 [وَيَقُولُ: عَلَيْكُمْ بِإِبْرَاهِيمَ فَإِنَّهُ خَلِيلُ الرَّحْمَنِ ]5 فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُوسَى [أَتَاهُ اللہُ التَّوْرَاةَ ] 6 فَإِنَّهُ كَلِيمُ اللہِ، فَيَأْتُونَ مُوسَى،7 فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِعِيسَى، فَإِنَّهُ رُوحُ اللہِ وَكَلِمَتُهُ، فَيَأْتُونَ عِيسَى، فَيَقُولُ: لَسْتُ لَهَا وَلَكِنْ عَلَيْكُمْ بِمُحَمَّدٍ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، فَيَأْتُونِي، فَأَقُولُ: أَنَا لَهَا، فَأَسْتَأْذِنُ عَلَى رَبِّي فَيُؤْذَنُ لِي، وَيُلْهِمُنِي مَحَامِدَ أَحْمَدُهُ بِهَا لَا تَحْضُرُنِي الْآنَ،8 فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَامُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي،9 فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مِنْهَا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ شَعِيرَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ،10 ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيَقُولُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ ذَرَّةٍ أَوْ خَرْدَلَةٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ،11 فَأَنْطَلِقُ فَأَفْعَلُ، ثُمَّ أَعُودُ فَأَحْمَدُهُ بِتِلْكَ الْمَحَامِدِ، وَأَخِرُّ لَهُ سَاجِدًا، فَيُقَالُ: يَا مُحَمَّدُ، ارْفَعْ رَأْسَكَ، وَقُلْ يُسْمَعْ لَكَ، وَسَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ، فَأَقُولُ: يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي، فَيُقَالُ: انْطَلِقْ، فَأَخْرِجْ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ أَدْنَى أَدْنَى أَدْنَى مِثْقَالِ حَبَّةِ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ، فَأَخْرِجْهُ مِنَ النَّارِ،12 [إِنَّ أَقْوَامًا سَيَخْرُجُونَ مِنَ النَّارِ قَدْ أَصَابَهُمْ سَفْعٌ مِنَ النَّارِ عُقُوبَةً بِذُنُوبٍ عَمِلُوهَا، ثُمَّ لَيُخْرِجَنَّهُمُ اللہُ بِفَضْلِ رَحْمَتِهِ، فَيَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ ]،13 [ثُمَّ يَخْرُجُ مِنَ النَّارِ مَنْ قَالَ: لَا إِلٰهَ إِلَّا اللہُ وَكَانَ فِي قَلْبِهِ مَا يَزِنُ مِنَ الْخَيْرِ ذَرَّةً ]»،14 [ثُمَّ تَلَا قَتَادَةُ: ﴿عَسٰ٘ي اَنْ يَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾ قَالَ: هُوَ الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ الَّذِي وَعَدَ اللّٰهُ نَبِيَّهُ ] .15
______________________
معبد بن ہلال عنزی بیان کرتے ہیں کہ ہم اہل بصرہ کے چند لوگ اکٹھے ہوئے اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہونے کا ارادہ کیا۔ ہم اُن کے شاگرد ثابت بنانی کو بھی ساتھ لے گئے تاکہ وہ ہمارے لیے شفاعت کی حدیث کے متعلق سوال کریں۔ ہم جب اُن کے گھر پہنچے تو دیکھا کہ وہ چاشت کی نماز ادا کر رہے ہیں۔ ہم نے دروازے پر اجازت طلب کی تو اُنھوں نے ہمیں اجازت دے دی، اور وہ اپنے بستر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ ہم نے ثابت سے کہا کہ شفاعت کی حدیث کے بارے میں سوال سے پہلے اُن سے کوئی اور سوال نہ کیجیے گا۔ چنانچہ ثابت نے عرض کیا: ابو حمزہ، یہ آپ کے بھائی بصرہ سے آئے ہیں اور آپ سے شفاعت کی حدیث کے متعلق سوال کرنا چاہتے ہیں۔ انس رضی اللہ عنہ نے (اِس کے جواب میں) فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ قیامت کے دن لوگ سخت اضطراب کی حالت میں دریا کی موجوں کی طرح ایک دوسرے سے ٹکرا رہے ہوں گے ۔۱؎ پھر وہ آدم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوکر عرض کریں گے: اے آدم، آپ تمام انسانوں کے والد ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا،۲؎ اور آپ میں اپنی روح پھونکی۔ آپ ہمارے لیے اپنے پروردگار سے شفاعت کیجیے کہ وہ اِس کٹھن مرحلے سے ہمیں نجات دے۔ آدم علیہ السلام فرمائیں گے: میں اِس کا اہل نہیں ہوں ، اور اُن کے سامنے اپنی اُس خطا کا ذکر کریں گے، جو اُن سے سرزد ہوئی تھی۔ پھر کہیں گے: ہاں، مگر تم نوح علیہ السلام کے پاس چلے جاؤ، وہ اللہ کے پہلے رسول ہیں، جنھیں اللہ تعالیٰ نے زمین والوں کی طرف مبعوث فرمایا تھا۔
چنانچہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ نوح علیہ السلام فرمائیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، اور اپنی اُس خطا کا ذکر کریں گے، جو اُن سے سرزد ہوئی اور کہیں گے: تم ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ،اِس لیے کہ وہ رحمٰن کے خلیل ہیں۔ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئیں گے۔ وہ فرمائیں گے: نہیں، میں اِس کے لائق نہیں ہوں، تم موسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، اللہ نے اُنھیں تورات عطا فرمائی تھی، وہ اللہ کے کلیم ہیں۔ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی اُسی طرح فرمائیں گے: یہ میرا منصب نہیں ہے، تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، اِس لیے کہ وہ اللہ کی روح اور اُس کا کلمہ ہیں۔ چنانچہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آئیں گے تو وہ بھی یہی کہیں گے کہ یہ میرا مقام نہیں ہے، اِس کے لیے تم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ۔۳؎
اِس کے بعد لوگ میرے پاس آئیں گے اور میں کہوں گا: ہاں، یہ مجھے ہی کرنا ہے۔۴؎ چنانچہ میں اپنے پروردگار سے اِس کی اجازت طلب کروں گا تو مجھے اجازت دے دی جائے گی۔ اللہ تعالیٰ مجھے ایسے حمدیہ کلمات الہام فرمائے گا، جن کے ساتھ میں اُس کی حمد و ثنا کروں گا۔ ایسے الفاظ جو مجھے اب یاد نہیں ہیں۔۵؎ میں اِن کلمات سے اللہ کی حمد بیان کروں گا اور اُس کے حضور سجدہ ریز ہو جاؤں گا۔ اُس وقت کہا جائے گا: اے محمد، اپنا سر اٹھاؤ؛ کہو، تمھاری سنی جائے گی؛ مانگو، تمھیں دیا جائے گا؛ شفاعت کرو، تمھاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب، میری امت، میری امت!۶؎ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ اور جہنم سے اُس کو نکال لو، جس کے دل میں جو کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ لہٰذا میں جا کر یہی کروں گا۔ پھر واپس آکر میں اِنھی حمدیہ کلمات کے ساتھ اللہ کی حمد و ثنا بیان کروں گا اور دوبارہ سجدہ کروں گا۔ پھر کہا جائے گا: اے محمد، اپنا سر اٹھاؤ؛ کہو، تمھاری سنی جائے گی؛ مانگو، تمھیں دیا جائے گا؛ شفاعت کرو ،تمھاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب، میری امت، میری امت! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ اور اُس کو بھی نکال لو، جس کے دل میں ذرہ برابر یا رائی کے دانے کے برابر ایمان ہے۔ میں جاکر ایسا ہی کروں گا۔ پھر میں تیسری بار لوٹوں گا اور اِنھی حمدیہ کلمات کے ساتھ اللہ کی حمد و ثنا بیان کرکے سجدہ کروں گا تو کہا جائے گا: اے محمد، اپنا سر اٹھاؤ؛ کہو، تمھاری سنی جائے گی؛ مانگو، تمھیں دیا جائے گا؛ شفاعت کرو، تمھاری شفاعت قبول کی جائے گی۔ میں عرض کروں گا: اے میرے رب، میری امت، میری امت! کہا جائے گا: جاؤ اور اُسے بھی آگ سے نکال لو، جس کے دل میں رائی کے دانے سے بھی کم تر، بلکہ انتہائی معمولی مقدار میں ایمان ہے۔ اِس کے نتیجے میں بہت سے وہ لوگ بھی آگ سے نکلیں گے، جنھیں اُن کے گناہوں کی وجہ سے آگ کی شدید گرمی کی سزا دی گئی ۔۷؎ پھر اللہ اُن کو اپنی رحمت سے باہر نکالے گا اور وہ جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ اُس وقت وہ شخص بھی آگ سے نکل آئے گا، جس نے ’لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰہُ‘ کہا اور اُس کے دل میں ایک ذرے کے برابر بھلائی تھی ۔۸؎ اِس کے بعد قتادہ نے یہ آیت تلاوت کی:’’امید ہے کہ تمھارا پروردگار تمھیں ایک مقام محمود۹؎ پر فائز کرے گا‘‘۔اُنھوں نے بیان کیا کہ یہی وہ مقام محمود ہے، جس کا اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے وعدہ فرمایا ہے۔
______________________
۱؎ یہ قبروں سے اٹھنے کے بعد اُس مرحلے کا بیان ہے، جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے کہ اُس کی سختی بچوں کو بوڑھا کر دے گی، لوگوں کے اعمال اُن کے چہروں سے نمایاں ہو رہے ہوں گے، ہر طرف نفسی نفسی کا عالم ہو گا۔ نہ بھائی اپنے بھائی کی فریاد سنے گا، نہ بیٹا ماں باپ کی دہائی پر کان دھرے گا اور نہ بیوی بچوں کو کوئی پوچھنے والا ہو گا۔
۲؎ یہی تعبیر سورۂ ص (۳۸) کی آیت ۷۵ میں آئی ہے۔ مدعا یہ ہے کہ نہایت اہتمام کے ساتھ اپنے دست قدرت سے تخلیق کیا ہے۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ اپنی خلقت کے اعتبار سے انسان فی الواقع خدا کا ایک شاہ کار ہے اور بڑے غیر معمولی اوصاف اور صلاحیتوں کے ساتھ پیدا کیا گیا ہے۔
۳؎ زمین وآسمان کے خالق کی بارگاہ میں اور اُس کی جلالت کے سامنے یہ پیغمبروں کی طرف سے تواضع، حیا اور اپنی عبودیت کے کامل شعور کا اظہار ہے۔ پھر مزید یہ کہ اُس وقت اُنھیں یہ معلوم بھی نہیں ہوگا کہ قیامت کے دن کسی کے لیے اِس کی گنجایش بھی ہے کہ بارگاہ الہٰی میں وہ لوگوں کی طرف سے کوئی عرض معروض کرسکتا ہے۔
۴؎ یہ اِس لیے فرمایا کہ آپ کو دنیا ہی میں بتا دیا گیا تھا کہ پیغمبروں کی طرف سے معذرت کے بعد یہ شرف آپ ہی کو حاصل ہو گا کہ لوگوں کی طرف سے اُس دن یہ درخواست آپ بارگاہ الہٰی میں پیش کریں۔تاہم اِس کے لیے لفظ ’شفاعت‘ سے واضح ہے کہ یہ درخواست اُنھی لوگوں کی طرف سے پیش کی جائے گی جو اگرچہ گناہوں میں مبتلا رہے، لیکن اپنے ایمان کی وجہ سے اُن پر استغفار بھی کرتے رہے۔
۵؎ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ واقعات غالباً کسی رؤیا میں دکھائے گئے ہوں گے۔ چنانچہ فرمایا ہے کہ اُس وقت تو یاد تھے، لیکن اب یاد نہیں رہے۔ اللہ کے نبیوں کو ماضی، حال اور مستقبل کے بعض حقائق بالعموم رؤیا ہی کے ذریعے سے دکھائے جاتے ہیں۔ اِس لحاظ سے یہ بھی مخاطبۂ الہٰی کی ایک صورت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں معلوم ہے کہ آپ کے لیے اِس کی ابتدا سچے خوابوں سے ہوئی تھی۔ اِس طرح کے خواب بعد میں بھی آپ کو وقتاً فوقتاً دکھائے گئے۔چنانچہ اِسی نوعیت کے مشاہدات ہیں، جن میں جنت اور جہنم کے دکھائے جانے کا ذکر بھی ہوا ہے۔ اِن میں سے جو روایتوں میں نقل ہوئے، وہ ہم نے اپنی کتاب ’’علم النبی‘‘میں ’’رسول اللہ کے خواب‘‘ کے زیر عنوان ایک ترتیب کے ساتھ جمع کردیے ہیں۔
۶؎ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ پہلے مرحلے میں جب استحقاق کی بنیاد پر فیصلے سنا دیے جائیں گے اور جنت کے لوگ جنت اور جہنم کے جہنم میں چلے جائیں گے، یہ معاملہ اُس کے بعد ہوگا اور اللہ کے اذن سے آپ اپنی امت کے لیے عفو و درگذر کی درخواست کریں گے۔
۷؎ اِس سے مزید وضاحت ہو گئی ہے کہ عفو و درگذر کا یہ مرحلہ اُس وقت آئے گا، جب لوگ اپنے گناہوں کے لحاظ سے اُن کی سزا کسی حد تک بھگت چکے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عفو و درگذر کا یہی مرحلہ ہے، جس کے بارے میں قرآن کا ارشاد ہے کہ اگر کسی نے جانتے بوجھتے شرک نہیں کیا ہے تو اُس کے دوسرے گناہ اللہ اپنے قانون و حکمت کے مطابق، جس کے لیے چاہے گا، معاف فرما دے گا۔ (ملاحظہ ہو: النساء ۴: ۴۸، ۱۱۶)۔
یہ اِسی معافی کا بیان ہے۔ تاہم اِس میں کوئی چیز عدل و انصاف کے خلاف نہیں ہو گی اور پیغمبر کو بھی اِس کی اجازت کہ وہ اِس عفو و درگذر کی تائید میں کوئی درخواست کرنا چاہیں تو کریں، اِس فیصلے کے بعد ہی ملے گی۔ قرآن میں شفاعت کی تعبیر اِسی نوعیت کی درخواست کے لیے اختیار کی گئی ہے۔ اِس میں شبہ نہیں کہ قرآن نے اِس شفاعت کا اثبات کیا ہے، لیکن اِس کے بارے میں اُن غلط تصورات کی تردید بھی پوری صراحت کے ساتھ کر دی ہے، جو لوگوں نے شفاعت کے بارے میں قائم کر رکھے ہیں اور جن سے خدا کے عدل اور جزا و سزا کے وجوب کی نفی ہوتی ہے۔ ہماری کتاب ’’میزان‘‘ میں ’’نبی کی شفاعت‘‘ کے زیرعنوان اِس کی تفصیلات دیکھ لی جا سکتی ہیں۔ روایت میں جو کچھ بیان ہوا ہے، اُس کو اُنھی حدود میں سمجھنا چاہیے، جو ہم نے وہاں بیان کیے ہیں، اور اگر کوئی چیز متجاوز محسوس ہو تو اُسے راویوں کے تصرفات سمجھ کر نظرانداز کر دینا چاہیے۔
۸؎ اِس میں بنیادی حیثیت، جس طرح کہ سورۂ نساء کی آیات سے واضح ہے، توحید پر ایمان کو حاصل ہے۔ اِس کی وجہ کیا ہے؟ استاذ امام لکھتے ہیں:
’’...جس طرح تمام خیر کا منبع توحید ہے، یعنی خدا کی ذات، صفات اور اُس کے حقوق میں کسی کو ساجھی نہ ٹھیرانا، اُسی طرح تمام شر کا منبع شرک ہے، یعنی خدا کی ذات، صفات اور اُس کے حقوق میں کسی کو شریک ٹھیرانا۔ توحید پر قائم رہتے ہوئے انسان اگر کوئی ٹھوکر کھاتا ہے تو وہ غلبۂ نفس و جذبات سے اتفاقی ہوتی ہے۔ یہ نہیں ہوتا کہ وہ اپنی غلطی ہی کو اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ اِس وجہ سے وہ گرنے کے بعد لازماً اٹھتا ہے۔ برعکس اِس کے شرک کے ساتھ اگر کسی سے کوئی نیکی ہوتی ہے تووہ اتفاقی ہوتی ہے جس کا اصل منبع خیر، یعنی خدا سے کوئی تعلق نہیں ہوتا، اِس وجہ سے وہ بے بنیاد ہوتی ہے۔ مشرک خدا سے کٹ جانے کی وجہ سے لازماً اپنی باگ نفس اور شیطان کے ہاتھ میں دے دیتا ہے، اِس وجہ سے وہ درجہ بدرجہ صراط مستقیم سے اتنا دور ہو جاتا ہے کہ اُس کے لیے خدا کی طرف لوٹنے کا کوئی امکان ہی باقی نہیں رہ جاتا تاآنکہ وہ شرک سے توبہ کرے۔ اِس وجہ سے خدا کے ہاں شرک کی معافی نہیں ہے۔ البتہ توحید کے ساتھ اگر کسی سے گناہ ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ جس کے لیے چاہے گا، معاف فرما دے گا۔‘‘ (تدبرقرآن ۲ /۳۸۷)
۹؎ یعنی ایسے مقام پر، جس کی قیامت میں ہر طرف تعریف کی جائے گی۔
۱۔اِس روایت کا متن صحیح بخاری،رقم ۶۹۷۹ سے لیا گیا ہے۔اِس کے راوی انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔ اُن سے یہ روایت درج ذیل کتب میں نقل ہوئی ہے:
جامع معمر بن راشد، رقم ۱۴۷۹۔ مسند طیالسی، رقم ۲۱۰۹۔ مصنف ابن ابی شیبہ،رقم ۳۰۹۹۴، ۳۵۲۵۲۔ مسند احمد،رقم ۱۱۹۲۹ ،۱۲۱۶۸، ۱۲۴۲۴، ۱۲۵۸۲، ۱۳۳۰۱، ۱۳۳۲۸۔ مسند عبد بن حمید، رقم ۱۱۹۴، ۱۲۸۰۔ صحیح بخاری، رقم ۴۱۴۱، ۶۱۰۸، ۶۸۸۵، ۶۹۷۸، ۶۹۷۹، ۶۹۸۵۔ صحیح مسلم، رقم ۲۸۹، ۲۹۱، ۲۹۷۔ سنن ابن ماجہ، رقم ۴۳۱۰۔ مسند بزار،رقم۱۷۹۴، ۲۱۹۶، ۲۵۲۷۔ السنن الکبریٰ، نسائی، رقم ۱۰۴۷۰، ۱۰۶۱۸، ۱۰۷۲۹، ۱۰۹۱۷۔ مسند ابی یعلیٰ،رقم ۲۸۷۰، ۳۰۲۴، ۴۰۷۰، ۴۰۷۹، ۴۲۸۸۔ مستخرج ابی عوانہ، رقم ۳۱۰، ۳۳۰، ۳۳۱۔ صحیح ابن حبان،رقم ۶۶۰۲۔
۲۔صحیح بخاری، رقم ۷۴۳۹ میں اِس جگہ یہ اضافہ نقل ہوا ہے: ’فَيَقُولُ اللّٰهُ: مَنْ كَانَ يَعْبُدُ شَيْئًا، فَلْيَتَّبِعْهُ...‘ یعنی ’’اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جو جس کی عبادت کرتا تھا، وہ اُس کے پیچھے چلا جائے...۔‘‘ چنانچہ کچھ لوگ سورج، چاند اور بتوں کے پیچھے ہو جائیں گے۔ صرف وہ لوگ باقی رہ جائیں گے جو اللہ کی پرستش کرتے تھے، جن میں بعض منافقین بھی شامل ہوں گے۔
۳۔مصنف ابن ابی شیبہ رقم ۳۰۹۹۴۔ مسند طیالسی،رقم ۲۱۰۹میں اِس جگہ یہ اضافہ نقل ہوا ہے:’أَنْتَ أَبُو النَّاسِ، خَلَقَكَ اللّٰهُ بِيَدِهِ، وَأَسْجَدَ لَكَ مَلَائِكَتَهُ، وَعَلَّمَكَ أَسْمَاءَ كُلِّ شَيْء‘’’اے آدم، آپ انسانوں کے باپ ہیں، اللہ نے آپ کو اپنے دست قدرت سے پیدا کیا اور فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ آپ کو سجدہ کریں اور آپ کو ہر چیز کے نام سکھائے‘‘۔
۴۔ سیدنا نوح علیہ السلام سے جو خطا سرزد ہونے کا ذکر ہے، اُس کی کوئی صراحت روایات میں موجود نہیں، البتہ بعض شارحین نے اِسے اُن کی جانب سے اپنے بیٹے کی نجات کے لیے کی گئی دعا پر محمول کیا ہے۔ابن حجر نے لکھا ہے:’وَخَطِيئَتُهُ الَّتِي ذَكَرَهَا أَكْثَرُ الْعُلَمَاءِ أَنَّهُ سَأَلَ اللّٰهَ فِي ابْنِهِ وَكَانَ غَيْرَ صَالِحٍ‘ ’’اور وہ خطا جس کا ذکر اکثر علما نے کیا ہے، یہ ہے کہ اُنھوں نے اپنے بیٹے کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے دعا کی، دراں حالیکہ وہ (بیٹا) صالح نہیں تھا‘‘(فتح الباری ۶/ ۴۹۳)۔
۵۔ مسند طیالسی،رقم ۲۱۰۹۔
۶۔ مسند طیالسی،رقم ۲۱۰۹۔مسند احمد،رقم ۱۳۳۰۱ میں سیدنا موسیٰ کا یہ تبصرہ بھی نقل ہوا ہے کہ ’وَيَذْكُرُ خَطِيئَتَهُ الَّتِي أَصَابَ: قَتْلَهُ الرَّجُلَ‘ ’’اور (موسیٰ علیہ السلام) اپنی اُس خطا کو یاد کریں گے، جو اُن سے سرزد ہوئی تھی، یعنی اُن کا ایک آدمی کو قتل کر دینا‘‘۔صحیح بخاری،رقم ۴۷۱۲ میں اِس جگہ سیدنا موسیٰ کی نسبت سے کچھ مزید باتیں بھی نقل ہوئی ہیں۔روایت کے الفاظ ہیں: ’یَقُولُونَ: يَا مُوسَى، اصْطَفَاكَ اللّٰهُ عَلَى النَّاسِ بِرِسَالَاتِهِ وَبِكَلَامِهِ، فَاشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ، أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ؟ فَيَقُولُ: إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ، وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ، وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا، نَفْسِي نَفْسِي، اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى عَبْدِ اللّٰهِ وَرَسُولِهِ وَكَلِمَتِهِ وَرُوحِهِ‘ ’’وہ کہیں گے: اے موسیٰ، اللہ نے آپ کو اپنے پیغامات اور کلام کے ذریعے سے لوگوں پر فضیلت دی، ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجیے، کیا آپ نہیں دیکھتے کہ ہم کس حال میں ہیں؟ اِس کے جواب میں وہ کہیں گے: بے شک، آج میرا رب ایسا غضب ناک ہے، جیسا اِس سے پہلے کبھی نہیں ہوا اور نہ بعد میں ہوگا، اور میں نے ایک جان کو قتل کیا، جس کے قتل کا مجھے حکم نہیں دیا گیا تھا۔ میری ذات، میری ذات، تم عیسیٰ علیہ السلام کے پاس جاؤ، جو اللہ کے بندے، اُس کے رسول، اُس کا کلمہ اور اُس کی روح ہیں‘‘۔
۷۔ صحیح بخاری، رقم ۶۵۷۳ میں اِس موقع پر یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں: ’فَتَكُونُ دَعْوَى الرُّسُلِ يَوْمَئِذٍ: اللَّهُمَّ سَلِّمْ سَلِّمْ‘،یعنی ’’اس دن تمام انبیا کی دعا یہی ہو گی: اے اللہ، سلامتی عطا فرما، سلامتی عطا فرما۔‘‘ یہ قیامت کے ہیبت ناک منظر کی شدت اور انبیا کی طرف سے عبودیت کے غیر معمولی شعور کا مظہر ہے۔
۸۔ مسند احمد، رقم ۱۲۵۸۲ اور صحیح مسلم، رقم ۱۹۳ میں یہ اضافہ آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اللہ تعالیٰ حمد و ثنا کے کلمات الہام کرے گا۔روایت کے الفاظ ہیں: ’وَيُلْهِمُنِي اللّٰهُ مِنْ مَحَامِدِهِ مَا لَمْ يُفْتَحْ عَلَى أَحَدٍ مِنْ قَبْلِي‘ ’’اللہ تعالیٰ مجھے اپنی حمد کے ایسے اسالیب سکھائے گا، جو مجھ سے پہلے کسی کو عطا نہیں ہوئے‘‘۔
۹۔صحیح مسلم،رقم ۱۹۳ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ’يَا رَبِّ، أُمَّتِي أُمَّتِي‘ کی تکرار منقول ہے۔
۱۰۔ صحیح بخاری، رقم ۷۴۳۹ اور صحیح مسلم، رقم ۱۸۲ میں اِس مقام پر یہ تفصیل بھی آئی ہے کہ موحدین کو سجدے کے نشان سے پہچانا جائے گا۔ روایت کے الفاظ ہیں: ’فَتُحَرِّمُ النَّارُ عَلَى مَوَاضِعِ السُّجُودِ، فَيَخْرُجُونَ وَقَدْ احْتَرَقُوا إِلَّا مَوَاضِعَ السُّجُودِ...‘ یعنی ’’اللہ تعالیٰ نے جہنم پر سجدے کے مقامات کو حرام قرار دیا ہو گا۔ وہ لوگ نکلیں گے، اس حال میں کہ اُن کے جسم جل چکے ہوں گے، مگر سجدے کے مقامات سلامت ہوں گے...۔‘‘
۱۱۔مسند طیالسی، رقم ۲۱۰۹ میں اِس جگہ یہ اضافہ نقل ہوا ہے:’ثُمَّ أَشْفَعُ فَيُحَدُّ لِي حَدًّا، فَأُدْخِلُهُمُ الْجَنَّةَ حَتَّى أَرْجِعَ، فَأَقُولُ: ’’يَا رَبِّ، مَا بَقِيَ فِي النَّارِ إِلا مَنْ حَبَسَهُ الْقُرْآنُ‘‘، أَيْ وَجَبَ عَلَيْهِ الْخُلُودُ‘ ’’پھر میں سفارش کروں گا، تو میرے لیے ایک حد مقرر کی جائے گی، لہٰذا میں اُنھیں جنت میں داخل کر دوں گا، یہاں تک کہ میں لوٹوں گا، پھر میں کہوں گا: اے میرے رب، اب جہنم میں صرف وہی لوگ باقی رہ گئے ہیں، جنھیں قرآن نے روک رکھا ہے، یعنی جن پر (قرآن کی رو سے) جہنم میں ہمیشہ رہنا واجب ہو چکا ہے۔‘‘
۱۲۔ صحیح بخاری، رقم ۷۴۳۹ اور صحیح مسلم، رقم ۱۹۰ میں اِس مقام پر یہ الفاظ بھی نقل ہوئے ہیں: ’فَيُنْبَتُونَ كَمَا تَنْبُتُ الْحِبَّةُ فِي حَمِيلِ السَّيْلِ...‘ یعنی ’’پھر وہ ایسے اگیں گے، جیسے بیج کسی سیلاب کے کنارے اگتا ہے۔‘‘ اس سے مراد یہ ہے کہ جہنم سے نکلنے والے لوگ آب حیات کے ذریعے سے دوبارہ زندہ کیے جائیں گے، جیسے زمین پر نئی کونپلیں نکلتی ہیں۔ اِسی روایت میں اِس مقام پر یہ اضافہ بھی نقل ہوا ہے:’قَدْ أَكَلَتْهُمُ النَّارُ إِلَّا دَارَةَ وَجْهِهِ‘،یعنی آگ نے اُن کے جسموں کو جلا دیا ہوگا، سواے چہرے کے دائرے کے، جو محفوظ رہا ہوگا۔ صحیح بخاری، رقم ۷۴۳۹ میں یہ بھی بیان ہوا ہے کہ ’فَيُحَرِّمُ اللّٰهُ عَلَى النَّارِ أَنْ تَأْكُلَ مِنِ ابْنِ آدَمَ أَثَرَ السُّجُودِ... ‘ ، یعنی ’’اللہ تعالیٰ جہنم کی آگ پر ابن آدم کے اُن اعضا کو کھانا حرام کر دے گا، جن پر سجدے کے نشانات ہوں گے...۔‘‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مومنین کو سجدے کے اثرات کی بنا پر جہنم سے پہچانا جائے گا اور وہ محفوظ رہیں گے، اگرچہ اُن کے جسم کے دوسرے حصے جل چکے ہوں گے۔ یہ نجات کا ایک ظاہری نشان ہوگا، جو خالص عبادت اور بندگی سے نمایاں ہو گا۔
۱۳۔صحیح بخاری،رقم ۶۸۸۵۔
۱۴۔ مسند احمد،رقم ۱۳۳۰۱ ۔
۱۵۔ صحیح بخاری، رقم ۶۵۷۳ میں اِس مقام پر یہ واقعہ مزید تفصیل کے ساتھ بیان ہوا ہے کہ ایک شخص جو دوزخ میں سب سے آخر میں باقی رہ جاتا ہے، وہ اپنے رب سے عرض کرتا ہے: ’ يَا رَبِّ، اصْرِفْ وَجْهِي عَنِ النَّارِ...‘ ’’اے میرے رب، میرا چہرہ دوزخ سے پھیر دے...‘‘۔ پھر بار بار کے وعدوں، انکار اور نرمی کے بعد اللہ تعالیٰ اُس پر ہنس دیتے ہیں اور اُسے جنت میں داخل فرما دیتے ہیں۔ آخر میں فرمایا جاتا ہے: ’اذْهَبْ فَادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَإِنَّ لَكَ مِثْلَ الدُّنْيَا وَعَشَرَةَ أَمْثَالِهَا‘، یعنی ’’جا، جنت میں داخل ہو جا، تیرے لیے دنیا جیسا اور اُس سے دس گنا زیادہ اجر ہے۔‘‘مسند احمد،رقم ۱۲۵۸۲ میں یہی مضمون کچھ مختلف پس منظر کے ساتھ نقل ہوا ہے۔روایت کے الفاظ ہیں:
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي نَبِيُّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: «إِنِّي لَقَائِمٌ أَنْتَظِرُ أُمَّتِي تَعْبُرُ عَلَى الصِّرَاطِ، إِذْ جَاءَنِي عِيسَى، فَقَالَ: هَذِهِ الْأَنْبِيَاءُ قَدْ جَاءَتْكَ يَامُحَمَّدُ يَسْأَلُونَ أَوْ قَالَ: يَجْتَمِعُونَ إِلَيْكَ، وَيَدْعُونَ اللہَ أَنْ يُفَرِّقَ جَمْعَ الْأُمَمِ إِلَى حَيْثُ يَشَاءُ اللہُ لِغَمِّ مَا هُمْ فِيهِ، فالْخَلْقُ مُلْجَمُونَ فِي الْعَرَقِ، فأَمَّا الْمُؤْمِنُ فَهُوَ عَلَيْهِ كَالزَّكْمَةِ، وَأَمَّا الْكَافِرُ فَيَتَغَشَّاهُ الْمَوْتُ» قَالَ: «قَالَ عِيسَى: انْتَظِرْ حَتَّى أَرْجِعَ إِلَيْكَ» قَالَ: فَذَهَبَ نَبِيُّ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَامَ تَحْتَ الْعَرْشِ، فَلَقِيَ مَا لَمْ يَلْقَ مَلَكٌ مُصْطَفًى، وَلَا نَبِيٌّ مُرْسَلٌ، فَأَوْحَى اللہُ إِلَى جِبْرِيلَ: اذْهَبْ إِلَى مُحَمَّدٍ، فَقُلْ لَهُ ارْفَعْ رَأْسَكَ، سَلْ تُعْطَ، وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ قَالَ: «فَشُفِّعْتُ فِي أُمَّتِي أَنْ أُخْرِجَ مِنْ كُلِّ تِسْعَةٍ وَتِسْعِينَ إِنْسَانًا، وَاحِدًا» قَالَ: «فَمَا زِلْتُ أَتَرَدَّدُ عَلَى رَبِّي، فَلَا أَقُومُ مَقَامًا إِلَّا شُفِّعْتُ، حَتَّى أَعْطَانِي اللہُ مِنْ ذَلِكَ أَنْ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مِنْ خَلْقِ اللّٰهِ مَنْ شَهِدَ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللہُ يَوْمًا وَاحِدًا مُخْلِصًا، وَمَاتَ عَلَى ذَلِكَ».
’’انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک، میں قیامت کے دن کھڑا اپنی امت کا انتظار کر رہا ہوں گا، جب وہ صراط پر سے گزر رہی ہوگی، اِسی دوران میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام میرے پاس آئیں گے اور کہیں گے: اے محمد، یہ تمام انبیا آپ کے پاس حاضر ہو چکے ہیں۔ وہ آپ سے سوال کرتے ہیں یا (یوں فرمایا) کہ وہ آپ کے پاس جمع ہو گئے ہیں، اور وہ اللہ تعالیٰ سے دعا کر رہے ہیں کہ امتوں کی اِس بھیڑ کو، اُس سخت غم و اضطراب کی وجہ سے، جس میں وہ مبتلا ہیں، جہاں چاہے متفرق کر دے۔ اُس وقت تمام مخلوق پسینے میں ڈوبی ہوئی ہوگی۔ سو مومن کے لیے پسینہ ایسی کیفیت رکھے گا، جیسے زکام کی ہلکی سی حالت ہوتی ہے، اور کافر پر پسینہ موت کی طرح چھا جائے گا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ عیسیٰ علیہ السلام کہیں گے: آپ یہیں ٹھیریے، یہاں میرا انتظار کیجیے، یہاں تک کہ میں آپ کے پاس واپس آؤں۔ پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش کے نیچے کھڑے ہو جائیں گے، اور وہاں آپ کو وہ مقام عطا ہوگا جو نہ کسی برگزیدہ فرشتے کو ملا ہے اور نہ کسی نبی مرسل کو۔ اِس کے بعد اللہ تعالیٰ جبریل علیہ السلام کو وحی فرمائے گا کہ جاؤ، محمد کے پاس، اور اُن سے کہو: اپنا سر اٹھاؤ؛ سوال کرو، تمھیں عطا کیا جائے گا اور سفارش کرو، تمھاری سفارش قبول کی جائے گی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: اُس وقت میں اپنی امت کے بارے میں سفارش کروں گا کہ ہر ننانوے انسانوں میں سے ایک آدمی کو نکالا جائے۔ پھر میں بار بار اپنے رب کی بارگاہ میں حاضر ہوتا رہوں گا اور کسی مرتبہ ایسا نہ ہوگا، جس میں میں کھڑا ہوں اور سفارش نہ کروں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ مجھے یہ شرف عطا فرمائے گا: اے محمد، اپنی امت میں سے اللہ کی مخلوق میں سے ہر اُس شخص کو جنت میں داخل کر لو، جس نے اخلاص کے ساتھ ایک دن بھی ’لا إلٰه إلا اللہ‘ کی گواہی دی ہو اور اِسی حالت پر دنیا سے رخصت ہوا ہو۔‘‘
ابن حبان، أبو حاتم بن حبان. (1414هـ/۱۹۹۳م). صحیح ابن حبان. ط۲. تحقیق: شعیب الأرنؤوط. بیروت: مؤسسة الرسالة.
ابن حجر، علی بن حجر أبو الفضل العسقلاني. (۱۳۷۹هـ). فتح الباري شرح صحیح البخاري. (د.ط). تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار المعرفة.
ابن قانع، ابوالحسین عبد الباقی. (۱4۸۱هـ/۱۹۹۸م). معجم الصحابة. ط۱. تحقیق:حمدي محمد. مکة المکرمة: نزار مصطفی الباز.
ابن ماجة، ابو عبد اللّٰه محمد بن یزید القزویني. (د.ت). سنن ابن ماجة. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار الفکر.
ابن منظور، محمد بن مکرم بن الأفریقي. (د.ت). لسان العرب. ط۱. بیروت: دار صادر.
أبو نعیم، احمد بن عبد اللّٰه اصفهانی (د.ت). معرفة الصحابة. ط۱. تحقیق: مسعد السعدني. بیروت: دارالکتاب العلمیة.
أحمد بن محمد بن حنبل الشیباني. (د.ت). مسند أحمد بن حنبل. ط۱. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
البخاري، محمد بن إسمٰعیل. (۱4۰۷هـ/ ۱۹۸۷م). الجامع الصحیح. ط۳. تحقیق: مصطفی دیب البغا. بیروت: دار ابن کثیر.
بدر الدین العیني ابو محمد محمود بن احمد. عمدة القاري شرح صحیح البخاري. (د.ط). بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
البیهقي، أحمد بن الحسین البیهقي. (1414هـ/۱۹۹4م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق: محمد عبد القادر عطاء. مکة المکرمة: مکتبة دار الباز.
السیوطي، جلال الدین عبد الرحمٰن بن ابوبکر السیوطي. (1416هـ/ ۱۹۹6م). الدیباج علی صحیح مسلم بن الحجاج. ط۱. تحقیق: أبو إسحٰق الحویني الأثري. السعودیة: دار ابن عفان للنشر والتوزیع.
الشاشي، الهیثم بن کلیب. (۱4۱۰هـ). مسند الشاشي. ط۱. تحقیق: محفوظ الرحمٰن زین اللّٰه. المدینة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.
محمد القضاعي الکلبي المزي. (۱4۰۰هـ/۱۹۸۰م). تهذیب الکمال في أسماء الرجال. ط۱. تحقیق: بشار عواد معروف. بیروت: مؤسسة الرسالة.
مسلم، مسلم بن الحجاج. (د.ت). الجامع الصحیح. ط۱. تحقیق: محمد فؤاد عبد الباقي. بیروت: دار إحیاء التراث العربي.
النسائي، أحمد بن شعیب. (۱406هـ/۱۹۸6م). السنن الصغری. ط۲. تحقیق: عبد الفتاح أبو غدة. حلب: مکتب المطبوعات الإسلامیة.
النسائي، أحمد بن شعیب. (۱4۱۱هـ/۱۹۹۱م). السنن الکبری. ط۱. تحقیق: عبد الغفار سلیمان البنداري، سید کسروي حسن. بیروت: دار الکتب العلمیة.
ـــــــــــــــــــــــــ