HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الشوریٰ ۴۲: ۲۱- ۴۳ (۳)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

( گذشتہ سے پیوستہ)

 

اَمْ لَهُمْ شُرَكٰٓؤُا شَرَعُوْا لَهُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا لَمْ يَاْذَنْۣ بِهِ اللّٰهُ وَلَوْلَا كَلِمَةُ الْفَصْلِ لَقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَاِنَّ الظّٰلِمِيْنَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ ٢١ تَرَي الظّٰلِمِيْنَ مُشْفِقِيْنَ مِمَّا كَسَبُوْا وَهُوَ وَاقِعٌۣ بِهِمْ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فِيْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ لَهُمْ مَّا يَشَآءُوْنَ عِنْدَ رَبِّهِمْ ذٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيْرُ ٢٢ ذٰلِكَ الَّذِيْ يُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ قُلْ لَّا٘ اَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰي وَمَنْ يَّقْتَرِفْ حَسَنَةً نَّزِدْ لَهٗ فِيْهَا حُسْنًا اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ شَكُوْرٌ ٢٣

 (خدا کا دین تو وہی ہے جو اُس نے اپنے پیغمبروں کی وساطت سے دیا ہے، پھر) کیا اِن لوگوں نے خدا کے کچھ ایسے شریک بنا رکھے ہیں جنھوں نے اِن کے لیے وہ دین ٹھیرایا ہے جس کا اذن خدا نے نہیں دیا ہے؟ (یہ ایسی جسارت ہے کہ) اگر فیصلے کی بات طے نہ کر دی گئی ہوتی تو اِن کے درمیان اِسی وقت فیصلہ کر دیا جاتا۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ جو اِس طرح کے ظالم ہیں، اُن کے لیے ایک دردناک عذاب ہے۔ تم اِن ظالموں کو (اُس دن) دیکھو گے کہ اپنی کمائی کے وبال سے ڈر رہے ہوں گے اور وہ اُن پر پڑ کے رہے گا۔ اِس کے برخلاف جو لوگ ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے ہوں گے، وہ بہشت کے باغیچوں میں ہوں گے۔[101] اُن کے لیے، جو کچھ چاہیں گے، اُن کے پروردگار کے پاس موجود ہو گا۔ بڑا فضل درحقیقت یہی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جس کی بشارت اللہ اپنے اُن بندوں کو دے رہا ہے جو ایمان لائے اور اُنھوں نے نیک عمل کیے۔ اِن سے کہہ دو، (اے پیغمبر)کہ میں اِس پر تم سے کوئی صلہ نہیں مانگ رہا، میں تو بس قرابت کی محبت ہے، جس کا حق ادا کر رہا ہوں۔[102] اور کہہ دو کہ جو شخص کوئی نیکی کرے گا تو ہم اُس نیکی میں اُس کے لیے بھلائی کو بڑھا دیں گے۔ اِس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ بڑا ہی بخشنے والا ہے، بڑا قدردان ہے۔[103] ۲۱- ۲۳

اَمْ يَقُوْلُوْنَ افْتَرٰي عَلَي اللّٰهِ كَذِبًا فَاِنْ يَّشَاِ اللّٰهُ يَخْتِمْ عَلٰي قَلْبِكَ وَيَمْحُ اللّٰهُ الْبَاطِلَ وَيُحِقُّ الْحَقَّ بِكَلِمٰتِهٖ اِنَّهٗ عَلِيْمٌۣ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ٢٤ وَهُوَ الَّذِيْ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهٖ وَيَعْفُوْا عَنِ السَّيِّاٰتِ وَيَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ٢٥

کیا یہ کہتے ہیں کہ اِس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے؟ (ہرگز نہیں، یہ سراسر ہماری عنایت ہے)۔سو اگر اللہ چاہے تو تمھارے دل پر مہر لگا دے (اور چاہے تو اپنی یہ عنایت جاری رکھے)،[104] جب کہ اللہ تو اپنے اِن کلمات کے ذریعے سے باطل کو مٹا رہا اور حق کو ثابت کر رہا ہے۔[105] اِس میں کچھ شک نہیں کہ اللہ دلوں کے بھید تک جانتا ہے۔ (یہ اُس کی طرف بڑھیں کہ) وہی تو ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا اور اُن کی برائیوں سے درگذر فرماتا ہے اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو۔[106] ۲۴- ۲۵

وَيَسْتَجِيْبُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَيَزِيْدُهُمْ مِّنْ فَضْلِهٖ وَالْكٰفِرُوْنَ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ٢٦

ایمان والے اور نیک عمل کرنے والے تو (اُس کی دعوت کو) قبول کرتے ہیں اور (اِس کے صلے میں) وہ اُن پر اپنا مزید فضل فرمائے گا۔ رہے یہ منکرین تو اِن کے لیے سخت عذاب ہے۔۲۶

وَلَوْ بَسَطَ اللّٰهُ الرِّزْقَ لِعِبَادِهٖ لَبَغَوْا فِي الْاَرْضِ وَلٰكِنْ يُّنَزِّلُ بِقَدَرٍ مَّا يَشَآءُ اِنَّهٗ بِعِبَادِهٖ خَبِيْرٌۣ بَصِيْرٌ ٢٧ وَهُوَ الَّذِيْ يُنَزِّلُ الْغَيْثَ مِنْۣ بَعْدِ مَا قَنَطُوْا وَيَنْشُرُ رَحْمَتَهٗ وَهُوَ الْوَلِيُّ الْحَمِيْدُ ٢٨

(خدا نے جو کچھ اِنھیں دیا ہے، وہی اِن کے لیے فتنہ بن گیا ہے)۔ اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے رزق کو بالکل ہی کھول دیتا تو وہ زمین میں اودھم مچا دیتے۔ مگر وہ ایک حساب کے ساتھ جو چاہتا ہے، اُن کے لیے اتارتا ہے، اِس لیے کہ وہ اپنے بندوں سے با خبر ہے، وہ اُن کا نگران حال ہے۔ بلکہ وہی ہے جو اُن کے مایوس ہو جانے کے بعد بارش برساتا ہے اور اپنی رحمت کو (ہر طرف) پھیلا دیتا ہے اور وہی (سب کا) کارساز اور ستودہ صفات ہے۔[107] ۲۷- ۲۸

وَمِنْ اٰيٰتِهٖ خَلْقُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَمَا بَثَّ فِيْهِمَا مِنْ دَآبَّةٍ وَهُوَ عَلٰي جَمْعِهِمْ اِذَا يَشَآءُ قَدِيْرٌ٢٩

(یہ اُس کی وعید کو مذاق نہ سمجھیں)۔ زمین اور آسمانوں کی پیدایش اُسی کی نشانیوں میں سے ہے اور یہ جان دار بھی جو اُس نے اِن دونوں کے اندر[108] پھیلا رکھے ہیں اور وہ اِنھیں اکٹھا کر لینے پر بھی پوری قدرت رکھتا ہے، جب وہ اِنھیں اکٹھا کرنا چاہے گا۔[109] ۲۹

وَمَا٘ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ٣٠ وَمَا٘ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِيْنَ فِي الْاَرْضِ وَمَا لَكُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ مِنْ وَّلِيٍّ وَّلَا نَصِيْرٍ٣١

(لوگو، جب خدا سے بغاوت کر دیتے ہو تو دنیا میں بھی) جو مصیبت تم کو پہنچتی ہے، تمھارے کرتوتوں ہی کی بدولت پہنچتی ہے اور تمھاری بہت سی برائیوں سے وہ درگذر بھی فرماتا ہے۔ (یہ اِس لیے کہ تم اِس سے یاددہانی حاصل کرو)، ورنہ تم روے زمین پر کہیں اُس کے قابو سے باہر نہیں نکل سکتے ہواور اللہ کے مقابل میں نہ تمھارا کوئی کارساز ہوتا ہے ، نہ مددگار۔[110] ۳۰- ۳۱

وَمِنْ اٰيٰتِهِ الْجَوَارِ فِي الْبَحْرِ كَالْاَعْلَامِ٣٢ اِنْ يَّشَاْ يُسْكِنِ الرِّيْحَ فَيَظْلَلْنَ رَوَاكِدَ عَلٰي ظَهْرِهٖ اِنَّ فِيْ ذٰلِكَ لَاٰيٰتٍ لِّكُلِّ صَبَّارٍ شَكُوْرٍ٣٣ اَوْ يُوْبِقْهُنَّ بِمَا كَسَبُوْا وَيَعْفُ عَنْ كَثِيْرٍ٣٤ وَّيَعْلَمَ الَّذِيْنَ يُجَادِلُوْنَ فِيْ٘ اٰيٰتِنَا مَا لَهُمْ مِّنْ مَّحِيْصٍ٣٥

اور سمندر میں چلنے والے پہاڑوں کی طرح (اونچے) جہاز بھی اُسی کی نشانیوں میں سے ہیں۔[111] اگر وہ چاہے تو ہوا کو روک دے، پھر وہ سمندر کی سطح ہی پر ٹھیرے رہ جائیں ـــــ  اِس میں، یقیناً ہر اُس شخص کے لیے نشانیاں ہیں جو صبر کرنے والا، شکر کرنے والا ہو[112] ـــــ  یا اُن کے اعمال کی پاداش میں اُن کے جہازوں کو تباہ کر دے اور بہتوں سے درگذر فرمائے۔[113] اِس لیے تباہ کر دے کہ اُن سے انتقام لے اور اِس لیے کہ جو لوگ ہماری آیتوں میں کٹ حجتی کر رہے ہیں، وہ جان لیں[114]  کہ اُن کے لیے کوئی مفر نہیں ہے۔ ۳۲- ۳۵

فَمَا٘ اُوْتِيْتُمْ مِّنْ شَيْءٍ فَمَتَاعُ الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا وَمَا عِنْدَ اللّٰهِ خَيْرٌ وَّاَبْقٰي لِلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰي رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُوْنَ٣٦

سو جو کچھ تمھیں ملا ہے، (لوگو) ، وہ اِس دنیا کی زندگی کی متاع حقیر ہے اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے، وہ کہیں بہتر اور پایدار ہے، اُن کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں۔[115]۳۶

وَالَّذِيْنَ يَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا هُمْ يَغْفِرُوْنَ٣٧ وَالَّذِيْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاَمْرُهُمْ شُوْرٰي بَيْنَهُمْ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ٣٨

اور وہ کہ جو بڑے گناہوں اور کھلی ہوئی بے حیائیوں سے بچتے ہیں[116] اور جب کبھی غصہ آجائے تو ایسے لوگ ہیں کہ درگذر کر جاتے ہیں۔[117] اور وہ کہ جنھوں نے اپنے رب کی دعوت پر لبیک کہی ہے اور نماز کا اہتمام رکھا ہے[118] اور اُن کا نظام اُن کے باہمی مشورے پر مبنی ہے[119] اور ہم نے جو رزق اُنھیں عطا فرمایا ہے، اُس میں سے (ہماری راہ میں) خرچ کرتے ہیں۔[120] ۳۷- ۳۸

وَالَّذِيْنَ اِذَا٘ اَصَابَهُمُ الْبَغْيُ هُمْ يَنْتَصِرُوْنَ٣٩ وَجَزٰٓؤُا سَيِّئَةٍ سَيِّئَةٌ مِّثْلُهَا فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُهٗ عَلَي اللّٰهِ اِنَّهٗ لَا يُحِبُّ الظّٰلِمِيْنَ٤٠ وَلَمَنِ انْتَصَرَ بَعْدَ ظُلْمِهٖ فَاُولٰٓئِكَ مَا عَلَيْهِمْ مِّنْ سَبِيْلٍ٤١ اِنَّمَا السَّبِيْلُ عَلَي الَّذِيْنَ يَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَيَبْغُوْنَ فِي الْاَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِيْمٌ٤٢

اور وہ کہ جو بدلہ اُس وقت لیتے ہیں،[121] جب اُن پر زیادتی کی جائے۔ اِس لیے کہ برائی کا بدلہ ویسی ہی برائی ہے۔[122] پھر جس نے معاف کیا اور معاملے کی اصلاح کر لی تو اُس کا اجر اللہ کے ذمے ہے۔ بے شک، اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔[123] اور ہاں جن پر ظلم ہوا اور اُس کے بعد اُنھوں نے بدلہ لیا تو یہی ہیں جن پر کوئی الزام نہیں ہے۔ الزام تو اُنھی پر ہے جو لوگوں پر ظلم کرتے اور زمین میں بغیر کسی حق کے سرکشی کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ۳۹- ۴۲

وَلَمَنْ صَبَرَ وَغَفَرَ اِنَّ ذٰلِكَ لَمِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ ٤٣

البتہ جو صبر کریں اور معاف کر دیں تو بے شک، یہی کام ہیں جن کی تاکید کی گئی ہے۔[124] ۴۳

[101]۔ اصل الفاظ ہیں: ’فِيْ رَوْضٰتِ الْجَنّٰتِ‘۔اِس میں ’جَنّٰت‘ بھی جمع ہے اور ’رَوْضٰت‘ بھی۔ یعنی اہل جنت کے لیے ایک جنت نہیں، کئی جنتیں اور ایک باغیچہ نہیں، کئی باغیچے ہوں گے۔

[102]۔ اصل میں ’اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبٰي‘کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اِن میں استثنا ہمارے نزدیک منقطع اور ’قُرْبٰي‘ مصدر کے مفہوم میں ہے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’مطلب یہ ہے کہ قریش کے اِن برخود غلط لیڈروں کو آ گاہ کردو کہ تمھاری تمام ناقدریوں، بے زاریوں اور دل آزاریوں کے باوجود میں اِس طرح جو اپنے رات دن تمھارے پیچھے ایک کیے ہوئے ہوں تو یہ نہ سمجھو کہ اِس میں میری کوئی ذاتی غرض پوشیدہ ہے۔ جس کے لیے خدا کی طرف سے اُس فضل عظیم کی بشارت ہے جس کا ذکر اوپر ہوا ،وہ بھلا تم سے کسی صلہ و معاوضہ کا طالب کیا ہو گا! میری یہ ساری سرگرمیاں اور بے قراریاں اِس وجہ سے ہیں کہ میں اُس حق قرابت سے سبک دوش ہونا چاہتا ہوں جو تمھارے اور میرے مابین ہے۔ تم میرے خاندان اور میری قوم کے لوگ ہو، اِس وجہ سے مجھ پر یہ حق ہے کہ جو ہدایت اور آگاہی خدا کی طرف سے میں لے کر آیا ہوں، اُس سے سب سے پہلے تم کو آگاہ کروں اور جس رحمت کی منادی کر رہا ہوں، اُس میں سب سے پہلے تمھیں شریک کرنے کی کوشش کروں۔‘‘ (تدبرقرآن۷/ ۱۶۵)

[103]۔ مطلب یہ ہے کہ میں جس نیکی کی دعوت دے رہا ہوں، اُس سے میرا یا خدا کا کوئی مفاد وابستہ نہیں ہے، بلکہ سراسر تمھارا نفع ہے۔ اِس لیے نیکی اور خیر کی یہ دعوت قبول کرو ۔ تمھارا پروردگار اپنے بندوں کی نیکیوں کی بڑی قدر کرنے والا ہے۔

[104]۔ یہ وہی بات ہے جو سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیات ۸۶- ۸۷ میں اِس طرح بیان ہوئی ہے کہ اگر ہم چاہیں تو جو کچھ ہم نے تمھاری طرف وحی کیا ہے، وہ چھین کر لے جائیں، پھراِس کے لیے تم ہمارے مقابل میں کوئی مددگار نہ پاؤ۔ مگر یہ صرف تمھارے پروردگار کی رحمت ہے کہ تم اِس سے سرفراز ہوئے ہو۔ حقیقت یہ ہے کہ اُس کا فضل تمھارے اوپر بہت بڑا ہے۔

[105]۔ یہ قرآن کی حقانیت پر استدلال ہے کہ افترا ہمیشہ شیطان کی طرف سے ہوتا ہے اور شیطان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ احقاق حق اور ابطال باطل کرے۔ اُس کا کام تو اِس کے بالکل برعکس ہوناچاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’...ذرا مختلف الفاظ میں یہی بات سیدنا مسیح سے اُن لوگوں کے جواب میں منقول ہوئی ہے جوآپ پر یہ الزام لگاتے تھے کہ آپ بدروحوں کو بدروحوں کے سردار بعلزبول کی مدد سے نکالتے ہیں۔آپ نے اِن معترضین کو یہ جواب دیا کہ اگر میں نے شیطانوں کو شیطان ہی کی مدد سے نکالا تو اِس کے معنی یہ ہوئے کہ شیطان خود ہی اپنا دشمن بن گیا۔ یہی بات یہاں ارشاد ہوئی کہ اگر یہ کلام افترا اور اِس کا پیش کرنے والا مفتری ہے تو اِس کا اثر احقاق حق اور ابطال باطل کی صورت میں نہیں، بلکہ اِس کے بالکل برعکس نکلنا تھا۔ دنیا میں کس مفتری نے اِس طرح کا فیض بخش اور ارواح و قلوب کو منور کرنے والا کلام پیش کیا ہے، جس طرح کا کلام یہ قرآن ہے!‘‘ (تدبرقرآن۷/ ۱۶۸)

[106]۔ یعنی جب جانتا ہے تو اُس سے ڈرو، تم اپنا کوئی جرم اُس سے چھپا نہیں سکو گے۔

[107]۔ لہٰذا نہ کسی کو اپنی دولت و ثروت کو اپنے برحق ہونے کی دلیل سمجھنا چاہیے اور نہ خدا کی عنایتوں کو اپنی قابلیتوں کا حاصل یا اپنے مزعومہ شرکا کی کرشمہ سازی خیال کرنا چاہیے۔ یہ بارش جس پر تمام معیشت کا انحصار ہے، اِس کے لیے آسمان کے بند دریچوں کو وہی کھولتا ہے۔ یہ اُس کے سوا کسی کے بس میں نہیں ہے۔ چنانچہ کبھی کبھی اُس کو روک کر وہ لوگوں کو اِسی حقیقت کی طرف توجہ دلاتا ہے۔

[108]۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ جانور زمین میں چلتے اور پرندے فضا میں پرواز کرتے ہیں۔ عربی زبان میں بھی لفظ ’سَمَاء‘ دوسری بہت سی زبانوں کی طرح اِس معنی کے لیے آتا ہے۔

[109]۔ آیت میں دو لفظ استعمال ہوئے ہیں :’بَثَّ‘ اور ’جَمْع‘۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’اِس آیت میں ’بَثَّ‘ اور ’جَمْع‘ کا تقابل بھی نہایت بلیغ اور قیامت کی ایک نہایت دل نشین دلیل ہے۔ ’بَثَّ‘ کے معنی چھنٹنے، بکھیرنے اور پھیلانے کے ہیں اور ’جَمْع‘ کے معنی اکٹھا کرنے اور سمیٹنے کے۔ اِس سے یہ اشارہ نکلا کہ جس نے زمین اور فضا میں یہ تمام جان دار پھیلائے ہیں، وہ اِن کو، جب چاہے گا، جمع کرنے پر بھی قادر ہے۔ جب وہ اِن کو بکھیرنے پر قادر ہوا تو اُن کو سمیٹنے سے کیوں قاصر رہے گا؟ جو کسان اپنے کھیت میں تخم ریزی کرتا ہے، وہ ضائع کرنے کے لیے تخم نہیں بکھیرتا، بلکہ وہ اُس کا حاصل ایک دن جمع بھی کرتا ہے اور اُس میں اُس کو کوئی زحمت نہیں پیش آتی۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۷۱)

[110]۔ یہ مخاطبین کی زندگی میں خدا کے قانون مجازات کے ظہور سے استدلال ہے۔ مطلب یہ ہے کہ مجازات کو سمجھنا چاہو تو اپنی روزمرہ زندگی کے تجربات سے بھی سمجھ سکتے ہو۔ پھر یہ کس طرح خیال کرتے ہو کہ اُس نے کامل جزا و سزا کے لیے کوئی دن مقرر نہیں کیا ہے اور تم کو بنا کر تمھارے خیر و شر سے بے نیاز کہیں اطمینان سے کسی گوشے میں بیٹھ گیا ہے؟

[111]۔ یعنی اِس بات کی نشانیاں کہ زندگی کی کشتی خدا کے حکم ہی سے چلتی اور اُسی کے حکم سے، جہاں وہ چاہتا ہے، ٹھیر جاتی ہے اور بارہا اپنے مسافروں کے کرتوتوں کی وجہ سے ڈوب بھی جاتی ہے۔

[112]۔ یعنی اِس حکمت سے بہرہ مند ہو کہ مصیبتیں آجائیں تو آدمی کو اپنے رب کے بھروسے پر صبر کرنا چاہیے اورنعمتیں ملیں تو اُن پر اترانے کے بجاے اُس کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... اِس لیے کہ بندے کو جو کچھ بھی ملتا ہے ،خد اہی کے دیے ملتا ہے اور وہ جس طرح دینے پر قادر ہے، اُسی طرح چھین لینے پر بھی قادر ہے۔ جو لوگ اِس حقیقت سے ناآشنا ہوتے ہیں، اُن کو نعمت مغرور اور مصیبت مایوس بناتی ہے۔ وہ کبھی ایمان کی حلاوت سے آشنا نہیں ہوتے۔‘‘(تدبرقرآن ۷/ ۱۷۳)

[113]۔ یہ اِس لیے فرمایا کہ دنیا میں ضروری نہیں ہے کہ خدا سے سرکشی اختیار کرنے والوں کی ہر غلطی اور گناہ پر اُنھیں لازماً سزا مل جائے۔ یہ دنیا اصلاً جزا و سزا کے لیے نہیں، بلکہ امتحان کے لیے بنائی گئی ہے، اِس لیے اللہ تعالیٰ یہاں بہتوں سے درگذر ہی فرماتے ہیں۔ آیت میں جس چیز کی طرف توجہ دلائی گئی ہے، وہ صرف یہ ہے کہ چشم بصیرت وا ہو تو لوگ مکافات عمل کے نمونے اِس دنیا میں بھی دیکھ سکتے اور اُن سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں۔

[114]۔ اصل میں ’يَعْلَمَ‘ ہے اور یہ حالت نصب میں ہے۔ اِس وجہ سے اِس کا معطوف علیہ عربیت کی رو سے محذوف مانا جائے گا۔ ہم نے ترجمے میں اُسے کھول دیا ہے۔

[115]۔ یہ الفاظ خاص طور پر قابل توجہ ہیں۔ استاذ امام لکھتے ہیں:

’’... یہ اِس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ جو لوگ آخرت کی ابدی بادشاہی کے طالب ہوں، اُن کے لیے اِس راہ میں اصلی زاد راہ توکل ہے۔ جب تک کسی کے اندر یہ حوصلہ نہ ہو کہ اِس دنیا کی جو چیزیں خدا کی راہ میں مزاحم ہوں، اُن کو خدا کے بھروسے اور آخرت کے صلے کے اعتماد پر طلاق دے سکے، اُس وقت تک کوئی شخص یہ ابدی بادشاہی حاصل نہیں کر سکتا۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۷۵)

[116]۔ اصل میں ’اِثْم‘ اور ’فَوَاحِش‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ’اِثْم‘ سے مراد وہ برائیاں ہیں جو حق تلفی اور نا انصافی کی نوعیت کی ہوں اور ’فَوَاحِش‘ کا لفظ اُن برائیوں کے لیے آتا ہے جو شہوت سے پیدا ہوتی ہیں، یعنی زنا، اغلام اور اِن کے متعلقات۔ یہاں اِن برائیوں کے صرف کبائر سے بچتے رہنے کا ذکر ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت ہے کہ انسان کی کم زوری کا لحاظ کرکے اُس نے یہ مطالبہ اُس سے نہیں کیا کہ وہ بالکل معصوم ہو کر زندگی گزارے۔ چنانچہ دوسرے مقامات میں بشارت دی ہے کہ اگر وہ بڑی برائیوں سے بچتا رہے گا تو اُس کی چھوٹی غلطیوں اور کوتاہیوں سے اللہ تعالیٰ درگذر فرمائے گا۔ استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اِس کے ایک دوسرے پہلو کی طرف بھی توجہ دلائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’... چھوٹی برائیوں سے بچنے کا بھی صحیح طریقہ یہی ہے کہ آدمی بڑی برائیوں سے اجتناب کرے۔ جو شخص بڑی بڑی امانتیں ادا کرتا ہے، اُس کا ضمیر اِس بات پر کبھی راضی نہیں ہوتا کہ وہ کسی کی چھوٹی سی امانت میں خیانت کر کے خائن کہلانے کا ننگ گوارا کرے۔ اِسی طرح اللہ کا جو بندہ بڑی برائیوں سے اپنے کو بچاتا ہے، وہ یہ نہیں پسند کرتاکہ چھوٹی چھوٹی برائیوں کا ارتکاب کرکے وہ اپنے اجر کو برباد کرے۔ جو شخص اشرفیوں کی چوری سے اجتناب کرے گا، وہ دھیلے اور پیسے کی چوری کرنے والا نہیں بنے گا۔ اگر اِس طرح کی کوئی حرکت اُس سے صادر ہو گی بھی تو سہواً ہی ہو گی، عمداً نہیں ہو گی۔ البتہ جو لوگ مچھر کوچھانتے ہیں، اُن کو اکثر دیکھا گیا ہے کہ وہ اونٹ کو نگل جانے والے ہوتے ہیں۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۷۷)

[117]۔ غصہ اپنی ذات میں کوئی برائی نہیں ہے۔ یہ انسان کی حمیت، غیرت اور عزت نفس کا ایک فطری تقاضا ہے ۔ تاہم اِسے حدود سے متجاوز نہیں ہونا چاہیے۔ یہاں اِس کے بارے میں جو ہدایت فرمائی ہے، اُس کا ایک خاص پہلو یہ ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کے مخالفین اُس زمانے میں جو اشتعال انگیز حرکتیں کر رہے تھے، اُن میں مسلمان کہیں عفو و درگذر کا رویہ نہ چھوڑدیں۔ چنانچہ آیت میں ’هُمْ‘ کی ضمیر کااظہار بھی اِسی مقصد سے اور یہ زور پیدا کرنے کے لیے ہوا ہے کہ اگرچہ یہ کام نہایت کٹھن ہے، مگر استاذ امام کے الفاظ میں، آفرین کے مستحق ہیں وہ لوگ جو یہ کڑوے گھونٹ حلق سے اتارتے ہیں۔

[118]۔ ایمان کی دعوت قبول کرنے کے بعد یہ اُس کے اولین مظہر کا ذکر ہے جو اگر سامنے نہیں آیا تو گویا ایمان کی دعوت ہی قبول نہیں کی گئی۔ اِس کے اہتمام سے مراد یہ ہے کہ اِسے برقرار رکھا جائے، اِسے پورے آداب کے ساتھ ادا کیا جائے اور اپنے شب و روز میں اِس کی مداومت کی جائے۔ یہی نماز ہے جو ایمان والوں کو منکرات و فواحش سے روکتی اور اجتماعی زندگی میں نظم و اطاعت کے ساتھ رہنے کی تربیت دیتی ہے۔

[119]۔ ہجرت و براء ت کے مرحلے میں یہ گویا لطیف اسلوب میں اِس بات کی بشارت ہے کہ مسلمانوں کے لیے اب سیاسی اور اجتماعی ہیئت کی صورت میں منظم ہونے کا وقت قریب آگیا ہے۔ یہ ذکر نماز کے بعد کیا گیا ہے اور اِس بات کا اشارہ ہے کہ وہ خدا کے سامنے بھی سرافگندہ رہنے والے ہیں، کبھی سرکشی اختیار نہیں کرتے اور اجتماعی زندگی میں بھی ایک دوسرے پر استبدادکو روا نہیں رکھتے۔ اُن کے ہاں اِس کی کوئی گنجایش نہیں ہے کہ نسب، خاندان، مذہبی حیثیت یا اپنے جتھے کی طاقت کے بل پر کوئی شخص اُن پر مسلط ہونے کی کوشش کرے۔ لہٰذا یہ نہیں کہا گیا کہ معاملات میں اُن سے مشورہ لیا جاتا ہے، بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اُن کا نظام مشورے پر مبنی ہے۔اِس کے لیے اصل میں لفظ ’اَمْر‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں یہ کئی معنوں میں آتا ہے۔ یہاں قرینہ بتا رہا ہے کہ یہ نظم اجتماعی کے مفہوم میں ہے۔ شوریٰ ’فُعْلٰي‘ کے وزن پر مصدر ہے اور خبر واقع ہوا ہے۔ جملے کی یہ تالیف پیش نظر رہے تو اِس کا لازمی تقاضا ہے کہ نظم اجتماعی کے لیے اگر کسی سربراہ کے تقرر کا وقت آگیا ہے تو اُس کی امارت مشورے سے منعقد ہو۔ نظام مشورے ہی سے وجود میں آئے۔ مشورہ دینے میں سب کے حقوق برابر ہوں۔ جو کچھ مشورے سے بنے، وہ مشورے سے توڑا بھی جا سکے۔ جس چیز کو وجود میں لانے کے لیے مشورہ لیا جائے، ہر شخص کی راے بالواسطہ یا بلاواسطہ اُس کے وجود کا جزو بنے۔ اجماع و اتفاق سے فیصلہ نہ ہو سکے تو فصل نزاعات کے لیے اکثریت کی راے قبول کر لی جائے۔

[120]۔ نماز کے بعد یہ خدا کی بندگی کا دوسرا ستون ہے۔ نماز بندے کا تعلق اُس کے خالق سے جوڑتی ہے اور یہ خلق سے، اور اِنھی دو ستونوں پر دین کی پوری عمارت قائم ہے۔

ایمان والوں کی یہ تمام صفات جس اسلوب میں اور جس موقع پر گنوائی گئی ہیں، اس میں مخالفین پر جو تعریض ہے، وہ محتاج وضاحت نہیں ہے۔ اہل ذوق اُسے محسوس کر سکتے ہیں۔

[121]۔ اوپر فرمایا ہے کہ جب غصہ آجائے تو وہ درگذر کر جاتے ہیں۔ یہ اُسی پر استدراک ہے کہ اول تو وہ مخالفین کی تمام تر اشتعال انگیزیوں کے باوجود درگذر کرتے ہیں اور اگر کبھی جواب میں کچھ کہتے یا کرتے بھی ہیں تو اُسی وقت جب اُن پر کوئی صریح زیادتی کی جاتی ہے۔

[122]۔ برائی کے جواب میں جو کچھ کیا جائے، وہ برائی نہیں، بلکہ قصاص ہے، لیکن یہاں اُس کو برائی کے لفظ سے مجانست کے اسلوب پر تعبیر کیا ہے۔ یہ عربی زبان کا معروف اسلوب ہے، جیسے ’دناهم كما دانوا‘۔

[123]۔ یعنی کوئی شخص ظلم کرے تو وہ بھی اللہ کے نزدیک مبغوض ہے اور اُس کے جواب میں اگر ظلم کا جواب اُس سے بڑھ کر ظلم و عدوان سے دیا جائے تو اُس کو بھی اللہ سخت نا پسند کرتا ہے۔

[124]۔ اِس میں، ظاہر ہے کہ انتقام اور بدلے کے حق کو مان کر عفو و درگذر کی ترغیب دی گئی ہے، اِس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک یہی اولیٰ ہے۔ لیکن اِس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی اپنے اندر صبر کی خصلت پیدا کرے۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

B