HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

Please login for Bookmark , Comment or Highlight ...

ستم ہاے روزگار

زندگی گود سے لے کر قبر تک عسر و یسر کے مراحل سے عبارت ہے۔انسان کی سب سے بڑی طلب یہ ہے کہ اس کی زندگی محفوظ ہو، با سہولت ہواور اس کے ذوق کے مطابق ہو، یعنی اس کی اکل و شرب اور بودوباش کی ضروریات بھی فراخی سے پوری ہوں، اسے آسانیاں اور آرام بھی حاصل ہوں اوراسے تزئین و آرایش کے وسائل بھی فراہم ہوں۔مزید برآں، اس کے ظاہری اور باطنی وجود کی تکمیل کا سفر بھی کامیابی سے ہم کنار ہو۔ اس کے ساتھ انسان یہ بھی چاہتا ہے کہ اس کا ماحول اسے جانے، اس کی قدر کرےاور اس کی شخصیت کی نمود اور تکمیل میں اس کا مددگار ہو۔نہ صرف یہ کہ وہ اپنے ماحول میں محبوب اور مطلوب ہو، بلکہ اس کے غیاب میں اور اس کے بعد بھی اسے ایک اچھے انسان کے طور پر یاد رکھا جائے۔[1]؎

لیکن عملاً اس کی زندگی’ اے بسا آرزو کہ خاک شدہ‘یا بقول غالب: ’بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے‘ کی تصویر نظر آتی ہے۔

قرآن مجید میں ’رزق‘ کے لفظ کو اگر ان سب کے لیے جامع معنی میں لیا جائے تو خدا امتحان کے مقصد سے انسان کے ساتھ یہ معاملہ کر رہا ہے:

اَللّٰهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ.(الرعد ۱۳ : ۲۶ )
’’اللہ جسے چاہتا ہے، کھلا رزق دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے، گنا چنا۔‘‘

انسان کی پوری زندگی نعمت و نقمت کے اتار چڑھاؤ میں گزرتی ہے۔کبھی اور کہیں آسانی کا معاملہ ہوتا ہے اور کبھی اورکہیں سختی سے سابقہ پیش آتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب کوئی سختی آتی ہے، خواہ وہ بیماری کی صورت میں ہو، خواہ کوئی اور تنگی اور تکلیف ہو، بندے کا دل غم زدہ ہو جاتا ہے۔حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی یہ کیفیت کس خوبی سے بیان کی ہے:

اِنَّمَا٘ اَشْكُوْا بَثِّيْ وَحُزْنِيْ٘ اِلَي اللّٰهِ.(یوسف ۱۲ : ۸۶ )
’’میں اپنی پریشانی اور غم کا شکوہ صرف اللہ ہی سے کرتا ہوں۔‘‘

یہ تو حضرت یعقوب علیہ السلام کا اعلیٰ شعور بندگی ہے کہ اپنی اولاد سے پیش آنے والے غم اور تکلیف پر بھی وہ اللہ ہی کی طرف متوجہ ہوئے اور انسانوں سے شکایت اور گلے شکوے سے گریزاں رہے، لیکن عام انسان اس صورت میں شکایت، احتجاج،سوء ظن، دشنام، انتقام، بے حسی، بے دردی،یاس،مظلومیت، بے عملی، غرض طرح طرح کے عوارض میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ کے حوالے سے وہ نا شکری،بے اعتمادی، دوری، حتیٰ کہ الحاد و کفر تک کے مراحل طے کر سکتا ہے۔

اللہ کے پیغمبروں نے پہلے دن ہی سے یہ اطلاع دے رکھی ہے اور اسے ایمان کا لازمی جزو قرار دیا ہوا ہے کہ یہ دنیا دارالامتحان ہے اور یوم جزا و سزا برپا ہونا ہے، جس میں ہر ایک کے لیے اس امتحان کا نتیجہ نکل آئے گا، اور اس نتیجے کے مطابق جزا و سزا بھی دی جائے گی۔

ہمارا یہ ایمان دنیا کی اس زندگی کے بارے میں ہمارے تصور حیات کو بالکل بدل دیتا ہے۔ اصولاً اس کے بعد ہمارا رویہ اور عمل وہی ہونا چاہیے جس کا ذکر اوپر ہم نے حضرت یعقوب علیہ السلام کے اسوۂ حسنہ کے حوالے سے کیا ہے، یعنی واقعے کو اللہ کی طرف سے آزمایش سمجھے۔ اسی اللہ سے اس آزمایش میں سرخ روئی کے لیے مدد مانگے اور اس آزمایش کی سختی میں نرمی کرنے یا اس سے نجات کی درخواست کرے۔

سورۂ یوسف میں موضوع ہی وہ مشکلات ہیں جو انسانوں کی غلط روی سے کسی انسان کے لیے پیدا ہوتی ہیں۔ بھائیوں کا معاملہ ہو، زلیخا کی لبھانے اور پھر انتقام لینے کی روش ہو، پھر اقتدار اور خوش حالی کا دور ہو،حضرت یوسف علیہ السلام ستم رسانیوں کا انتقام لینے کے بجاے جس طرح انسانوں کے ساتھ عفو درگذر اور عطا و عنایت کا معاملہ کرتےہیں اور اللہ کے ساتھ بندگی، شکر اور تفویض کا قالب بن کر جڑے رہتے ہیں، بندۂ مومن کے لیے یہی روش عند اللہ مطلوب ہے۔ سورۂ یوسف میں حضرت یوسف کو اسی بنا پر’محسن‘ (خوب کار) قرار دیا گیا ہے۔

جس طرح سورۂ یوسف میں دونوں باپ بیٹے کے ’بندۂ حق پرست‘ اور ’سپردم بہ تو‘ہونے کی تصاویر کھینچی گئی ہیں اور ہمیں یہ بتایا گیا ہے کہ مشکلات میں اللہ کے مقبول بندے کیا رویہ اپناتے ہیں اور کیا اقدامات کرتے ہیں، وہیں یہ نکتہ بھی واضح کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس طرح یا کسی اور طرح یہ سب کچھ کیوں ہونے دیتے ہیں۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے معاملے میں تو معلوم ہوتا ہے کہ بنی اسرائیل کو ایک بڑی قوم بنانے کے عمل کا آغاز مقصود تھا۔ اس غرض سے باپ اور بیٹے کو ہجر و وصال کی کٹھنائیوں سے گزرنا پڑا، درآں حالیکہ اس سب کچھ کا آغازسوتیلے بھائیوں کی اپنی غرض کو حاصل کرنے کی سعی سے ہوا۔

یہ بات قرآن مجید میں حضرت موسیٰ کی ایک روداد سفر کے واقعات میں بھی بیان ہوئی ہے۔ کشتی کا ٹوٹنا ہو، بچے کا قتل ہو یا دیوار کی استواری ان سب واقعات میں بھی یہی واضح کیا گیا ہے کہ مقصود ایک خیر کا حصول تھا۔ قرآن مجید نے تکالیف ایوب کا ذکر کرکے اسی نکتے کے کچھ اور پہلوؤں کی پردہ کشائی کی ہے۔

نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بیمار کی عیادت کے موقع پر فرمایا:

لا بأس، طهور إن شاء اللّٰه.(بخاری، رقم ۵۶۶۲)
’’کوئی حرج نہیں، یہ اللہ نے چاہا تو ذریعۂ پاکیزگی ہے۔‘‘

آپ کا یہ ارشاد بھی ظاہری واقعات کے پیچھےموجود الہٰی حکمت کے ایک پہلو کو واضح کرتا ہے۔

ہمارے ساتھ جو بھی واقعات پیش آتے ہیں، خواہ اس کے اسباب کچھ بھی ہوں، ہمارا ایمان ہے کہ یہ اللہ کے علم اور اذن یا حکم کے بغیر نہیں ہوتے۔ ہمارا امتحان یہ ہے کہ ہم ان واقعات کا سامنا کرتے ہوئےسچے ایمان و عمل صالح پر قائم رہتے ہیں یا نہیں۔ حق شناسی اور حق پرستی کے تقاضے پورے کرتے ہیں یا نہیں۔ اللہ کی بندگی اور انسانوں کے ساتھ معاملات میں فرائض و حقوق کے ادا کرنے میں صحت عمل اور جمال و کمال کے مراتب حاصل کرتے ہیں یا نہیں۔

زندگی کے جور و جفا میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ہم خدا کی بادشاہی میں جی رہے ہیں۔ علیم و خبیر بادشاہ، حاضر و ناظر بادشاہ، عزیز و حکیم بادشاہ۔ جس کے عدل کا ترازو ذرہ برابر نیکی ہو یا برائی اسے تول دے گا۔ ہمیں اس میں رائی برابر شک نہیں ہونا چاہیے کہ ہمیں ہماری سعی و جہد کا پورا پورا اجر ملے گا۔قرآن مجید نے جس طرح یہ بات وضاحت کے ساتھ بیان کر دی ہے کہ مالک یوم الدین کی عدالت میں سفارش اور رشوت نہیں چلے گی، اسی طرح اس بات کو بھی کھول کر بیان کر دیا ہے کہ اجر دینے میں رحمٰن کی رحمتیں اور غفار کا عفوو درگذر شامل حال ہوگا۔ اللہ تعالیٰ کے کمال کرم کا مظہر ہی تو ہے کہ برائی ایک اور نیکی دس شمار ہوتی ہے۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]؎ اگر یہ انسان مذہبی ہے تو اس کے ساتھ آخرت کی فلاح اور قرب بارگاہ پروردگار کی تمنا بھی شامل ہو جائے گی۔یہاں ہم نے صرف اس مذہبی تمنا کا ذکر کیا ہے جس کی تصویب قرآن مجید سے ہوتی ہے، ورنہ مذہبی شخصیات اس دنیا میں دین و دنیا کا جو کچھ حاصل کرنا چاہتی ہیں، اسے لکھا جائے تو ایک دفتر درکار ہے۔سری طاقتیں اور شخصی تفوق تو سامنے کی باتیں ہیں۔اوپراصل مضمون میں ہم نے ان مذہبی تمناؤں کا ذکر نہیں کیا، اس لیے کہ ہمارے مضمون میں نکات کے معنوی تسلسل سے اس کا براہ راست تعلق نہیں۔ 


B