ایک نوجوان دین کی طرف راغب ہوا۔ پھر ایک مذہبی فکر سے متاثر ہوا۔ اس کے بعد اس نے اپنی قریبی مسجد کے مولوی صاحب کو بغور سنا تو انھیں شرک اور بدعات کا مبلغ پایا۔
ایک دن نماز کے بعد مولوی صاحب اور ان کے عقیدت مند کچھ بزرگ جو مسجد کی انتظامیہ کے اہم ارکان تھے، مسجد کے اندر بیٹھے ہوئے تھے۔ وہ نوجوان احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کے مشن کی تکمیل کے لیے مولوی صاحب کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس نے ’’گفتگو‘‘ کا آغاز ہی اختلافی مسائل سے کیا۔ حتیٰ کہ ایسے نازک اختلافی مسائل جن کے ساتھ مولوی صاحب کے جذبات وابستہ تھے، اس نے وہ بھی چھیڑ دیے۔ چند لمحوں کے بعد مولوی صاحب کا چہرہ سرخ ہو گیا۔ آواز بلند ہو گئی۔ قریب پڑا ایک ڈنڈا مولوی صاحب نے ہاتھ میں پکڑا اور نوجوان کو مارنے کے لیے ہوا میں لہرایا۔ وہاں بیٹھے لوگ فوراً اٹھے۔ مولوی صاحب کو روکا اور نوجوان کو مسجد سے ’’چلے جانے‘‘ کے لیے کہا۔
اس واقعہ میں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ مولوی صاحب قصور وار تھے۔ لیکن اس شمارے میں ’’دین و دانش‘‘ کے ذیل میں جاوید احمد صاحب غامدی کی تحریر ’’قانونِ دعوت‘‘ کی روشنی میں اس واقعہ کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہو گا کہ صورتِ حال اس کے برعکس تھی۔ قصور وار درحقیقت نوجوان ہی تھا۔
’’التزامِ جماعت‘‘ کے بارے میں ہمارے نقطۂ نظر پر مولانا وصی مظہر صاحب ندوی نے اعتراضات کیے تھے۔ ’’اشراق‘‘ جون ۱۹۹۹ میں معز امجد صاحب نے ان اعتراضات کا جواب لکھا۔ ندوی صاحب نے اس جواب کے جواب میں ایک تحریر لکھ کر ہمیں ارسال کی ہے۔ ان شاء اللہ اگلے شمارے میں ندوی صاحب کی یہ تازہ تحریر شائع کر دی جائے گی۔
اس کے علاوہ ’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘، ’’مناجات‘‘، ’’یسئلون‘‘، ’’تبصرۂ کتب‘‘ اور ’’ادبیات‘‘ کے سلسلے موجود ہیں۔