قرآن مجید سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کا پہلا گناہ شراب، زنا اور خنزیر جیسی چیزیں نہیں،بلکہ کائنات کا پہلا گناہ کبروانانیت تھا، یعنی اِس زعم کا احساس کہ میں دوسرے شخص کے مقابلے میں زیادہ بہتر حیثیت رکھتا ہوں: ’اَنَا خَيْرٌ مِّنْهُ‘ (الاعراف ۷: ۱۲)۔
انا یا انانیت کا مطلب ہے: عمداً حق کو نظرانداز کرنا اور اپنے مقابلے میں دوسرے لوگوں کو کم تراور حقیر سمجھنا (بطر الحق، وغمط الناس)۔
انسان چونکہ فکری اور حیوانی وجود کا ایک دو طرفہ مجموعہ ہے۔چنانچہ انسانی زندگی میں انانیت کا ظہور اصلاً دو صورتوں میں ہوتا ہے: ایک، فکری سطح پر اور دوسرے،عملی سطح پر۔
اِس لیے آدمی کو چاہیے کہ وہ اِن دونوں سطح پر بہت زیادہ خبردار (alert) رہے۔ وہ فکر وعمل، دونوں سطح پر انانیت کے مہلک تلوثات سے اپنے آپ کو بچائے۔ وہ ہمیشہ حق وصداقت کا طالب رہے اور جب بھی ایسا ہو کہ یہ حق وصداقت کسی بھی صورت میں اُس پر ظاہر ہو تو وہ ادنیٰ ذہنی تحفظ اور کسی سابقہ تعصب کے بغیر خداکے ایک براہ راست فیضان کی حیثیت سے اُسے قبول کرے اور اپنے دل ودماغ کے تمام دروازے اُس کے لیے کھول کر اُس کا حامی و ناصر بن جائے۔ حق وصداقت کی نصرت وحمایت خود خداوند ذوالجلال کی نصرت (محمد ۴۷: ۷) ہے۔ امتحان کی اِس دنیا میں خدا ہمیشہ حق وصداقت کے پردے میں ظاہر ہوتاہے۔ ایسی حالت میں حق و صداقت کا ظہورسادہ معنوں میں، صرف حق وصداقت کا ظہور نہیں،بلکہ وہ خود خداوند ذوالجلال کے ظہور اِجلال کے ہم معنی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ کبروانانیت وہ سب سے بڑا جھوٹ ہے جس کے سہارے کوئی شخص کھڑا ہوتا ہے۔ خالق کی بنائی ہوئی اِس دنیا میں کسی مخلوق کے لیے سرے سے اِس بات کا کوئی جواز نہیں کہ وہ خدا کی اِس دنیا میں کبر و انانیت اورخود پرستی کاجھوٹا گنبد تعمیرکرے۔خدا کی اِس دنیا میں شرک اور کبر کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ یہاں ساری عظمت و بڑائی صرف اور صرف ایک خالق ومالک اور ایک قادر مطلق خدا کے لیے ہے، نہ کہ کسی عاجز و فانی مخلوق کے لیے۔
کبروخودپسندی کی اِسی شناعت کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ ایسا شخص خدا کے پڑوس میں کبھی جگہ نہیں پاسکتا،کیونکہ ساری بڑائی صرف اللہ رب العالمین کے لیے ہے:
٭ عن عبد اللّٰه قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم «لا یدخل الجنة أحدٌ في قلبه مثقال حبة خردل من کبریاء».( مسلم، رقم۲۷۶)
’’عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی کے دانے کے برابربھی کبرو برتری کا مزاج پایاجائے،وہ جنت میں داخل نہیں ہو گا۔‘‘
٭ عنْ أنسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: کَانَ لِلنَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ نَاقَةٌ تُسَمَّی الْعَضْبَاء لَا تُسْبَقُ. قَالَ حُمَیْدٌ: أوْ لَا تَکَادُ تُسْبَقُ. فَجَاءَ أَعْرَابِیٌّ عَلَی قَعُودٍ فَسَبَقَهَا، فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَی الْمُسْلِمِینَ حَتّی عَرَفَهُ. فَقَالَ: «حَقٌّ عَلَی اللّٰهِ أن لَا یَرْتَفِعَ شَیْئٌ مِنَ الدُّنْیَا إِلَّا وَضَعَهُ».( بخاری، رقم ۶۵۰۱)
’’انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں العَضْبَاء نام کی ایک اونٹنی تھی ۔ کوئی جانور دوڑ میں اُس سے آگے نہیں بڑھ پاتا تھا۔ پھر ایک اعرابی اپنے اونٹ پر سوار ہو کر آیا اور وہ مقابلے میں آپ کی اونٹنی سے آگے بڑھ گیا۔ مسلمانوں پر یہ معاملہ بہت شاق گزرا۔وہ کہنے لگے کہ افسوس! عضباء پیچھے رہ گئی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا تو فرمایا: اللہ تعالیٰ نے اپنے اوپر یہ لازم فرما لیا ہے کہ جب وہ دنیا میں کسی چیز کو بڑھاتا ہے تو اُسے گھٹابھی دیتا ہے۔‘‘
٭ عن عیاض بن حمار أخي بني مجاشع قال: قَامَ فِینَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ یَوْمٍ خَطِیبًا، فَقَالَ: ...إنّ اللّٰهَ أوحی إليّ أن تَوَاضَعُوا، حَتّی لَا یَفْخَرَ أحَدٌ عَلَی أحَدٍ، وَلَا یَبْغِي أحَدٌ عَلَی أحَد. (مسلم، رقم ۷۲۱۰)
’’بنی مجاشع کے بھائی عیاض بن حمار رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ...اللہ تعالیٰ نے مجھ پر وحی کی ہے کہ تم سب تواضع اختیار کرو، حتیٰ کہ کوئی شخص دوسرے شخص پر فخر نہ کرے اور کوئی شخص دوسرے شخص پر زیادتی نہ کرے۔‘‘
خالق نے اِس دنیا کو امتحان کے مقصد کے تحت بنایا ہے۔اِس مصلحت کا تقاضاہے کہ موت تک یہاں باربار آدمی پرکبر وحسد اور خودپسندی وانانیت جیسے مہلک جذبات کا حملہ ہو ، وہ باربار اِس طرح کے مسائل سے دوچار ہو، وہ مسلسل اِس طرح کے منفی احساسات کی زد میں آتارہے۔یہ زندگی بھر کا معاملہ ہے۔ امتحان کی اِس دنیا میں ایسا نہیں ہوسکتا کہ آدمی اِن احساسات سے خالی ہوسکے۔
اِس صورت حال کا علاج صرف یہ ہے کہ آدمی جب اِن منفی احساسات سے دوچار ہو تو وہ مستقل طورپر اُس کا شکاررہنے اور اُس سے حظ اندوز ہونے کے بجاے اُسے ایک مسِ شیطانی (الاعراف۷: ۲۰۱) سمجھ کر رجوع اور انابت کا طریقہ اپنائے، وہ توبہ واستغفار اور شدید احتساب کے ذریعے سے فی الفور خدا کی طرف لوٹے، وہ اپنے عجز و بے ثباتی اور خدا کی قدرت وبے نیازی کو یاد کرکے اپنے آپ کو عبدیت کے مقام پر لاکرحقیقت پسندی کا مظاہرہ کرے۔اِس طرح مسلسل توبہ واحتساب کے ذریعے سے اِس قسم کے مہلک احساسات سے اپنے آپ کو محفوظ رکھا جاسکتا ہے۔
روزمرہ کی زندگی میں آدمی یہی کررہاہوتا ہے۔ مثلاً جب ایک شخص کپڑا استعمال کرتا ہے تووہ میلا بھی ہوتا ہے، مگر اُس وقت کوئی شخص ایسا نہیں کرتا کہ وہ اُسے پھینک دے۔ اِس کے برعکس، وہ اُس کو صاف کرکے دوبارہ اپنے استعمال میں لے آتاہے۔داخلی اور روحانی معاملات میں بھی آدمی کو یہی طریقہ اختیار کرنا چاہیے۔ یہاں بھی ’وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ‘ (المدثر۷۴: ۴ ) پر عمل کرتے ہوئے بارباراُسے اپنے دامن دل کو پاک کرنے اور اپنے قول وعمل اور اپنے فکر ونظر کا جائزہ و احتساب کرتے رہنے کی مسلسل جد و جہد جاری رکھنا چاہیے۔ اِس صابرانہ اور مخلصانہ جہد و عمل کی حیثیت اُس ’عمل صالح‘ اور ’عبادت‘ کی ہوگی، جو اِس زندگی میں ایک انسان سے ہمیشہ مطلوب ہے۔
مختلف قسم کے انسانوں کا وسیع اور طویل مطالعہ بتاتا ہے کہ کوئی بھی شخص کبر وحسد اور انانیت کے اِن نامطلوب احساسات سے خالی نہیں۔ چھوٹے، بڑے، امیر،غریب، بادشاہ، فقیر،مفلس،مخلص، فارغ البال، مفلوک الحال، داعی اور رہنما، مذہبی وغیر مذہبی ائمہ وقائدین، سب کسی نہ کسی اعتبار سے، اِس مخفی کبر کا شکار رہتے ہیں،سواے اُس کے جس پر اللہ اپنا خصوصی فضل وکرم فرمادے۔
اِس معاملے میں اکثر صرف مخفی اور غیر مخفی کبر کا فرق ہوتاہے۔ موجودہ زمانے میں آزادی و فراغت، وسائل کی بہتات اورسستی شہرت کے آن لائن وآف لائن مواقع نے ہر عورت اور مرد کی انانیت اور ریا و نمود کے احساسات میں بے پناہ حد تک اضافہ کردیاہے۔
مواقع کی بہتات اور نعمتوں کی برسات شکر کی متقاضی تھی، مگر اِس عہد دجال کی پیشانی پر شکر کے بجاے اب تقریباً ہر طرف ’کفر‘ ہی ’کفر ‘ نظر آتا ہے۔ آج کا فقیر بھی کسی امیر سے کم اناپرست دکھائی نہیں دیتا، حتیٰ کہ آج کے بچے بھی اپنے اندر انانیت کا شدید احساس رکھتے ہیں۔
ایسی حالت میں خدا خود اپنی خاص رحمت سے جس شخص کو طوفان تزکیہ کے اِس گرداب میں ڈال کر اُس کے اندر چھپے ہوئے انانیت کے اژدہے کو کچل دے، وہی اِس زہراب سے بچ سکتاہے، ورنہ کبرو نخوت کا یہ اژدہا ہر ایک کو ڈس کررہتا ہے، اِس سے بچنا سخت مشکل ہے۔
اِس کے لیے ضروری ہے کہ آدمی خود اپنا محاسب بن جائے، وہ بے رحمانہ احتساب کے ذریعے سے اپنے اندر پائے جانے والے متکبرانہ عناصر کا جائزہ لے، وہ ہر پہلو سے کھرچ کھرچ کر اپنے اندر سے کبرونخوت کے مزاج کا خاتمہ کرے، وہ اپنی تنہائیوں میں اللہ سے دعائیں کرے اور تلاوت و تدبر کے ذریعے سے مسلسل اصلاح ذات کا یہ عمل جاری رکھے۔ اِسی کے ساتھ وہ یہ کرے کہ اپنے قریبی رفقا ، اساتذہ اوراپنے اہل خانہ و متعلقین کو اپنا نگراں اور محاسب بنائے۔ وہ اُن سے کہے کہ بار بار وہ اِس طرح کی صورت حال پر بلاتکلف اُس کا محاسبہ کرتے رہیں۔یہی ’براہیمی نظر‘اور یہی ’جہاد نفس‘ آدمی کو اِس مہلک بیماری سے محفوظ رکھ سکتاہے:
براہیمی نظر پیدا مگر مشکل سے ہوتی ہے
ہوس چھپ چھپ کے سینوں میں بنا لیتی ہے تصویریں!
[سری نگر-ماگام، کشمیر۵/جون ۲۰۲۴ء]
ـــــــــــــــــــــــــ