HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : متفرق

اہل کتاب خواتین سے نکاح: جواز وعدم جواز کی بحث

وارث مظہری[*]

اسلام میں مشرکین سے واضح امتیاز برتتے ہوئے اہل کتاب کے ذبیحہ کو حلال قرار دیا گیا ہے اور ان کی خواتین سے نکاح کی اجازت دی گئی ہے۔جمہور کا اس پر اتفاق ہے۔اگرچہ بعض صحابہ و تابعین کو اس سے اختلاف بھی رہا ہے۔اسلامی تاریخ میں جمہور کے قول پر ہی عمل رہا ہے۔ البتہ موجودہ دور میں کئی اعتبارات سے اس مسئلے پر سوالات اٹھائے جانے لگے ہیں اور اس حوالے سے مختلف رجحانات ابھر کر سامنے آئے ہیں:

 ایک رجحان جمہور صحابہ و تابعین کے موقف کے مطابق بالکلیہ جواز کے حق میں رہا ہے،جب کہ دوسرا رجحان اس کے مکمل طور پر حرام ہونے کا قائل ہے۔ دور جدید میں عالم اسلام کی بعض اہم شخصیات، مثلاً محمد یوسف موسیٰ، علامہ ابن بادیس وغیرہ مطلق تحریم کی قائل رہی ہیں۔ یوسف موسیٰ کی اس موضوع پر کتاب کا نام ہے: ’’جریمة الزواج بغیر المسلمات: فقهًا وسیاسة‘‘۔ تیسرا رجحان ان دونوں کے مابین ہے، یعنی یہ کہ کچھ مخصوص شرائط کے ساتھ مع الکراہت اس کی اجازت ہے۔کم و بیش یہی تینوں رجحانات اپنی تائید میں دلائل کے اختلاف کے ساتھ ماضی میں بھی رہے ہیں۔

کتابیہ کے ساتھ نکاح کے جواز کے دلائل

اہل کتاب خواتین کے ساتھ نکاح کے جواز کی دلیل سورۂ مائدہ (۵) کی پانچویں آیت ہے:

اَلْيَوْمَ اُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبٰتُ وَطَعَامُ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ حِلٌّ لَّكُمْ وَطَعَامُكُمْ حِلٌّ لَّهُمْ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ.
’’آج تمھارے لیے ساری پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔اہل کتاب کا کھانا تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کے لیے اور محفوظ عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں، خواہ وہ اہل ایمان کے گروہ سے ہوں یا اُن قوموں میں سے جن کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی۔‘‘

اس پر عمل کرتے ہوئے متعدد صحابۂ کرام نے بھی اہل کتاب خواتین سے شادیاں کیں۔خود خلیفۂ ثالث حضرت عثمان غنی نے نائلہ بنت الفرافصہ الکلبیہ سے شادی کی، جو بعد میں مسلمان ہو گئیں۔ اسی طرح حضرت طلحہ بن عبید اللہ اور حضرت حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہما وغیرہ کے بارے میں بھی مروی ہے کہ انھوں نے کتابی خواتین سے شادیاں کیں (احکام القران۲/ ۴۰۸- ۴۰۹) ، چنانچہ ’’تفسیر ابن کثیر‘‘ میں ہے:

وقد تزوج جماعة من الصحابة من نساء النصارٰی ولم یروا بذلك بأسًا أخذا بهذہ الآیة الکریمة (أی آیة المائدة: ۵) . (ابن کثیر۲/۲۸)
’’اسی سورہ مائدہ کی پانچویں آیت سے استدلال کرتے ہوئے صحابہ وتابعین کی ایک جماعت نے نصاریٰ کی عورتوں سے شادی کی اور اس میں کوئی حرج محسوس نہیں کیا۔‘‘

 البتہ بعض فقہا سے مختلف شرطیں اور قیود مروی ہیں۔چنانچہ امام احمد بن حنبل کے نزدیک بنی تغلب (مسیحی عرب قبیلہ) کی خواتین سے نکاح جائز نہیں ہے۔ امام شافعی اس کے جواز کوصرف اسرائیلی خواتین کے ساتھ خاص کرتے ہیں۔ ان کی دلیل یہ آیت ہے جس میں بنی اسرائیل کواہل کتاب قراردیا گیا ہے: ’وَلَقَدْ اٰتَيْنَا بَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ الْكِتٰبَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ، ’’ اورہم نے بنی اسرائیل کوکتاب،حکومت اور نبوت سے نوازا(الجاثیہ۴۵: ۱۶)۔

صحابہ میں سے حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا موقف ہے کہ صرف ذمی و معاہد خواتین سے نکاح جائز ہے (ابوبکر جصاص، احکام القرآن۴۱۱)۔تاہم جمہور اس تفریق کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک ذمی و غیر ذمی اور معاہد و محارب، دونوں طرح کی اہل کتاب خواتین سے نکاح جائز ہے۔ البتہ امام ابو حنیفہ کے نزدیک اس کے جواز کے ساتھ اس میں کراہت پائی جاتی ہے۔

 عدم جواز کے قائلین اور ان کے دلائل

عدم جواز کے قائلین میں صحابۂ کرام میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا نام آتا ہے۔ان کے بارے میں روایت ہے کہ جب ان سے یہودی و نصرانی خواتین کے ساتھ نکاح کی بابت سوال کیا جاتا تھا تو وہ جواب دیتے تھے کہ:

إن اللّٰه حرم المشرکات علی المسلمین ولا أعلم من الشرک شیئًا أعظم من أن تقول ربھا عیسٰی بن مریم وهو عبد من عبید اللّٰه. (احکام القرآن ۲/ ۴۰۹)
’’اللہ تعالیٰ نے مومنین پر مشرک خواتین کے ساتھ نکاح کو حرام قرار دیا ہے اور مجھے نہیں معلوم کہ اس سے بڑھ کر اور شرک کیا ہوگا کہ وہ، ( یعنی مسیحی خواتین) اس کی قائل ہوں کہ ان کا رب حضرت مسیح ہے، حالاں کہ وہ خدا کے بندے تھے۔‘‘

حضرت عبد اللہ بن عمر کا استدلا ل سورۂ بقرہ کی اس آیت سے ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے مشرکین کی عورتوں سے نکاح سے منع کیا ہے:

وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰي يُؤْمِنَّﵧ وَلَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَيْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّلَوْ اَعْجَبَتْكُمْ.( ۲: ۲۲۱)
’’ اورمشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بے شک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے، اگرچہ وہ تمھیں پسند ہو۔‘‘

موجودہ دور میں اس رجحان کے نمایندگان کی دلیل یہ ہے کہ اب اہل کتاب خاص طور پر مسیحی اپنے صحیح دین پر عامل نہیں رہے۔سیکولر مادیت کا رجحان اس پر اس قدر غالب آچکا ہے کہ مذہب کے بنیادی حقائق اور اساسی تصورات پر ان کا یقین باقی نہیں رہا۔ اس طرح اصل مسیحیت گم ہوچکی ہے۔بنا بریں، ا ن کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کوجائز قرارنہیں دیا جاسکتا۔بعض اصحاب علم کی راے یہ رہی ہے کہ اس سے مراد وہ اہل کتاب ہیں جو غیر محرف مذہبی کتابوں کے پیروکار ہیں، لیکن یہ نہایت کم زور بات ہے۔ علامہ رشید رضا ’’تفسیر المنار‘‘ میں لکھتے ہیں:

قد أحل أکل طعام أهل الکتاب ونکاح نسائهم علی الحال التي کانوا علیها في زمن التنزیل وکان هذا من آخر ما نزل من القرآن. وقد وصفهم بأنهم حرفوا کتبهم ونسوا حظًا مما ذکروا به في هذہ السورة نفسها کما وصفهم فیما نزل قبلها ولم یتغیر یوم استنبط الفقهاء تلک المسألة شيء من ذلك. (۶/ ۱۷۹)
 ’’اہل کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کواس حال کے باوجود جائز قراردیا گیا جس حال پرنزول قرآن کے زمانے میں وہ تھے۔ قرآن کی یہ آیت جس میں اہل کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکا ح کوحلال قراردیا گیا ہے،نزول قرآن کے آخری دور سے تعلق رکھتی ہے۔ قرآن کے مطابق اہل کتاب اپنی کتابوں میں تحریفات کے مرتکب ہوئے اور احکام خداوندی کے بڑے حصے کو انھوں نے بھلادیا تھا، اسی کا ذکر اسی سورت میں موجود ہے۔اہل کتاب کے اوصاف کا ایسا ہی بیان سورۂ مائدہ سے قبل نازل ہونے والی آیات قرآنی میں موجود ہے۔ اور اس بیان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی تھی، (یعنی اس کا کوئی حصہ منسوخ نہیں ہوا تھا) جب فقہا نے اہل کتاب کے ذبیحے اور ان کی خواتین کے ساتھ نکاح کے حلال ہونے کا مسئلہ مستنبط کیا۔‘‘

 ممکنہ درست موقف کیا ہے؟

ابن قدامہ ’’المغنی‘‘ میں لکھتے ہیں:

لیس بین أهل العلم اختلاف في حل حرائر نساء أهل الکتاب ومن روی عنه ذلك عمر و عثمان و طلحه و حذیفه و سلمان و جابر وغیرهم.(۹/ ۵۴۵)
’’اہل علم کے درمیان اہل کتاب آزاد خواتین کے ساتھ نکاح کے حلال ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت عمر، عثمان، طلحہ، حذیفہ، سلمان اور جابررضی اللہ عنہم سے اس کے حلال ہونے کا موقف مروی ہے۔‘‘

رئیس المفسرین حضرت عبداللہ ابن عباس کا موقف ہے کہ یہ آیت جس میں مشرک خواتین سے نکاح کو حرام قرار دیا گیا ہے، وہ سورۂ مائدہ کی مذکورہ آیت سے منسوخ ہے۔جہاں تک حضرت عبداللہ ابن عمر کے موقف کا سوال ہے تو بعض علما نے اسے تحریم کے بجاے کراہت پر محمول کیا ہے۔ ابن تیمیہ اور بعض دوسرے علما کی یہی راے ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ جس شدت کے ساتھ یہ قول ان سے مروی ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس کی حرمت کے ہی قائل تھے اور اس آیت(البقرہ۲۲۱) کو جس میں مشرکین کے ساتھ نکاح سے منع کیا گیا ہے، دوسری آیت (المائدہ۵)کا ناسخ تصور کرتے تھے، جس میں اس کی اجازت دی گئی ہے۔ ابن تیمیہ کے نزدیک حضرت ابن عمر کا قول کراہت پر محمول ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:

وقد روی عن ابن عمر أنه کرہ نکاح النصرانیة وقال: لا أعلم شرکاً أعظم ممن تقول: إن ربھا عیسٰی ابن مریم. وھو الیوم مذہب طائفة من أهل البدع وقد احتجوا بالآیة في سورة البقرة.(مجموع الفتاوی۱۴/ ۹۱)

اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اہل علم کا ایک طبقہ مطلقًا اس کے عدم جواز کا بھی قائل رہا ہے، لیکن مستند اہل علم اسے بدعت سے تعبیر کرتے تھے۔ چنانچہ فقۂ جعفری کا نقطۂ نظر وہی ہے جو حضرت عبداللہ ابن عمر کا ہے۔

  میرے خیال میں یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ اس حوالے سے علماے امت کے درمیان دو موقف رہے ہیں۔ دو مواقف کی تعبیر اس وقت درست ہوگی، جب کہ دوسرے موقف کے حاملین میں قابل ذکر علما کی ایک تعداد شامل ہو، حالاں کہ ایسا نہیں ہے۔ جہاں تک حضرت عبداللہ ابن عمر کے موقف کا معاملہ ہے تو اسے ان کے تفرد پر محمول کرنا چاہیے، جس کی مثالیں صحابۂ کرام کے یہاں بکثرت پائی جاتی ہیں، جیسے ابو طلحہ اولہ کھانے کو ناقض صوم تصور نہیں کرتے تھے اورحضرت حذیفہ طلوع آفتاب تک سحری کھانے کی گنجایش کے قائل تھے۔

 جوازو عدم جواز سے ہٹ کرایک رجحان ابتدا سے جواز کے ساتھ کراہت کارہا ہے۔ چنانچہ حضرت عمر نے حضرت حذیفہ سے فرمایا کہ وہ اپنی کتابی بیوی کو طلاق دے دیں۔حضرت علی سے بھی کراہت منقول ہے۔ اسی طرح تابعین میں عطاء بن رباح اور تبع تابعین و فقہاے مجتہدین میں حضرت امام مالک سے شدت کراہت کا قول مروی ہے، جب کہ ابن تیمیہ نے اکثر علما سے کراہت نقل کی ہے۔

 معاصرکتابی خواتین کے ساتھ نکاح کا حکم

اس موضوع پر گفتگو کی دوسری شق اور اس کامرکزی پہلو یہ ہے کہ موجودہ دور میں کتابی خواتین کے ساتھ نکاح کے جواز وعدم جواز کے حوالے سے ممکنہ درست موقف کیا ہوسکتا ہے؟ اس سوال کے پیدا ہونے کی مختلف وجوہات ہیں، جن میں سے اہم یہ ہیں:

یورپ میں اصلاح اور نشاۃ ثانیہ کی تحریک کے بعد مسیحیت کے مذہبی تصورات میں اساسی نوعیت کا تغیر پیدا ہو گیا ہے۔ مثلاً خدا کے حوالے سے ڈے ازم (Deism)کا تصور، جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کا فعال تعلق اس کائنات کے ساتھ باقی نہیں رہا۔ اس نے دنیا کی تخلیق تو ضرور کی ہے، لیکن اب نظام کائنات سے وہ دست کش ہوچکا ہے۔ اسی طرح غیر مشخص یا امپرسنل گاڈ (impersonal God) کا تصور، جس کا ماحصل یہ ہے کہ خدا کی ذات اس کائنات سے الگ نہیں ہے، بلکہ اس کا حصہ ہے۔ وہ کوئی مشخص ذات نہیں کہ ہر شخص اس سے اپنا تعلق قائم کرے اور اس سے دعائیں مانگے۔یہ تو تب ہے، جب کہ کم از کم خدا کے وجود کو تسلیم کیا جائے، ورنہ یورپ کی نشاۃ ثانیہ کے اکثر مفکرین ملحد و مادیت پرست رہے ہیں، جیسے نطشے، مارکس، فرائڈ،فیورباخ وغیرہ۔ اب اس وقت سیکولرازم نے الحاد کی ہی نہیں، بلکہ بقول کنیڈین فلاسفر چارلس ٹیلر الحاد کے دھماکا کی شکل اختیار کرلی ہے۔اس پہلو کا سب سے بہترین مطالعہ ٹیلر نے اپنی کتاب ’’ A Secular Age ‘‘میں کیا ہے۔

دوسری اہم وجہ یورپ کا سماج ہے۔ وحی کے بجاے مجرد اور تکنیکی عقل اور روحانیت سے مکمل پہلو تہی کے ساتھ محض سیکولر مادیت کی بنیاد پر یورپ میں جس اخلاقیات کو پروان چڑھانے کی کوشش کی گئی ہے، اس میں حیا و عفت کے تصورات بہت حد تک اباحیت میں گم ہو چکے ہیں۔

تیسری وجہ یہ ہے کہ اسلام میں کتابیہ سے شادی کا جواز اس سماجی سیاق سے تعلق رکھتا ہے جب اسلام کو ایک تہذیبی قوت حاصل تھی۔ وہ اپنا سیاسی و ثقافتی غلبہ رکھتا تھا، اس لیے کتابی خواتین کے حوالے سے یہ امید غالب تھی کہ وہ اسلامی ماحول میں اسلام کی خوبیوں سے متاثر ہو کر یا تو اسلام قبول کر لیں گی یا کم از کم شوہر اور بچوں پر زیادہ اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں نہیں ہوں گی،لیکن اب صورت حال بالکل تبدیل ہو چکی ہے۔ سیاسی و تہذیبی مغلوبیت کے شکار مسلمانوں کی اکثریت دوسروں کو اپنے اسلامی رنگ میں رنگنے کے بجاے اس کے غیر اسلامی رنگ میں رنگے جانے کی صلاحیت زیادہ رکھتی ہے۔ مغرب کی آزاد سوسائٹی میں بچوں کی اسلامی تربیت تو ویسے ہی ایک بڑا چیلنج ہے۔ایسی صورت میں، جب کہ ماں غیر مسلم ہو، اس کا یہ امکان بہت کم رہ جاتا ہے کہ اس تربیت کی کمی باپ سے پوری ہو جائے گی۔

ایسی صورت میں درست موقف یہ نظر آتا ہے کہ اہل کتاب خواتین سے نکاح جائز تو ہے، لیکن وہ جن شرطوں کے ساتھ مشروط ہے، ان کا وجود معدوم نہیں تو بہت حد تک مشکوک ضرور ہے۔اہل کتاب اور محصنات کے تصور میں شرط کے طور پر بظاہر یہ بات شامل ہے کہ کتابی خواتین سماوی دین کے بنیادی تصورات پر قائم ہوں اور یہ ہے کہ وہ عفیفہ اور پاک باز ہوں، جو آج مغربی معاشرے میں بہت کم ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ نص کے جواز کو محدود سے محدود تر رکھنے کی کوشش کی جائے۔

 مولانا امین احسن اصلاحی کا موقف اس حوالے سے بہت حد تک اعتدال پر مبنی ہے۔وہ متعلقہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں:

’’اگر ماحول اسلامی تہذیب و معاشرت کا ہو اور آدمی کسی نیک چال چلن کی کتابیہ سے نکاح کر لے تو اس میں مضائقہ نہیں لیکن کافرانہ ماحول میں جہاں کفر اور اہل کفر کا غلبہ ہو اس قسم کا نکاح چاہے اس آیت کے الفاظ کے خلاف نہ ہو لیکن اس کے فحویٰ، اس کی روح اور اس کے موقع و محل کے خلاف ضرور ہے۔...اسلام کے بہت سے قوانین دار الاسلام کی شرط کے ساتھ مشروط ہیں۔ اسی طرح بعض رخصتیں اور اجازتیں بھی خاص ماحول اور خاص حالات کے ساتھ مشروط ہیں۔‘‘ (تدبر قران ۲/ ۴۶۶)

ـــــــــــــــــــــــــ

[*]  اسسٹنٹ پروفیسر شعبۂ اسلامک اسٹڈیز، جامعہ ہمدرد،نئی دہلی۔ ای میل:[email protected]۔

B