[”نقطۂ نظر“ کا یہ کالم مختلف اصحاب فکر کی نگارشات کے لیے مختص ہے۔ اس میں شائع ہونے والے مضامین سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔]
مسلمانوں میں عام پھیلی ہوئی بات یہ ہے کہ بیت المقدس قبلۂ اول رہاہےاورتحویل قبلہ کے بعدکعبہ کو مستقل قبلہ بنایا گیا،مگرصاحب ’’مفتاح القرآن‘‘ کے نزدیک تحویل قبلہ والی روایات کم زورہیں اورتحویل قبلہ ہوا ہی نہیں، بلکہ کعبۃ اللہ ہی ہمیشہ قبلہ رہاہے۔ان کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے:
۱۔تحویل قبلہ کی روایات حضرت براء بن عازب سے مروی ہیں جوسب روایت ودرایت کے اعتبار سے کم زور ہیں۔[36]؎
۲۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ یامدینہ، دونوں جگہ ہمیشہ بیت اللہ کی طرف رخ کرکے ہی نماز پڑھی ہے۔ بعض انصاری صحابہ نے، البتہ بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز ضرورپڑھی ہے، اوراسی وجہ سے یہ تحویل قبلہ والی بات مشہورہوگئی ہے۔
۳۔ بیت المقدس توخودکعبہ رخ ہے،اسی طرح قدیم مسجدیں ــــــ مسجدصخرہ،مسجدنوح اورمسجدصالح ــــــ سب قبلہ رخ ہیں، پھربیت المقدس کو قبلہ ٔاول کہناکیسے درست ہوسکتاہے۔
۴۔’فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضٰىهَا‘ (البقرہ۲: ۱۴۴ )کا عام ترجمہ کہ ہم تمھارارخ تمھارے پسندیدہ قبلہ کی طرف پھیردیں گے، غلط ہے، کیونکہ ’وَلّیٰ یولّی تولیة‘ بغیرصلہ کے استعمال ہوتواس کا معنی والی بنانا ہوتا ہے،پھیرنے کے معنی میں اس کا استعمال ’الي‘ کے صلہ کے ساتھ کرتے ہیں۔اس لیے صحیح ترجمہ ہو گا: ہم تم کو تمھارے پسندیدہ قبلہ کاوالی بنادیں گے۔اسی طرح ’قَدْ نَرٰي تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ‘ (البقرہ۲: ۱۴۴) کاترجمہ یہ کرناکہ ’’ہم آپ کا باربارآسمان کی طرح رخ کرنادیکھ رہے ہیں ‘‘اس لیے صحیح نہیں کہ یہ ’تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَآءِ‘ کا ترجمہ ہے۔اس کا صحیح ترجمہ یہ ہے ’’ہم آسمان میں آپ کی بے چینی کا مشاہدہ کررہے ہیں۔یعنی تقلب ِ وجہ کنایہ ہے بے چینی واضطراب سے۔
۵۔قدیم مفسرین وعلما میں ابومسلم اصفہانی اورامام ابوالعالیہ ریاحی بھی اسی کے قائل تھے کہ قبلہ ہمیشہ کعبۃ اللہ رہاہے۔
۶۔تحویل قبلہ ہواہوتاتواس کے بعد مسجد نبوی اورمسجدقبامیں تعمیری تغیرات کیے جاتے جوضرورمنقول ہوتے، کیونکہ مسجدنبوی کے تمام تعمیری تغیرات تواترسے منقول ہوتے آرہے ہیں۔تحویل قبلہ کی یہ بحث تفسیر میں تقریباً ۲۰ صفحات میں آئی ہے اوراہل علم کے مطالعہ کے لائق ہے۔[37]؎
متعددآیات کے ترجمہ میں بھی مفسرگرامی نے الگ ہی راہ اپنائی ہے۔مثال کے طورپر’لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَّمِنْهَاجًا‘ (المائدہ ۵: ۴۸ ) کا ترجمہ یوں کیاہے: (اے لوگو)تم میں سے ہرایک کے لیے ہم نے ایک ہی گھاٹ اورایک ہی سڑک کا تقرر کردیاہے۔[38]؎ دوسرے مفسرین و علما یہ کہتے ہیں کہ اس میں ہرقوم کے لیے الگ مذہب وطریقہ کا بیان ہے۔جوظاہرہے کہ نصوص شریعت سے متصادم ہے۔ اسی طرح اوربہت ساری آیات ہیں، جن کاترجمہ مصنف علام نے دوسرے مترجمین و مفسرین سے الگ کیاہے۔
عام طورپر یہ مشہورہے کہ قرآن میں دوقسم کی آیتیں ہیں: محکم و متشابہ۔پھرمحکم و متشابہ کی الگ الگ تشریح کی جاتی ہے اوراس بارے میں مبنیٰ سورۂ آل عمران (۳) کی ساتویں آیت ’هُوَ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‘ کوبنایاجاتاہے، مگرعلامہ میرٹھی اس عمومی راے سے اتفاق نہیں کرتے؛ وہ کہتے ہیں کہ قرآن توپورامحکم ہے، جیساکہ خودقرآن ہی میں کئی جگہ فرمایا گیا ہے، مثلاً ایک جگہ ہے: ’كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ثُمَّ فُصِّلَتْ مِنْ لَّدُنْ حَكِيْمٍ خَبِيْرٍ‘ (ہود ۱۱: ۱): الف لام را ایک حکمت والی باخبرہستی کے پاس سے آئی ہوئی کتاب جس کی آیتوں کو پختہ کیاگیاہے، پھر الگ الگ (سلسلۂ بیان میں) ٹانکاگیاہے۔جب اس کی آیات محکم ہیں تو پھر متشابہ کاسوال کہاں اٹھتاہے۔اس لیے ان کی راے یہ ہے کہ قرآن کریم توپورامحکم ہے،بقیہ صحف سماویہ متشابہ ہیں۔چنانچہ مذکورہ بالا آیت ’هُوَ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ عَلَيْكَ الْكِتٰبَ مِنْهُ اٰيٰتٌ مُّحْكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ، وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‘ کا ترجمہ وہ یوں کرتے ہیں: وہی ہے جس نے (اے نبی ) تجھ پر اپنی طرف سے کتاب نازل فرمائی ہے،وہ محکم آیتیں ہیں جو خدائی کتابوں کی جامع ومرکزہیں اوردیگرکتابیں، یعنی بائیبل کے صحیفے حق وباطل آمیز ہیں۔اس تفسیرکے مطابق ’هُنَّ اُمُّ الْكِتٰبِ‘پر وقف کرناچاہیے اور ’وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‘کو الگ فقرہ کی طرح پڑھاجاناچاہیے۔[39]؎
سورۂ آل عمران میں ’وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‘کی تفسیرمیں تورات و انجیل، دونوں کی استنادی حیثیت پر طویل گفتگو خودبائیبل اور ’’انسائیکلوپیڈیا بریٹانیکا‘‘ کے حوالہ سے کی ہے۔[40]؎
سورۂ انعام میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ذکرمیں اس سلسلۂ آیات میں کئی جگہ ’هٰذَا رَبِّيْ‘ آیاہے، جس کو عام طورپر مفسرین حضرت ابراہیم کا قول مان لیتے ہیں اوراس پر ہونے والے اعتراض کہ ایسا شرکیہ جملہ کسی نبی سے کیسے صادرہوسکتاہے،کی دورازکارتاویلیں کرتے ہیں۔مولانامودودی نے اس با ت کو حضرت ابراہیم کا اس وقت کا قول بتادیا ہے جب وہ تلاش حق کے دورسے گزررہے تھے، مگرسوال یہ ہے کہ کیاانبیا اس دور سے گزرا کرتے ہیں ؟ ان کو تو زندگی کے ہردورمیں حق تعالیٰ کی نگرانی ومعیت حاصل رہتی ہے، اگرچہ خودان کو اس کا شعورنہ ہوتاہو۔علامہ میرٹھی نے اس کی تفسیر یوں کی ہے:
فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ الَّيْلُ رَاٰ كَوْكَبًاﵐ قَالَ هٰذَا رَبِّيْﵐ فَلَمَّا٘ اَفَلَ قَالَ لَا٘ اُحِبُّ الْاٰفِلِيْنَ. فَلَمَّا رَاَ الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هٰذَا رَبِّيْﵐ فَلَمَّا٘ اَفَلَ قَالَ لَئِنْ لَّمْ يَهْدِنِيْ رَبِّيْ لَاَكُوْنَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّآلِّيْنَ. فَلَمَّا رَاَ الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هٰذَا رَبِّيْ هٰذَا٘ اَكْبَرُﵐ فَلَمَّا٘ اَفَلَتْ قَالَ يٰقَوْمِ اِنِّيْ بَرِيْٓءٌ مِّمَّا تُشْرِكُوْنَ. (الانعام ۶: ۷۶- ۷۸ )
’’پس جب اس پر رات چھاگئی تواس نے، یعنی آذر نے آسمان پر ایک ستارہ دیکھا، بولا: یہ میرارب ہے پس جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہا: میں چھپ جانے والے کو پسندنہیں کرتا۔پس جب آذر نے چاندکو روشن دیکھا تو بولا: یہ میرا رب ہے میں اس کی عبادت کرتاہوں، جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہا: میں قسم کھاکر کہتا ہوں کہ اگرمیرارب مجھے راہ راست نہ دکھائے تویقیناًمیں گم راہ لوگوں میں سے ہوجاؤں گا‘‘ اس کے بعدجب آذر نے سورج کو چمکتا دمکتا دیکھابولا: یہ میرارب ہے یہ (میراسب سے) بڑامعبودہے۔پس جب وہ چھپ گیاتوابراہیم نے کہا: اے میری قوم، بے شک میں تمھارے شرک سے بے زارہوں (ان چیزوں سے بے زار ہوں جنھیں تم شریک کررہے ہو۔‘‘
اس کے بعدلکھتے ہیں:
’’ان آیات میں فعل ’رأ‘ کا فاعل اور ’هذا ربی‘ کا قائل حضرت ابراہیم کا باپ آذرہے جیساکہ میں نے ترجمہ میں واضح کردیا ہے،کیونکہ ان آیات میں حضرت ابراہیم علیہ السلام اورآذرکا مکالمہ نقل کیاگیاہے۔اوربادنیٰ تامل ہرقول اپنے قائل کی طرف راجع ہوجاتا ہے۔‘‘
اس کے بعدانھوں نے اس کے نظائرقرآن سے نقل کیے ہیں۔اوریہ بھی واضح کیاہے کہ باپ بیٹے کے درمیان یہ بلیغ مکالمہ اور ڈائیلاگ مختلف اوقات میں اورمختلف جگہوں پر ہواہوگا،قیاس کہتاہے کہ یہ گفتگوزہرہ دیوی، چندرما دیوتااورسورج دیوتاکے مندروں میں ہوئی ہوگی جن کو ابراہیم کی قوم پوجتی تھی۔[41]؎
واقعۂ افک کے سلسلہ میں مصنف کی تحقیق یہ ہے کہ حضرت عائشہ پر الزام کا شوشا روافض کا چھوڑا ہوا ہے، ورنہ منافقین نے تودراصل تمام مومن عورتوں سے متعلق اسکینڈل پیداکرنے کی کوشش کی تھی۔آیات کی داخلی شہادت بھی یہی ہے۔اورجتنی روایات اس سلسلہ میں آئی ہیں (بشمول بخاری کی روایات کے ) کوئی بھی علت قادحہ سے خالی نہیں۔بخاری کی روایات میں متعددباتیں زہری کی مرسلات میں سے ہیں، جن کی اہل علم کے نزدیک کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ ان کا کہنا ہے: ’مرسلات الزهری شبه کا الریح‘ (زہری کی مرسل روایتیں ہوائی ہوتی ہیں،تہذیب التہذیب) پھرتاریخی طورپر بھی ان روایات میں سقم پایاجاتاہے۔[42]؎
خاک سارمقالہ نگارکا خیال یہ ہے کہ روایات بے شک ضعیف و کم زورہوسکتی ہیں، مگر خود سورۂ نورکی ابتدائی آیات خاص کر آیت ۱۳ ’لَوْلَا جَآءُوْ عَلَيْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ‘ کااشارۃ النص یہ بتاتاہے کہ اس طرح کا کوئی بڑاواقعہ ہوا تھا، جس کی طرف اشارہ کیاجارہاہے، کیونکہ کسی عمومی اسکینڈل اورپروپیگنڈے پر چارگواہوں کی طلبی کے کوئی معنی نہیں۔والعلم عند اللّٰه۔
مفسرگرامی نے دیگرصحف سماویہ بائیبل و توریت کا بھی گہرامطالعہ کیاتھا اوراپنی تفسیرمیں جابجاان کے حوالے بھی دیے ہیں۔سلیمان وداؤد علیہماالسلام کے قرآنی قصہ کا تقابل بائیبل کے بیانات سے کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’حضرت داؤد وسلیمان علیہ السلام اللہ کے نیک ومقبول بندے اورنبی تھے اورساتھ ہی بڑی شان و شوکت والے بادشاہ بھی۔اوران کی بادشاہی تمام حکمرانوں کے لیے اعلیٰ نمونہ ہے،اللہ کی دی ہوئی قوت کو انھوں نے دین حق کی ترویج وتبلیغ میں ہی صرف کیاتھا، مگرداؤدوسلیمان کا ذکراسرائیلی کتابوں میں پڑھیے توان میں اوردنیاکے دیگرجباروں میں کوئی فرق نظرنہ آئے گا۔ ملکۂ سباکا حضرت سلیمان سے ملاقات کے لیے آنا اسرائیلی کتابوں میں بھی مذکورہے، مگراس میں غلط اور گندی باتوں کی آمیزش ہے۔بائیبل کے صحیفہ سلاطین میں یہ قصہ جس طرح لکھاہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ سلیمان کی شہرت سن کر مشکل سوالوں سے اسے آزمانے کے لیے آئی۔سب سوالوں کا جواب باصواب پاکراورسلیمان کی شان وشوکت ان کے خدام کی تہذیب اور سج دھج دیکھ کردنگ رہ گئی اوراعتراف کیاکہ میں نے آپ کو جیساسناتھا اس سے کہیں بڑھ کرپایا۔نیز اس نے سلیمان کو ایک سوبیس قنطار سونا، اورالائچی وغیرہ بہت بڑی مقدارمیں نذرکیا۔سلیمان نے بھی جواباً اسے بہت کچھ تحائف سے نوازا۔پھروہ اپنے ملازمین سمیت اپنی مملکت کو واپس ہوگئی۔‘‘ (سلاطین باب ۱۰)
اس میں نہ ہدہدکا ذکرہے، نہ ملکہ کی آفتاب پرستی کا، نہ حضرت سلیمان کے خط کا اور نہ ملکہ کے تخت کا۔ اور صحیفۂ ربیون میں یہ سب باتیں تو ہیں، لیکن اس میں توحیدوخداپرستی وشکر حق کی کوئی بات مذکورنہیں۔یہ ضرور ہے کہ سلیمان نے معاذ اللہ ملکۂ بلقیس سے زنا کیا، اسے حمل رہ گیا۔ اس ناجائز حمل کی نسل سے بابل کا بادشاہ بخت نصر پیدا ہوا تھا (جیوش انسائیکلوپیڈیا ۱۱/ ۴۴۳)۔ اسی کتاب کے صفحہ ۴۳۹ - ۴۴۱ میں حضرت سلیما ن پر احکام تورات کی خلاف ورزی،غرورحکومت،غرورعقل،زن مریدی،عیاشی اورشرک وبت پرستی کے الزامات مذکور ہیں۔ اوربائیبل کی کتاب سلاطین میں لکھاہے کہ’’ سلیمان مشرک عورتوں کے عشق میں گم ہوگیا،اس کا دل خداسے پھر گیا تھا اوروہ خداکے سوادوسرے معبودوں کی طرف مائل ہوگیا‘‘۔اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کے ذریعے سے حضرت داؤدوحضرت سلیمان علیہماالسلام کی پاکیزہ سیرت منظرعام پررکھ دی ہے اورتمام دھبوں کو دھو ڈالا ہے، جودروغ باف یہودیوں نے ان بزرگوں کی سیرت پر لگائے تھے۔[43]؎
اس کے علاوہ بھی مفسرگرامی نے اپنی تفسیرمیں بائیبل اورقرآن کے بیانات کا جگہ جگہ تقابل کیاہے۔مثال کے طور پر قصۂ نوح کا بائیبل کے بیانات سے تقابلی مطالعہ ملاحظہ ہو:
’’مناسب معلوم ہوتاہے کہ بائیبل عہد نامہ ٔ قدیم کے سفر تکوین، یعنی کتاب پیدایش میں یہ قصہ جس طرح آیا ہے ناظرین اسے بھی دیکھ لیں، میں اس کا خلاصہ نقل کررہاہوں: روے زمین پر آدمیوں کی کثرت ہوئی اور ان سے بیٹیاں پیداہوئیں،خداکے بیٹوں نے انھیں دیکھاتوان پر فریفتہ ہوکرانھیں اپنی جورو بنالیا ان سے بیٹے پیدا ہوئے۔ یہ بڑے جبار و نام ور اشخاص ہوئے، ان میں بدی بہت پھیل گئی تب خداوند زمین پر انسان کے پیدا کرنے سے پچھتایا اور نہایت دل گیر ہوا اور اسے مٹانے کا پختہ ارادہ کر لیا بجز نوح کے،وہ خداکو پسندتھا۔‘‘
اس پر ان کا نوٹ ہے:
’’دیکھاآپ نے اس بیان کے مطابق قوم نوح کے لوگ انسان نہ تھے،خداکے بیٹوں اور انسانوں کی بیٹیوں سے پیداہوئے تھے۔[44]؎الخ یہ تقابلی نوٹ کافی طویل ہے اورچارصفحات تک چلاگیاہے۔‘‘
یونس علیہ السلام کے قصہ میں عام طورپر مشہورہے کہ وہ مدتوں اپنی قوم کودعوت حق دیتے رہے اورقوم کی سرکشی اورایمان نہ لانے سے ناراض ہوکران کو عذاب کی دھمکی دے کراوربغیراذن خداوندی کے ا ن کے ہاں سے نکل گئے اوران کے غائبانہ میں قوم پر عذاب آیا، جسے دیکھ کر قوم تائب ہوگئی۔ادھرحضرت یونس جس کشتی میں سوارہوئے، وہ نہ چلی اورڈبکیاں کھانے لگی۔ لوگوں نے کہاکہ کوئی غلام اس پر اپنے آقاسے بھاگ کر آگیا ہے، اس لیے یہ نہیں چل رہی ہے۔آخر یونس کوکشتی والوں نے دریامیں ڈال دیااورحکم حق سے مچھلی آپ کو نگل گئی۔جب مچھلی نے بحکم حق آپ کوکنارہ پر ڈال دیاتوصحت یاب ہوکروطن واپس آئے اورقوم نے محبت و عقیدت سے استقبال کیا وغیرہ۔علامہ میرٹھی اس قصہ کوغلط سمجھتے ہیں،ان کا کہناہے کہ حضرت یونس کے نبی بنائے جانے سے پہلے کا یہ قصہ ہے کہ وہ کسی بات پرناراض ہوکراپناوطن چھوڑکرنکل گئے ہوں گے۔اورکشتی میں بیٹھے ہوں گے، جوزیادہ بوجھ ہوجانے کی وجہ سے ڈبکیاں کھانے لگی ہوگی اورحضرت یونس کا پیر پھسلا ہوگا اور وہ دریا میں جاگرے ہوں گے۔جہاں ان کو مچھلی نے اللہ کے حکم سے نگل لیا۔اوراس کے بعدجب مچھلی نے ان کوکنارے پرڈالا،جہاں وہ کچھ دنوں بعدصحت مندہوئے ہوں گے تب ان کو نبی بناکرقوم کے پاس بھیجاگیاہے، کیونکہ اسی سیاق میں قرآن نے کہاہے: ’وَاَرْسَلْنٰهُ اِلٰي مِائَةِ اَلْفٍ اَوْ يَزِيْدُوْنَ‘ اور ہم نے ان کوایک لاکھ سے زایدلوگوں کی طرف بھیجا(الصافات۳۷: ۱۴۷)۔یعنی مچھلی والی آزمایش سے گزرنے کے بعد۔ مشہور عام قصہ پرنقدکرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں:
’’لیکن حضرت یونس کا قصہ اس انداز میں نہ قرآن میں مذکورہے نہ کسی صحیح حدیث میں نہ بائیبل میں۔ اورمیں اسے بچندوجوہ غلط سمجھتا ہوں، اس لیے کہ:
ا۔ کسی نبی کے متعلق یہ تصورنہیں کیاجاسکتاکہ اس نے اللہ کے حکم کے بغیرقوم کو کوئی بات بتائی ہو۔
ب۔ ہررسول نے اسی وقت ہجرت کی ہے جب اللہ نے اسے ہجرت کرنے کا حکم دیا،یہ جاننے کے باوجودحضرت یونس اللہ کے اذن کے بغیرہجرت کیسے کرسکتے تھے؟
ج۔ قرآن کریم میں دوجگہ قوم یونس کے ایمان لے آنے کا ذکرہے سورۂ یونس میں اورسورۂ صافات میں اورکہیں بھی یہ مذکورنہیں کہ قوم یونس نے اولاً کفر و تکذیب کی روش اختیارکی تھی جیساکہ اس داستان میں مذکورہے،نہ قرآن میں نہ حدیث صحیح میں نہ بائیبل میں۔
د۔ مالک کے پاس سے بھاگا ہوا غلام کشتی میں بیٹھ جائے اوروہ نہ چلے یہ نامعقول بات کیسے مان لی جائے؟[45]؎‘‘
عام طورپر یہ مشہورہے کہ سلیمان علیہ السلام کی وفات کا کوئی پتا نہیں چلا تھا اور وہ جنوں کے ذریعے سے اپنے تعمیری کاموں کی نگرانی کررہے تھے، تبھی ان پر موت طاری ہوگئی اورجنوں کواس کا پتا اس وقت چلاجب ان کے عصاکوگھن نے کھالیااوروہ گرگئے۔مصنف نے اس قصہ کا انکارکیاہے۔ان کی تحقیق یہ ہے کہ سلیمان علیہ السلام کی موت طبعی طورپر ہوئی تھی۔وہ بادشاہ تھے،یہ بالکل مستبعدہے کہ عرصہ ٔدرازتک عصاکی ٹیک لگا کے وہ کھڑے رہے ہوں اوراس درمیان ان کے حرم اوران کے دربارمیں سے کسی کوپتا نہ چلے !مصنف کے نزدیک ’تَاْكُلُ مِنْسَاَتَهٗ‘ سے مرادسلیمان کا بیٹا رجعام ہے جونالائق تھااوراس کی نالائقی کے باعث سلیمانی سلطنت کا قصردھڑام سے گرگیا۔[46]؎
تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ کی ایک خصوصیت جس نے اس تفسیرکو ثقیل اورعام تعلیم یافتہ یاغیرعربی داں لوگوں کے لیے مشکل بنادیاہے، وہ صرفی ونحوی مباحث ہیں،جن کا مصنف نے بڑی باریک بینی اورجزرسی کے ساتھ اہتمام کیاہے۔اس کا خیال ان کوتھا اوراسی لیے اپنی تفسیرکے مقدمہ میں رقم طراز ہیں :
’’البتہ کہیں کہیں ضرورۃًاس میں کوئی فنی بات بھی آگئی ہے جیسے ترکیب یالغوی وصرفی تحقیق۔ظاہرہے کہ وہ عربی داں حضرات ہی کے سمجھنے کی چیز ہے،غیرعربی داں حضرات مطالعہ میں اِس سے صرف نظر کر جائیں یاکسی عربی داں سے پوچھ کرسمجھ لیں ‘‘۔[47]؎
اصل میں متقدمین کی تفاسیرمیں یہ چیز بالکل عام ہے اورسلف میں کم و بیش ہر مفسر اس کا اہتمام کرتا رہا ہے۔ خاص طور پر ابوحیان اندلسی نے اور زمخشری نے اس کا بہت اہتمام کیاہے۔سلف کی متابعت میں علامہ میرٹھی نے بھی پوری تفسیرمیں اِس کا بہت زیادہ اہتمام کیاہے، کیونکہ ان کے سامنے علما وطالبا ن علوم عربیت رہے ہیں۔اوران کے خیال میں قرآنی آیات کی صرفی تحقیق اورنحوی ترکیب صحیح فہم کے لیے نہایت ضروری ہیں۔کتنے ہی مقامات ہیں جہاں صحیح ترکیب سمجھ میں نہ آنے سے لوگوں نے معنی کچھ کے کچھ بنا دیے ہیں۔اس بارے میں علامہ کو زیادہ شکوہ صاحب تفہیم سے تھا،جو ان کے نزدیک عربیت کے اورصرف و نحو کے اغلاط سے بھری پڑی ہے۔تاہم راقم کے خیال میں مولانامودودی کا مخاطب طبقہ عصری طبقہ اورعوام تھے،جن کو ان دقیق مباحث سے کوئی سروکارنہ تھا۔یہی وجہ ہے کہ ’’تفہیم القرآن‘‘ عام فہم ہے اور ’’مفتاح القرآن‘‘ اپنی ساری خوبیوں کے باوجودعصری طبقہ کے لیے مشکل بن گئی ہے۔تاہم طالبان قرآن اور علما ومحققین کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیرہے۔
تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ سے ہم نے یہ کچھ مثالیں اورنمونے پیش کیے ہیں اورہمیں احساس ہے کہ قارئین بوجھل ہوجائیں گے،اسی وجہ سے انھی مثالوں پر اکتفاکررہے ہیں، ورنہ مصنف کے اجتہادات،تفسیری روایات کی تحقیقات اورنئے نئے معانی و مفاہیم کا ایک بڑاذخیرہ ہے، جس سے یہ تفسیرمالامال ہے۔یہ چندمثالیں تومشتے نمونہ ازخروارے کی حیثیت سے نقل کردی ہیں، ورنہ اس تفسیرمیں ایسے صدہا مقامات ہیں جہاں مفسرگرامی نے متقدمین ومتاخرین کی تفسیرکو قبول نہیں کیااوراپنی الگ ہی تشریح پیش کی ہے۔اس سلسلہ میں انھوں نے نقل صحیح، نقد حدیث،درایت، عربیت کے اسلوب،نظم کلام اورقلب سلیم سے کام لیاہے۔،تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ کے اس سرسری سے مطالعہ سے صاحب تفسیرکی یہ بات مبرہن ہوکرسامنے آتی ہے کہ ’’لیکن متقدمین و متاخرین کی اِن تمام قابل قدرومستحق احترام مساعی کے باوجودیہ خیال کرلینامناسب نہ ہوگاکہ قرآن کریم کے متعلق ترجمہ وتفسیرکا اردویاعربی یاکسی بھی زبان میں اتناکام ہوچکاہے کہ اب ایک نیاترجمہ یاایک نئی تفسیرشائع کردینا وقت اور محنت کا صحیح مصرف نہیں ہے۔واقعہ یہ ہے کہ جوکچھ ہواہے، و ہ بہت کم اورناکافی ہے۔اس بارے میں مسلسل محنت کرنے اورکوشش کرنے اورکرتے رہنے کی ضرورت ہے ‘‘۔[48]؎
مقالہ نگارکے نزدیک اس تفسیرمیں بعض کم زورپہلوبھی ہیں۔مثال کے طورپر:
۱۔تفسیرمیں شروع کے حصوں میں بہت اطناب وتفصیل ہے، جوبعض اوقات قاری کواکتاہٹ میں مبتلا کر دیتی ہے۔
۲۔اکثرآیات کی نحوی وصرفی ترکیب کی گئی ہے،جوظاہرہے کہ صرف عربی داں حضرات کے کام کی ہی ہوسکتی ہے۔زیادہ مناسب یہ ہوتاکہ متن تفسیرکے بجاے حاشیہ لگاکران میں یہ کام کیاجاتاتاکہ عام قاری اپنا تسلسل برقراررکھتااورجس کودل چسپی ہوتی، وہ حاشیے کودیکھ لیتا۔
۳۔ اکثرایساہواہے کہ مؤلف نے تفسیری روایات کی تحقیق وتنقیح میں بھی بہت اطناب وتفصیل سے کام لیاہے۔ مثال کے طورپرقرآن میں اہل بیت کون ہیں؟ اِس کی تفصیل میں انھوں نے ان تمام روایات پر کلام کیاہے جو تفسیر و حدیث کی کتابوں میں مروی ہیں اورحضرات علی،فاطمہ وحسن وحسین کوبھی اہل بیت میں شامل کرتی ہیں۔[49]؎
راقم خاک سارکے نزدیک اس تفسیرکی بڑی خوبی یہ ہے کہ وہ صرف قرآن کو محوربناتی ہے۔صحیح حدیث کو اس کی تشریح سمجھتی ہے،باقی چیزوں اور دوسرے علوم کو اس میں زبردستی نہیں گھسیڑا گیا ہے۔اس میں نہ بہت زیادہ فقہی مباحث ہیں، نہ ہی وہ کلامی مباحث سے بوجھل ہے اورنہ اس میں بے جا صوفیانہ وعارفانہ نکتہ طرازی کی گئی ہے۔ نہ اس میں فلسفہ ومنطق یاجدیدسائنس کی معلومات بھردی گئی ہیں، بلکہ مصنف نے قرآن سے جو سمجھا ہے، اسی کو لکھ دیاہے۔البتہ جولکھاہے، وہ خوب چھان پھٹک کراورتحقیق وتفتیش کے بعد لکھا ہے۔نیز اس کی زبان بڑی دل آویز،رواں،سادہ اوردل کش ہے۔
اس سرسری سے مطالعہ سے یہ بات بھی واضح ہے کہ تفسیر ’’مفتاح القرآن‘‘ ایک جلیل القدرعلمی تفسیر ہے، بلاشبہ اس میں ظاہرکی گئی بہت سی رایوں سےاختلاف کیاجاسکتاہے اوراختلاف کرنااہل علم کا حق ہے، مگر یہ ضرور ہے کہ یہ تفسیرکتاب الہٰی کے بہت سے معانی سے پردہ اٹھاتی،بہت سے نئے مباحث اٹھاتی اورنئے نکات سجھاتی ہے۔قرآن کے طالبوں کے لیے اس کا مطالعہ ناگزیرہے۔اوربلاشبہ اس تفسیرمیں مصنف نے وہی سمجھانے کی کامیاب کوشش فرمائی ہے جو آیات قرآن کا مطلب ومعنی ہے۔اورجو بات بھی لکھی ہے، نہایت تحقیق اورشرح صدرکے ساتھ لکھی ہے۔
مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تفسیر ’’جلالین‘‘ کے طرز پر لکھی تھی، یعنی پہلے ایک آیت ذکر کرتے، پھر اس کا ترجمہ اور تفسیر بھی ساتھ ساتھ کردیتے۔عصرحاضرکے مذاق علمی کوسامنے رکھتے ہوئے خاک سارمقالہ نگار نے اس کونئے سرے سے ترتیب دیاہے۔اب اس میں یہ ترتیب اختیارکی گئی ہے کہ پہلے ایک رکوع متن قرآن کا دیاگیا، اس کے بعداس کا ترجمہ پھرمتعلقہ آیات کی تفسیرکی گئی ہے۔ فاؤنڈیشن فاراسلامک اسٹڈیز نئی دہلی کوشش کررہاہے کہ کتاب عزیز کی اس جلیل القدرتفسیرکو جلد از جلدمنظرعام پر لائے تاکہ قرآنی مطالعات و تحقیقات کاایک نیاباب روشن ہواورطالبان قرآن ایک نئی روشنی میں اپناسفرطے کریں۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[36]؎ واضح رہے کہ تفسیر میں انھوں نے تمام روایات کا ایک ایک کرکے جائزہ لیاہے۔
[37]؎ ملاحظہ ہو: مفتاح القرآن ۱/ ۲۹۳- ۳۰۸، طبع ثانی۔
[38]؎ مرادہے قرآن وسنت،مصنف مقالہ ۔
[39]؎ ملاحظہ ہو: مفتاح القرآن ۱/ ۵۸۹، طبع ثانی۔
[40]؎ ملاحظہ ہو: مفتاح القرآن ۱/ ۵۹۰، طبع ثانی۔
[41]؎ ملاحظہ ہو: مفتاح القرآن ۱/ ۳۹۳، طبع ثانی۔
[42]؎ واقعۂ افک کی پوری تحقیق کے لیے ملاحظہ ہو: تفسیرمفتاح القرآ ن سورۂ نور ۴/ ۵۔ اس مسئلہ پر پاکستان کے حکیم نیاز احمدنے علامہ کی تحقیق سے استفادہ کرکے ایک ضخیم کتاب لکھی تھی، اگرچہ اپنے ماخذکا حوالہ انھوں نے نہیں دیا۔
[43]؎ علامہ میرٹھی،تفسیرمفتاح القرآن، جلدچہارم، سورۂ نمل آیات ۱۵ تا ۴۴ کی تشریح۔
[44]؎ علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن ۳/ ۱۱۹۔
[45]؎ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تفسیر مفتاح القرآن، جلد چہارم، سورۂ صافات آخری رکوع: ’وَاِنَّ يُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِيْنَ‘ کی تشریح۔
[46]؎ نیز وفات سلیمان علیہ السلام کی تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: علامہ میرٹھی کا مقالہ اشراق ڈیلس امریکہ جنوری ۲۰۲۴ء اوراس کا انگریزی ورژن فروری کے Ishraq میں شائع ہوا۔
[47]؎ علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن ۱/ ۱۳۔
[48]؎ علامہ میرٹھی ،تفسیرمفتاح القرآن ۱/ ۱۴۔
[49]؎ ملاحظہ ہو:تفسیر مفتاح القرآن، چوتھی جلد، تفسیر آیۂ اہل البیت سورۂ احزاب اورراقم کا مقالہ ’’قرآن میں اہل البیت سے کیامرادہے؟‘‘، اشراق لاہور، جنوری/ فروری ۲۰۲۴ء۔