[’’سیر و سوانح ‘‘ کے زیر عنوان شائع ہونے والے مضامین ان کے فاضل مصنفین کی اپنی تحقیق پر مبنی ہوتے ہیں، ان سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ ]
حضر ت معاذ بن عفرااپنی والدہ حضرت عفرا بنت عبید کی نسبت سے مشہور ہیں۔ ان کے والد کا نام حارث بن رفاعہ تھا۔دونوں کا تعلق یثرب کے قبیلے خزرج کی شاخ بنو نجار سے تھا۔ مالک بن نجارحضرت معاذ کے ساتویں، خزرج بن حارثہ گیارھویں اور ازد بن غوث انیسویں جد تھے۔ حضرت معاذ خزرجی اور انصاری کی نسبتوں سے جانے جاتے ہیں۔
حضرت عفرا بنت عبید کی شادی حارث بن رفاعہ سے ہوئی تھی، لیکن حضرت معاذ اور حضرت معوذ کی پیدایش کے بعد ان میں مباینت ہو گئی۔سفر حج کے دوران میں حضرت عفرا کی ملاقات بنو عدی کے حلیف بکیر (یاابو البکیر) بن عبدیا لیل سے ہوئی۔ ان میں سلسلۂ ازدواج قائم ہوا تو حضرت عاقل،حضرت عامر،حضرت خالد اور حضرت ایاس نے جنم لیا۔یہ سلسلہ ٹوٹا تو حضرت عفرا نے مدینہ مراجعت کی۔تب حارث نے بھی رجوع کیا اور عقد ثانی کے بعدحضرت عوف کی ولادت ہوئی (انساب الاشراف۱/ ۲۸۱)۔ حضرت عفرا نے اسلام قبول کر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت کر لی، لیکن حارث بن رفاعہ کے ایمان لانے کی اطلاع نہیں۔ ابن اسحٰق نے حضرت رفاعہ کو حضرت معاذ کا چوتھابھائی بتایا ہے (طبقات ابن سعد،رقم ۱۶۳۔سیر اعلام النبلا، رقم۷۲ )۔ واقدی کہتے ہیں: یہ بات ثابت نہیں۔ حضرت عفرانے ۱۴ھ میں وفات پائی۔
ہجرت سے قبل اوس کی شاخ بنو عمرو بن عوف کے سردار سوید بن صامت جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبدالمطلب کے خالہ زاد تھے، حج یا عمرہ کرنے آئے تو آپ نے ان سے ملاقات کی اور اسلام کی دعوت دی۔ انھوں نے کہا: میرے پاس لقمان کا نصیحت نامہ ہے، ہو سکتا ہے کہ آپ کے پاس ویسا ہی پند نامہ ہو۔آپ نے ان کا مجلہ سن کر قرآن کی تلاوت فرمائی تو انھوں نے تحسین کی۔ عام خیال ہے کہ وہ مسلمان ہو گئے۔سوید یثرب لوٹے تو مشہور روایت کے مطابق حضرت مجذربن زیاد نے انھیں قتل کر دیا، جس سے اوس وخزرج کے درمیان مشہور جنگ بعاث بھڑک اٹھی۔ہجرت کے بعد حضرت مجذر ا یمان لے آئے اورجنگ بدر میں شرکت کی۔ سوید کا بیٹا حارث بھی پردۂ نفاق میں مسلمان ہو گیا۔ جنگ احد میں اسلامی فوج میں شامل ہوا، لیکن جنگ کے دوران میں حضرت مجذر بن زیاد کو قتل کر کے اپنے باپ کا بدلہ لیا اور مکہ بھاگ کر مشرکین سے جا ملا۔بعدمیں ایک دن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، حارث بن سوید سرخ خون آلود کپڑے پہنے ہوئے مدینہ کے ایک احاطے سے برآمد ہوا۔آپ نے حضرت عثمان بن عفان کو حکم دیا تو انھوں نے حارث کوقتل کیا۔ ابن اسحٰق کی یہ روایت درست معلوم نہیں ہوتی کہ سوید بن صامت کو حضرت مجذر نے نہیں، بلکہ حضرت معاذ بن عفرا نے جنگ بعاث سے پہلے تیر پھینک کر مارا تھا۔
۱۲/ نبوی(جولائی ۶۲۱ء):حضرت معاذ بن عفرا بیعت عقبہ ٔاولیٰ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کرنے والے،انصار کے بارہ ’السابقون الأولون‘ میں شامل تھے۔ ۱۱؍ نبوی میں حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت عوف بن عفرا،حضرت رافع بن مالک، حضرت قطبہ بن عامر، حضرت عقبہ بن عامراور حضرت جابر بن عبداﷲ بن رئاب کو نعمت ایمان مل چکی تھی۔ ان اصحاب نے یثرب واپس جاکر اسلام کا پیغام اپنے احباب و اعزہ تک پہنچایاتو کئی جویاے حق ایمان لےآئے۔ ایک سال کے بعد، یعنی ۱۲/ نبوی کےحج میں حضرت جابر بن عبداللہ کے علاوہ ان میں سے پانچ صحابہ دوبارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ان کا ساتھ دیتے ہوئے حسب ذیل سات مزید اہل ایمان نے آپ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا: حضرت معاذبن عفرا(:ابن اثیر۔حضرت معوذ بن عفرا: ابن جوزی)، حضرت ذکوان بن عبد قیس، حضرت عبادہ بن صامت، حضرت یزید بن ثعلبہ، حضرت عباس بن عبادہ، حضرت ابوالہیثم بن تیہان اورحضرت عویم بن ساعدہ۔ حضرت ابو الہیثم اور حضرت عویم اوس سے تھے، جب کہ باقی دس صحابہ خزرج سے تعلق رکھتے تھے۔ عروہ بن زبیر اورزہری نے ۱۱/ نبوی میں ایمان لانے والوں کی تعداد آٹھ بتائی ہے اور حضرت معاذ بن عفرا کو ان میں شامل کیاہے۔
یہ بارہ ’السابقون الأولون‘ منیٰ میں کوہ ثبیر کی گھاٹی میں جمرۂ عقبہ کے پاس جمع ہوئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےدست مبارک پر بیعت کی۔آپ نے یہ آیت قرآنی تلاوت فرمائی: ’
وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ قَالَ وَمَنْ كَفَرَ فَاُمَتِّعُهٗ قَلِيْلًا ثُمَّ اَضْطَرُّهٗ٘ اِلٰي عَذَابِ النَّارِ وَبِئْسَ الْمَصِيْرُ‘، ’’اور یاد کروجب ابراہیم نے دعا کی: اے رب، تو اس کو امن کاشہر بنا دے اور اس میں رہنے والوں کو جو ان میں سے اللہ اور روز آخرت پر ایمان لائیں،ہر قسم کے پھلوں کا رزق دے۔ فرمایا: جو کفر کریں گے میں انھیں بھی تھوڑا فائدہ دوں گا، پھر انھیں آگ کے عذاب کی طرف دھکیلوں گا،اورو ہ بہت ہی برا ٹھکانا ہے‘‘ (البقرہ ۲: ۱۲۶)اور فرمایا: آؤ، اس بات پر میری بیعت کروکہ تم اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیراؤ گے، چوری نہ کرو گے، زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہ کرو گے،اپنے ہاتھوں پاؤں کے درمیان(اعضاے صنفی سے متعلق) کوئی بہتان نہ تراشو گے اور معروف میں میری نافرمانی نہ کرو گے۔ تم میں سے جو عہد پورا کرے گا،اس کا اجر اللہ کےذمے ہو گاا ور جس نے ان میں سے کوئی عہد شکنی کی اور اللہ نے اس کا پردہ رکھاتو اس کا فیصلہ اللہ کرے گا، چاہے سزا دے،چاہے معاف کر دے (بخاری، رقم ۱۸۔ احمد، رقم ۲۲۷۵۴۔مسند شاشی، رقم ۱۱۵۰ )۔
انصار کے ان بارہ ’السابقون الأولون‘ کی بیعت ایمان ’بیعت عقبۂ اولیٰ‘ کہلاتی ہے۔ اسے ’بیعت النساء‘ بھی کہا جاتا ہے، کیونکہ اس میں جہاد کا ذکر نہیں۔ وجۂ تسمیہ:صلح حدیبیہ کے بعد انھی الفاظ میں عور توں سے بیعت لی گئی۔
حضرت رافع بن مالک بیان کرتے ہیں: میں اور میرا خالہ زاد بھائی معاذ بن عفراعمرہ کرنے مکہ گئے توہماری ملاقات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہوئی۔ آپ نے فرمایا:تم پر واجب ہے کہ اپنے رب کی بندگی کرو۔ ہم نے کلمۂ شہادت پڑھ لیا تو آپ نے ہمیں سورۂ یوسف اور سورۂ علق سکھائیں(طبقات ابن سعد، رقم۱۶۱۔ البدایۃ والنہایۃ۳/ ۳۹۹)۔ابن اسحٰق کہتے ہیں: یہ واقعہ سب سے پہلے ایمان لانے والے چھ یا آٹھ انصار کی سبقت الی الایمان سے بھی پہلے پیش آیا، لیکن عام اہل سیر اس سے اتفاق نہیں کرتے۔ ایک اور روایت کے مطابق حضرت اسعد بن زرارہ،حضرت ذکوان بن عبد قیس اور حضرت ابوالہیثم بن تیہان کو پہلے اسلام لانے کا شرف حاصل ہوا۔
۱۲/ ذی الحجہ ۱۳/ نبوی(جولائی ۶۲۲ء)کی رات منیٰ کی گھاٹی میں جمرۂ اولیٰ کے مقام پر یثرب کے تہتر مردوں اور دو عورتوں نے اپنے بت پرست ساتھیوں سے چھپ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک پر بیعت کی۔ اسے بیعت عقبۂ ثانیہ کہتے ہیں۔حضرت معاذ بن عفرا، حضرت معوذ بن عفرا اور حضرت عوف بن عفرا، تین بھائیوں سمیت بنو نجار کے ان انصارنے بیعت میں حصہ لیا: حضرت ابو ایوب انصاری، حضرت عمارہ بن حزم ، حضرت اسعد بن زرارہ، حضرت سہل بن عتیک، حضرت اوس بن ثابت، حضرت ابو طلحہ انصاری، حضرت قیس بن ابو صعصہ اور حضرت عمرو بن غزیہ۔
بیعت کرنے والے اصحا ب نے آپ کو اور مکہ میں مقیم صحابہ کو یثرب چلنےکی دعوت دی اور عہد کیا کہ ہم لوگ آپ کی حفاظت کے لیے جانیں قربان کر دیں گے۔ اس موقع پر موجودعباس بن عبد المطلب نے کہا: محمد صلی اﷲ علیہ وسلم اپنے خاندان بنی ہاشم میں ہر طرح محترم اور با عزت ہیں۔اگر آخر تک ان کا ساتھ دے سکتے ہو تو لے جاؤ۔حضرت براء بن عازب بولے:ہم تلواروں کی گود میں پلے ہیں؛ جس سے آپ جنگ کریں گے، ہم اس سے جنگ کریں گے اور جس سے آپ صلح کریں گے، ہم اس سے صلح کریں گے۔ حضرت ابو الہیثم نے کہا: کہیں ایسا نہ ہو کہ جب اﷲ تعالیٰ آپ کو غلبہ عطا فرمائے تو آپ ہمیں چھوڑ کر مکہ واپس آ جائیں۔ آپ نے مسکراتے ہوئے جواب دیا: تم اطمینان رکھو، میرا جینا مرنا تمھارے ساتھ ہے۔ میں تمھارا ہوں اور تم میرے ہو۔حضرت اسعد بن زرارہ نے اپنے ساتھیوں کو متنبہ کیا: یہ بیعت عرب و عجم کے ساتھ اعلان جنگ ہے۔ انصار نے پرجوش لہجے میں جواب دیا: ہاں، ہاں،ہم لوگ اسی پر بیعت کر رہے ہیں۔
۱۲/ نبوی کاسال گزرنے کےبعد اسلامی ریاست کے آثار نظر آنے لگےتو نصرت دین اور اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے جہاد ضروری ہو گیا۔چنانچہ بیعت عقبۂ ثانیہ میں جہاد اور مملکت اسلامیہ کے دفاع کی شقیں شامل کی گئیں، اس لیے اسے ’بیعت الحرب‘ کہتے ہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےقرآن مجید کی آیات تلاوت فرمائیں،اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی اور اسلام کی طرف رغبت دلائی۔انصار نے سوال کیا:یا رسول اللہ، ہم کس امر پر آپ کی بیعت کریں؟ تو آپ نے فرمایا: مستعدی اورکسل مندی میں سمع و طاعت کی، تنگی اور کشادگی میں انفاق کی، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی،اس بات کی کہ تم اللہ کی راہ میں اٹھ کھڑے ہو گے،اللہ کے معاملے میں کسی ملامت گر کی ملامت سے نہ ڈرو گے، میری نصرت کرو گے جب میں تمھارے پاس آؤں گا،میرا دفاع کرو گے ان معاملات میں جن میں اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا دفاع کرتے ہو، بدلے میں تمھیں جنت ملے گی (احمد، رقم ۱۴۴۵۶۔ مستدرک حاکم، رقم ۴۲۵۱۔السنن الکبریٰ،بیہقی، رقم ۱۷۷۳۵۔المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۱۵۵۲۴۔صحیح ابن حبان، رقم ۷۰۱۲ )۔
ہجرت کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالک کے گھر پینتالیس مہاجرین ا ور پینتالیس انصار میں رشتۂ مواخات قائم کیا تو حضرت معاذ بن عفرا کو بدری صحابی حضرت معمر بن حارث جمحی کا انصاری بھائی قرار فرمایا۔دوسری روایت کے مطابق حضرت عمر بن خطاب حضرت معاذبن عفرا کے مہاجر بھائی قرار پائے (طبقات ابن سعد،رقم۵۶)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ تشریف لانے سے پہلے حضرت اسعد بن زرارہ نےاپنے دو یتیم بھتیجوں (ذہبی) حضرت سہل بن عمرواور حضرت سہیل بن عمرو کے کھجوریں خشک کرنے والے باڑے یا کھلیان میں مسجد بنائی تھی۔ اس میں بیت المقدس کی طرف رخ کر کے پانچوں نمازیں اور جمعہ پڑھایا جاتاتھا۔ ابن ہشام، طبری اور ابن کثیر کہتے ہیں:حضرت سہل اور حضرت سہیل حضرت معاذ بن عفرا کی کفالت میں تھے، جب کہ امام بخاری نے انھیں حضرت اسعد بن زرارہ کے زیر کفالت بتایا ہے (بخاری، رقم ۳۹۰۶)۔
جمعہ ۱۷/ رمضان ۲ھ (۱۳/ مارچ ۶۲۴ء): جنگ بدر کے دن تین سو تیرہ مسلمان دو گھوڑوں، ستر اونٹوں، چھ زرہوں اور آٹھ تلواروں کے ساتھ میدان کارزار میں اترے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم،حضرت علی اور حضرت مرثدنے باری باری ایک اونٹ پر سفر کیا، جب کہ حضرت معاذ، حضرت معوذ،حضرت عوف،تینوں بھائی اور ان کے غلام ابو الحمرا ایک او نٹ پر سواری کرتے ہوئے میدان بدر پہنچے۔کفار کا لشکر ساڑھے نو سو فوجیوں پر مشتمل تھا، سو گھوڑے، سات سو اونٹ،چھ سو زرہیں اورلا تعداد تلواریں اور بھالے ان کی حربی طاقت تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ کی رات اپنے رب کے حضور عجزو نیاز میں گزاری اوردعافرمائی: یارب، اپنا وعدہ سچ فرما، اگرمسلمانوں کی یہ جماعت ہلاک ہوگئی تو روے زمین پر تیری عبادت نہ کی جائے گی (مسلم، رقم ۴۶۰۹)۔ اللہ کی طرف سے ارشاد ہوا:’اَنِّيْ مُمِدُّكُمْ بِاَلْفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُرْدِفِيْنَ‘، ’’میں تمھیں کمک پہنچاؤں گا ایک ہزار فرشتوں کی، پے درپے‘‘ (الانفال۸: ۹)۔ عبداللہ بن ابی اپنے تین سو منافق ساتھیو ں کو لے کر واپس ہوگیا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو تسلی دی:’اَلَنْ يَّكْفِيَكُمْ اَنْ يُّمِدَّكُمْ رَبُّكُمْ بِثَلٰثَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُنْزَلِيْنَ‘، ’’کیا تمھارے لیے کافی نہیں کہ تمھارا پروردگار تین ہزارتازہ دم اتارے ہوئے فرشتوں سے تمھاری مدد کرے‘‘ ( آل عمران۳: ۱۲۴)۔ اللہ نے صبر اور تقویٰ کی شرط لگاتے ہوئے تین ہزارکے بجاے پانچ ہزار کاوعدہ فرمایا: ’بَلٰ٘ي اِنْ تَصْبِرُوْا وَتَتَّقُوْا وَيَاْتُوْكُمْ مِّنْ فَوْرِهِمْ هٰذَا يُمْدِدْكُمْ رَبُّكُمْ بِخَمْسَةِ اٰلٰفٍ مِّنَ الْمَلٰٓئِكَةِ مُسَوِّمِيْنَ‘، ’’ہاں، کیوں نہیں، اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور کافر تم پر دفعۃً آدھمکیں تو تمھارا رب پانچ ہزار فرشتوں سے تمھاری مدد کرے گاجو اپنے خاص نشان لگائے ہوں گے‘‘ ( آل عمران۳: ۱۲۵)۔مسلمان اس قدر دلیری سے لڑےکہ کفار کی فوج کو عبرت ناک شکست ہوئی،ستر کفار جہنم واصل ہوئے اور ستر اسیر ہوئے، جب کہ چودہ مسلمانوں نے جام شہادت نوش کیا۔ حضرت معاذ بن عفرا اور ان کے بھائیوں حضرت معوذ بن عفرا، حضرت عوف بن عفرا اور شاذ روایت کے مطابق حضرت رفاعہ بن عفرا نےجنگ بدر میں بھرپور شرکت کی۔
مکہ کے ایسے درجنوں رہنما ہلاک ہوئے جن کی انتظامی اور تجارتی مہارت کا کوئی بدل نہ تھا۔ قریش کی شام کی تجارتی شاہراہ غیر محفوظ ہوگئی۔ سب سے بڑھ کران کی عزت و وقار کو نقصان پہنچا۔ بدنامی سے بچنے کے لیے اہل مکہ نے فیصلہ کیا کہ اس شکست پر خاموش سوگ منایا جائے گا اور کوئی بھی اپنے مقتولین کی یاد میں گریہ و نوحہ پر مشتمل اشعار نہ کہے گا۔ مسلمانوں کے اعتماد میں اضافہ ہوا کہ وہ حق پر ہیں اور ان کا مذہب برتر ہے،یوں مدینے کی ریاست مستحکم ہوئی۔اس فتح نے مدینے میں بسنے والے یہودیوں کو بھی مرعوب کردیا۔ قرآن مجید میں اس غزوہ کو یوم الفرقان، یعنی فیصلے کے دن کا نام دیا گیا۔
اس زمانے کے دستور کے مطابق روبرو مقابلوں (duels) سے جنگ کا آغاز ہوا۔مشرک سردار عتبہ بن ربیعہ اپنے بھائی شیبہ بن ربیعہ اور بیٹے ولید بن عتبہ کو لے کر نکلا اور دعوت مبارزت دی۔ اس کے للکارنے پر تین انصاری جوان حضرت عوف بن عفرا، حضرت معوذ بن عفرا اور حضرت عبداللہ بن رواحہ آگے آئے (ابن اثیر)۔ واقدی کہتے ہیں: ہمارے نزدیک ثابت ہے کہ یہ تینوں عفرا کے بیٹے معاذ، معوذ اور عوف تھے(کتاب المغازی ۱/ ۶۸)۔ مبارزین نے پوچھا:تم کون ہو؟انھوں نے جواب دیا: ہمارا تعلق انصار سے ہے۔بولے: ہمیں تم سے کچھ نہیں لینا دینا۔ہم نے اپنے چچیروں سے مقابلہ کرنا ہے۔ محمد،ہماری قوم کے ہم پلہ اصحاب شرف بھیجو۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انصاری جوانوں کو واپس جانے کو کہااورفرمایا: اے بنی ہاشم،اٹھ کر مقابلہ کرو، اٹھوحمزہ، اٹھو عبیدہ بن حارث، اٹھوعلی۔تینوں نکل کر آئے توعتبہ بولا: اب برابر کے، صاحب شرف لوگوں سے جوڑ پڑا ہے۔ ولید بن عتبہ کاحضرت علی سے، شیبہ بن ربیعہ کاحضرت حمزہ سے اور عتبہ بن ربیعہ کا حضرت عبیدہ بن حارث سے مقابلہ ہوا۔دوبدو مقابلوں (duels) میں تینوں مشرک جہنم واصل ہوئے، جب کہ حضرت عبیدہ بن حارث کا پاؤں کٹ گیا۔ان کی شہادت اسی زخم سے ہوئی۔
حضرت عبدالرحمٰن بن عوف بیان کرتے ہیں: جنگ بدر میں، میں ایک صف میں کھڑا تھا۔ میں نے اپنے دائیں بائیں دیکھا تو انصار کے دو نو عمر لڑکے نظر آئے۔ میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ میں ان سے زیادہ مضبوط پسلیوں والوں کے بیچ میں ہوتا۔تبھی ایک نے اشارہ کر کے مجھے بلایا اور پوچھا: چچا، آپ ابوجہل کو پہچانتے ہیں؟ میں نے کہا: ہاں، لیکن بھتیجے، تمھیں اس سے کیا کام ہے؟بولا: مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتا ہے۔ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے،میں نے اس کو دیکھ لیا تو اس کے جسم کو اس وقت تک نہ چھوڑوں گا، جب تک ہم میں سے جس کی قسمت میں پہلے مرنا لکھا ہو، مر نہ جائے۔ حضرت عبدالرحمٰن بن عوف کہتےہیں: میں اس کی بات سے بہت متاثر ہوا۔ پھر دوسرے نوجوان نے اشارہ کرکے مجھے مخاطب کیا اور ایسی ہی گفتگو کی۔تھوڑی دیر گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو لوگوں میں گھومتے پھرتے دیکھا۔ میں پکارا: سنو لڑکو،یہ ہے تمھاراآدمی جس کے بارے میں تم نے پوچھا تھا۔ دونوں تلواریں لے کر اس کی طرف لپکے اور اسے قتل کر ڈالا۔ پھر وہ دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو ئے اور آپ کو بتلایا۔ آپ نے سوال فرمایا: تم دونوں میں سے کس نے اسے مارا ہے؟ دونوں نے کہا: میں نے اسے قتل کیا ہے۔ آپ نےدریافت فرمایا: کیا تم نے اپنی تلواریں پونچھ لی ہیں؟ انھوں نے عرض کیا: نہیں۔آپ نے ان کی تلواروں کا ملاحظہ کیا اور تصدیق فرمائی کہ تم دونوں ہی نے اس کی جان لی ہے۔ البتہ اس کا چھوڑا ہوا سامان حرب معاذ بن عمرو بن جموح کو ملے گا۔ وہ دونوں نوجوان حضرت معاذ بن عفرا اور حضرت معاذ بن عمرو بن جموح تھے۔ بخاری کی روایت ۳۹۸۸ میں ہے:وہ دونوں عفرا کے بیٹے تھے (بخاری، رقم ۳۱۴۱۔مسلم، رقم ۴۵۹۰۔ احمد، رقم ۱۶۷۳۔ مستدرک حاکم، رقم ۵۷۹۶۔ صحیح ابن حبان، رقم ۴۸۴۰۔ مسند ابویعلیٰ، رقم ۸۶۷)۔
ابن حجر کہتے ہیں:نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ بن عمرو بن جموح کوغنیمت کاحق دار قرار دیا،کیونکہ انھوں نے پہلے وار کیا اور زیادہ گہری چوٹ لگائی۔تمام قاتلوں کے غنیمت میں شریک ہونے کا حکم غزوۂ بدر کے سات سال بعد جنگ حنین میں ارشاد ہوا (فتح الباری: شرح حدیث، رقم ۳۱۴۱۔صحیح ابن حبان، رقم ۴۸۴۰)۔
حضرت انس بن مالک کی روایت ہے:(جنگ بدر کے دن) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:کون معلوم کرے گا کہ ابوجہل کا کیا حشر ہوا؟(آپ کےحکم پر)حضرت عبداللہ بن مسعود نکلے،انھوں نے دیکھا کہ عفرا کے بیٹوں معاذ اور معوذنے اسے ادھ موا کر دیا ہے اور اس کا جسم ٹھنڈا پڑا ہے۔ انھوں نےپوچھا: کیا تو ہی ابوجہل ہے؟ پھر اس کی ڈاڑھی پکڑ لی۔ ابوجہل بولا: کیا ا س شخص، (یعنی مجھ) سے بڑا بھی کوئی ہے جسے اس کی قوم نے مار ڈالا ہے؟(بخاری، رقم ۳۹۶۲)۔ حضرت انس ہی کی دوسری روایت میں ہے:ابو جہل نے (حقارت سے ) کہا: کاش! ایک مزارع کے علاوہ کسی نے مجھے قتل کیا ہوتا(بخاری، رقم ۴۰۲۰)۔اس مکالمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابو جہل کے دماغ میں مرتے دم تک اپنی سرداری سمائی ہوئی تھی۔ حضرت عبداللہ بن مسعود فرماتے ہیں: میں نے ا بو جہل کا سرکاٹا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےپاس لا کرکہا:یہ اللہ کے دشمن ابو جہل کا سر ہے (طبری۲/ ۳۷)۔ حضرت عبد اللہ ابو جہل کی تلواراور زرہ وغیرہ بھی لے آئے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں عطاکر دیں(الاستیعاب، رقم ۱۴۰۹)۔
حضرت معاذ بن عفرا اور ان کے دو سگے اور چار سوتیلے بھائیوں نے غزوۂ فرقان میں حصہ لیا۔ ان میں سے تین نے جان کا نذرانہ دے کر جنت میں مقام بنا لیا۔یہ شرف کسی دوسرے اسلامی کنبے کوحاصل نہ ہوا۔ آٹھ شہداے انصار میں ان کے دو سگے بھائی حضرت معوذبن عفرا اورحضرت عوف بن عفرا اور چھ مہاجرین شہدا میں ان کے سوتیلے بھائی حضرت عاقل بن بکیر شامل تھے۔
امیہ بن خلف کو مشہور روایت کے مطابق حضرت بلال اور حضرت خبیب بن یساف نے مل کراور ایک روایت کے مطابق حضرت رفاعہ بن رافع نے قتل کیا (کتاب المغازی،واقدی۱/۱۵۱)۔ ایک اور شاذروایت کے مطابق امیہ بن خلف کو حضرت معاذ بن عفرا،حضرت خارجہ بن زید اور حضرت خبیب بن اساف نے مل کر قتل کیا (السیرۃ النبویۃ، ابن ہشام۲/ ۲۷۰)۔
حضرت معاذ بن عفرا نے جنگ احد، جنگ خندق اورباقی غزوات میں بھرپور حصہ لیا۔
وادی القریٰ، یعنی کئی بستیوں کی وادی،مدینہ سے شام کو جانے والے ر استے پر تیما اور خیبرکے درمیان واقع ہے۔ موجودہ سعودی عرب میں اسےالعلا کے نام سے جانا جاتا ہے، جو صوبۂ مدینہ میں واقع ہے۔یہ اپنی سرسبزی و شادابی کے لیے ضرب المثل ہے۔ یہاں قوم ثمود آباد تھی، جس کی طرف حضرت صالح علیہ السلام مبعوث کیے گئے تھے۔ اس قوم کے کافروں نے اللہ کی مقررہ نشانی، اونٹنی کو ہلاک کر دیا تو انھیں چنگھاڑ او ر زلزلے سے تباہ کردیا گیا۔ ثمود کی تباہی کے بعد یہاں یہود،قضاعہ،جہینہ اورعذرہ کے قبائل آباد ہوئے۔ انھوں نے زراعت کو دوبارہ ترقی دی۔
۷ھ:جنگ خیبر کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وادی القریٰ آئے اوریہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دی، لیکن یہود آمادہ بہ جنگ ہوئے۔دو دن کی لڑائی کے بعد فتح نصیب ہوئی،مال پر مسلمانوں نے قبضہ کرلیا، لیکن اراضی یہودیوں کے پاس رہنے دی گئی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی حیات مبارکہ میں تمام یہودیوں کو ان کی عہد شکنی کی بناپرمدینہ سے جلاوطن کیا، پھر انھیں حجازسے بے د خل کرنے کاحکم دیا (بخاری، رقم ۳۱۶۷، ۴۰۲۸۔مسلم، رقم ۴۶۱۳، ۴۶۱۴)۔ عہد فاروقی میں جب خیبر کے یہودیوں نے حضرت عبد اللہ بن عمر کا کہنی کا جوڑ اتار دیا تو حضرت عمر نے یہ کہہ کر کہ عہد نبوی میں حضرت عبداللہ بن سہل انصاری کو شہید بھی تم نے کیا تھا، انھیں خیبر سے نکال باہر کیا۔بلاذری کی روایت ہے کہ اس وقت انھوں نے وادی القریٰ کے یہودیوں کوبھی جلاوطن کر دیا تھا۔
حضرت عمر فاروق نے وادی القری ٰکی اراضی حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبدالرحمٰن بن عوف، حضرت عامر بن ربیعہ، حضرت عبداللہ بن ارقم، حضرت معاذ بن عفرا، حضرت زید بن ثابت، حضرت ابی بن کعب، حضرت ابو طلحہ، حضرت جابر بن عبداللہ بن رئاب، حضرت محمد بن مسلمہ اوربائیس دیگر صحابہ میں تقسیم کر دی۔
حضرت معاذ بن عفرا نے ۴۰ھ میں عہد علوی میں و فات پائی (الکامل ۲/ ۷۵۴)۔ابن اثیر کہتے ہیں:ان کی وفات اس وقت ہوئی جب صفین میں حضرت علی و حضرت معاویہ کے مابین جنگ جاری تھی (اسد الغابۃ ۴/۳۷۹)۔ ’’اسد الغابہ‘‘ کے مترجم نے لکھا ہے کہ حضرت معاذ نے معاویہ علی کشمکش میں حضرت علی کا سا تھ دیا اور ان کی شہادت جنگ صفین میں ہوئی۔ یہ بات ابن اثیر کی عربی عبارت میں موجود نہیں۔ ایک شاذ روایت کے مطابق حضرت معاذ بن عفرا ۶۳ھ میں واقعۂ حرہ میں شہید ہوئے۔سانحۂ کربلا کے بعد اہل مدینہ نے یزید کی اطاعت سے ہاتھ کھینچ لیاتو اس نے مدینہ پر چڑھائی کے لیے مسلم بن عقبہ کی سربراہی میں بارہ ہزار کا لشکر بھیجا۔ اہل مدینہ نے حضرت عبد اللہ بن حنظلہ کی قیادت میں مقابلہ کیا، لیکن شکست کھائی۔حرہ کی اس جنگ میں حضرت عبداللہ بن جعفر، حضرت عبداللہ بن نوفل اور متعدد صحابہ کے بیٹے شہید ہوئے۔
حضرت ربیع بنت معوذ بتاتی ہیں: ان کے چچا حضرت معاذ بن عفر ا نے انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرنے کے لیے تر و تازہ کھجوروں سے بھرا تھال دیا، جس پر ککڑیوں کی باریک اور نرم قاشیں ڈالی گئی تھیں۔آپ کو ککڑیاں بہت پسند تھیں،آپ نے انھیں مٹھی بھر کر سونا یاپہننےکے لیے ایک ہار عطا کیا، جو شاہ بحرین نے آپ کو تحفے میں بھیجا تھا (احمد، رقم ۲۷۰۲۳۔المعجم الکبیر،طبرانی، رقم ۲۰۱۵۷، ۲۰۱۶۰)۔ ابن اثیرنے چھ سال بعد کا یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد ان مورخین کا رد کیا ہے جو حضرت معاذ کی شہادت غزوۂ بدر میں بتا تے ہیں۔
اوس کی شاخ بنو ظفر سے تعلق رکھنے والی حضرت حبیبہ بنت قیس سے عبید اللہ پیدا ہوئے۔
بنو نجار کی ام حارث بنت سبرہ سے حارث،عوف،سلمیٰ اور رملہ نے جنم لیا۔
جہینہ کی ام عبداللہ بنت نمیر سے ابراہیم اور عائشہ کی ولادت ہوئی۔
بنو نجار کی ام ثابت رملہ بنت حارث سے سارہ کی ولادت ہوئی۔
معاذ قرشی(معاذ بن حارث ) بتاتے ہیں: حضرت معاذ بن عفرا نے فجر یا عصر کے بعد بیت اللہ کا طواف کیا اور دو مسنون نوافل نہ پڑھے۔ میں نے وجہ پوچھی تو بتایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:دو نمازوں کے بعد کوئی نفلی نماز نہیں پڑھی جا سکتی، فجر کے بعد، حتیٰ کہ سورج طلوع ہوجائے،عصرکے بعد یہاں تک کہ سورج غروب ہو جائے(ترمذی، رقم ۱۸۳۔ نسائی، رقم ۵۱۹۔ احمد، رقم ۱۷۹۲۶۔مصنف ابن ابی شیبہ، رقم ۷۳۹۹)۔
مطالعۂ مزید:کتاب المغازی (واقدی)، السیرۃ النبویۃ (ابن ہشام)، الطبقات الکبریٰ (ابن سعد)، انساب الاشراف (بلاذری)، تاریخ الامم و الملوک (طبری)، الاستیعاب فی معرفۃ الاصحاب (ابن عبدالبر)، المنتظم فی تواریخ الملوک والامم (ابن جوزی)، الکامل فی التاریخ (ابن اثیر)، اسد الغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ (ابن اثیر)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال(مزی)، البدایۃ والنہایۃ (ابن کثیر)، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ (ابن حجر)، تہذیب التہذیب (ابن حجر)، Wikipedia۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ