عہد حاضر کے مسلمانوں میں تاریخیت کا ایک تصور جس کے بانی ڈاکٹر فضل الرحمٰن مرحوم تھے، وہ یہ کہا کرتے تھے کہ کسی قرآنی حکم کے بارے میں یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ :
’’ہم پہلے نزول وحی کے زمانے میں چلے جائیں گے، وہاں کی انتھروپالوجی(بشریات)اور سوشیالوجی (عمرانیات) کے ساتھ ساتھ، آیات کے زمانی و مکانی نزول کو اس زندہ معاشرے کے اندر ٹھیک طرح سمجھ لیں۔ مثال کے طور پر اس دور میں، ایک آیت کس ماحول میں، کن شرائط کے تحت نازل ہوئی ہے۔ اس سبب نزول اور علت کو جان کر، اور ان علائق سے اپنے لیے ایک عملی راہ نکال کر، اس حکم کی پس پردہ وجوہ اور اس کی غایت سمجھ کر، اس کی تثبیت میں اس مقصد الٰہی کو ساتھ لیے اپنے آج کے دور میں واپس آیا جائے، اور اس مقصد کو عملی زندگی میں لاگو کرلیا جائے، اس مقصد الٰہی کو آج اپنے زمانے پرمنطبق کرلیا جائے۔[1]؎ ‘‘
مدرسہ ڈسکورسز اسی نہج پر ’’ترقی ‘‘ کرتے ہوئے بہت آگے نکل آیا ہے، ہم نے چند برس قبل اس کا تعاقب لکھا تھا۔[2]؎ آج تاریخیت ہی سے متعلق مصطفىٰ اوز ترک صاحب ـــــ جو ترکی میں ایک معروف صاحب علم ہیں ـــــ کا ایک مضمون سہ ماہی ’’تدبر‘‘ [3]؎ میں دیکھنے کو ملا، ہماری یہ تحریر ان کے نقطہ ٔنظر کے بنیادی نکتہ کا ناقدانہ جائزہ ہے، جس کا مقصد اس روش کی فروگذاشت واضح کرنا ہے۔
اس تصور کا ایک پہلو یہ ہے کہ مرور وقت کے ساتھ زندگی میں ایسی تبدیلیاں آتی ہیں جن کی وجہ سے کسی شرعی حکم پر عمل کرنا ممکن نہیں رہتا، لہٰذا امت اس حکم پر عمل کرنا ترک کردیتی ہےجس سے وہ حکم منسوخ ہو جاتا ہے۔ اس میں ایک مثال ابن عربی کی کتاب ’’احکام القرآن ‘‘میں سے دی گئی ہے، سورۂ نور (۲۴) کی آیت ۵۸ میں تین اوقات میں گھر میں آنے کی اجازت مانگنے کا حکم دیا گیا ہے:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنْكُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ مِنْ قَبْلِ صَلٰوةِ الْفَجْرِ وَحِيْنَ تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ مِّنَ الظَّهِيْرَةِ وَمِنْۣ بَعْدِ صَلٰوةِ الْعِشَآءِ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّكُمْ لَيْسَ عَلَيْكُمْ وَلَا عَلَيْهِمْ جُنَاحٌۣ بَعْدَهُنَّ طَوّٰفُوْنَ عَلَيْكُمْ بَعْضُكُمْ عَلٰي بَعْضٍ كَذٰلِكَ يُبَيِّنُ اللّٰهُ لَكُمُ الْاٰيٰتِ وَاللّٰهُ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ. [4]؎
اس آیت پر اس کتاب میں ایک بحث یہ کی گئی ہے:
هل الآية محكمة أو منسوخة؟ فقال ابن عمر: هي محكمة يعني في الرجال خاصة.
وقال ابن عباس: قد ذهب حكمها؛ روى عكرمة أن نفرًا من أهل العراق سألوا ابن عباس، فقالوا: يا ابن عباس، كيف ترى في هذه الآية التي أمرنا فيها بما أمرنا، فلا يعمل بها أحد؛ قول الله: ﴿يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا لِيَسْتَاْذِنْكُمُ الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ﴾[5]؎ وقرءوها إلى قوله تعالى: عَلَى بَعْضٍ.
فقال ابن عباس: إن الله رفيق بجميع المؤمنين يحب الستر. وكان الناس ليس لبيوتهم ستور ولا حجال، فربما دخل الخادم أو ولده أو يتيمة الرجل، والرجل على أهله؛ فأمر الله بالاستئذان في تلك العورات، فجاءهم الله بالستور، والخير، فلم أر أحدًا يعمل بذلك.(احکام القرآن ۳/ ۴۱۴)
’’درج بالا آیت سے متعلق یہ سوال اٹھتا ہے کہ آیا یہ محکم ہے کہ منسوخ ہو چکی ہے؟ ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ محکم ہے، یعنی مردوں کے لیے بالخصوص محکم ہے۔
جب کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اس کا حکم موقوف ہو چکا ہے۔ عکرمہ نے یہ بات بتائی ہے کہ عراق سے ایک گروہ آیا، انھوں نے ابن عباس سے سوالات کیے، انھوں نے ابن عباس سے کہا کہ آپ کی اس آیت میں ہمیں دیے گئے حکم کے بارے میں کیا راے ہے؟ اس لیے کہ ہمارے ہاں اس پر کوئی بھی عمل نہیں کرتا، انھوں نے یہ آیت ’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا‘ سے ’عَلٰي بَعْضٍ‘ تک پڑھی۔
تو ابن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سب مومنین کے رفیق ہیں، ان کی ستر پوشی کو پسند فرماتے ہیں، جب کہ صورت یہ تھی کہ لوگوں کے گھروں میں نہ پردے تھے نہ الگ زنان خانے۔ اس صورت میں خادم، لڑکے بالے، گھروں میں رہنے والے یتیم بچے بچیاں بلاجھجھک اندر آجاتے تھے، جب کہ شوہراہلیہ کے پاس ہوتا۔ تو اللہ تعالیٰ نے پردے کے تین اوقات میں اجازت لینے کا حکم دیا۔ پھر اللہ نے لوگوں کو پردے اور مال عطا کردیا، تو اب لوگ اس حکم پر عمل نہیں کرتے۔[6]؎ ‘‘
مصطفیٰ اوز صاحب اس سے یہ استدلال کرتے ہیں:
’’تاریخیت اس آیت کریمہ کے اس دور کی عرب ذہنیت اور سوشیالوجی(عمرانیات) سے مخصوص ہونے کا اندراج کرتی ہے۔ آج کے زمانے میں ہماری معاشرت میں، قیاس کرتے وقت، اس حکم پر عمل کرنے کے لیے سبب اور علت ہی موجود نہیں ہیں۔ آپ کے اپارٹمنٹس میں بغیر بتائے، بلا دستک دیے کسی کے اندر آنے کا احتمال ہی نہیں ہے... آج یہ حکم ملغىً ہے، یعنی اس پر عمل نہیں کیا جاسکتا۔[7]؎ ‘‘
یہ دونوں نتیجے نکالنا درست نہیں ہے کہ تاریخیت سے دینی احکام ملغىً ہوجاتے ہیں، اوریہ کہ یہ آیت عرب ذہنیت اور عمرانیات سے خاص ہے۔ایک اس لیے کہ پہلے تو یہ جاننا چاہیے کہ یہ حکم کے متروک ہونے کی مثال نہیں ہے، بلکہ حکم الہٰی پر شدت سے عمل کی صورت ہے، یعنی پہلے لوگ تین مواقع پر اجازت لینے کے مکلف تھے، جب کہ اب وہ کسی کے گھر آنے کے لیے ہر وقت اجازت لیتے ہیں۔ لہٰذا گھر میں داخل ہونے پر اجازت کی ذہنیت اب تمام اقوام کی ہے،اور یہ کام ابن عباس رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی ہو چکا تھا، جب کہ تاریخت نے کوئی خاص سفر طے نہیں کیا تھا۔
دوسرے اس لیے کہ احکام کا معطل ہونا تاریخیت کی وجہ سے نہیں ہوتا، بلکہ ’’ موجبات عمل ‘‘کے فقدان کی وجہ سے ہوتا ہے۔ موجبات کی وجہ سے، تاریخی بدلاؤ کےبغیر ہی بہت سے احکام ہیں، جو صادر ہوتے وقت ہی موقوف ہو سکتے ہیں، مثلاً جب یہ آیت اتری ہوگی تو اس وقت بھی جن گھروں پر دروازے تھے، انھوں نے بھی ان تین اوقات میں اس پر عمل نہیں کیا ہوگا، بلکہ ہر دفعہ گھر میں آنے کی اجازت طلب کی ہوگی یا جن گھروں میں صرف میاں بیوی ہی رہ رہے تھے اور دیگر افراد نہیں تھے، ان میں بھی اس حکم پر عمل موقوف تھا۔غرض یہ کہ یہ تاریخیت اس تعطل کا عامل نہیں ہے۔یہ موقوف ہونا، موجبات کے فقدان تک ہی ہوتا ہے، ان کے میسر آنے پر حکم پھر سے عملا ًبحال ہوجاتا ہے۔
موجبات عمل سے مراد وہ امور ہیں،جن کی نہ صرف حکم پر عمل کے لیے، بلکہ اس کے وجوب کے لیے بھی ضرورت ہوتی ہے۔مثلاً ایک موجب وقت ہے، ان تین اوقات میں سے کسی وقت کا ہونا لازم ہے، جب وقت نہیں ہوگا تو اجازت طلب نہیں کی جائے گی۔ اس حکم کا دوسرا موجب مکلف کا موجود ہونا ہے، یعنی گھر میں ’الَّذِيْنَ مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ وَالَّذِيْنَ لَمْ يَبْلُغُوا الْحُلُمَ‘ جیسے افراد ہوں گے تو اس حکم پر عمل ہوگا، دوسری صورت میں عمل نہیں ہوگا۔اس حکم کا تیسرا موجب وجۂ حکم ہے۔ یہاں وجۂ حکم تین وقتوں میں ’تَضَعُوْنَ ثِيَابَكُمْ‘ کا معمول ہونا ہوگا تاکہ ان اوقات میں ’عَوْرٰتٍ لَّكُمْ‘ کا ہونا ثابت ہو تو پھر یہ حکم عمل میں آئےگا، وگرنہ اس وقت تک موقوف ہوگا۔ خود نزول قرآن کے وقت یہ ’غیر مسکونۃ‘ مکانات (النور ۲۴: ۲۹) کے لیے موقوف تھا، ان میں اجازت لینے سے رخصت دی گئی ہے۔ یہ اس حکم کے موجبات ہیں۔حکم کے موقوف ہونے کا تاریخیت سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ ان موجبات کے عدم وجود سے ہے۔ دروازے والے جدید گھروں میں، جیسے ہم نے عرض کیا، اس حکم سے کچھ زیادہ ہی عمل ہو رہا ہے کہ ہر آمد پر اجازت طلب کی جاتی ہے۔ تو جب کسی حکم پر ایسا عمل ہو رہا ہو کہ شریعت کا تقاضا اس میں شامل ہو تو بس تعمیل ہو گئی۔ یہ اسی طرح کی صورت حال ہو گی کہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ ’اِذَا قُمْتُمْ اِلَي الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا‘، ’’جب نماز کے لیے اٹھو تو وضو کرو‘‘(المائدہ ۵: ۶) تو جو آدمی سارا دن باوضو رہتا ہو، وہ نماز کے لیے اٹھے گا تو وضو نہیں کرے گا۔ تو کیا اس کو یہ کہا جائے گا کہ اس نے وضو کرنے کے اس حکم پر عمل نہیں کیا ؟ ظاہر ہے کہ نہیں، بلکہ یہ کہا جائے گا کہ اس نے وضو کے حکم پر زیادہ شدت سے عمل کر ڈالا ہے، اس لیے جب وہ با وضو ہے تو نماز کے لیے اٹھتے وقت وضو کی ضرورت نہیں ہے۔ تین اوقات میں اجازت کےاس حکم کے موجبات کو ایک گوشوارے میں یوں بیان کیا جاسکتاہے:
اسی طرح تین اوقات کی تبدیلی بھی تاریخیت سے وابستہ نہیں ہے۔ ’عَوْرٰتٍ لَّكُمْ‘سے واضح ہے کہ بے پردگی کے موقع پر اجازت لینی چاہیے، جس گھر یہ معاملہ تین دفعہ ہو، وہاں تین دفعہ جہاں دو دفعہ ہو، وہاں دو دفعہ۔ایسا ہی عہد نبوی میں تھا، اور ایسا ہی آج ہوگا۔ یہ بات تو اجماعی ہے کہ جب مکلف مجنون ہو یا مدہوش ہوجائے تو وہ شرائع کا مکلف نہیں رہتا، اس لیے کہ استطاعت کا موجب ناپید ہو گیا ہے۔یہ ہمارے نقطۂ نظر کی ایک واضح تائیدی مثال ہے کہ موجبات کے فقدان سے حکم اس وقت تک موقوف ہو جاتا ہے، جب تک موجبات میسرنہ ہوجائیں۔
اب موجبات والے تصور کو سمجھنے کے لیے تعبدی امور میں سے بھی ایک مثال پر غور کرلیتے ہیں۔ ’يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْ٘ا اِذَا قُمْتُمْ اِلَي الصَّلٰوةِ فَاغْسِلُوْا...‘(المائدہ ۵: ۶) والے حکم میں وضو کے لیے موجبات میں درج ذیل چیزیں ہیں:
وضو کےان موجبات میں سے کوئی ایک چیز موجود نہ رہے تو حکم موقوف ہو جائے گا۔ اس کے لیے تاریخیت کی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً کوئی نمازی نہ ہو تو وضو کا حکم موقوف ہو جائے گا، پانی نہ رہے تو وضو موقوف ہو کر تیمم بن جائے گا، وضو قائم ہو تو ’فَاغْسِلُوْا‘موقوف ہو جائے گا۔یہ حین نزول قرآن بھی موقوف ہوتے رہے اور تاقیامت موقوف اور بحال ہوتے رہیں گے۔
لہٰذا، تعبدی اور غیر تعبدی، دونوں امور میں ہم نےدیکھا کہ فیصلہ کن چیز موجبات عمل ہیں۔ وہ ہیں تو حکم عمل میں آئے گا، وگرنہ معطل ہو جائے گا۔لیکن اسے منسوخ نہیں کہنا چاہیے، اس لیے کہ جیسے ہی موجبات فراہم ہوں گے، حکم پھر بحال ہو جائے گا۔ مثلاً پانی ملنے پر وضو اور نماز کا وقت ہونے پر نماز کا حکم بحال ہو جائے گا۔واضح ہے کہ تاریخیت کاان احکام میں کوئی کردار نہیں ہے۔ تاریخیت محض ایک نگاہوں کو لگنے والا دھوکا ہے۔ہماری یہ راے قدیم فقہا کی راے کے مطابق ہے، بس فرق اتنا ہے کہ وہ بالعموم حکم کے معنی، یعنی علت کا ذکر کرتے ہیں، ہم سمجھتے ہیں کہ علت کے علاوہ بھی بہت سے امور ہیں جن کی وجہ سے حکم موقوف ہو جاتا ہے، جنھیں ہم نے ’موجبات‘ کا نام دیا ہے۔
تاریخیت سے دھوکا نہیں ہو نا چاہیے،استیذان کا حکم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد ہی میں ان گھروں کے لیے موقوف تھا، جن کے لوگوں کوروکنے کے لیے دروازے موجود تھے۔ان لوگوں کے لیے بھی یہ عہد نبوی ہی میں حکم موقوف تھا، جن کے آنے جانے والے افراد یا بچے نہیں تھے۔ان کے لیے بھی یہ حکم موقوف تھا، جو تجرد کی زندگی گزاررہے تھے، اور ان کے بے لباسی کے اوقات نہانے وغیرہ کےسوا کوئی اور نہ تھے۔ان لوگوں کے لیے بھی یہ حکم موقوف تھا، جو ان اوقات میں غیر مسکونہ گھروں میں بیٹھے ہوں۔ان کے لیے بھی یہ حکم موقوف تھا، جو ان اوقات میں کسی سفر میں ہوں۔ اسی طرح یہ حکم آج بھی ان گھروں میں قائم ہے، جس میں بچے رات کو یا قیلولہ کے وقت اپنے ماں باپ کے کمرے میں جانا چاہتے ہوں۔ان بادیہ مکینوں کے لیے بھی یہ حکم آج بھی قائم ہے، جو بے در کے خیموں میں رہتے ہیں۔ اگر گھروں میں دوبارہ دروازے لگنے بند ہو جائیں تو تین وقتہ اجاز ت کا حکم روبہ عمل ہو جائے گا۔ اس سے آپ سمجھ سکتے ہیں کہ تاریخیت کا تصوریہاں غلط استعمال ہوا ہے، یہ محض غلط فہمی سی ہے، جس سے دینی احکام کے موقوف ہو جانے کے غلط تصور کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ تاریخیت قانون کو موقوف نہیں کرتی، بلکہ موجبات عمل کا فقدان اسے موقوف کرتا اور ان کا وجود اسے بحال کرتا ہے۔ تاریخیت تو تب فیصلہ کن ہوتی کہ اگر موجبات دوبارہ آ موجود ہوں تو حکم تب بھی موقوف رہے۔ لگتا ہے بلا سوچے سمجھے ایک غیر متعلق عامل صرف اس لیے دریافت کرلیا گیا ہے کہ شریعت کے موقوف ہونے کا ایک دائمی موثر تراش لیا جائے۔اوپر ابن عربی کی کتاب میں ابن عباس رضی اللہ عنہ بھی یہی کہہ رہے ہیں کہ یہ حکم موقوف ہے، کیونکہ گھروں پر پردے اور دروازے لگ گئے ہیں۔
یہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب تاریخیت کی وجہ سے امت ایک عمل ترک کرتی ہے تو اس سے وہ حکم منسوخ ہوجاتا ہے۔ اُوز ترک صاحب فرماتے ہیں:
’’ تالیفِ قلوب کے ضمن میں، امام ابو منصور الماتریدی اپنی تاویلات القرآن میں حضرت عمر کا قصہ بیان کرنے کے بعد کہتے ہیں: وفي الآية دلالة جواز النسخ بالاجتهاد؛ لارتفاع المعنى الذي به كان[8]؎ اس آیت کریمہ کی بنیاد، سبب بننے والی علت کے اٹھ جانے کی وجہ سے عمل کے نسخ ہونے پر دلیل موجود ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اجتہاد کے ساتھ نسخ ہو سکتا ہے، یعنی ایک مسلمان اجتہادی رویے سے کام لے کر کسی آیت کے اس وقت کے معنی،حکم کو اپنے عمل سے نسخ کرسکتا ہے۔[9]؎ ‘‘
علامہ ما تریدی یہ نہیں کہہ رہے کہ حضرت عمر کا فتویٰ یا عمل دلالت کرتا ہے کہ اجتہاد سے عمل منسوخ ہونے کا جواز معلوم ہوتا ہے۔ وہ تو کہہ رہے ہیں کہ ’وفي الآية دلالة‘ (آیت ہی میں یہ دلالت موجود ہے)۔ یہ وہی بات ہے جو ہم نے اوپر لکھی ہے۔وہ تو کہہ رہے ہیں کہ علت ــــــ جسے انھوں نے ’معنی الذي كان به‘ کے لفظ سے ادا کیا ہے ــــــ موجود نہ ہو تو حکم بذریعۂ اجتہاد منسوخ ہو جائے گا۔ وہ ہرگز یہ نہیں کہہ رہے کہ’’ ایک مسلمان اجتہادی رویے سے کام لے کر کسی آیت کے اس وقت کے معنی،حکم کو اپنے عمل سے نسخ کرسکتا ہے۔‘‘ یہی حال اُوز ترک صاحب نے علامہ ماتریدی کے ایک اور جملے کے ساتھ کیا ہے:[10]؎ ’فيه دليل على أن الكتاب يجوز أن ينسخ حكمه بترك الناس العمل‘۔[11]؎ حالاں کہ اس بات کو انھوں نے یوں واضح کیا ہے: ’وهذا وأمثاله في حكم عرف ثبوته على الخصوص لمعنى، ثم ينعدم المعنى، وما لا يعقل معناه يجب العمل بالكتاب ولا يترك بترك الناس‘۔[12]؎ یعنی یہ اور اس جیسے سب حکم لوگوں کے ترک عمل سے نسخ اس صورت میں ہو ں گے،جب وہ حکم کسی معنی (علت و مقصد) کے لیے ہو، اور پھر وہ معنی معدوم ہو جائے۔البتہ جس کا معنی ہی معلوم نہ ہو، تو وہ حکم لوگوں کے ترک سے ختم نہیں ہوگا۔غرض یہ کہ یہ بھی وہی بات ہے، جو ہم نے عرض کی ہے۔خود اُوز ترک صاحب نے اپنے بیانات میں علت وغیرہ کا ذکر کیا ہے، مگر پھر تاریخیت کی چڑیا معلوم نہیں کہاں سے پکڑ لاتے ہیں؟ مثلاً اس سہ ماہی ’’تدبر‘‘ کے صفحہ ۱۳۶ میں ہے:’’ اس آیت کریمہ کی بنیاد، سبب بننے والی علت کے اٹھ جانے کی وجہ سے عمل کے نسخ ہونے پر دلیل موجود ہے ‘‘۔ لیکن اس کا نتیجہ تاریخیت کیسے ہوتا ہے، وہ بس شاید اللہ ہی جانتا ہے۔
دیکھیے اس تاریخیت سے کیا مبلغ فہم برآمد ہوتا ہے۔ فرماتے ہیں:
’’ میں قرآن کی بالائے تاریخ تاویل کو نا مناسب سمجھتا ہوں۔اسے عملی زندگی میں کسی طور مفید ہوتا نہیں دیکھ رہا اور مجھے یہ جاننے کا بہت تجسس ہے کہ یہ علما کیسے اپنے رویے اپناتے ہیں۔ کیا یہ لوگ ملاعنہ، ظہار الایلاء یا پھر مندرجہ بالا تین اوقات مخصوصہ میں قائم حرمت کا پاس کرتے ہیں؟ میں پوچھنا چاہتا ہوں کہ اگر قرآن میں اترے تمام احکام ابدی ہیں تو یہ ایسا سب کچھ کیوں نہیں کرتے؟ میں تو تاریخی حیثیت کی رو سے چلتا ہوں، لہٰذا میرے لیے یہ مسئلہ نہیں ہے۔ مگر کیا موجود حاضرین میں سے کسی کو افسوس نہیں ہوتا کہ عمر پوری گزر گئی، کبھی اپنی بیگم کو ایلاء یا ظہار نہیں کر پایا![13]؎ ‘‘
کیا مضحکہ خیز استدلال ہے!کیا یہ تجاہل ہے یا کچھ اور؟یعنی ایلا ایک بری چیز تھی، جو اگر کوئی کرلے تو اسے کچھ ہدایات دی گئی ہیں، نہ کہ وہ کوئی کرنے کا کام تھا۔ کیا سب صحابہ نے ایلا و ظہار کیا تھا؟کیا ان کو بھی تاریخیت نے روکا تھا ؟ کیا ان کے زمانے میں بھی ایلا تاریخیت کی وجہ سے معطل ہوا تھا؟ بلا سوچے سمجھے ایک مقدمہ قائم کیا گیا اور اس سے شریعت کو منسوخ کرنے کی ایک ناروا کوشش کی گئی ہے۔ آج بھی کوئی اپنی بیوی سے ترک تعلق کی قسم کھا لیتا ہے تو اس پر یہ حکم عائد ہو جائے گا۔ہم نے اوپر یہ واضح کردیا ہے کہ کسی حکم کے تعطل یا موقوف ہونے کی وجہ اس حکم سے متعلق تمام موجبات میں سے کسی ایک کا فقدان ہے، نہ کہ عمرانیات یا تاریخیت ہے۔ یہ فقدان نزول قرآن کے وقت بھی ہو تو حکم عارضی طور معطل یا موقوف ہو جائے گا۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ منسوخ ہو جائے گا۔
مضحکہ خیز مثالیں، اس تحریر میں اور بھی ہیں، مثلاً حرام مہینے، جنت میں سونے کے کنگن اور نہریں وغیرہ۔ ان تمام مثالوں میں بھی وہ عمرانیات کو لاتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ ’’اب تم مرد ہوتے ہوئے ریشم کے کپڑے پہنو اور اپنی کلائیوں میں سونے چاندی کی چوڑیاں کنگن وغیرہ پہنو، پھر نکلو گلیوں بازاروں میں، دیکھنا لوگ کیسا سمجھیں گے تمھیں![14]؎‘‘؟بلاشبہ، آج تو شاید لوگوں کی اکثریت کنگن پہننے کو پسند نہ کرے، شاید صحابہ میں سے بھی بے شمار لوگ اس زندگی میں کنگن پسند نہیں کرتے رہے ہوں، لیکن یہ کیسے پتا چلا کہ مصطفىٰ صاحب یا ان کے ہم وطن جنت میں بھی کنگن پسند نہیں کریں گے؟ کیونکہ قرآن نے یہ نہیں کہا کہ دنیا میں کنگن پہنائے جائیں گے۔ رہا قرآن میں ان کا ذکر تو سب سمجھتے ہیں کہ ان آیات کا مطلب جنت کی زندگی کا بیان ہے۔اس میں کوئی تاریخیت یا عمرانیات شامل نہیں ہے۔ یعنی اگر اللہ نے مصطفیٰ صاحب کو جنت میں جانے کی صورت میں شاہی کنگن ہی پہنانے ہیں تو یہ بیان تاریخیت کی زد میں کیسے آئے گا؟ یہ تو عین بیان حقیقت ہو گا۔
خلاصہ
تاریخیت یا عمرانیات حکم کے نسخ و تعطل میں کوئی دخل نہیں رکھتے۔یہ صرف موجبات عمل ہیں، جن کے فقدان سے حکم موقوف ہو جاتا ہے اور جب وہ موجود ہوں تو حکم بحال ہو جاتا ہے۔ یہ عمل کسی تاریخی عمل سے گزرے بغیر عہد رسالت میں بھی ہوا ہے، جس کی ہم نے مثالیں دے دی ہیں۔نسخ احکام میں عمرانیات یا تاریخیت کی پخ بے محل اور بلا وجہ لگا دی گئی ہے، دین میں اس کی کوئی گنجایش نہیں ہے۔ تاریخیت دین کو ایک سطحی طریقے سے دیکھنے کا نام ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔ تاریخیت اور عمرانیات نہ حکم الٰہی کے ناسخ ہیں اور نہ اس کے وجوب میں پیش نظر۔
بلکہ قرآن سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس میں دیے گئے احکام ابدی حکمت کے تحت دیے گئے ہیں، جو موجبات کے تحت واجب ہوتے اور موجبات کے فقدان پر موقوف ہو جاتے ہیں۔ہماری امت کا اس بات پر اجماع ہے کہ بالغ مجنون پر شرائع عائد نہیں ہوتے، اس لیے کہ وہ استطاعت نہیں رکھتا۔غشی اور بے ہوشی میں بھی یہی ہوتا ہے۔ مکلف جب حالت تکلیف میں نہیں رہاتو حکم اس کےلیے موقوف ہو گیا۔
ایسی ہی صورت تمام تعبدی اور غیر تعبدی امور میں ہے۔جب موجبات حکم پورے موجود ہوں گے، حکم عمل میں آجائے گا اور جب موجبات پورے نہیں ہوں گے، حکم موقوف ہو جائے گا۔ان موجبات میں سے ایک چیز علت یا معنی ہیں۔لیکن علت کے علاوہ بھی موجبات ہیں، جن میں سے چند ہم نے اوپر بیان کردیے ہیں۔ مثلاً تین وقت اجازت کے موجبات یہ بیان کیے گئے ہیں:
ان میں سے ایک بھی موجود نہ ہو تو حکم موقوف ہوجائے گا۔ تاریخیت کا اس میں کوئی دخل نہیں ہے۔
اللهم أرنا الحق حقًا وارزقنا إتباعه وأرنا الباطل باطلًا وارزقنا اجتنابه۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ
[1]؎ سہ ماہی تدبر، لاہور، شمارہ ۹۹، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۱۳۲۔
[2]؎ دیکھیے مصنف کا مضمون:’’ مدرسہ ڈسکورس اور روایتی مدرسہ‘‘، ماہنامہ اشراق، دسمبر ۲۰۱۹ء، ص ۵۴۔
[3]؎ سہ ماہی تدبر، لاہور، شمارہ ۹۹، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۱۳۲۔
[4]؎ ’’ایمان والو، (تمھارے قلب ونظر کی پاکیزگی کے لیے جو ہدایات ہم نے دی ہیں، تم اُن کی مزید وضاحت چاہتے ہو تو سنو)، تمھارے غلام اور لونڈیاں اورتم میں جو بلوغ کو نہیں پہنچے، تین وقتوں میں تم سے اجازت لے کر تمھارے پاس آیا کریں: نماز فجر سے پہلے؛ جب دوپہر کو تم کپڑے اتارتے ہو اور نماز عشا کے بعد۔ یہ تین وقت تمھارے لیے پردے کے وقت ہیں۔ اِن کے علاوہ (وہ بلا اجازت آجائیں تو) نہ تم پر کوئی گناہ ہے نہ اُن پر، اِس لیے کہ تم ایک دوسرے کے پاس آنے جانے والے ہی ہو۔ اللہ تمھارے لیے اِسی طرح اپنی آیتوں کی وضاحت کرتا ہے اور اللہ علیم وحکیم ہے۔‘‘
[5]؎ النور ۲۴: ۵۸۔
[6]؎ اس پر ابن عربی کا اپنا تبصرہ یوں ہے:
وَهَذَا ضَعِيفٌ جِدًّا بِمَا بَيَّنَّاهُ فِي غَيْرِ مَوْضِعٍ مِنْ أَنَّ شُرُوطَ النَّسْخِ لَمْ تَجْتَمِعْ فِيهِ مِنْ الْمُعَارَضَةِ، وَمِنْ التَّقَدُّمِ وَالتَّأَخُّرِ، فَكَيْفَ يَصِحُّ لِنَاظِرٍ أَنْ يَحْكُمَ بِهِ؟ (احکام القرآن ۳/ ۴۱۴)
’’اور یہ قول بہت ہی کم زور ہے، جیسا کہ ہم نے دیگر مقامات پر واضح کیا ہے، اس لیے کہ اس میں نسخ کے شرائط ـــــ معارضہ، تقدم و تاخر ـــــ جمع نہیں ہوئے۔ تو پھر کسی صاحب نظر کے لیے یہ حکم لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے۔‘‘
[7]؎ سہ ماہی تدبر، لاہور، شمارہ ۹۹، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۱۳۵۔
[8]؎ اوز ترک صاحب کے مضمون میں یہ عبارت غلط لکھی گئی ہے شاید کاتب کی کوتاہی کی وجہ سے، صحیح عبارت وہ ہے جو ہم نے نقل کردی ہے۔ اس کا ترجمہ یہ ہے کہ اس آیت ہی میں اس کی دلالت ہے کہ اجتہاد سے اسے منسوخ مانا جائے، حكم کے معنی جس پر حکم کا مدار تھا اس کے اٹھ جانے کی بنا پر (تفسیر الماتریدی ۵/ ۴۰۷)۔
[9]؎ سہ ماہی تدبر، لاہور، شمارہ ۹۹، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۱۳۵۔
[10]؎ سہ ماہی تدبر، لاہور، شمارہ ۹۹، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۱۳۶۔
[11]؎ تفسیر الماتریدی (تاویلات اہل السنۃ) ۹ / ۶۲۳۔ ’’اس میں یہ دلیل ہے کہ قرآن کے حکم کا نسخ لوگوں کے ترک عمل کی وجہ سے ممکن ہے۔‘‘
[12]؎ تفسیر الماتریدی (تاویلات اہل السنۃ) ۹ / ۶۲۴۔
[13]؎ سہ ماہی تدبر، لاہور، شمارہ ۹۹، اکتوبر ۲۰۲۴ء، ص ۱۳۶۔
[14]؎ سہ ماہی تدبر، ص۱۳۹۔