سیرة النبی
ترجمہ و تحقیق: محمد رفیع مفتی/محسن ممتاز
عَنْ عَبْدِ اللّٰهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ:۱ [فِي هَذِهِ الْآيَةِ ﴿ اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ ﴾۲ ] ۳ بَيْنَمَا نَحْنُ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِنًى إِذَا انْفَلَقَ الْقَمَرُ فِلْقَتَيْنِ، فَكَانَتْ فِلْقَةٌ وَرَاءَ الْجَبَلِ، وَفِلْقَةٌ دُونَهُ،۴ [حَتَّى نَظَرُوا إِلَيْهِ، ] ۵ فَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اشْهَدُوا».
[فَقَالَتْ قُرَيْشٌ: هَذَا سِحْرُ ابْنِ أَبِي كَبْشَةَ قَالَ: فَقَالُوا: انْتَظِرُوا مَا يَأْتِيكُمْ بِهِ السُّفَّارُ، فَإِنَّ مُحَمَّدًا لَا يَسْتَطِيعُ أَنْ يَسْحَرَ النَّاسَ كُلَّهُمْ ] ۶ [فَسَلُوا السُّفَّارَ حِينَ يَقْدَمُونَ عَلَيْكُمْ، فَإِنْ كَانَ مِثْلُ مَا رَأَيْتُمْ فَقَدْ صَدَقَ، وَإِلَّا فَهُوَ سِحْرٌ سَحَرَكُمُوهُ ابْنُ أَبِي كَبْشَةَ، فَقَدِمُوا السُّفَّارُ فَسَأَلُوهُمْ قَالُوا: نَعَمْ قَدْ رَأَيْنَاهُ، قَدِ انْشَقَّ الْقَمَرُ ] ۷».
_________________
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اُنھوں نے (قرآن کی ) آیت ’اِقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانْشَقَّ الْقَمَرُ‘ کے بارے میں بات کرتے ہوئے بتایا: ایک روز، جب کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مِنیٰ میں موجود تھے تو کیا دیکھتے ہیں کہ چاند دو ٹکڑوں میں شق ہوگیا ، ایک ٹکڑا پہاڑ کے پیچھے چھپ گیا اور ایک اُس کے آگے (دکھائی دیتا )تھا۔ (یہ منظر اتنا نمایاں تھا کہ) سب لوگوں نے اِسے دیکھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اِس موقع پر ہم سے فرمایا: لوگو، (اِس واقعے کے)گواہ رہنا۔۱؎
(مسلمان تو اِس کے گواہ بنے ،البتہ)کفارِ قریش نے (اپنے لوگوں سے)کہا : یہ تو ابن ابی کبشہ کا جادو ہے۔۲؎ راوی کہتا ہے: پھراُنھوں نے کہا : انتظار کرو اور دیکھو، باہر سے آنے والے مسافر کیا خبر لاتے ہیں ، اِس لیے کہ محمد تمام انسانوں پر جادو نہیں کر سکتے۔چنانچہ جب مسافر تمھارے پاس آئیں تو اُن سے پوچھنا: ( کیا اُنھوں نے بھی یہ منظر دیکھا ہے)؟ اگر وہ بھی کہیں کہ اُنھوں نے تمھاری طرح دیکھا ہے تو پھر یہ حقیقت ہے، ورنہ یہ ایک جادو ہے، جو ابن ابی کبشہ نے تم پر کردیا ہے۔ چنانچہ جب مسافر آئے تو لوگوں نے اُن سے پوچھا۔ اُنھوں نےبتایا :ہاں ، یقیناً ہم نے بھی چاند کا یہ شق ہونا دیکھا تھا۔
_________________
۱؎ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں پیش آنے والے ایک واقعے کا ذکر ہے، جس کا حوالہ قرآن نے بھی دیا ہے اور اِس سے عذاب اور قیامت کے وقوع پر استدلال کیا ہے۔ روایتوں سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ واقعہ ہجرت سے تقریباً پانچ سال پہلے پیش آیا۔ قمری مہینے کی چودھویں رات تھی۔ چاند تھوڑی دیر پہلے طلوع ہوا تھا۔ یکایک وہ شق ہوا اور اُس کا ایک ٹکڑا، جس طرح کہ روایت میں بیان ہوا ہے، سامنے کی پہاڑی کے ایک طرف اور دوسرا ٹکڑا دوسری طرف نظر آیا۔ ایک لحظے کے لیے لوگوں نے یہ کیفیت دیکھی اور پھر دونوں ٹکڑے باہم مل گئے۔
۲؎ ابن ابی کبشہ غالباً نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے رضاعی آبا میں سے کسی کا نام تھا۔ اہل عرب کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ جب کسی کا ذکر حقارت سے کرنا مقصود ہوتا تو اُس کو اِسی طرح اُس کے اپنے آبا کے بجاے کسی غیرمعروف جد سے منسوب کر دیتے تھے۔
۱۔ اِس روایت کا متن اصلاً صحیح مسلم، رقم ۷۲۴۹سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔
اِس کے متابعات اِن مصادر میں منقول ہیں:
مسند ابو داؤد طیالسی، رقم ۲۹۳۔کتاب الفتن،نعیم بن حماد، رقم ۱۶۸۳، ۱۶۸۶۔مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۲۲۵۔مسند احمد، رقم ۳۵۸۳، ۳۹۲۴، ۴۲۷۰، ۴۳۶۰۔ صحیح بخاری، رقم ۳۶۳۶، ۳۸۶۹، ۳۸۷۱، ۴۸۶۴، ۴۸۶۵۔صحیح مسلم، رقم ۷۲۵۰، ۷۲۵۱۔ سنن ترمذی، رقم ۳۲۸۵، ۳۲۸۷۔ مسند بزار، رقم ۱۸۰۱، ۱۸۰۲، ۱۹۷۱۔ السنن الکبرىٰ، نسائی، رقم ۱۱۴۸۸، ۱۱۴۸۹۔مسند ابو یعلىٰ، رقم ۴۹۶۸، ۵۰۷۰، ۵۱۹۶۔ شرح مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۶۹۷، ۶۹۸، ۷۰۱، ۷۰۲، ۷۰۳۔ مسند شاشی، رقم۷۵۴، ۷۵۵، ۷۵۶، ۷۵۷۔صحیح ابن حبان، رقم ۶۴۹۵۔المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۰۰۰۹۔شرح اصول اعتقاد اہل السنۃوالجماعۃ، اللالکائی، رقم ۱۴۵۹، ۱۵۶۰۔ دلائل النبوة، ابو نعیم، رقم ۲۱۱۔دلائل النبوة، بیہقی ۲/ ۲۶۴، ۲۶۵، ۲۶۶۔
الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ یہ روایت تین صحابۂ کرام: عبداللہ ابن عباس ، عبداللہ ابن عمر اور جبیر بن مطعم رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بھی مروی ہے۔
عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اِس کے شواہد درج ذیل مصادر میں دیکھے جا سکتے ہیں:
صحیح بخاری، رقم ۳۶۳۸، ۳۸۷۰، ۴۸۶۶۔صحیح مسلم، رقم ۲۸۰۵۔ مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۷۰۴۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۰۷۳۴۔ مستدرک حاکم، رقم ۳۷۵۸۔ شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ، اللالکائی، رقم ۱۴۶۶۔ دلائل النبوة، بیہقی۲/ ۲۶۷۔
عبداللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے اِس کے شواہد اِن مراجع میں منقول ہیں:
مسند طیالسی، رقم ۲۰۰۳۔صحیح مسلم، رقم۲۸۰۳۔سنن ترمذی، رقم ۲۱۸۲۔معجم ابن الاعرابی، رقم ۱۸۱۸۔ صحیح ابن حبان ، رقم ۶۴۹۶۔دلائل النبوة، بیہقی ۲/ ۲۶۷۔
جبیر بن مطعم رضی اللہ عنہ سے اِس کے شواہد اِن کتابوں میں موجود ہیں۔
مسند احمد، رقم ۱۶۳۰۸۔ اخبار مکہ، فاکہی، رقم ۲۴۳۵۔سنن ترمذی، رقم ۳۲۸۹۔مسند بزار، رقم ۳۴۳۵۔ صحیح ابن حبان، رقم ۶۴۹۷۔ المعجم الکبیر، طبرانی، رقم ۱۵۵۹، ۱۵۶۱۔دلائل النبوة، بیہقی ۲/ ۲۶۸۔
شق قمر کی یہی روایت اِن صحابہ کے علاوہ انس رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔اُس میں قریش کی طرف سے نشانی کے مطالبے کے بعد اِس واقعے کے پیش آنے کا ذکر ہے ۔ چنانچہ اُسے دوسرے متن کے طور پر آگے بیان کیا جا رہا ہے۔
۲۔ القمر۵۴: ۱۔
۳۔مسند احمد، رقم ۴۲۷۰۔
۴۔ بعض روایات، مثلاً مسند احمد، رقم ۳۹۲۴ میں اِس جگہ ’حَتَّى رَأَيْتُ الْجَبَلَ مِنْ بَيْنِ فُرْجَتَيِ الْقَمَر‘، ’’ حتیٰ کہ میں نے چاند کے اُن دو ٹکڑوں کے درمیان پہاڑ کو دیکھا‘‘ کے الفاظ روایت ہوئے ہیں۔ اِسی طرح بعض روایات، مثلاً سنن ترمذی، رقم ۳۲۸۹ میں اِس جگہ ’حَتَّى صَارَ فِرْقَتَيْنِ عَلَى هَذَا الْجَبَلِ وَعَلَى هَذَا الْجَبَلِ‘، ’’یہاں تک کہ ایک ٹکڑا اس پہاڑ پر اور ایک اُس پہاڑ پر تھا‘‘ کے الفاظ آئے ہیں اور بعض روایات، مثلاً اخبار مکہ ، فاکہی، رقم ۲۴۳۵ میں اِس جگہ’ حَتَّى رَأَيْتُ حِرَاءً بَيْنَ شِقَتَيْهِ‘،’’ حتیٰ کہ میں نے دونوں ٹکڑوں کے درمیان حرا پہاڑکو دیکھا ‘‘ کے الفاظ منقول ہیں۔
۵۔مسند احمد، رقم ۳۵۸۳۔
۶۔ دلائل النبوۃ، بیہقی ۲/ ۲۶۵۔
۷۔ شرح اصول اعتقاداہل السنۃ والجماعۃ، اللالکائی،رقم۱۴۶۰۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللّٰهُ عَنْهُ، قَالَ: ۱ سَأَلَ أَهْلُ مَكَّةَ (رَسُولَ اللّٰهِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ) أَنْ يُرِيَهُمْ آيَةً، [(ف)۲ انْشَقَّ الْقَمَرُ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ] ۳ فَأَرَاهُمُ انْشِقَاقَ القَمَرِ.
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مکہ والوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےمطالبہ کیا کہ آپ انھیں کوئی بڑی نشانی دکھائیں،۱؎ چنانچہ آپ کے زمانے ہی میں چاند پھٹا تو آپ نے اُنھیں چاند کا یہ پھٹنا دکھایا۔۲؎
_________________
۱؎ یعنی کوئی ایسی نشانی، جس سے وہ یقین کر سکیں کہ جس قیامت کی آپ منادی کر رہے ہیں، وہ فی الواقع زمین و آسمان کو درہم برہم کر دے سکتی ہے۔
۲؎ قرآن نے اِس کو اِسی حیثیت سے پیش کیا ہے۔ چنانچہ یہ کوئی معجزہ نہیں تھا، جو لوگوں کے مطالبے پر دکھایا گیا، بلکہ ایک غیر معمولی واقعہ تھا، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اللہ تعالیٰ کی حکمت سے پیش آیا اور قرآن نے اِس سے استدلال کرتے ہوئے اُنھیں توجہ دلائی کہ اِس کائنات کی چیزوں میں سے کوئی چیز بھی، خواہ وہ کتنی بڑی ہو، ہمیشہ رہنے والی نہیں ہے۔ یہ زمین و آسمان اور اِن کی سب چیزیں اللہ تعالیٰ کے حکم کے تابع ہیں، لہٰذا متنبہ ہو جاؤ، وہ جب چاہے گا، اِن کو درہم برہم کر کے رکھ دے گا۔
۱۔ اِس روایت کا متن صحیح بخاری، رقم ۴۸۶۷سے لیا گیا ہے۔ اِس کے راوی انس بن مالک رضی اللہ عنہ ہیں۔
الفاظ کے معمولی فرق کے ساتھ اِس کے متابعات اِن مصادر میں منقول ہیں:
مسند طیالسی، رقم۲۰۷۲۔ مسند احمد ، رقم ۱۳۹۱۸، ۱۳۹۱۹، ۱۳۹۵۸۔ صحیح بخاری، رقم ۴۸۶۸۔ صحیح مسلم، رقم۲۸۰۲۔ مسند ابو یعلىٰ،رقم ۲۹۲۹، ۲۹۳۰، ۳۱۴۱۔ شرح مشکل الآثار، طحاوی، رقم ۷۰۸۔شرح اصول اعتقاد اہل السنۃ والجماعۃ،اللالکائی ، رقم ۱۴۶۱۔ دلائل النبوة، بیہقی ۲/ ۲۶۴۔
اِس روایت کا کوئی شاہد نہیں ہے۔
۲۔ مسند ابن ابی شیبہ، رقم ۲۲۵۔
۳۔صحیح مسلم، رقم ۲۸۰۲۔
ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الرازي. (1427هـ/2006م). العلل. ط1. تحقيق: فريق من الباحثين بإشراف وعناية د/ سعد بن عبد الله الحميد و د/ خالد بن عبد الرحمٰن الجريسي. الرياض: مطابع الحميضي.
ابن أبي حاتم عبد الرحمٰن الحنظلي. (1271هـ/1952م). الجرح والتعديل. ط1. حيدر آباد الدكن. الهند: طبعة مجلس دائرة المعارف العثمانية. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
ابن أبي شيبة أبو بكر عبد الله بن محمد العبسي. (۱۹۹۷م). المسند. ط۱. تحقيق: عادل بن يوسف العزازي وأحمد بن فريد المزيدي. الرياض: دار الوطن.
ابن الأعرابي أحمد بن محمد. (1418هـ/1997م). معجم ابن الأعرابي. ط۱. تحقيق وتخريج: عبد المحسن بن إبراهيم. السعودية: دار ابن الجوزي.
ابن حبان محمد بن حبان. (1420هـ/2000م). المجروحين من المحدثين. ط1. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفى. دار السميعي.
إبن حبان، محمد بن حبان البُستي. (۱٤۱٤هـ/۱۹۹۳م). صحيح ابن حبان. ط۲. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. بيروت: مؤسسة الرسالة.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1406هـ/1986م). لسان الميزان. ط 3. تحقيق: دائرة المعرف النظامية الهند. بيروت: مؤسسة الأعلمي للمطبوعات.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1417هـ/1997م). تحرير تقريب التهذيب. ط1. تاليف: الدكتور بشار عواد معروف، الشيخ شعيب الأرنؤوط. بيروت: لبنان. مؤسسة الرسالة للطباعة والنشر والتوزيع.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1403هـ/1983م). طبقات المدلسين. ط1. تحقيق: د. عاصم بن عبد الله القريوتي. عمان: مكتبة المنار.
ابن حجر أحمد بن علي العسقلاني. (1404هـ/1984م). النكت على كتاب ابن الصلاح. ط1. تحقيق: ربيع بن هادي المدخلي. المدينة المنورة، المملكة العربية السعودية: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.
ابن حماد أبو عبد الله نعيم بن حماد. (1412هـ). كتاب الفتن. ط1. تحقيق: سمير أمين الزهيري. مكتبة التوحيد: القاهرة.
ابن رجب عبد الرحمٰن السَلامي. (1407هـ/1987م). شرح علل الترمذي. ط1. تحقيق: الدكتور همام عبد الرحيم سعيد. الأردن: مكتبة المنار (الزرقاء).
ابن عدي عبد الله بن عدي الجرجاني. (1418هـ/1997م). الكامل في ضعفاء الرجال. ط1. تحقيق: عادل أحمد عبد الموجود، علي محمد معوض. بيروت: الكتب العلمية.
ابن الکيال ابو البركات محمد بن احمد. (1420هـ/1999م). الکواکب النيرات. ط2. تحقيق: عبد القيوم عبد رب النبي. مكة مكرمة: المكتبة الامدادية.
ابن المِبرَد يوسف بن حسن الحنبلي. (1413هـ/1992م). بحر الدم فيمن تكلم فيه الإمام أحمد بمدح أو ذم. ط1. تحقيق وتعليق: الدكتورة روحية عبد الرحمٰن السويفي. لبنان، بيروت: دار الكتب العلمية.
ابن المديني علي بن عبد الله السعدي. (1980م). العلل. ط2. تحقيق: محمد مصطفى الأعظمي. بيروت: المكتب الإسلامي.
ابن معين يحيى بن معين البغدادي. (1399هـ/1979م). تاريخ ابن معين. ط1. تحقيق: د. أحمد محمد نور سيف. مكة المكرمة: مركز البحث العلمي وإحياء التراث الإسلامي.
أبو اسحاق الحويني. (1433هـ/2012م). نثل النبال بمعجم الرجال. ط1. جمعه ورتبه: أبو عمرو أحمد بن عطية الوكيل. مصر: دار ابن عباس.
أبو داود سليمان بن الأشعث السَّجِسْتاني. (1403هـ/1983م). سؤالات أبي عبيد الآجري أبا داود السجستاني في الجرح والتعديل. ط1. تحقيق: محمد علي قاسم العمري. المدينة المنورة: عمادة البحث العلمي بالجامعة الإسلامية.
أبو نعيم أحمد بن عبد الله. (۱٤۰٦هـ/۱۹۸٦م). دلائل النبوة. ط۲. تحقيق: الدكتور محمد رواس قلعه جي، وعبد البر عباس. بيروت: دار النفائس.
أبو يعلى أحمد بن علي. (1404هـ/1984م). مسند أبي يعلى. ط1. تحقيق: حسين سليم أسد. دمشق: دار المأمون للتراث.
أحمد بن محمد بن حنبل. (۱٤۱٦هـ/۱۹۹5م). مسند أحمد. ط۱. تحقيق: شعيب الأرنؤوط - عادل مرشد، وآخرون. إشراف: د. عبد الله بن عبد المحسن التركي. بيروت: مؤسسة الرسالة.
أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1422هـ/2001م). العلل و معرفة الرجال. ط2. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. الرياض: دار الخاني فرقد فريد الخاني.
أحمد بن محمد بن حنبل الشيباني. (1408هـ/1988م). العلل و معرفة الرجال. ط1. تحقيق و تخريج: د وصي الله بن محمد عباس. بيروت: المكتب الإسلامي. الرياض: دار الخاني.
البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (2009م). التاريخ الكبير. تحقيق: السيد هاشم الندوي. بيروت: دار الفكر.
البخاري محمد بن إسمٰعيل. (۱٤۲۲هـ). الجامع الصحيح. ط۱. تحقيق: زهير الناصر. بيروت: دار طوق النجاة.
البخاري محمد بن إسمٰعيل الجعفي. (1397هـ/1977م). التاريخ الأوسط. ط1. حلب. القاهرة: دار الوعي مكتبة دار التراث.
البزار أحمد بن عمرو. (۲۰۰۹م). مسند البزار. ط۱. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين الله، وعادل بن سعد، وصبري عبد الخالق الشافعي. المدينة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.
البيهقي أبو بكر أحمد بن الحسين. (1408هـ/1988م). دلائل النبوة. ط1. المحقق: د. عبد المعطي قلعجي. بيروت: دار الكتب العلمية، القاهرة: دار الريان للتراث.
الترمذي محمد بن عيسى. (1395هـ/1975م). سنن الترمذي. ط2. تحقيق وتعليق: أحمد محمد شاكر (ج1، 2) ومحمد فؤاد عبد الباقي (ج3) وإبراهيم عطوة عوض المدرس في الأزهر الشريف (ج4، 5). مصر: شركة مكتبة ومطبعة مصطفى البابي الحلبي.
الحاكم محمد بن عبد الله المعروف بابن البيع. (۱٤۱۱ه/۱۹۹۰م). المستدرك على الصحيحين. ط۱. تحقيق: مصطفى عبد القادر عطاء. بيروت: دار الكتب العلمية.
خالد الرباط سيد عزت عيد. (1430هـ/2009م). الجامع لعلوم الإمام أحمد (الأدب والزهد). ط1. مصر: دار الفلاح للبحث العلمي وتحقيق التراث.
الدارقطني علي بن عمر. (1405هـ/1985م). العلل الواردة في الأحاديث النبوية. ط1. تحقيق وتخريج: محفوظ الرحمٰن زين الله السلفي. الرياض. دار طيبة.
الذهبي محمد بن أحمد. (1413هـ/1992م). الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة. ط1. تعليق: امام برهان الدين أبي الوفاء إبراهيم بن محمد. جدة: دار القبلة للثقافة الاسلامية، مؤسسة علوم القرآن.
الذهبي محمد بن أحمد. (1387هـ/1967م). ديوان الضعفاء والمتروكين. ط2. تحقيق: حماد بن محمد الانصاري. مكة: مكتبة النهضة الحديثة.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1988م). الاغتباط بمن رمي من الرواة بالاختلاط. ط1. تحقيق: علاء الدين علي رضا. القاهرة: دار الحديث.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1986م). التبيين لأسماء المدلسين. ط1. تحقيق: يحيى شفيق حسن. بيروت: دار الكتب العلمية.
سبط ابن العجمي برهان الدين الحلبي. (1407هـ/1987م). الكشف الحثيث عمن رمي بوضع الحديث. ط1. المحقق: صبحي السامرائي. بيروت: عالم الكتب، مكتبة النهضة العربية.
الشاشي الهيثم بن کليب. (1410هـ). مسند الشاشي. ط۱. تحقيق: محفوظ الرحمٰن زين اللّٰه. المدينة المنورة: مکتبة العلوم والحکم.
الصنعاني عبد الرزاق بن همام. (1410هـ). تفسير القرآن. ط1. تحقيق: د. مصطفى مسلم محمد. الرياض: مكتبة الرشد.
الطبراني سليمان بن أحمد. (د.ت). المعجم الكبير. ط۲. تحقيق: حمدي بن عبد المجيد السلفي. القاهرة: مكتبة ابن تيمية.
الطبراني أبو القاسم سليمان بن أحمد الشامي. (۱٤۰5ه/۱۹۸٤م). مسند الشاميين. ط۱. تحقيق: حمدي بن عبدالمجيد السلفي. بيروت: مؤسسة الرسالة.
الطحاوي أحمد بن محمد. (1415هـ/1994م). شرح مشكل الآثار. ط1. تحقيق: شعيب الأرنؤوط. دار النشر مؤسسة الرسالة.
الطيالسي سليمان بن داود. (1419هـ/1999م). مسند أبي داود الطيالسي. ط1. تحقيق: الدكتور محمد بن عبد المحسن التركي. مصر: دار هجر.
العجلي أحمد بن عبد الله. (1405هـ/1985م). معرفة الثقات. ط1. تحقيق: عبد العليم عبد العظيم البستوي. المدينة المنورة: مكتبة الدار.
الفاكهي أبو عبد الله محمد بن إسحٰق المكي. (۱٤۱٤م). أخبار مكة في قديم الدهر وحديثه. ط۲. تحقيق: د. عبد الملك عبد الله دهيش. بيروت: دار خضر.
الكَشّي أبو محمد عبد الحميد. (۱٤۰۸هـ/۱۹۸۸م). المنتخب من مسند عبد بن حميد. ط۱. تحقيق: صبحي البدري السامرائي، محمود محمد خليل الصعيدي. القاهرة: مكتبة السنة.
اللالكائي أبو القاسم هبة الله بن الحسن الرازي. (۱٤۲۳هـ/۲۰۰۳م). شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة. ط۸. تحقيق: أحمد بن سعد بن حمدان الغامدي. الرياض: دار طيبة.
مسلم بن الحجاج النيسابوري. (د.ت). الجامع الصحيح. د.ط. تحقيق: محمد فؤاد عبد الباقي. بيروت: دار إحياء التراث العربي.
مغلطاي علاء الدين بن قليج. (1422هـ/2001م). إكمال تهذيب الكمال في أسماء الرجال. ط1. تحقيق: أبو عبد الرحمٰن عادل بن محمد، أبو محمد أسامة بن إبراهيم. القاهرة: الفاروق الحديثة للطباعة والنشر.
النسائي أحمد بن شعيب. (1411هـ/1991م). السنن الکبري. ط۱. تحقيق: عبد الغفار سليمان البنداري، سيد کسروي حسن. بيروت: دار الکتب العلمية.
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ