HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : جاوید احمد غامدی

البیان: الشوریٰ ۴۲: ۱۱-۲۰ (۲)

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

(گذشتہ سے پیوستہ)

 

فَاطِرُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ جَعَلَ لَكُمْ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ اَزْوَاجًا وَّمِنَ الْاَنْعَامِ اَزْوَاجًا يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِﵧ لَيْسَ كَمِثْلِهٖ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْرُ١١ لَهٗ مَقَالِيْدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ يَّشَآءُ وَيَقْدِرُ اِنَّهٗ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْمٌ١٢

وہی زمین اور آسمانوں کا پیدا کرنے والا ہے۔ اُسی نے تمھاری جنس سے تمھارے لیے جوڑے بنائے اور چوپایوں کی جنس سے بھی جوڑے بنائے۔ وہ اِس مزرعہ میں تمھاری تخم ریزی کرتا ہے۔[86] اُس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے[87] اور وہی سننے والا اور دیکھنے والا ہے۔[88] زمین اور آسمانوں کی کنجیاں اُسی کے پاس ہیں۔[89] وہ جس کی روزی چاہتا ہے ، کشادہ کرتا ہے اور جس کی چاہتا ہے، تنگ کر دیتا ہے۔ بے شک، وہ ہر چیز سے واقف ہے۔ ۱۱- ۱۲

شَرَعَ لَكُمْ مِّنَ الدِّيْنِ مَا وَصّٰي بِهٖ نُوْحًا وَّالَّذِيْ٘ اَوْحَيْنَا٘ اِلَيْكَ وَمَا وَصَّيْنَا بِهٖ٘ اِبْرٰهِيْمَ وَمُوْسٰي وَعِيْسٰ٘ي اَنْ اَقِيْمُوا الدِّيْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِيْهِ كَبُرَ عَلَي الْمُشْرِكِيْنَ مَا تَدْعُوْهُمْ اِلَيْهِ اَللّٰهُ يَجْتَبِيْ٘ اِلَيْهِ مَنْ يَّشَآءُ وَيَهْدِيْ٘ اِلَيْهِ مَنْ يُّنِيْبُ١٣

اُس نے تمھارے لیے وہی دین مقرر کیا ہے جس کی ہدایت اُس نے نوح کو فرمائی اور جس کی وحی، (اے پیغمبر)، ہم نے تمھاری طرف کی ہے اور جس کا حکم ہم نے ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو دیا[90]  کہ (اپنی زندگی میں)اِس دین کو قائم رکھو[91] اور اِس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔[92] تم جس چیز کی طرف اِن مشرکوں کو بلا رہے ہو ( کہ یہ خدا کو ایک مانیں)، وہ اِن پر بہت شاق گزر رہی ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے ، اپنی طرف آنے کے لیے چن لیتا ہے،[93] لیکن اپنی طرف آنے کی راہ وہ اُنھی کو دکھاتا ہے جو اُس کی طرف متوجہ ہوتے ہیں۔ ۱۳

وَمَا تَفَرَّقُوْ٘ا اِلَّا مِنْۣ بَعْدِ مَا جَآءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًاۣ بَيْنَهُمْ وَلَوْلَا كَلِمَةٌ سَبَقَتْ مِنْ رَّبِّكَ اِلٰ٘ي اَجَلٍ مُّسَمًّي لَّقُضِيَ بَيْنَهُمْ وَاِنَّ الَّذِيْنَ اُوْرِثُوا الْكِتٰبَ مِنْۣ بَعْدِهِمْ لَفِيْ شَكٍّ مِّنْهُ مُرِيْبٍ١٤

(اور یہ جو اِن پیغمبروں کے ماننے والے ہیں)، یہ صحیح علم اپنے پاس آ چکنے کے بعد محض آپس کے ضدم ضدا کی وجہ سے متفرق ہوگئے ہیں۔ اور تمھارے پروردگار کی طرف سے اگر ایک مقرر مدت تک مہلت کی بات پہلے سے طے نہ ہو چکی ہوتی تو اِن کے درمیان اُسی وقت فیصلہ کر دیا جاتا۔ (پھر یہی نہیں)، اِن کے بعد جو (خدا کی طرف سے) اُس کی کتاب کے وارث بنائے گئے، وہ اُس کتاب کی طرف سے ایسے شک میں پڑے ہوئے ہیں جو سخت الجھن میں ڈال دینے والا ہے۔[94] ۱۴

فَلِذٰلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا٘ اُمِرْتَ وَلَا تَتَّبِعْ اَهْوَآءَهُمْ وَقُلْ اٰمَنْتُ بِمَا٘ اَنْزَلَ اللّٰهُ مِنْ كِتٰبٍ وَاُمِرْتُ لِاَعْدِلَ بَيْنَكُمْ اَللّٰهُ رَبُّنَا وَرَبُّكُمْ لَنَا٘ اَعْمَالُنَا وَلَكُمْ اَعْمَالُكُمْ لَا حُجَّةَ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَللّٰهُ يَجْمَعُ بَيْنَنَا وَاِلَيْهِ الْمَصِيْرُ١٥

سو، (اے پیغمبر)، تم اُسی دین کی دعوت دو (جو سب پیغمبروں کا دین ہے) اور جس طرح تم کو حکم دیا گیا ہے، اُس پر مضبوطی سے جمے رہو اور اِن کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو[95] اور اعلان کر دو کہ اللہ نے جو کتاب بھی اتاری ہے، میں اُس پر ایمان لایا ہوں اور مجھے حکم ملا ہے کہ میں (حق و باطل کے معاملے میں) تمھارے درمیان انصاف کا فیصلہ کر دوں۔ (یاد رکھو)، اللہ ہی ہمارا پروردگار ہے اور تمھارا بھی۔[96] (تم نہیں مانتے تو) ہمارے اعمال ہمارے لیے ہیں اور تمھارے اعمال تمھارے لیے۔ ہمارے اور تمھارے درمیان مزید کسی بحث کی ضرورت نہیں رہی۔ اللہ (قیامت کے دن) ہم سب کو جمع کرے گا اور اُسی کی طرف سب کو جانا ہے۔۱۵

وَالَّذِيْنَ يُحَآجُّوْنَ فِي اللّٰهِ مِنْۣ بَعْدِ مَا اسْتُجِيْبَ لَهٗ حُجَّتُهُمْ دَاحِضَةٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَعَلَيْهِمْ غَضَبٌ وَّلَهُمْ عَذَابٌ شَدِيْدٌ١٦

جو لوگ اللہ کے بارے میں حجت کر رہے ہیں (کہ اُس کے شریک ثابت کریں)، اِس کے بعد کہ اُس کی دعوت (اُن کی طرف سے[97]) قبول کی جا چکی ہے، اُن کی حجت اُن کے پروردگار کے آگے بالکل پسپا ہونے والی ہے اور اُن پر غضب اور اُن کے لیے سخت عذاب ہے۔۱۶

اَللّٰهُ الَّذِيْ٘ اَنْزَلَ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ وَالْمِيْزَانَ وَمَا يُدْرِيْكَ لَعَلَّ السَّاعَةَ قَرِيْبٌ١٧ يَسْتَعْجِلُ بِهَا الَّذِيْنَ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِهَا وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مُشْفِقُوْنَ مِنْهَا وَيَعْلَمُوْنَ اَنَّهَا الْحَقُّ اَلَا٘ اِنَّ الَّذِيْنَ يُمَارُوْنَ فِي السَّاعَةِ لَفِيْ ضَلٰلٍۣ بَعِيْدٍ١٨

اللہ ہی ہے جس نے اپنی یہ کتاب قول فیصل کے ساتھ اتاری ہے اور (اِس طرح حق و باطل کو الگ الگ کرنے کے لیے)اپنی میزان نازل کر دی ہے۔ (اِنھیں توفیق ہو تو اِس سے فائدہ اٹھا لیں، ورنہ) تم کو کیا پتا کہ شاید قیامت قریب ہی آ لگی ہو! اُس کے لیے وہی جلدی مچا رہے ہیں جو اُس پر ایمان نہیں رکھتے۔[98] ایمان والے تو اُس سے ڈرتے ہیں اور جانتے ہیں کہ وہ یقیناً برحق ہے۔ سنو، جو لوگ قیامت (جیسی حقیقت)کے بارے میں جھگڑ رہے ہیں، اِس میں کچھ شک نہیں کہ وہ گم راہی میں بہت دور جا چکے ہیں۔۱۷- ۱۸

اَللّٰهُ لَطِيْفٌۣ بِعِبَادِهٖ يَرْزُقُ مَنْ يَّشَآءُ وَهُوَ الْقَوِيُّ الْعَزِيْزُ١٩ مَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الْاٰخِرَةِ نَزِدْ لَهٗ فِيْ حَرْثِهٖ وَمَنْ كَانَ يُرِيْدُ حَرْثَ الدُّنْيَا نُؤْتِهٖ مِنْهَا وَمَا لَهٗ فِي الْاٰخِرَةِ مِنْ نَّصِيْبٍ٢٠

(اِن کو یہ ڈھیل اِس لیے مل رہی ہے کہ) اللہ اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔ (اُن کی نافرمانی کے باوجود) ،وہ جس کو چاہتا ہے، رزق عطا فرماتا ہے اور (یہ اِس ڈھیل سے بے خوف نہ ہوں، اِس لیے کہ) وہ بڑی قوت والا ہے، بڑا ہی زبردست ہے۔[99] (لوگو، ہمارا قاعدہ یہ ہے کہ ) جو آخرت کی کھیتی چاہتا ہے، ہم اُس کی کھیتی میں اُس کے لیے برکت عطا فرماتے ہیں اور دنیا میں بھی اُس کا حصہ اُسے دیتے ہیں[100] اور جو دنیا کی کھیتی چاہتا ہے، اُس کو ہم اُس میں سے (جتنا چاہتے ہیں)، دے دیتے ہیں، مگر (اِس کے بعد پھر) آخرت میں اُس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ ۱۹- ۲۰

[86]۔ اصل الفاظ ہیں:’يَذْرَؤُكُمْ فِيْهِ‘۔اِن میں ضمیر مجرور کا مرجع اُس مفہوم کے اندر ہے جو الفاظ سے سمجھ میں آتا ہے، یعنی انسانوں اور جانوروں کے اندر پیدایش کا وہ نظام جو گویا ایک فارم یا مزرعہ ہے جس سے وہ اگتے رہتے ہیں۔ عربی زبان میں ضمیریں اِس طریقے سے آتی ہیں۔

[87]۔ یہ پچھلی بات کا نتیجہ ہے کہ جس نے یہ عظیم چیزیں پیدا کیں اور تخلیق کا یہ حیرت انگیز نظام قائم کیا ہے، اُس کے مثل کوئی چیز آخر کیسے ہو سکتی ہے؟ یقیناً کوئی چیز بھی اُس کے مثل نہیں ہے۔

[88]۔ یعنی حقیقی سننے والا اور دیکھنے والا وہی ہے، اِس لیے کہ ایک سمیع و بصیر خالق ہی ایسی وسیع کائنات کو وجود میں لا سکتا ہے اور وہی اُسے قائم رکھ سکتا ہے۔

[89]۔ یعنی جب وہ خالق ہے تو وہی مالک بھی ہے۔ اُس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کرنے کے بعد اُن کے خزانوں کی کنجیاں کسی اور کے ہاتھ میں نہیں دے دی ہیں۔ وہ اُسی کے پاس ہیں۔ اِس لیے عنایت و رحمت کی تمام امیدیں بھی اُسی سے رکھنی چاہییں۔ کسی دوسرے کے پاس کچھ ہے ہی نہیں کہ اُس سے کوئی امید رکھی جائے۔

[90]۔ یہ اب اُسی مضمون کی تفصیل فرمائی ہے جو سورہ کی ابتدا میں بیان ہوا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کوئی ایسا دین لے کر نہیں آئے ہیں جو اہل عرب کے لیے انوکھا اور اجنبی ہو، بلکہ اُسی دین کی دعوت دے رہے ہیں جس کی دعوت اُن سے پہلے کے پیغمبر دیتے رہے ہیں۔اُس کے عقائدوہی ہیں، اُس کی اساسات وہی ہیں، اُس کی اخلاقی تعلیمات وہی ہیں اور چند ترامیم اور اضافوں کے سوا اُس کی شریعت بھی بالکل وہی ہے ۔ اِس کے لیے انبیاعلیہم السلام کا حوالہ جس طریقے سے دیا ہے، استاذ امام امین احسن اصلاحی نے اُس کی وضاحت فرمائی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

’’...پہلے ابتدائی اور آخری کڑی، یعنی حضرت نوح اور حضرت خاتم الانبیا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر فرمایا، پھر بیچ کے انبیا میں سے تین جلیل القدر نبیوں ــــــ حضرت ابراہیم، حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ علیہم السلام ــــــ کا نام، خاص طور پر لیا۔ اِس اہتمام خاص کے ساتھ اِن کے ذکر کی وجہ یہ ہے کہ اِنھی تینوں نبیوں کی پیروی کے مدعی اُس وقت قرآن کے سامنے تھے۔ مشرکین عرب حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پیروی کے مدعی تھے اور یہود و نصاریٰ بالترتیب حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے۔ اِس طرح گویا نبیوں کی پوری تاریخ کی طرف بھی اجمالی اشارہ ہو گیا اور قابل ذکر امتیں بھی سامنے آگئیں۔‘‘(تدبرقرآن۷/ ۱۵۲)

[91]۔ یعنی اِس کو برقرار رکھو اور اِس پر قائم رہو۔ اِس کا کوئی حکم اگر فرد سے متعلق ہے تو فرد اُس پر قائم رہے اور معاشرے سے متعلق ہے تو معاشرے کے ارباب حل و عقد اُس پر قائم رہیں اور اُس کو پوری طرح برقرار رکھیں۔ اقامت دین کا صحیح مفہوم یہی ہے۔ جن اہل علم نے اِسے دین کو دنیا میں جاری او رنافذ کرنے یا رکھنے کے معنی میں لیا ہے، اُن کی راے عربیت کے بالکل خلاف ہے۔ ہم نے ’’تاویل کی غلطی‘‘ کے زیرعنوان اپنی کتاب ’’برہان‘‘ میں اِس راے کی غلطی واضح کر دی ہے۔ یہ بالکل اُسی طرح کی تعبیر ہے، جیسے اقامت صلوٰۃ ہے۔ جس طرح اُس کے معنی نماز کو دنیا میں جاری اور نافذ کرنے کے نہیں ہیں، اُسی طرح اقامت دین کے بھی نہیں ہیں۔ قرآن نے ’عَلٰي صَلَاتِهِمْ دَآئِمُوْنَ‘اور ’يُحَافِظُوْنَ * کی تعبیرات سے بالکل واضح کر دیا ہے کہ وہ جب لوگوں کو نماز قائم کرنے کا حکم دیتا ہے تو اُس سے اُس کی مراد کیا ہوتی ہے۔یعنی یہی کہ اُس کا اہتمام رکھو، اُس کی حفاظت کرو اور اُس پر قائم رہو۔ یہی بات یہاں دین کے بارے میں فرمائی ہے۔ چنانچہ اقامت دین ، جیسا کہ بعض اہل علم نے سمجھا ہے، دین کے فرائض میں سے ایک فرض اور اُس کے احکام میں سے ایک حکم نہیں ہے کہ اُسے ’’فریضۂ اقامت دین‘‘ قرار دے کر فرائض دینی میں ایک فرض کا اضافہ کیا جائے، بلکہ پورے دین کے متعلق ایک اصولی ہدایت ہے، بالکل اُسی طرح جیسے ’وَاعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيْعًا وَّلَا تَفَرَّقُوْا** (اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور تفرقہ میں نہ پڑو) ایک اصولی ہدایت ہے۔

[92]۔ یعنی پورے کا پورا اختیار کرو، جس طرح کہ وہ ہے اور جس نظم و ترتیب کے ساتھ دیا گیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ اُس میں اپنی طرف سے کمی بیشی کردو یا اُس کی ترجیحات خود طے کرو یا اپنی تاویلات سے اُس کو کچھ کا کچھ بنا دو۔ اِن میں سے جو کام بھی کرو گے، اُس کا لازمی نتیجہ تفرقہ ہو گا۔

[93]۔ اصل میں ’يَجْتَبِيْ٘ اِلَيْهِ‘کے الفاظ آئے ہیں۔ اِن میں ’اِلٰي‘اِس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں تضمین ہے۔

[94]۔ یہ وجہ بیان فرمائی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے ہر پیغمبر کو اپنا دین اِس ہدایت کے ساتھ دیا کہ اُس میں تفرقہ پیدا نہ کیا جائے تو اُن کی امتوں میں جو تفرقہ پیدا ہوا، یہاں تک کہ حاملین کتاب بھی اُس سے محفوظ نہیں رہے اور اب وہ اپنی کتاب ہی کے بارے میں نہایت اضطراب انگیز شکوک و شبہات میں مبتلا ہیں تو اِس کی بنیاد علم و استدلال یا تحقیق و اجتہاد پر نہیں تھی، یہ محض ضدم ضدا اور باہمی عناد کی وجہ سے پیدا ہوا۔ ورنہ صحیح علم آ چکنے کے بعد یہ تو ممکن ہے کہ کسی چیز کے سمجھنے میں کوئی جزوی اختلاف ہو جائے، مگر وہ اِس طرح کے تفرقے کی صورت کبھی اختیار نہیں کرتا کہ ایک دوسرے کی تکفیر کی جائے یا اُس کو ضال و مضل قرار دیا جائے اورایک ہی دین کے ماننے والے ایک دوسرے کے جان و مال اور آبرو کے درپے ہو جائیں۔

[95]۔ یعنی اُن بدعتوں کی ، جو اُنھوں نے اپنی خواہشوں سے دین میں پیدا کر رکھی ہیں۔

[96]۔ مطلب یہ ہے کہ وہی مولیٰ و مرجع ہے، لہٰذا اُسی کے سامنے ہماری بھی پیشی ہونی ہے اور تم بھی اُسی کے حضور میں پیش کیے جاؤ گے۔ وہاں کوئی اور مولیٰ و مرجع نہیں ہو گا کہ خدا کو چھوڑ کر کوئی شخص اُس کی طرف رجوع کرے۔

[97]۔ یعنی قریش مکہ اور یہود و نصاریٰ کی طرف سے، جن میں سے ہر ایک خدا کو مانتا تھا۔

[98]۔ چنانچہ استہزا کے لیے جلدی مچاتے ہیں۔

[99]۔ لہٰذا اُس کو کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ اِس ڈھیل کے نتیجے میں یہ اُس کی گرفت سے نکل جائیں گے۔

[100]۔ یہ الفاظ اصل میں بربناے قرینہ محذوف ہیں۔ یہ تقابل کے اصول پر ہے، اِس لیے کہ دوسرے ٹکڑے میں ’نُؤْتِهٖ مِنْهَا‘کے الفاظ موجود ہیں۔

[باقی]

ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* المعارج ۷۰: ۲۳، ۳۴۔

** اٰل عمرٰن ۳: ۱۰۳۔

B