قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور بندیوں کی ایک صفت ’ذاکرین‘ اور ’ذاکرات‘ بیان کی ہے:
وَالذّٰكِرِيْنَ اللّٰهَ كَثِيْرًا وَّالذّٰكِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰهُ لَهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا.(الاحزاب ۳۳: ۳۵)
’’اللہ کو بہت زیادہ یاد کرنے والے اور یاد کرنے والیاں، ان کے لیے اللہ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اس آیت میں اہل ایمان کی یہ صفت ان صفات کے آخر میں بیان ہوئی ہے جوصفات کامل بندگی کے تمام احوال کو محیط ہیں۔قرآن مجید میں ذکر کثیر جس طرح اہل ایمان کے وصف کی حیثیت سے بیان ہوتا ہے، اسی طرح کئی مقامات پر اس کا حکم دیاگیا ہے ۔ مثلاً:
يٰ٘اَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا اذْكُرُوا اللّٰهَ ذِكْرًا كَثِيْرًا. وَّسَبِّحُوْهُ بُكْرَةً وَّاَصِيْلًا.(الاحزاب ۳۳: ۴۱ - ۴۲)
’’اے ایمان والو اللہ کو بہت زیادہ یاد کرو اور صبح و شام اس کی تسبیح کرتے رہو۔‘‘
بندۂ مومن کے مطلوب حال کے طور پر اس کی کیا اہمیت ہے ۔ اس کا اندازہ اس حکم سے ہوتا ہے جو حضرات ہارون اور موسیٰ علیہما السلام کو دیا گیا:
اِذْهَبْ اَنْتَ وَاَخُوْكَ بِاٰيٰتِيْ وَلَا تَنِيَا فِيْ ذِكْرِيْ.(طٰہٰ۲۰: ۴۲)
’’تم اور تمھارا بھائی میری نشانیوں کے ساتھ جاؤ اور میری یاد میں کوتاہی نہ کرنا۔‘‘
اسی طرح حضرت ذکریا علیہ السلام کو بھی اسی کی تلقین کی:
قَالَ رَبِّ اجْعَلْ لِّيْ٘ اٰيَةً قَالَ اٰيَتُكَ اَلَّا تُكَلِّمَ النَّاسَ ثَلٰثَةَ اَيَّامٍ اِلَّا رَمْزًا وَاذْكُرْ رَّبَّكَ كَثِيْرًا وَّسَبِّحْ بِالْعَشِيِّ وَالْاِبْكَارِ.(آل عمران ۳: ۴۱)
’’درخواست کی: میرے رب، میرے لیے کوئی نشانی ٹھیرا دیجیے۔ ارشاد ہوا:تیری نشانی یہ ہے کہ تو لوگوں سے تین دن تک اشارے کے سوا بات نہ کر سکے گا۔ اپنے رب کو بہت یاد کر اور صبح و شام تسبیح کر۔‘‘
ذکر کیا ہے؟ قرآن مجید نے اسے مختلف اسالیب میں بیان کیا ہے اور اس کے ظاہری اور باطنی احوال کی توضیح کی ہے۔ جب کوئی آدمی یہ یقین پیدا کر لیتا ہے کہ اس کا ایک خالق و مالک ہے، وہی اکیلا اس کے معاملات کو دیکھ اور چلا رہا ہے اور اسے ایک روز اس کے حضور اپنے اعمال کی جزا و سزا پانے کے لیے پیش ہونا ہےتو اس کی شخصیت میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے۔ اس کی اصل فکر اپنے رب کی رضا کا حصول بن جاتی ہے۔ وہ رب کی خشیت سے لبریز دل سے اس کے سہارے کا طالب بن جاتا ہے۔ وہ اس کی قدرت ، طاقت اور عظمت کے یقین پر اسی پر متوکل ہو جاتا ہے۔ وہ اس کے انعام کو پانے کے لیے گناہوں سے مجتنب اور نیکیوں میں سرگرم ہو جاتا ہے۔ توبہ و انابت ، خشوع و خضوع، ذکر و فکر،تفویض و توکل ، راضی بر رضا ہونا اور امتثال امر اس کا ظاہر و باطن بن جاتے ہیں۔اس کا سب سے بڑا مظہر خدا کی یاد ہے۔ ایک حکیم و قدیر خدا کی یاد:
الَّذِيْنَ يَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ قِيٰمًا وَّقُعُوْدًا وَّعَلٰي جُنُوْبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُوْنَ فِيْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ.(آل عمران ۳: ۱۹۱)
’’وہ جو کھڑے اور بیٹھےاور پہلوؤں پر لیٹے خدا کو یاد کرتے ہیں۔ کائنات کی تخلیق پر غور کرتے ہیں تو (کہہ اٹھتے ہیں): اے ہمارے رب، تو نے اسے بے مقصد نہیں بنایا۔ تو اس سے پاک ہے۔ ہمیں آگ کے عذاب سے محفوظ رکھ۔‘‘
خدا کے یہ بندے جب غفلت اور جذبات کا شکار ہو کر گناہ کر بیٹھتے ہیں تو خدا کی یاد آتے ہی اللہ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگ جاتے ہیں اور ان کا طرز زندگی گناہ پر اصرار نہیں ہوتا:
وَالَّذِيْنَ اِذَا فَعَلُوْا فَاحِشَةً اَوْ ظَلَمُوْ٘ا اَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللّٰهَ فَاسْتَغْفَرُوْا لِذُنُوْبِهِمْ وَمَنْ يَّغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اللّٰهُ وَلَمْ يُصِرُّوْا عَلٰي مَا فَعَلُوْا وَهُمْ يَعْلَمُوْنَ.(آل عمران ۳: ۱۳۵)
’’اور یہ لوگ جب بے حیائی کا کوئی کام کر بیٹھتے ہیں یا اپنی جانوں پر کوئی ظلم کرتے ہیں، انھیں اللہ یاد آیا تو انھوں نے اپنے گناہوں کی معافی مانگی۔ اللہ کے سوا معاف کرنے والا کون ہے۔ انھوں نے جانتے بوجھتے اپنے کیے پر اصرار نہیں کیا۔‘‘
بندۂ مومن چونکہ اللہ کی بندگی میں جی رہا ہوتا ہے، اس لیے اس سے گناہ تو ہو سکتا ہے، لیکن وہ فاسق و فاجر نہیں ہوتا کہ گناہ پر ہی قائم رہے ۔ خدا کی یاد اسے چونکا دیتی ہے اور وہ اپنے گناہ پر نادم ہوتا اور اللہ سے معافی مانگنے لگ جاتا ہے، اس لیے کہ اللہ کی گرفت سے کوئی اور بچانے والا نہیں ہے۔ یہ آیت یاد الہٰی کے ایک حال اور اس کی برکت کا بیان ہے۔
جب خدا کی یاد دلائی جاتی ہے تو بندۂ مؤمن لرزہ بر اندام ہو جاتا ہے:
الَّذِيْنَ اِذَا ذُكِرَ اللّٰهُ وَجِلَتْ قُلُوْبُهُمْ وَالصّٰبِرِيْنَ عَلٰي مَا٘ اَصَابَهُمْ وَالْمُقِيْمِي الصَّلٰوةِ وَمِمَّا رَزَقْنٰهُمْ يُنْفِقُوْنَ.(الحج ۲۲: ۳۵)
’’ان کا حال یہ ہے کہ جب انھیں اللہ یاد دلایا جائے تو ان کے دل کانپ اٹھتے ہیں۔ جو بھی مشکلات و مصائب پیش آئیں، ثابت قدم رہتے ہیں۔ نماز کے پابند اور ہمارے عطا کردہ رزق میں سے اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں۔‘‘
قرآن مجید کےان چند مقامات کا حوالہ یہ واضح کر دیتا ہے کہ بندۂ مومن کس طرح اللہ کے ساتھ شعوری طور پر متعلق رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب اس کا قلب خدا کی یاد سے معمور ہےتو اس کی زبان بھی اس کے ذکر سے تر رہتی ہے۔ وہ نعمتیں پاتا ہے تو شکر کے کلمات اس کی زبان پر آجاتے ہیں۔ کوئی تنگی ترشی پیش آتی ہے تو اللہ سے نجات کا طالب بن جاتا ہے اور اپنا احتساب کرنے لگتا ہےکہ اپنی غفلتوں اور کوتاہیوں کا تدارک کرے، نیکیوں میں سرگرمی دکھائے کہ اللہ کی رحمت اس کی طرف متوجہ ہو۔ کوئی ارادہ کرتا ہے تو ’ان شاء اللہ‘ کہہ کر اللہ کے ارادے کے ہر ارادے پر فائق ہونے کو تسلیم کرتا ہے۔ کسی کو کسی نعمت کے حال میں دیکھتا ہے تو ’ما شاء اللہ‘ کہہ کر اللہ کے فیصلے کو دل کی آمادگی سے ماننے کا اقرار کرتا ہے۔ کوئی کام شروع کرتا ہے تو اللہ کے نام سے کرتا ہے کہ اس کا فضل و عنایت شامل حال ہو۔ جب کسی اندیشے یا وسوسے کا شکار ہوتا ہے تو اللہ کی پناہ مانگتا ہے۔ سواری پر سوار ہو، بستر پر سونے لگے ، صبح کرے یا شام کر ے، گھر میں داخل ہو یا گھر سے نکلے، خرید و فروخت کرنے لگے، غرض زندگی کے ہر معاملے میں اس کی زبان پر حمد و تسبیح، دعا و مناجات ، ایمان و یقین اور استمداد و استعانت کے کلمات جاری ہو جاتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعائیں انھی مضامین کا مرقع ہیں۔ ان میں خدا کی معرفت اور بندگی کا حال اپنی پوری شان سے سمویا ہوا ہے۔ ان دعاؤں کی اصل شان یہی ہے کہ یہ ذکر دائم اور تفویض وتوکل کے اظہار کی ایک پاکیزہ صورت ہیں۔
یہ جو قرآن نے بیان کیا ہے کہ اللہ کے بندے ذاکر ہوتے ہیں اور اللہ کی بندیاں ذاکرات ہوتی ہیں ،ان سطور میں اسی وصف کی توضیح کی گئی ہےتاکہ یہ واضح ہو جائے کہ کلمات ذکر و تسبیح کا زبان پر جاری ہونا اپنی حقیقت کے اعتبار سے کیا ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ