افسانہ
’’اف! اچھرہ ، انارکلی، لبرٹی؛ ساری مارکیٹیں چھان ماری ہیں، تب کہیں جا کر ڈھنگ کے کپڑے ملے ہیں۔‘‘ شہلا نے کپڑوں سے بھرے شاپر بیگ ایک طرف رکھ کر صوفے پر گرتے ہوئے اپنے خاوند اکرم سے کہا۔
’’بھئی میں نے تمھیں کہا تھا کہ سب کچھ اچھرہ ہی سے خرید لو .... لیکن تمھاری معیار پسندی تمھیں ہمیشہ خوار کرتی ہے۔ اب اس میں ہم کیا کریں۔‘‘ اکرم نے بے نیازی سے کندھے اچکا کر کہا۔
’’معیار پسندی نہیں، عزت کی خاطر اتنی خوار ہوئی ہوں، ڈھنگ کے کپڑے نہ خریدتی تو سارے خاندان میں ناک کٹ جاتی۔‘‘ شہلا نے تنک کر کہا۔
’’اچھا بابا ٹھیک ہے، تم جیتی میں ہارا۔‘‘ اکرم نے قریب پڑا ایک فلمی رسالہ اپنی آنکھوں کے سامنے کرتے ہوئے کہا۔
’’اچھا دیکھو تو سہی۔‘‘ شہلا کپڑوں سے بھرے شاپر بیگ لے کر اکرم کے پاس آ بیٹھی اور تعریف طلب نظروں سے اسے مختلف کپڑے نکال نکال کر دکھانے لگی۔ وہ بڑے جوش سے بول رہی تھی:
’’یہ دیکھو، یہ گڈو کی پینٹ اور شرٹ؛ آٹھ سو روپے مانگ رہا تھا میں نے سات سو ٹکائے .... یہ پنکی کا فراک؛ نو سو مانگ رہا تھا میں نے آٹھ سو دیے۔‘‘ شہلا نے اکرم کا پریشان چہرہ دیکھا تو بولی: ’’تمھاری ہی بہن کے بچوں کے لیے لائی ہوں اور یہ دیکھو، یہ سلیم کی شلوار قمیض کا کپڑا؛ آٹھ سو کا ہے .... یہ نجمہ کا سوٹ؛ یہ بھی آٹھ سو کا ہے .... یہ آپ کی پھوپھو جی کے سوٹ کا کپڑا؛ چھ سو کا .... اور یہ میرا ریڈی میڈ سوٹ۔‘‘
’’یہ کتنے کا ہے؟‘‘ اکرم نے دکھ بھرے لہجے میں پوچھا۔
’’گیارہ سو کا۔‘‘
’’یہ تم اپنا سوٹ کیوں لے آئی ہو؟‘‘
’’اپنے لیے ہی نہیں، پپو کے لیے بھی لائی ہوں۔‘‘
’’او ہو! اس کی کیا ضرورت تھی؟‘‘
’’لگتا ہے آپ اس دنیا میں نہیں رہتے، کل فنکشن میں دیکھیے گا سب کیسے بن ٹھن کے آئے ہوں گے۔‘‘
اکرم نے دل ہی دل میں ساری رقم کا ٹوٹل کیا اور ایک سرد آہ بھر کر صوفے ہی پر نیم دراز ہو گیا اور خلا میں گھورنے لگا۔
پپو، اکرم کا بیٹا، چھٹی کلاس کا طالب علم ہے اور بلا کا ذہین لڑکا ہے۔ وہ اسی کمرے میں بیٹھا یہ ساری گفتگو بڑے غور سے سن رہا تھا۔ وہ بولا:
’’ڈیڈی یہ نانی پھوپھو کے گھر کس کی شادی ہے؟‘‘
شادی کا لفظ سن کر اکرم اور شہلا دونوں حیرت سے ایک دوسرے کو دیکھنے لگے۔
اتنے میں ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ اکرم نے اٹھ کر فون اٹھایا۔ دوسری طرف سے اکرم کی بہن، نجمہ بولی:
’’ہیلو .... ‘‘
’’ہیلو .... ‘‘
’’جی اکرم بھائی؟‘‘
’’ہاں، نجمہ۔‘‘
’’السلام علیکم!‘‘
’’وعلیکم السلام!‘‘
’’کیا حال ہے نجمہ؟‘‘
’’حال بس ٹھیک ہی ہے۔ ہم نے سارے رشتہ داروں کی گنتی کی ہے۔ سو سے زیادہ بنتے ہیں۔ چھ دیگیں پکیں گی۔‘‘
’’ہاں، اتنی تو پک ہی جائیں گی۔‘‘
’’مرگ پر تو کئی لوگوں کو پتا ہی نہیں تھا، اب تو سب کو معلوم ہو چکا تھا۔ اس لیے لگتا ہے چہلم پر سبھی آ جائیں گے۔‘‘
’’ہاں میرا بھی یہی خیال ہے۔‘‘
’’اچھا اکرم بھائی آپ لوگ کچھ لا رہے ہیں نا .... کہیں میری سسرال میں ناک نہ کٹوا دیجیے گا؟‘‘
’’بھئی آج ہی شہلا شاپنگ کر کے آئی ہے سارے کپڑے خرید لیے ہیں .... لبرٹی سے.... اچھے والے۔‘‘
’’اچھا اور؟‘‘
’’اور کیا؟‘‘
’’اکرم بھائی مجھے پتا چلا ہے کہ میری دیورانی کے میکے والے کپڑوں کے ساتھ سونے کی کچھ چیزیں بھی لارہے ہیں۔ آپ بھی سونے کی کچھ چیزیں لیتے آئیں۔ ورنہ سسرال میں میری دیورانی نمبر لے جائے گی اور آپ لوگوں کی پوزیشن خراب ہو جائے گی۔‘‘
’’یہ بات سن کر اکرم کچھ بجھ سا گیا۔ وہ کچھ توقف کے بعد بولا:
’’تم .... تم فکر نہ کرو .... کک کرتے ہیں کچھ .... اوکے .... ہاں ہاں .... اچھا .... خدا حافظ۔‘‘
اکرم نے فون کریڈل پر رکھا اور پتھرائی ہوئی نظروں سے کچھ سوچنے لگا۔
’’کیا سوچ رہے ہو؟‘‘ شہلا نے اکرم کا کندھا ہلا کر پوچھا۔
’’سوچ رہا ہوں کہ پھوپھا جی طبعی موت مرے ہیں، میں نے تو انھیں نہیں مارا۔ پھر یہ رسموں کی شکل میں مجھے کیوں سزا دی جا رہی ہے۔‘‘
’’او ہو! بات کیا ہوئی ہے؟‘‘
’’بات یہ ہوئی ہے کہ نجمہ کی دیورانی کے میکے والے چہلم پر اپنی بیٹی، داماد، بیٹی کے بچوں اور بیٹی کی ساس کو قیمتی کپڑوں کے ساتھ سونے کی چیزیں بھی دے رہے ہیں۔ اور نجمہ اصرار کر رہی ہے کہ اس کی عزت کی خاطر اس کے لیے بھی سونے کی چیزیں لائی جائیں۔‘‘
’’اکرم، بات تو پریشانی کی ہے لیکن یہ کرنا ہی پڑے گا۔ نجمہ نے اچھا کیا جو پہلے ہی بتا دیا یہ نجمہ ہی کی نہیں، ہماری بھی عزت کا مسئلہ ہے .... تم کہیں سے ادھار پکڑ لو .... یا اپنی تنخواہ ایڈوانس نکلوا لو۔ سونے کی چیزیں تو ہرحال میں خریدنی پڑیں گی۔‘‘
پپو یہ سب کچھ غور سے دیکھ رہا تھا وہ بولا:
’’ڈیڈی یہ نانا پھوپھا کے مرنے کی خوشی میں کوئی فنکشن ہو رہا ہے؟‘‘
اکرم جو پہلے ہی غصے میں تھا پپو کی بات سن کر اس کا جی چاہا کہ پپو کے منہ پر تھپڑ مار دے لیکن وہ دانت پیس کر ہی رہ گیا۔
اگلے دن دفتر سے اکرم سسرال میں اپنی اکلوتی بہن کی لاج رکھنے کی خاطر اپنے دوستوں اور اکاؤنٹنٹ سے جنتی رقم ایڈوانس لے سکتا تھا، وہ حاصل کی اور گھر آ کر بیگم کے ہاتھ پہ رکھ دی ۔
دوسرے دن اکرم کے مرحوم پھوپھا کی رسمِ چہلم اپنی پوری بہار پر تھی۔ دیگوں کے کھڑکنے کی آوازیں آرہی تھیں۔ چارپائیوں پر مرغ کا دھلا ہوا گوشت چمک رہا تھا۔ دہی کے کونڈے آ رہے تھے۔ گھی کے کنستر خالی ہو رہے تھے۔ لفافوں میں پیک سیکڑوں روغنی نان آ رہے تھے۔ منڈی سے مختلف قسم کے پھل لوڈر پر آ رہے تھے۔ رنگین کپڑوں میں خاندان کے چمکتے اور دمکتے ہوئے بچے ادھر ادھر بھاگ رہے تھے۔ ہلکے میک اپ میں خواتین بھی گپ شپ میں مصروف تھیں۔ نجمہ بہت خوش تھی کہ جب خاندان کے لوگوں کو معلوم ہو گا کہ میرے میکے سے کیا آیا ہے تو اس کی واہ واہ ہو جائے گی۔ لیکن اسے اس چیز کا اندیشہ افسردہ کر دیتا تھا کہ کہیں اس کی دیورانی کے میکے والے اس سے زیادہ قیمتی اور زیادہ تعداد میں سونے کی چیزیں نہ لے آئیں۔ محلے کے مولوی صاحب کندھے پر سرخ پرنا لٹکائے اپنے طالبِ علم بچوں کے جمِ غفیر کے ساتھ ایک بڑے کمرے میں دری پر بچھی سفید چادر پر تشریف فرما ہو چکے تھے۔ اگربتیاں سلگائی جا چکی تھیں۔ ایک طرف میز پر پڑے قرآنِ مجید کے سیپارے بچوں اور کچھ بڑوں میں تقسیم ہو چکے تھے ۔
دو گھنٹوں ہی میں دس قرآنِ مجید پڑھ کر ختم کر دیے گئے۔ پھر لوگوں نے کھجور کی گٹھلیوں کے ڈھیر سے کچھ گٹھلیاں اٹھائیں اور اپنے سامنے رکھ کر ان پر کچھ پڑھنے لگے۔
’’ڈیڈی، یہ بڑے کمرے میں بیٹھ کر لوگ کیا کر رہے ہیں؟‘‘ پپو نے گلی میں ایک کرسی پر مقروض ہونے کے غم میں بیمار مرغ کی طرح گردن لٹکائے بیٹھے اکرم سے پوچھا۔
’’بیٹے، نانا پھوپھا فوت ہو گئے تھے نا، یہ ان کے لیے ایصالِ ثواب کی رسم منائی جا رہی ہے۔‘‘
’’یہ ایصالِ ثواب کیا ہوتا ہے؟‘‘ پپو نے حیرت سے پوچھا ۔
’’بیٹا، اس میں یہ ہوتا ہے کہ خود کچھ نیک کام کر کے اس کا ثواب اس فوت شدہ آدمی کو بھیجا جاتا ہے۔‘‘
’’یہ ثواب کیسے بھیجا جاتا ہے؟‘‘ پپو نے تجسس سے پوچھا۔
’’یہ مولوی صاحب آئے ہوئے ہیں نا۔ یہ ابھی دعا کریں گے کہ اے اللہ یہ جو کچھ پڑھا گیا اس کا ثواب نانا پھوپھا کو پہنچے۔‘‘
’’اس طرح ثواب انھیں پہنچ جائے گا؟‘‘ پپو نے آنکھیں پھیلا کر پوچھا ۔
’’ہاں پہنچ جائے گا۔‘‘ اکرم نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’اچھا!‘‘ پپو سمجھنے کے اندازمیں سر ہلاتے ہوئے اورکچھ سوچتے ہوئے وہاں سے چلاگیا۔ اس نے بڑے کمرے میں جا کر ساری رسم بغور دیکھی اور اسے اپنے ڈیڈی کی بتائی ہوئی باتوں کے عین مطابق پایا۔
ایصالِ ثواب کی رسم ادا کرنے کے بعد کھانے کا وقت ہو گیا۔ گوشت اور چاولوں کی دیگیں صحن میں آگئیں..... اور دیکھتے ہی دیکھتے خالی ہو گئیں .... گھر کے صحن کے کونے میں پڑے ہوئے چھوٹے چھوٹے ڈرم ہڈیوں، نان کے ٹکڑوں اور پھلوں کے چھلکوں سے بھر گئے ۔
اُدھر پپو کا ذہن بھی ایصالِ ثواب کے بارے میں بے شمار سوالوں سے بھرا ہوا تھا۔ اس رات جب وہ سونے کے لیے بستر پر دراز ہوا تو آنکھ لگنے تک بہت کچھ سوچتا رہا ۔
صبح اسکول جانے سے پہلے پپو نے اکرم سے کہا:
’’ڈیڈی، آپ نے وعدہ کیا تھا کہ اس مہینے آپ مجھے سائیکل لے کر دیں گے ... آدھے سے زیادہ مہینا گزر گیا ہے.... اور آپ نے ابھی تک..... ‘‘۔
یہ بات سن کر اکرم کو غصہ آ گیا وہ پپو کی بات کاٹ کر جھنجھلا کر بولا:
’’تمھیں اپنی پڑی ہوئی ہے ..... دیکھا نہیں ہے پھوپھا جی نے مر کر ہمیں کیسا مارا ہے ... ایسے دو چہلم اور آگئے تو مجھے اپنی موٹر سائیکل بھی بیچنی پڑے گی ..... اب پانچ چھ مہینے صبر کرو... ‘‘
پپو نے اکرم کی بات سنی اور منہ لٹکا کر اسکول جانے کے لیے بوجھل قدموں سے چلتا ہوا گھر سے باہر آ گیا ..... بس اسٹاپ پر حسبِ معمول کافی دیر بس کا انتظار کرتا رہا۔ جب بس آئی تو وہاں موجود ایک جمِ غفیر نے بس کے دروازوں پر چڑھائی کر دی۔ پپو بھی کافی جدوجہد کرنے کے بعد بس کے اندر ٹھنسی ہوئی سواریوں میں جاپھنسا ۔
سائیکل نہ ملنے کی وجہ سے پپو اس دن بہت غمگین تھا۔ اصل میں وہ اپنے سب دوستوں کو بتا چکا تھا کہ اس مہینے سے وہ اپنی سائیکل پراسکول آیا اور جایا کرے گا۔ پپو کے ذہن کے پردے پرآنے والا وہ منظر باربار ابھر رہا تھا جس میں اس کے دوست سائیکل نہ ملنے کی وجہ سے اس کا مذاق اڑا رہے تھے۔
بہرحال جیسے تیسے پپو اسکول پہنچا۔ وہاں جا کر معلوم ہوا کہ ایک استاد کے فوت ہو جانے کی وجہ سے اسکول میں آج چھٹی ہے۔ اب پپو کے پاس سارا دن تھا۔ وہ اسکول کے قریب ہی سائیکلوں کی مارکیٹ میں چلا گیا۔ وہاں وہ دکانوں کے باہر پڑی چمکتی ہوئی سائیکلوں کو حسرت سے دیکھ رہا تھا۔ اسی اثنا میں اس مارکیٹ کے قریب مین روڈ پر ایک بس میں ایک بم پھٹا۔ زوردار دھماکے کی آواز سن کر مارکیٹ کے سب لوگ اِدھر اُدھر بھاگ گئے۔ بہت سے لوگ اُس بس کی طرف دوڑے پپو بھی وہاں سے بھاگنے لگا۔ اچانک اس کی نظر ایک دکان کے باہر کھڑی کچھ سائیکلوں پر پڑی۔ اس وقت وہاں کوئی بھی ان کی نگرانی کرنے والا نہیں تھا۔ پپو کے ذہن میں خیال آیا کہ وہ ایک سائیکل لے کر بھاگ جائے۔ لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پا رہا تھا۔ اس کا دل زور زور سے دھڑک رہا تھا۔ یکایک اس کے ذہن میں ایک خیال آیا۔ وہ کچھ مطمئن ہو گیا۔ اس نے دائیں بائیں دیکھا اور سائیکل لے کر بھاگ گیا ۔
شام کو اکرم نے پپوکوگلی میں نئی سائیکل چلاتے ہوئے دیکھا تواس کے پاس جا کر حیرت سے پوچھا:
’’یہ سائیکل کس کی ہے؟‘‘
’’میری ہے۔‘‘ پپو نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔
’’تمھاری ہے.... کس نے لے کر دی ہے تمھیں؟‘‘
’’کسی نے نہیں ڈیڈی، میں نے ایک دکان سے اٹھا لی۔‘‘
’’اٹھالی!‘‘ اکرم آنکھیں نکالتے ہوئے بولا۔
’’کسی کو پتا بھی نہیں چلا۔‘‘ پپو نے آہستگی سے رازدارانہ انداز سے کہا۔
’’تمھیں پتا ہے، تم نے چوری کی ہے .... اور چوری کرنا کتنا بڑا گناہ ہے۔‘‘
’’مجھے پتا ہے ڈیڈی لیکن کچھ نہیں ہوتا.... کل ہمارے حساب کے ٹیچر فوت ہو گئے۔ مجھے ایک دن انھوں نے بہت مارا تھا۔ مجھے وہ بہت برے لگتے تھے۔ اس لیے میں نے دعا کرلی ہے کہ یااللہ میری اس سائیکل کی چوری کا گناہ، اس ٹیچر کو پہنچے۔‘‘
’’کیا بکواس کر رہے ہو!‘‘ اکرم چلایا ۔
’’ڈیڈی، اگر کسی کی نیکی کسی مرے ہوئے کو پہنچ سکتی ہے تو گناہ بھی تو پہنچ سکتا ہے نا؟‘‘
پپو کی یہ بات سنتے ہی اکرم نے کچھ کہنے کے لیے غصے سے فوراً منہ کھولا، لیکن اس کے منہ سے کوئی لفظ نہ نکل سکا۔ پپو تیزی سے خوشی خوشی سائیکل چلاتا ہوا وہاں سے چلا گیا۔ لیکن اکرم کا منہ ابھی تک کھلا ہوا تھا ۔
ـــــــــــــــــــــــــ