HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : نعیم بلوچ

احمد جاوید صاحب سے ایک مکالمہ

’’ملاقات‘‘ کے اس سلسلے کا مقصد قارئینِ ’’اشراق‘‘ کو اہم شخصیات کے خیالات سے انھی کی زبانی آگاہ کرنا اور دین پر غور و فکر کے دوسرے زاویوں سے باخبر رکھنا ہے تاکہ وہ کھلے ذہن کے ساتھ اور بغیر کسی تعصب کے مذہبی آرا کی صحت اور عدمِ صحت کے بارے میں فیصلہ کر سکیں۔
یہاں یہ بات پیشِ نظر رہے کہ ان شخصیات کے خیالات سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔ مدیر


آپ کی رائے میں بدعت کیا چیز ہے؟

احمد جاوید صاحب نے کہا: ’’ایک عامی کی حیثیت سے میرے دماغ میں تو فوری طور پر بدعت کی یہی تعریف آتی ہے کہ غیرِ دین کو شعوری اور عملی طور پر دین بنانا اور اس پر ایسا اصرار کرنا جیسا اصرار دین پر کیا جاتا ہے اور اس کو ماننے نہ ماننے اور کرنے نہ کرنے کے وہی نتائج فرض کرنا جو دین کو ماننے یا نہ ماننے اور کرنے یا نہ کرنے سے لازم آتے ہیں۔ تاہم فہم اور تعبیر کی غلطی اس تعریف سے خارج ہے۔‘‘

طالب محسن صاحب معترض ہوئے: ’’اس تعریف میں مجھے آپ کی طرف سے کچھ غیر ضروری تحفظات کا احتمال ہو رہا ہے اس لیے بہتر ہو گا کہ اسے مثال کے ذریعے سے سمجھا جائے۔‘‘

انھوں نے اتفاق کیا تو طالب محسن صاحب نے ایک خاص مکتبِ فکر کی طرف سے اذان سے پہلے درود پڑھنے کے رائج عمل کو بطور مثال لیا اور کہا کہ درود پڑھنا یعنی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے بلندیِ درجات کی دعا کرنا دین میں مطلوب ہے، اس لیے یہ ایک دینی عمل ہے۔ اب اس کے لیے نہ وقت مقرر ہے نہ مقدار، مگر پھر بھی جس طرح سے اسے ہمارے ہاں اذان سے پہلے پڑھا جاتا ہے، اس کوبدعت ہی شمار کیا جاتا ہے۔‘‘ مگر احمد جاوید صاحب اس عمل کو بدعت ماننے پر کچھ متامل نظر آئے تو ہم نے مداخلت کی اور ان سے پوچھا کہ کیا وہ اسے بدعت مانتے ہیں؟

ان کا جواب تھا: ’’دراصل میں اسے غیر دینی اور غیر شرعی سمجھتے ہوئے بھی ان ٹھیٹھ معنوں میں بدعت کہنے میں متذبذب ہوں، جن کی رو سے یہ شعوری اور ارادی سطح پر ایک نیا دین یا کوئی دینی جز ایجاد کرنے کا عمل ہے۔ اس نوعیت کے عمل کو غیر مسنون سمجھنے کے باوجود اسے بدعت قرار دینے میں ہمیں احتیاط برتنی چاہیے۔‘‘

طالب صاحب نے اس احتیاط کی حکمت دریافت کی تو انھوں نے وضاحت کی: ’’یہ بات تو درست ہے کہ بدعت دینی عمل کے اجزا ہی سے ترتیب پاتی ہے اور اسی التباس سے تو اس کے دین ہونے کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔ لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اس طرح کے غلط اعمال میں ایک درجے کا فرق ہے۔ یعنی ایک شخص دین میں جو چیز ملا رہا ہے وہ اپنی اصل کے اعتبار سے دین ہے جیسے زیر بحث مثال میں درود پڑھنا ایک خالصۃً دینی عمل ہے۔ اور پڑھنے والا اس کے جواز میں غلط طور پر سہی، لیکن دلیل دین ہی سے لا رہا ہے، اب یہ عمل وہ اپنی ضد، کم فہمی یا دینی تصور میں کجی کے سبب سے اختیار کیے ہوئے ہے۔ لیکن اس کے پیچھے اختراعِ دین یا تکمیلِ دین کا وہ داعیہ نظر نہیں آتا جو تمام بدعات کا محرک ہے اور باعتبارِ نوع جہل اور نافرمانی سے مختلف ہے۔ ہاں بدعت کو واضح کرنے کے لیے ایک دوسری مثال لائی جا سکتی ہے، جو بارہا میرے مشاہدے میں آئی ہے کہ ایک شخص روزانہ فجر کے وقت زور زور سے ’الصلوٰة والسلام علیک یا رسول اللّٰه، الصلوٰة والسلام علیک یا نور من نور اللّٰه‘پڑھتا ہوا گلی کوچوں کے چکر لگاتا ہے اور پوچھنے پر یہ جواب دیتا ہے کہ میں تو عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو عام کر رہا ہوں۔ یہ بلاشبہ ایسا عمل ہے جس کا ارتکاب تو ممکن ہے کہ بربناے جہل ہو لیکن اس کی تائید، تصدیق اور تحسین کی ہر صورت بدعت ہے کیونکہ یہاں استناد و احتجاج کے عمل میں وہ خفیف سی لچک بھی بروے کار نہیں لائی جا سکتی جس کی بنیاد پر بعض دینی غلطیوں کو بھی کسی قدر تحفظ مل جاتا ہے۔ البتہ اذان سے پہلے درود شریف کو معمول بنا لینا، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، گمراہی کی ایک ایسی قسم ہے جو اس قانونی استدل کے قطعی غلط استعمال پر کھڑی ہے کہ شریعت میں جن اذکار کو غیر موقت رکھا گیا ہے، ان کے لیے کوئی وقت مخصوص کر لینا روا ہے۔ اب دیکھیں کہ یہ آزادی اگر ثابت بھی ہے تو بعض حدود، شرائط اور مصالح کے ساتھ۔ جن لوگوں نے اس عمل کو اپنا شعار بنا لیا ہے، انھوں نے رخصت اور اباحت کے شرعی تو کجا خلقی مفہوم کو بھی خبط کر کے رکھ دیا ہے۔ تاہم اس کے باوجود بعض احتمالات ایسے ہیں جو لاکھ بودے اور کمزور سہی مگر احتیاط کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘

’’احتیاط سے آپ کیا مراد لیتے ہیں؟‘‘

’’میں یہ نہیں کہہ رہا کہ اس عمل کو معمول بنانے میں احتیاط کرنی چاہیے بلکہ احتیاط حکم لگانے میں ہے۔ اس لیے میں اسے بدعت نہیں بلکہ ’’دینی غلطی‘‘ کہوں گا اور اس عمل کو اختیار کرنے سے روکوں گا بھی اور خود بھی اس پر اظہارِ ناپسندیدگی کروں گا لیکن اس پر جہنم واجب کرنے والے عمل یعنی بدعت کا حکم نہیں لگاؤں گا۔‘‘

طالب صاحب نے کہا کہ بدعت تو اسی وقت دین کا حلیہ بگاڑتی ہے جب وہ دین کی آڑ میں عمل کا حصہ بنتی ہے۔ اس پر احمد جاوید صاحب نے اپنا موقف دہرایا کہ بدعت کا حکم اپنی پوری شدت کے ساتھ وہیں لگے گا جہاں یہ فعل اپنی اصل کے اعتبار ہی سے دین نہ ہو۔ اپنے مدعا کو واضح کرنے کے لیے انھوں نے ایک دوسری مثال دی۔ کہنے لگے:

’’ ایک صاحب کا برسوں سے معمول تھا کہ روزانہ ایک گھنٹہ تلاوت اور ایک گھنٹہ مطالعۂ تفسیر میں صرف کرتے تھے۔ ایک دن ان کا جی ایسا اچاٹ ہوا کہ قرآن شریف پڑھنا تو کیا کھولنا بھاری ہو گیا۔ ہفتہ عشرہ اسی پریشانی میں گزر گیا۔ ایک دن اسی کیفیت کا زور تھا کہ انھوں نے اضطراراً دیوانِ شمس تبریز اٹھا لیا اور اس کی ورق گردانی شروع کر دی۔ شاعری کا ذوق اور مطالعہ رکھتے تھے لہٰذا سرسری نظر سے بھی بعض اشعار سے حظ اٹھایا اور تھوڑی دیر بعد انھیں طبیعت پر چھائی ہوئی بے کیفی اور بے زاری مدھم پڑتی محسوس ہوئی اور انھوں نے دیوان بند کیا اور قرآن کھول لیا۔ ابھی شاید تیسری چوتھی آیت ہی پر پہنچے تھے کہ انقباض بالکل ٹوٹ گیا اور انھیں ذہنی اور طبعی دونوں معنوں میں ایسا حال نصیب ہوا جس کا انھیں اس سے پہلے کوئی تجربہ نہ تھا۔ اس کے بعد تو گویا انھوں نے عادت بنا لی کہ جونہی قرآن کے حوالے سے کوئی روک محسوس ہوئی، دیوانِ شمس اٹھا لیا۔ اب اس واقعے میں یہ طے ہے کہ یہ کام کوئی دینی فریضہ سمجھ کر نہیں، محض اپنی طبیعت کے علاج کی خاطر کرتے تھے، لیکن اس سے انھیں جو فائدہ حاصل ہوتا تھا، وہ ظاہر ہے کہ دینی ہی تھا۔ اب آپ یہ فرمائیں کہ کیا ان کے اس معمول کو بدعت کہا جا سکتا ہے؟‘‘

احمد جاوید صاحب نے یہ سوال طالب محسن صاحب کو مخاطب کر کے کیا تھا۔ وہ کہنے لگے: ’’اصل میں یہاں قباحت یہ ہے کہ آپ ایک غیر دینی فعل کو دینی فعل کے ساتھ متعلق کر رہے ہیں یہ صحیح ہے کہ متذکرہ شخص نے جب شاعری کی ایک کتاب پڑھی تو اس کی طبیعت کا انقباض دور ہو گیا لیکن کیا اس کا کوئی امکان نہیں کہ اس شخص کے متاثرین، شاگرد یا دوست احباب اس غلط فہمی میں پڑ جائیں کہ قرآنِ مجید کی تلاوت میں حلاوت حاصل کرنے کا تیر بہدف نسخہ یہی ہے کہ پہلے شمس تبریز کے دیوان کی تلاوت کی جائے۔ یوں آپ غیر دین کو دین بنانے کا راستہ کھول دیں گے۔ اور یہ سارا کام اس غلط فہمی کا نتیجہ ہو گا کہ آپ کو متذکرہ کام سے دینی فائدہ ہوا۔‘‘

 احمد جاوید صاحب گویا ہوئے: ’’آپ نے جس مصلحت کی بنا پر سوال اٹھایا ہے وہ بالکل درست ہے۔ میں اس احتیاط کی قدر کرتا ہوں اور اس مصلحت کو اختیار کرنے میں کوئی غلطی نہیں پاتا، مگر یہ ضرور کہوں گا کہ اس رویے سے ’Vision‘ کی تنگی ظاہر ہوتی ہے۔ انسانی طبیعت میں اپنے فائدے کے حصول کے بعض ذرائع کو استعمال کرتے ہوئے جو تشکر کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ یہ نقطۂ نظر اس احساس کو ’kill‘ کر دے گا۔ اگرچہ یہ نقطۂ نظر دین کی ایک علمی تعبیر میں یا بعض دعوتی مصلحتوں میں تو کارآمد ہے اور اس میں کوئی دینی یا منطقی کجی بھی نہیں لیکن تزکیہ کے پہلو سے اس میں جو قباحت ہے وہ اپنی جگہ موجود ہے۔‘‘

طالب صاحب نے احمد جاوید صاحب کے اس تجزیے کی تحسین کی اور مداخلت کی معذرت چاہتے ہوئے کہا: ’’بات دراصل یہ ہے کہ جس چیز کو آپ ’’تنگی‘‘ کا نام دے رہے ہیں اس کی بنیاد صحاح کی وہ حدیث ہے جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجدِ اقصیٰ کی طرف سفر کو باعثِ ثواب قرار دیا اور اس کے سوا کسی دوسری مسجد کو یہ حیثیت نہیں دی۔ حضور کے اس ارشاد کی حکمت اس کے سوا اور کیا ہے کہ حضور کسی بھی چیز کے دینی حیثیت اختیار کرنے کے معاملے میں حد درجہ محتاط ہیں۔‘‘

’’احمد جاوید صاحب کہنے لگے: ’’یہ درست ہے کہ دین کو غیرِ دین سے ممتاز رکھنا دین کا مطالبہ ہے لیکن اس کی تعمیل میں بہت دور افتادہ امکانات کو بروے کار لا کر ان کی بنیاد پر فیصلے کرنا بھی کوئی درست روش نہیں۔ اور جہاں تک صحاح کی حدیث کا تعلق ہے تو اس کی جو توجیہ اور تاویل آپ کر رہے ہیں، وہ درست نہیں۔ کیونکہ اس حدیث میں جو حکم دیا جا رہا ہے، وہ صرف اس بات کا تقاضا کر رہا ہے کہ تین مسجدوں کے سوا کسی اور کے لیے کجاوے نہ کسنا۔ اس سے آگے کا جو حکم آپ متعین کر رہے ہیں، وہ آپ کی اپنی تاویل ہے اور اس تاویل کے سوا بھی اس کی تاویلات ممکن ہیں۔ اور جب مرادِ قائل کو متعین کرنے میں مختلف احتمالات ہوں تو کسی ایک کی بنیاد پر کوئی حکم نہیں لگایا جا سکتا۔‘‘

گفتگو کو موضوع زیرِ بحث تک محدود رکھنے کے لیے ہم نے مداخلت کی اور احمد جاوید صاحب کی دی ہوئی مثال پر یہ سوال ان کے سامنے رکھا کہ قرآنِ مجید پڑھنے سے پہلے شمس تبریز کے دیوان کے پڑھنے کو کن معنوں میں ایک مثبت عمل قرار دیا جائے؟

’’مثبت عمل کی کئی جہتیں ہو سکتی ہیں۔ یہاں اس کی اخلاقی حیثیت مراد ہے۔ تشکر والی مثبت حیثیت۔ جیسے میں اگر وضو نہیں کر پا رہا اور آپ نے مجھے وضو کرا دیا تو آپ کے لیے میرے اندر ایک تشکر کا جذبہ پیدا ہو گا۔ چنانچہ انسانی جذبے اور احساس کے حوالے سے اس کی ایک توقیر لازمی ہو گی اور یہ دینی فضیلت اور اہمیت کے معنوں میں ہرگز نہیں ہو گی۔ لہٰذا کسی اتفاقی یا اخیتاری عمل کے ساتھ اس کو عموم میں داخل کیے بغیر اگر کوئی شخص اسے کوئی اہمیت دے رہا ہے تو وہ دینی ہرگز نہیں بلکہ اس کی حیثیت اخلاقی ہو گی، انسانی ہو گی یا اس کو کوئی اور نام دیا جا سکتا ہے....‘‘

اس موضوع پر احمد جاوید صاحب کا نقطۂ نظر آ جانے کے بعد ہم نے موضوع کو بدلتے ہوئے سوال کیا: ’’آپ نے پچھلی نشست میں کشف کی جو تعریف کی تھی، کیا وہ اہلِ تصوف کی نمائندہ تعریف ہے یا اسے آپ کی ذاتی رائے سمجھنا چاہیے؟‘‘

’’اسے آپ ایک گروپ کی نمائندہ تعریف کہہ سکتے ہیں، میرے خیال میں مولانا اشرف علی تھانوی اسے یا اس سے ملتی جلتی چیزوں کو کشف کہتے ہیں۔‘‘

بلال صاحب نے مزید واضح ہونے کے لیے کہا: ’’شاعر لوگ بھی اسی طرح کی ایک بات کرتے ہیں یعنی ’آمد‘۔ اس طرح آپ کی تعریف اس اصطلاح سے خاصی ملتی جلتی نہیں؟

’’بھائی! میں بہت گاڑھی باتیں کرنے سے بچ رہا ہوں لیکن آپ حضرات بچنے نہیں دے رہے۔ آپ کے اس سوال سے ایک اور مبحث کھل جائے گا کہ علم کیا ہے؟ اس مسئلے کی ایک لمبی تفصیل ہے، اس میں جائے بغیر سرِ دست دو ایک سامنے کی باتیں عرض کروں گا۔ علم کے دو کام بہت اساسی ہیں: معلوم کی Principial‘ ’categorization اور یقین کا حصول اور اس حصول میں توسیع وتنظیم ــــــ  معلوم چاہے تصور کے مرحلے میں ہو یا تصدیق  کی منزل پر، دو اصولوں پر قائم ہے، کبھی کسی ایک پر اور کبھی دونوں پر ــــــ  وہ اصول ہیں: حق اور جمال، معنی اور صورت، باطن اور ظاہر، حقیقت اور مظہر، معقول اور محسوس وغیرہ وغیرہ۔ علم دراصل معلوم کی یہی اصولی درجہ بندی کرنے اور پھر متعلقہ درجے کو یقین کا موضوع بنانے سے عبارت ہے۔ علم کا یہ وظیفہ، اگر ذہنی عمل تک محدود رہے، تو دو طریقوں سے انجام پاتا ہے: بالواسطۂ فکر اور بلاواسطۂ فکر ــــــ  یعنی دماغ کو حرکت دے کر اور دماغ کو حرکت دیے بغیر۔ علم کے جتنے بھی ڈسپلن ہیں، خواہ عقلی ہوں یا غیر عقلی، ان دو طریقوں پرمتفق ہیں اور خاص کر علم بلاواسطۂ فکر کی ’Validity‘ ورنہ کم ازکم ’Actuality‘ سے کسی کو انکار نہیں۔ فلسفے کو وجدان، منطق کا حدس، شاعری کی آمد، طبیعیات کا اکتشاف، تصوف کا کشف وغیرہ اسی قبیل سے ہیں۔ اس نوعِ علم کے حاصلات خواہ معنوی ہوں یا جمالیاتی، عموماً مستقل نہیں ہوتے بلکہ ضمنی اور توضیحی ہوتے ہیں۔ یعنی یہ خود اصل نہیں ہوتے بلکہ کسی اصل سے متعلق ہوتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ یہ تخیلِ صورت اور فہمِ معنی کے تخلیقی Process کے نتائج ہیں، جن میں اکثر جمال کا غلبہ ہوتا ہے اور ان کی صحت و عدمِ صحت کا پیمانہ قدرے مختلف ہے۔ جیسے آپ نے آمدِ شعر کا حوالہ دیا۔ شاعری میں آمد کا مطلب ہے: کسی قصد اور کوشش کے بغیر مضمون کا ڈھلی ڈھلائی اور ترشی ترشائی حالت میں یک لخت وارد ہو جانا۔ مضمون کسے کہتے ہیں؟ نہیں بلکہ یہ بتائیں کہ فنِ شعر میں مضمون آفرینی اور معنی آفرینی کی جو دو اصطلاحیں مستعمل ہیں، ان میں فرق کیا ہے؟ کئی فرق ہیں، مثلاً: مضمون کی تشکیل پورے شعر سے ہوتی ہے جبکہ معنی کی لفظ سے، مضمون میں افعال کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے، اور معنی میں اسما کی، معنی اصل پر دلالت کرتا ہے اور مضمون تعلق بالاصل پر ــــــ  جس طرح مضمون، معنی کے کسی جز یا اس کی کسی نسبت کی صورت گری کرتا ہے، کشف کا بھی یہی معاملہ ہے۔ یہ اس کامل بیان کی کسی جہت کا ظہور ہے جو منطوق و مفہوم کی عمومی اور لازمی نسبت میں جتنی موجود ہے، اتنی ظاہر نہیں۔ دراصل میں اس سوال کو ایک ضمنی سوال سمجھ رہا تھا، لیکن اگر آپ اس سوال کو اس توجہ کا مستحق سمجھتے ہیں کہ اس پر جم کر گفتگو کی جائے تو میں حاضر ہوں۔‘‘

’’ہم نے یہ گزارش کی تھی کہ کشف کی اہلِ تصوف کے ہاں ایک خاص اہمیت ہے اور ہم اسی پس منظر میں یہ سوال پوچھ رہے ہیں؟‘‘ تب احمد جاوید صاحب دوبارہ گویا ہوئے:

’’کشف کی چند موٹی موٹی قسمیں ہیں۔ مثلاً آپ کیا سوچ رہے ہیں، کل آپ بالکل تنہائی میں بیٹھ کرکسی کتاب کی کون سی عبارت پڑھ رہے تھے، اگلے ماہ کی فلاں تاریخ کو فلاں وقت، فلاں مقام پر آپ کے ساتھ یہ واقعہ پیش آئے گا۔ یہ ہوئی ایک قسم۔ اصطلاح میں انھیں کشفِ کونی، کشفِ خواطر وغیرہ کہتے ہیں۔ کشف کی یہ ساری صورتیں تصوف کے تقریباً ان سارے حلقوں میں، جنھیں جائز طور پر صوفیہ کی نمائندگی کا حق دیا جاتا ہے، ناقابلِ اعتنا اور بے وقعت سمجھی جاتی ہے۔ اور وہ کشف، جس کی صوفیہ کے ہاں اہمیت اور وقعت ہے اسے کشفِ حقائق، کشفِ معانی کہتے ہیں۔ اسے وجدان بھی کہہ سکتے ہیں۔‘‘

ہم نے دریافت کیا کہ یہ کشفِ حقائق، کشفِ معانی یا وجدان ایک ہی معنی میں ہیں؟

’’دیکھیے، دو لفظ کبھی ہم معنی نہیں ہوتے، وہ کسی نہ کسی پہلو سے ایک دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں۔ میں نے انھیں محض اپنی نوع اور قبیل میں ایک ہونے کے سبب سے اکٹھا کیا ہے اور اس طرح کے کشف کی صوفیہ کے ہاں ایک خاص وقعت اور اہمیت ہے۔

اس جملۂ معترضہ کے بعد احمد جاوید صاحب اپنی بات کی وضاحت جاری رکھتے ہوئے کہنے لگے: ’’اب اگر ہم انسان کے اس ’Process‘ کا تجزیہ کریں، جس سے چیزیں اس کے علم میں آتی ہیں تو اس میں اس طرح کا کشف قابلِ اثبات ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ عقل کی ’Functioning‘ میں دو چیزیں زیادہ کارفرما رہتی ہیں یعنی فہم اور استدلال۔ اب فہم اور استدلال بھی عقل کی طرح دو جہتیں رکھتے ہیں۔ ایک ارادی اور شعوری دوسری اضطراری اور لاشعوری۔ اور عقل جب موخرالذکر ذریعہ میں جا کر ایسا کام سرانجام دیتی ہے تو اس ضمن میں اس کے حاصلات کا بڑا حصہ اسی کشف سے متعلق ہے۔‘‘

’’آپ کی اس وضاحت سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آپ کسی بات کا اچانک سوجھ جانا یا جسے عام الفاظ میں چھٹی حس کی اطلاع کہتے ہیں، اسی کو کشف قرار دے رہے ہیں۔ کیا اس طرح سے جو علم حاصل ہوتا ہے اس کی ’Functioning‘ کو ارادی یا شعوری بنایا جا سکتا ہے؟ یعنی آپ نے جب چاہا، آپ کو کوئی بات سوجھ گئی یا آپ کی چھٹی حس نے کوئی اطلاع دے دی؟‘‘

’’نہیں، ہم جس کشف کی یہاں بات کر رہے ہیں، وہ چاہے صوفیہ کے ہاں ہو یا علمِ نفسیات میں ہو، اسے ارادی یا شعوری نہیں بنایا جا سکتا۔‘‘

احمد جاوید صاحب کے اس انکشاف پر ہم نے حیرت کا اظہار کیا اور ایک مرتبہ پھر ان سے تصدیق چاہی کہ تصوف کے قابلِ اعتنا حلقے میں اس کی یہی تعریف ہے۔ انھوں نے پھر اثبات میں جواب دیا۔ البتہ اپنی بات کی وضاحت میں وہ کہنے لگے:

’’دوسرے یہ کہ عقل اپنے غیر اختیاری اور بالکل ’Sudden‘ حاصلات پر، جن کو ہم نے کشف کا نام دیا، ایک نظامِ استدلال قائم کرتی ہے اور اسے ’’اعتبار‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ اور اکثر صوفیانہ علوم و معارف میں علم کا حصول اسی طریقے سے کیا جاتا ہے۔‘‘

احمد جاوید صاحب کے اس جواب نے طالب محسن صاحب کی حیرت کو بھی دوچند کر دیا تھا، وہ بھی بے یقینی کا شکار نظر آئے اور کہنے لگے:

’’دراصل جس چیز کو آپ نے کشف قرار دیا ہے، یہ تو عام آدمی کو بھی حاصل ہے، اس کے لیے صوفی یا غیرصوفی تو کیا مسلم یا غیر مسلم کی بھی کوئی تفریق نہیں، لیکن ہم جس کشف کی بات کر رہے ہیں وہ تو ایک خاص مقام ہے جو صوفیہ کے حلقے میں بڑی ریاضت کے بعد حاصل ہوتا ہے اور جس کا تصوف کے حلقے میں بہت مقام ہے....‘‘

احمد جاوید صاحب کہنے لگے: ’’میں تو اپنے نقطۂ نظر کی وضاحت کا پابند ہوں اور جن چیزوں کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے، مجھے ان کو قبول کرنے میں تامل بھی ہے اور ان سے ایک وحشت بھی ہے تاہم کشف کے بارے میں میرے معروضات کو جس طرح آپ نے ’fix‘ کیا ہے، اس میں کچھ عجلت اور سادہ لوحی کارفرما ہے۔ انسانی استعداد، عام اور مشترک ہی ہوتی ہے۔ تخصیص اور امتیاز کے مظاہر بعد میں پیدا ہوتے ہیں۔ ایک عامی اور صوفی میں کشف کی استعداد اور امکان تو مشترک ہو سکتا ہے مگر کشف کا درجہ اور اس کا بالفعل وقوع ایک بالکل الگ چیز ہے۔ ورنہ تو ہر ملاے مکتبی یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ میری کھوپڑی میں وہی بھیجا ہے جو رازی اور غزالی کے پاس تھا۔ میں پھر عرض کرتا ہوں کہ پہلے کشف کے بارے میں اپنا ذہن صاف کریں ورنہ جرح بھی بے معنی رہے گی اور تائید بھی۔ یہ یقیناً ایک ذریعۂ علم ہے جو ہر طرح کے دینی دنیوی علم میں اپنا ایک کردار رکھتا ہے۔ اس کی صداقت یعنی واقعیت میں نزاع لایعنی ہے، کلام اس کی حجیت میں ہے، اس کی صحت و عدمِ صحت میں ہے۔ مطلب یہ کہ کشف اپنی جگہ ایک مستقل حجت ہے اور علم بالوحی کی طرح واجب التسلیم ہے یا اس کے صحیح و غلط کو پرکھنے کی کوئی کسوٹی خارج میں موجود ہے؟ صوفیانہ لٹریچر میں اس سوال کا جواب ڈھونڈنا چاہیے، پھر کسی حتمی موقف تک پہنچنا ٹھیک بھی ہو گا اور مبنی پر دیانت بھی۔

سخن شناس نہ ای دلبرا خطا اینجا است۔‘‘

ہم نے ان کی اس وضاحت کے بعد کسی بحث میں پڑنے کے بجائے اس موضوع سے آگے بڑھنے کا ارادہ کیا اور پوچھا:

’’تصوف اور وحدت الوجود کم و بیش لازم و ملزوم سمجھے جاتے ہیں۔ اس حوالے سے آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

احمد جاوید صاحب گویا ہوئے: میں نہیں سمجھتا کہ وحدت الوجود اور تصوف ہم معنی ہیں یا لازم و ملزوم، دراصل ایک دور میں تصوف کے اندر کچھ فلسفی مزاج کے لوگ آ گئے۔ ان کا تصوف کے اس پہلو سے کوئی تعلق نہیں تھا، جس کے لیے یہ وجود میں آیا تھا، یعنی تزکیۂ نفس۔ اس لیے اس فلسفے کا تصوف کے اصل مقصد سے کوئی علاقہ نہیں۔‘‘

’’علمی حوالے سے بطور فلسفہ، اس کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

’’بحیثیتِ فلسفہ یہ ایک ’’مضبوط فلسفہ‘‘ ہے۔ اس کا استدلال بہت مضبوط ہے اور دینی نقطۂ نظر سے اس سے زیادہ مضر اور ہولناک چیز کوئی نہیں۔‘‘

احمد جاوید صاحب کے اس تبصرے کے بعد کچھ لمحوں کے لیے بالکل خاموشی چھا گئی۔ میری زبان سے سوائے ’’بہت اچھے!‘‘ کے اور کوئی الفاظ نہ نکل سکے۔ طالب محسن صاحب نے سکوت توڑا اور کہا: آپ نے یہ بات بڑی آسانی سے کہہ دی، دراں حالیکہ آپ صوفی ہیں اور مسندِ ارشار پر بھی فائز ہیں!‘‘

 وہ بڑی عاجزی سے بولے: ’’مگر میں تو اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا۔‘‘

’’مگر ہم تو آپ کو اس قابل سمجھ کر اس مسند پر بٹھا چکے ہیں۔‘‘ بلال صاحب کے اس تبصرے پر ایک قہقہہ ہو گیا اور احمد جاوید صاحب نے اس صورتِ حال پر داغ کا یہ شعر پڑھا:

 نہ تھا وہ بے وفا تو پھربھی تھا آغوشِ دشمن میں

ہماری بدگمانی نے اسے برسوں وہیں رکھا

طالب صاحب کہنے لگے: ’’اصل میں تصوف میں سلوک کی منزلیں، عرفان کا حصول، یہ سب کچھ وحدت الوجود ہی کے فلسفے سے تو ممکن ہیں۔ اگر اسے نکال دیا جائے تو باقی کیا رہ جائے گا؟‘‘

’’یہ تو ہم ابھی تجزیہ کیے دیتے ہیں کہ باقی کیا رہ جاتا ہے، مگر پہلے اس حقیقت کو جان لینا چاہیے کہ وحدت الوجود بطور ایک روحانی تقاضے کے اور وحدت الوجود بطور ایک عقلی قضیے کے، دومختلف چیزیں ہیں۔ اگر انھیں علیحدہ علیحدہ رکھا جائے تو کوئی پیچیدگی پیدا نہیں ہوتی مگر اسے ملحوظ نہ رکھا جائے اور وحدت الوجود کے حالی تقاضے کو حقیقت سمجھ لیا جائے اور اس کے حصول کی کوشش کی جائے تو پھر نتائج بڑے ہولناک مرتب ہوتے ہیں۔ صوفیانہ لٹریچر کے بڑے نمونوں میں وحدت الوجود کی علمی جہت پر اصرار غالب ہے، اور حالی جہت پر کہیں تو اصرار ہے ہی نہیں اور جہاں ہے وہاں بڑے حدودو قیود کے ساتھ ہے۔ جہاں یہ بطور فلسفہ آیا ہے وہاں اس کو دلائل و براہین کے ساتھ واضح کیا گیا ہے۔ وہاں اس کا ٹارگٹ عرفان ہے۔ اور جہاں اس کی حالی جہت زیرِ بحث آئی ہے وہاں سالک کی سب سے بڑی تمنا وصل کو قرار دیا گیا ہے۔ یعنی علمی نہج میں تصوف کا مقصد عرفان ہے اور حالی پہلو میں اس کی منزل وصل ہے۔ اب صوفیانہ لٹریچر میں جتنا زور عرفان پر ہے، اتنا وصل پر نہیں اور جہاں وصل کو منزل قرار دیا گیا ہے وہاں وحدت الوجود کے موجودہ مروجہ فلسفے کی بنا ڈلی ہے، یعنی وحدت الوجود بطور ایک حال کے، جس کا منتہا وصلِ باری تعالیٰ ہے، اللہ کی ذات میں فنا ہو جانا ہے اور اس سطحِ وجودیت کو ’Experience‘ کرنا ہے جو سطح وجودیتِ باری تعالیٰ کی ہے۔ یہی وحدت الوجود کا متداول اور مروجہ مفہوم ہے جو قائلین میں بھی ہے اور ناقدین میں بھی ہے اور یہ دونوں غلط ہیں۔

آپ نے ابھی کہا کہ وحدت الوجود قابلِ ذکر صوفیہ کے ہاں محض ایک علمی موضوع کی حیثیت رکھتا ہے۔ آپ اس اجمال کی تفصیل میں جانا پسند کریں گے ؟‘‘

’’وہ صوفی جو وحدت الوجود کے ساتھ غلو کے ساتھ وابستہ ہیں، ان کے موقف پر اعتدال پر قائم صوفیوں کا موقف جاننے کے لیے میں آپ کو ایک مثال دیتا ہوں۔ ایک صوفی عبد الرحمان لکھنوی نے ’’کلمتہ الحق‘‘ نامی کتاب لکھی۔ اس میں کلمۂ طیبہ کا ایک خاص مفہوم اور اس کی تشریح بیان کی گئی ہے۔ اس میں انھوں نے لکھا کہ ’لا اله اله اللّٰه‘کے اس کے سوا کوئی معنی ہی نہیں کہ ’لا موجود الا اللّٰه‘۔اور جو کوئی اس کونہیں مانتا وہ گویا نعوذ باللہ ایک کلمۂ خبیثہ پر یقین رکھتا ہے۔ یہ خاصی ضخیم کتاب ہے اور بہت ’Masterly written‘ ہے۔ اس کتاب کی علمی سطح اس قدر بلند ہے کہ عام علما کا اس کوسمجھنا محال ہے۔ اس کے جواب میں پیر مہر علی شاہ نے ’’مراۃ الحق‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ پیر صاحب خودبھی وحدت الوجود کو ماننے والے ہیں اور ان کی رائے میں بھی کلمۂ طیبہ کا انتہائی مطلب یہی ہے کہ ’لا موجود الا اللّٰه‘۔ اس سب کے باوجوو وہ کتاب کے دیباچے میں لکھتے ہیں کلمۂ طیبہ کے ان معنوں کو عقیدہ نہیں بنایا جا سکتا۔ گویا وحدت الوجود کی کوئی دینی ’Worth‘ نہیں اور یہ اپنی تفصیل میں بہت سارے لاینحل دینی مسائل پیدا کرتا ہے بلکہ دین کے تمام بنیادی احکام اس فلسفے کو مان لینے کے بعد یا تو واضح نہیں رہتے یا بے معنی ہو جاتے ہیں، اس لیے مولانا اشرف علی تھانوی نے بجاطور پر لکھا ہے کہ یہ ایک کلامی مسئلہ ہے اور اس کا تصوف سے کوئی تعلق نہیں۔ اب بطور ایک تخیل اور تعقل کے وحدت الوجود ہزارہا سال سے یکساں دلائل کے ساتھ موجود ہے۔ اور یہ انسانی تخیل کا ایک بڑا شاہکار ہے۔ اگر ہم محض عقل پرتکیہ کر کے آگے بڑھیں تو دو نتائج کو ’ Face‘ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ایک ہے وحدت الوجود اور دوسرا جبر۔‘‘

’’دراصل ہم اس وقت وحدت الوجود کو علمی پہلو سے نہیں، بلکہ دینی پہلو سے دیکھ رہے ہیں اور بڑے بڑے صوفیہ نے اسے دینی پہلوؤں سے تسلیم کیا ہے لیکن آپ کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے صوفیہ نے اسے محض کلامی اور فلسفے کے مسئلے کے طور پر لیا ہے ؟‘‘

ہمارے اس سوال پر معترض ہوتے ہوئے احمد جاوید صاحب کہنے لگے: ’’میں نے شاید یہ نہیں کہا ہو گا کہ انھوں نے اسے فلسفے کے طور پر لیا ہے، بلکہ میں نے اس فلسفے پر اپنی رائے دی تھی اور اگر آپ مجھ سے ان کی بات کی تاویل کرنے کے لیے کہتے ہیں تو یہ میرا منصب نہیں، میں نے تو اس فلسفے پر اپنی رائے بیان کر دی تھی کہ یہ میرے نزدیک دین میں پھیلائی جانے والی بدترین گمراہیوں میں سے ایک ہے۔‘‘

آپ کے مطالعے میں محترم جاوید احمد صاحب غامدی کا وہ مضمون یقیناً آیا ہو گا جو انھوں نے ’’اسلام اور تصوف‘‘ کے نام سے ’’اشراق‘‘ میں لکھا۔ اس میں انھوں نے اکابر صوفیہ کے ساتھ جو افکار منسوب کیے ہیں، کیا وہ درست ہیں؟ یعنی ان کا موقف انھوں نے صحیح بیان کیا ہے؟‘‘

’’جو عبارتیں انھوں نے ا س مضمون میں بیان کی ہیں، ان کا مفہوم انھوں نے دیانت داری سے زیادہ تر صحیح متعین کیا ہے اور یہ بات میں زور دے کر کہہ رہا ہوں کہ اس مضمون میں بیان کی گئی عبارتوں کا مفہوم....‘‘

’’اور سیاق و سباق کے حوالے سے آپ کیا کہیں گے؟‘‘

’’ایک چیز میں اس میں نہیں دیکھ سکا یا میں نہیں دیکھ سکتا وہ ہے فتوحات کا حوالہ۔ ایک صاحب جو کہ فتوحات (ابنِ عربی کی فتوحاتِ مکیہ) پڑھتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ فتوحات کا حوالہ صحیح نہیں ہے۔ یعنی سیاق و سباق کے اعتبار سے نہ کہ مفہوم کے اعتبار سے۔ اس کا بارِ ثبوت انھی پر ہے۔ کیونکہ یہ میرا مسئلہ نہیں ہے۔ اسی طرح ’’عبقات‘‘ کی وجۂ تصنیف اور اس کا نظام المعارف شاہ اسماعیل شہید نے کتاب کے مقدمہ میں واضح کیا ہے، اگر غامدی صاحب اس مقدمے کو بھی اس انتقاد میں شامل کر دیتے تو زیادہ بہتر ہوتا۔ اس مقدمے میں شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ اس کتاب کے مباحث کیونکہ شرعی نہیں، اس لیے دلائل بھی شرعی نہیں ہوں گے۔ اس طرح کی بات انھوں نے اپنے مقدمے میں لکھی تھی، میں نے کیونکہ برسوں پہلے اسے پڑھا تھا اس لیے مجھے ٹھیک طرح سے یاد نہیں۔ اس میں انھوں نے کشفِ حقائق کو ایک فن بنا کر اس کے اصول دریافت کیے ہیں۔ اگر غامدی صاحب ’’عبقات‘‘ کے اقتباس کے ساتھ اس بات کو بھی نقل کر دیتے تو اس میں موجود شدت شاید کچھ کم ہوجاتی۔‘‘

ہمارا اگلا سوال تھا: ’’اسی مضمون میں انھوں نے صوفیہ کے حوالے سے یہ بات بیان کی ہے کہ وہ توحید کے تین درجے مانتے ہیں ایک عوام الناس کی توحید، دوسری خواص کی توحید اور تیسری اخص الخواص کی توحید۔ اس پر انھوں نے تنقید کی ہے کہ قرآن کے نزدیک توحید وہی ہے جس کو عوام کی توحید کہتے ہیں۔ غامدی صاحب کی اس تنقید کو آپ درست سمجھتے ہیں؟‘‘

’’تنقید کو درست سمجھتا ہوں، فتوے کو نہیں۔ ’’منازل السائرین‘‘ میں نفسِ توحید کے نہیں بلکہ اہلِ توحید کے تین درجے بتائے گئے ہیں۔ اور یہ فطری بات ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ بعض چیزیں ایک خاص زمانے میں ایک خاص تعلیم کے پس منظر میں بالکل واضح معنی، واضح امتیاز اور تحدید رکھتی ہیں، جب وہ زمانہ گزر جاتا ہے اور فہم کے اسالیب بدل جاتے ہیں تو وہی چیزیں جب دوسرے زمانے میں اپنے الفاظ کے ساتھ منتقل ہوتی ہیں تو ان میں وہ تحدید اور امتیاز ممکن ہے، غائب ہو جائے، اور اکثر ایسا ہی ہوتا ہے الفاظ تو موجود ہوتے ہیں لیکن وہ تحدید اور روح موجود نہیں ہوتی۔ شعرو ادب سمیت تمام انسانی کلام میں ایسا ہی ہوتا ہے اور اصطلاحات میں تو یہ بہت زیادہ ہے۔ اب توحید اتنی اہم چیز ہے کہ اس سے اہم چیز ہو نہیں سکتی۔ اس کی اسی اہمیت کی وجہ سے کچھ خاص استعداد اور صلاحیت رکھنے والے لوگ اپنی شدتِ وابستگی کے باعث توحید میں ایک درجہ بندی یا کچھ مراتب کی دریافت کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یہ ایک خاص طرح کا مزاج اور افتادِ طبع ہے۔ لیکن میری رائے میں اس کا وہی مفہوم لیا جانا چاہیے جو قاری اور مخاطب اخذ کرتا ہے۔ اب اگر ہمارے دینی ذہن کے اسالیبِ فہم ہمارے ذہنی انحطاط یا کسی اور تبدیلی کی وجہ سے اس کو ایک مرحلے میں قبول نہ کریں تو ہمیں مرادِ قائل کو متعین کرنے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس پورے کے پورے ’Set‘ کو رد کر دینا چاہیے۔ ہماری دلچسپی اس سے نہیں ہونی چاہیے کہ شیخ عبد اللہ انصاری بہت بڑے آدمی اور عالم تھے اور انھوں نے جو لکھا ہے اس سے مراد غالباً یہ اور یہ ہو گی۔ اس سے تاویل کے دروازے کھل جائیں گے اور میرے خیال میں یہ ’Approach‘ اپنے نتائج کے اعتبار سے غلط ثابت ہو چکی ہے۔ یعنی اب یہ وہم یا قیاس نہیں بلکہ اس کا تاریخ میں ثبوت ملتا ہے۔ اب ہمیں یہ چاہیے کہ مرادِ قائل بذریعہ تاویل متعین کرنے کے بجائے مجرّد اصطلاح اور بیان سے جو مفہوم ذہن میں صحت مند حالت میں مرتب ہوتا ہے اسے تسلیم کیا جائے اور اس نوع کے کلمات پر کوئی انتہائی حکم لگانے سے گریز کرنا چاہیے جو ایک خاص علمی، فنی اور ذہنی تناظر میں ایک زندہ اور مثبت معنویت رکھتے تھے اور جن سے تعلق باللہ کی ’Structural‘ جہت یعنی دین داری کے ان مختلف مراتب کا اظہار ہوتا تھا جن سے منقطع ہو کر دین و ایمان کے وہ تضاضے پورے نہیں ہو سکتے جنھیں اپنی تکمیل کے لیے انسانی کلیت درکار ہے  ــــــ  پورا دماغ، پورا دل، پورا وجود اور ان کی باہمی ترکیب سے تشکیل پانے والا پورا پن، جس کی گہرائی اور پھیلاؤ کو محض ایک قانونی ذہن سے نہیں ناپا جا سکتا۔ یہ بے چارا تو خود اپنے موضوع اور مقصود یعنی کامل تسلیم اور مکمل اتباع کا بھی احاطہ نہیں کر سکتا۔ بہرحال

فقیہِ شہر کی تحقیر! کیا مجال مری

مگر یہ بات کہ میں چاہتا ہوں دل کی کشاد

ہم نے ایک دوسرے پہلو سے سوال کیا: ’’یہ بات تو واضح ہے کہ ہمارے ہاں تصوف کا ایک بڑا طبقہ وحدت الوجود کے فلسفے کو مانتا ہے....‘‘

احمد جاوید صاحب اپنے نقطۂ نظر کے حوالے سے ہماری تصحیح کرتے ہوئے کہنے لگے: ’’مجھے تاریخی حقیقت کے اعتبار سے اس پر اعتراض ہے کہ تصوف کا بڑا طبقہ وحدت الوجود کا قائل ہے....‘‘

’’چلیں یوں کہہ لیں کہ تصوف کا ایسا طبقہ جسے عوام میں بہت زیادہ پذیرائی اور مقبولیت حاصل ہے....‘‘

’’ہاں یہ بات صحیح ہے‘‘

 ان کے اتفاق کے بعد ہم نے اپنا سوال مکمل کیا: ’’اور دوسری طرف وحدت الوجود کو آپ ایک ہولناک اور گمراہ ترین فلسفہ سمجھتے ہیں۔ ایسے نقطۂ نظر کو غامدی صاحب نے اپنے متذکرہ مضمون میں ہدفِ تنقید بنایا اور اسلام کے مقابلے میں اسے ایک متوازی اور غیر دینی قرار دے کر رد کیا، کیا آپ اس کی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟‘‘

’’بالکل، میں اس کا قائل ہوں اور اس رد کو دینی ضرورت سمجھتا ہوں۔‘‘

’’اگلا سوال طالب محسن صاحب نے کیا: ’’آج کل وسیع المشربی کے نام سے، جو دراصل وحدت الوجود کے نظریے کا نتیجہ ہے، یہ بات بعض مذہبی حلقوں میں دیکھنے میں آ رہی ہے کہ نجات کے کئی راستے ہو سکتے ہیں اور جو دین بھی دنیا میں آیا ہے وہ نجات ہی کے لیے آیا ہے اس لیے کسی ایک خاص دین پر ایمان لانے کا اصرار درست نہیں۔ یعنی وحدت الادیان کا بڑا غلغلہ ہو رہا ہے اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟‘‘

’’آپ نے یہ سوال کر کے بہت اچھا کیا، اس نقطۂ نظر کی وجہ سے تصوف کے صحیح نمائندوں کو خاصا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ میری رائے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دینِ اسلام کے سواکسی اور دین کو ذریعۂ نجات ماننا پورے اسم کا انکار ہے۔ کوئی شخص اسلام سے دست بردار ہوئے بغیر یہ عقیدہ رکھ ہی نہیں سکتا۔ مغرب میں خاص طور پر تصوف کے نام پر ایک بڑا حلقہ ہے جہاں لوگ بیک وقت مسلمان بھی ہیں اور عیسائی وغیرہ بھی۔ میری رائے میں یہ پورے کے پورے دین کا انکار ہے اور قادیانیوں سے بڑھ کر ختمِ نبوت کا انکار ہے اور قرآن کے ’حجة من بعد الرسل‘ ہونے کا بھی انکار ہے۔ مختصراً یہ نقطۂ نظر انتہائی معنوں میں انکار اسلام پر متنج ہو گا۔ ہاں اجازت ہو تو ایک آدھ بات ان لوگوں کی اصطلاحات میں بھی کر لوں۔ یہ لوگ دراصل تصوف کے نہیں بلکہ ’Esoterism‘ کے نمائندے ہیں۔ ’ Esoterism‘ کا مطلب ہے حقیقت الحقائق کی اصلی اور باطنی وحدت کی معرفت جوکثرتِ ظہورکو بھی برحق مانتی ہے مگر اس سے ماورا ہو کر۔ ایک ’Esoteric‘ یعنی عارفِ محقق، تمام دینی بلکہ غیر دینی روایتوں کو بھی عروسِ حقیقت کی جزوی جلوہ آرائی جانتا ہے۔ اور کسی دین یا نبی کا پابند ہوئے بغیر اور اسے واحد وسیلہ بنائے بغیر حقیقت کی براہِ راست معرفت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کا امام فرتھجوف شوآن یا عیسیٰ نور الدین بالکل خدا کے لہجے میں بولتا ہے اور انبیا کے بارے میں سرپرستانہ رویہ رکھتا ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ یہ عارفانِ دہر خود اپنے فلسفے سے وفادار نہیں ہیں۔ حقیقت اور ظہورِ حقیقت کے فلسفے کی رو سے حقیقت کا آخری ظہور دراصل ان کی عینیتِ مطلقہ اور استلزامِ محض کا ظہور ہے۔ ہر نوع کے تعددِ ظہور کو ختم کر دیتا ہے اور لازماً واحد، دائمی، آفاتی اور ہمہ گیر ہوتا ہے۔ دینِ محمدی، بقول ان کے اسلامِ حقیقی کا آخری ظہور ہے تو اس کے معنی اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتے کہ بندگی اور نجات و وصول وغیرہ کا ہر تحقق اسی کی بنیاد پر ہو گا اور ادیانِ ماسبق کی کوئی جداگانہ حیثیت نہیں رہی۔‘‘

آخری سوال بھی طالب صاحب نے کیا: ’’دین پر چلنے کا راستہ دو طرح سے بیان کیا گیا ہے ایک تو عام علما کا بیان کردہ ہے سیدھا سادا طریقہ سے کہ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ ادا کریں۔ دوسرا حلقہ یہ کہتا ہے کہ جب دینی راستہ اختیار کیا جاتا ہے تو اوراد و وظائف پڑھے جاتے ہیں، کچھ منازل طے ہوتی ہیں، خدا کے قرب کی منزلیں طے کرتے ہوئے وصال کے مقام پر پہنچا جاتا ہے، کشف ہوتا ہے، حقائق کھول دیے جاتے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک صوفی کے الفاظ میں اگر اندھیری رات کی تاریکی میں پتھر پر چیونٹی بھی چل رہی ہو تو بھی اس کی مجھے آواز سنائی دیتی ہے۔ آپ موخرالذکر راستے کے متعلق کیا کہتے ہیں؟‘‘

بہت اچھا کیا آپ نے یہ سوال کر کے .... اس سے مجھے اور میرے جیسوں کو صفائی کا موقع مل جائے گا۔ آپ نے موخرالذکر جس راستے کا تذکرہ کیا ہے، یہ انتہائی خطرناک ہے۔ یہ سختی سے قابلِ تردید باتیں ہیں۔ اس طرح کی کرامات اور فضائل کا جو ایک نظام فرض کر لیا گیا ہے یہ سارے کا سارا ان دینی فضائل کی تردید پر منتج ہوتا ہے جن کو دین ہمارا منتہا بناتا ہے۔ اس طرح کے تصوف سے، جس کی تاریخ میں کثرت سے مثالیں ملتی ہیں، افتادِ طبع میں ایک بڑا نقص پیدا ہو جاتا ہے اور وہ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تعلق کا نہ ہونا۔ ایسا شخص دل سے رسول اللہ کی عظمت کا قائل ہی نہیں رہتا۔‘‘

احمد جاوید صاحب کے اس تبصرے پر سب نے تحسین کے کلمات کہے اور اسے گفتگو کا بہت اچھا خاتمہ قرار دیا۔ ہم نے محترم مہمان کا شکریہ ادا کیا جنھوں نے ہمیں تین دفعہ وقت دیا اور گفتگو کو کسی منطقی انجام تک پہنچایا۔

ـــــــــــــــــــــــــ

B