HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : معز امجد

سوال و جواب

معز امجد/ محمد رفیع مفتی

 

ہم نے انٹرنیٹ (Internet) پر دین سے متعلق مختلف سوالوں کے جواب دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ سوال و جواب کا یہ سلسلہ انٹرنیٹ کے پتے http://www. Understanding-islam.com پر دیکھا جا سکتا ہے۔ افادۂ قارئین کے لیے سوال و جواب کے اس سلسلے کے ایک حصے کا ترجمہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے۔ انگریزی زبان سے یہ اردو ترجمہ محمد رفیع مفتی صاحب نے کیا ہے۔
آپ بھی اگر ’E-Mail‘ کے ذریعے سے کوئی سوال پوچھنا چاہیں تو ’[email protected]‘ کے پتے پر سوال ارسال کر سکتے ہیں ۔ اس کے علاوہ ’’اشراق‘‘ کے پتے پر عام ڈاک کے ذریعے سے بھی سوالات پوچھے جاسکتے ہیں۔ مدیر


یہود کا ایک عقیدہ


سوال: کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ یہود کا کون سا گروہ حضرت عزیر کو خدا کا بیٹا مانتا ہے ؟

جواب: یہ بات اصولی طور پر ابتدا ہی میں جان لینی چاہیے کہ قرآنِ مجید نے جن اقوام اور جن مذہبی گروہوں کے عقائد کے بارے میں بحث کی ہے ، وہ وہ ہیں، جو نزولِ قرآن کے وقت عرب میں موجود تھے یا جن سے عرب واقف تھے۔ چنانچہ جب قرآن یہ کہتا ہے کہ یہود نے عزیر کو اللہ کا بیٹا بنا لیا ہے تو یہ بات اصلاً یہود کے اسی گروہ سے متعلق ہے جو عرب میں پایا جاتا تھا اور اس نے عزیر علیہ السلام کی عقیدت میں غلو کرتے ہوئے انھیں خدا کا بیٹا قرار دے دیا تھا۔ بد قسمتی سے ہمارے پاس قرآن کے علاوہ تاریخِ عرب کے کوئی ایسے ذرائع موجود نہیں ہیں جن سے ہم یہود کے ان گروہوں کے بارے میں تفصیلات اور ان کے عقائد واضح طور پر جان سکیں۔ لیکن یہ بات ایک حقیقت ہے کہ اگر یہود پر قرآن ِ مجید کا یہ الزام ان کی دانست میں ایک حقیقت نہ ہوتا تو وہ اس پر شدید معترض ہوتے اور بالکل وہی رویہ اختیار کرتے جو انھوں نے سورۂ توبہ کی آیت[1]؎ ۳۱ کو اپنی دانست میں غلط سمجھتے ہوئے اختیار کیا تھا۔ لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ نزولِ قرآن کے وقت جو یہود موجود تھے انھوں نے ہرگز اس بات کو غلط قرار نہیں دیا۔ اور قرآن کے اس بیان کی بالکل تردید نہیں کی۔ لہٰذا ہم یہ بات پورے یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ جس دور میں قرآن نازل ہوا ہے اس وقت یہود کے ہاں یا ان کے کسی گروہ کے ہاں یہ عقیدہ پایا جاتا تھا کہ عزیر علیہ السلام خدا کے بیٹے ہیں۔


 قرآن کے مختلف تراجم

سوال: قرآنِ مجید کے بارے میں یہ خیال ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ بہت آسان زبان میں ہے اور اسے آسانی سے سمجھا جا سکتا ہے۔ لیکن میں دیکھتا ہوں کہ ایک مجھ جیسے عربی زبان سے ناآشنا شخص کے لیے تو اسے سمجھنا آسان نہیں ہے۔ کیا جن لوگوں کی مادری زبان عربی ہے ان کے لیے اسے سمجھنا بالکل آسان ہے؟ اگر یہ صحیح ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ قرآن کے بہت سے مختلف تراجم پائے جاتے ہیں؟ جن لوگوں نے قرآنِ مجید کے تراجم کیے ہیں ان کے بارے میں میرا یہی خیال ہے کہ وہ بہت اچھی عربی جانتے ہوں گے۔

جواب: آپ نے یہ بیان کیا ہے کہ قرآن کے بارے میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ یہ آسان زبان میں ہے۔ میں نہیں سمجھ سکا کہ اس بات سے آپ کی مراد کیا ہے۔ جو کچھ خود قرآن نے اپنے بارے میں کہا ہے، وہ تو یہ ہے کہ یہ یاددہانی کے لیے بہت موزوں بنایا گیا ہے۔ قرآنِ مجید کی اس بات کو غلط طریقے سے یوں بیان کر دیا جاتا ہے کہ یہ ایک آسان کتاب ہے اور اصل بات کو بیان ہی نہیں کیا جاتا کہ یہ تذکیر اور یاددہانی کے حوالے سے ایک موزوں کتاب ہے۔ قرآن نے خود اپنی زبان کے حوالے سے یہ بیان کیا ہے کہ وہ عربیِ مبین یعنی واضح عربی ہے اور یہ عربی ام القری یعنی مکہ کے رہنے والے قبیلہ قریش کی زبان ہے۔ چنانچہ یہی وجہ ہے کہ وہ شخص جس کی مادری زبان عربی ہو، وہ بھی اگر اس زمانہ کے قبیلہ قریش کی زبان، اس کے محاورے اور اس کے اسالیب کو نہیں سمجھتا، تو اس کے لیے بھی قرآن کی زبان آسان زبان نہیں ہے۔

جہاں تک قرآن کے تراجم کے مابین اختلاف کا تعلق ہے، تو اس کی دو وجوہ ہیں۔ ایک یہ کہ ترجمہ درحقیقت ترجمہ کرنے والے کے فہمِ متن کا نام ہے، اور متن کا یہ فہم دو افراد میں مختلف ہو سکتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ جن لوگوں نے بھی یہ تراجم کیے ہیں وہ بے شک عربی زبان تو جانتے ہی تھے لیکن یہ ضروری نہیں کہ وہ ام القریٰ یعنی مکہ میں نزولِ قران کے زمانے میں بولی جانے والی عربی کے بھی عالم ہوں۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن کا صحیح فہم اس کلاسیکی عربی کے عمدہ فہم پر منحصر ہے کیونکہ یہ عربی اپنے مخصوص محاورے، خاص اسالیب، اور اپنا منفرد اندازِ بیان رکھتی ہے۔ چنانچہ ہمارے نزدیک یہ لازم ہے کہ قرآنِ مجید کا ترجمہ کرنے والا اس کلاسیکی عربی پر عبور رکھتا ہو۔ یہ عربی زبان آج بھی ایک زندہ زبان ہے اور اسے بہت اعلیٰ سطح پر سیکھا جا سکتا ہے۔ اس زبان پر عبور حاصل کیے بغیر کوئی شخص بھی اسی اصول کے مطابق قرآن کا ترجمہ کرنے کا اہل قرار نہیں دیا جا سکتا، جس اصول کی بنا پر کوئی شخص کلاسیکی انگریزی جانے بغیر شیکسپئر کو سمجھنے والا قرار نہیں دیا جا سکتا، خواہ وہ T-S-Eliot کی زبان پر پورا عبور رکھتا ہو۔


لفظ ’’مسلم‘‘ کی وضاحت

سوال: قرانِ مجید کی تلاوت کرتے ہوئے میں نے اس میں ’’مسلم‘‘ کا لفظ پڑھا۔ اس کا مطلب میرے ذہن میں یہ تھا کہ اس سے مراد وہ شخص ہے جو اللہ کا مطیعِ فرمان ہے۔ لیکن اس کے بارے میں میرے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوا کہ کیا ’’مسلم‘‘ سے وہ سب لوگ مراد ہیں جو اس لفظ کا مصداق بنتے ہیں، خواہ وہ قرآنِ مجید کو مانتے ہوں یا نہ مانتے ہوں یا اس سے صرف امتِ مسلمہ ہی کے لوگ مراد ہیں؟

جواب: قرآن میں عام طور پر مسلم کا لفظ لغوی معنوں میں استعمال ہوا ہے اور لغوی طور پر اس کا مفہوم بالکل وہی ہے جو آپ نے بیان کیا ہے۔ قرآنِ مجید سے یہ بات بھی واضح طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ بالعموم اللہ کے نبیوں کے پیروکاروں نے اپنے لیے مسلم ہی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ چنانچہ اس لفظ کے استعمال سے قرآنِ مجید نے یہ بات سمجھا دی کہ کامیابی کا واحد راستہ اللہ تعالیٰ کے احکام کے آگے سرِ تسلیم خم کرنا ہے یا دوسرے لفظوں میں اپنے آپ کوحق کے حوالے کر دینا ہے۔ لیکن قرآنِ مجید ہی میں یہ لفظ ایک اصطلاح کے طور پر ان لوگوں کے لیے بھی استعمال ہوا ہے، جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے تھے۔ اس طرح گویا قرآن نے یہ بات بھی واضح کر دی ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد اب حق کے آگے سرافگندگی کا تقاضا یہ بھی ہے کہ اس کے آخری پیغمبر پر بھی ایمان لایا جائے۔ مزید یہ کہ اب دنیوی لحاظ سے بہرحال ہم اسی کو ’’مسلم‘‘ کہیں گے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ پر نازل ہونے والی کتاب پر ایمان رکھتا ہو۔


 بائبل میں تحریف

سوال: کیا آپ ان آیات کی فہرست دے سکتے ہیں جو ہمیں واضح طور پر یہ بتاتی ہوں کہ یہود اور نصاریٰ نے کتابِ مقدس میں تحریف کر دی تھی؟

جواب: قرآنِ مجید نے تحریف کے حوالے سے یہود پر دو اعتراض کیے ہیں۔

پہلا یہ کہ انھوں نے تورات میں کہیں الفاظ کو تبدیل کر دیا، کہیں ان کا سیاق و سباق بدل دیا اور کہیں اس کے الفاظ کا مفہوم اور ان کی تعبیر بدل ڈالی۔

دوسرا یہ کہ انھوں نے اس آسمانی ہدایت کا ایک پورا حصہ گم کر دیا، جو انھیں دی گئی تھی۔

یہود پر یہ دونوں اعتراض کیے گئے ہیں لیکن نصاریٰ پر قرآن مجید نے ان میں سے صرف دوسرا اعتراض کیا ہے یعنی یہ کہ انھوں نے آسمانی ہدایت کا ایک حصہ گم کر دیا ہے۔

حوالہ کے لیے دیکھیں: البقرہ ۲: ۷۵، النساء ۴: ’ ۴۶، المائدہ ۵: ۱۳، ۱۴،  ۴۱۔


رمضان میں زن و شو کا تعلق

سوال: کیا آپ سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۶ تا ۱۸۸ کا ترجمہ بھیج سکتے ہیں؟ نیز ان آیات کا مفہوم بھی واضح کردیں۔ ان آیات سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ابتداً رمضان کی راتوں میں بھی زن وشو کا تعلق ممنوع تھا، البتہ بعد میں اس کی اجازت دے دی گئی۔ کیا واقعۃً ایسا ہی ہواتھا؟

جواب: جیسا کہ میں نے ان آیات کو سمجھا ہے اس کے مطابق رمضان میں روزے رکھنے کے بارے میں پہلی وحی سورۂ بقرہ کی آیت ۱۸۳ تا ۱۸۴ ہے۔ ان آیت کا سادہ ترجمہ درج ذیل ہے:

’’اے ایمان والو، تمھیں اسی طرح روزوں کا حکم دیا جا رہا ہے جیسے تم سے پہلوں کو دیا گیا تھا، تاکہ تم اللہ کے احکام کے مطابق جینا سیکھو۔ یہ (روزے) گنتی کے چند روز ہیں۔ لیکن اگر تم میں سے کوئی بیمار ہو یا سفر میں ہو تو اس سے جتنے روزے چھوٹ جائیں ان کی تعداد دوسرے دنوں میں پوری کرلے اور جو اس کی استطاعت رکھتے ہوں ان کے لیے (روزے کا) فدیہ ایک مسکین کو کھانا کھلانا ہے۔ اور جو اپنی مرضی سے اس سے زیادہ دے دے تو یہ اس کے لیے بہتر ہو گا۔ البتہ اگر تم سمجھو تو تمھارے لیے (تعداد پوری کرنے کے لیے) روزے رکھنا ہی بہتر ہے۔‘‘

 کچھ عرصہ کے بعد بقرہ کی آیات ۱۸۵ تا ۱۸۷ نازل ہوئیں۔ ان آیات میں اس بات کی وجہ بتائی گئی کہ رمضان کے مہینے میں روزوں کا حکم کیوں دیا گیا ہے۔ روزے کے بدلے میں فدیہ ادا کرنے کی اجازت منسوخ کر دی گئی۔ یہ لوگوں کی تربیت کے لیے عارضی طور پر دی گئی اجازت تھی کیونکہ فرض روزے ایک مشکل معاملہ تھے۔ اس کے علاوہ ان آیات میں رمضان کا تقدس برقرار رکھنے کے بارے میں کیے گئے سوالوں کا جواب دیا گیا۔

اس ضمن میں جو اصل واقعہ ہوا تھا وہ یہ تھا کہ جب رمضان کے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم دیا گیا، تو لوگ اس مہینے کے تقدس کے بارے میں حد سے زیادہ محتاط ہو گئے۔ انھوں نے یہ سمجھا کہ اس مہینے کی راتوں میں بھی بیویوں کے پاس جانے سے گریز ہی بہتر ہے۔ حالانکہ اس کا حکم نہ روزے کے بارے میں آنے والی پہلی وحی میں تھا نہ دوسری وحی میں۔ یہ صرف مسلمانوں کی طرف سے ایک انتہائی محتاط رویے کا اظہار تھا۔ چنانچہ اس کے بعد جب اس کے بارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو وہ آیات نازل ہوئیں جن کا آپ نے حوالہ دیا ہے۔

 میرا خیال ہے اگر آپ اس وضاحت کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے ان آیات کو پڑھیں تو آپ کا وہ اشکال دور ہو جائے گا کہ ابتداً رمضان کے مہینے کی راتوں میں بھی بیویوں کے پاس جانا ممنوع تھا۔ مسلمانوں کا یہ رویہ خدا کی طرف سے روکے جانے کی بنا پر نہیں، بلکہ شدتِ احتیاط کی بنا پر تھا ۔

ـــــــــــــــــــــــــ

[1]؎  اس آیت میں یہود پر تنقید کی گئی ہے کہ انھوں نے اپنے علما اور اپنے درویشوں کو اللہ کے علاوہ الٰہ بنا رکھا ہے ۔ یہود نے اعتراض کیا کہ ہم تو ان کی الوہیت کے قائل نہیں ہیں چنانچہ انھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ واضح کیا کہ حلال و حرام میں فیصلہ کن حیثیت خدا کی ہے ، جبکہ تم نے علما اور درویشوں کو یہ حیثیت دے رکھی ہے ۔ (مترجم)

B