(جاوید احمد صاحب غامدی کا اختتامی خطاب)
سوال و جواب کی نشست کے بعد جاوید احمد صاحب غامدی نے اختتامی خطاب کیا ۔
اس خطاب کے آغاز میں انھوں نے شکرِ خداوندی کا اظہار کیا کہ اجتماع بخیر و خوبی اختتام کو پہنچا۔ انھوں نے اجتماع کے شرکا سے درخواست کی کہ اجتماع کے انتظامات اور پروگراموں کی ترتیب میں جو انھوں نے خامیاں دیکھی ہیں، وہ منتظمین کو بتائیں۔ اس معاملے میں انھیں مشورے دیں۔ تاکہ وہ آیندہ اجتماعات کو بہتر سے بہتر طریقے سے منعقد کر سکیں۔ اس دوران میں کوئی تکلیف آپ کو پہنچی ہو، کوئی زحمت اٹھانی پڑی ہو تو اس کے لیے میں بھی ایک میزبان کی حیثیت سے معذرت طلب کرتا ہوں اور میں سمجھتا ہوں کہ ہمارے کارکن بھی یہی چاہیں گے کہ آپ ان کے عذر کو قبول کریں اور اپنے مشوروں سے نوازتے ہوئے اور ان کے لیے دعا کرتے ہوئے رخصت ہوں۔
انھوں نے کہا کہ اس موقع پر میں نے جو گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کرنی ہیں وہ ایک ہی نکتے پر مبنی ہیں۔ میں نے اپنی افتتاحی تقریر میں بھی اس کو واضح کیا ہے اور اب پھر اس کو دہرا رہا ہوں اور یہ دہرانے ہی کی بات ہے کہ دین کے سارے کاموں میں ہمارا رخ داخل کی جانب ہونا چاہیے۔ میں کیا ہوں؟ مجھے پروردگار نے کس آزمایش میں ڈالا ہے ؟ مجھے کس ذمہ داری پر فائز کیا ہے؟ مجھے دنیا کی یہ زندگی کس طرح گزارنی ہے ؟ یہ ہے وہ چیز جو تمام توجہات کا مرکز بننی چاہیے۔
اپنی بات کی تفصیل کرتے ہوئے جاوید صاحب نے کہا کہ دین کی دعوت کوئی دنیوی مسائل کے حل کی دعوت نہیں ہے۔ یہ تو اصل میں مسئلے کی نوعیت کو تبدیل کر دینے کی دعوت ہے۔ یہاں ایک غلط فہمی ہو سکتی تھی لہٰذا جاوید صاحب نے اس کا پیشگی ازالہ کرتے ہوئے کہا کہ دنیا کے مسائل رہیں گے۔ انسان کو اللہ نے بڑی عقل عطا کر رکھی ہے وہ ان مسائل کو حل کرنے کی تدبیریں بھی کرتا رہے گا۔ اس کے لیے نئے نئے طریقے بھی اختیار کرتا رہے گا۔ لیکن اللہ کے پیغمبروں کی تعلیم یہ ہے کہ انسان دنیا کے مسئلے کو ضمنی توجہ کا مسئلہ اور آخرت کے مسئلے کو اصل توجہ کا مسئلہ سمجھے۔
انھوں نے کہا کہ ہم کو اپنے مالک کے حضور میں پیش ہونا ہے۔ اور یہ منزل موت کے راستے سے گزر کر آنی ہے۔ اس بات کو لوگوں کا مسئلہ بنا دیا جائے۔ جیسے دنیا کے دوسرے مسائل ان کی دلچسپیوں کا موضوع بنتے ہیں ان سے کہیں بڑھ کر یہ مسئلہ ان کی دلچسپی کا موضوع بن جائے کہ مجھے بہرحال ایک دن رخصت ہونا ہے اور اس کے بعد ایک نئی دنیا میں قدم رکھنا ہے۔ اور وہاں اپنے اعمال نامے کے ساتھ اپنے پروردگار کے سامنے حاضر ہونا ہے۔ اُس وقت میں اپنی کسی خامی، کسی غلطی، کسی لغزش، کسی گناہ کو چھپا نہ سکوں گا۔ مجھے اپنے نامۂ اعمال کا سامنا کرنا ہے اور اس وقت میں کوئی بات بنا نہ سکوں گا۔ کوئی بہانہ تراش نہ سکوں گا۔ کوئی سفارش پیش نہ کر سکوں گا۔ وہاں جس مرحلے سے مجھے گزرنا ہے اس کا نتیجہ ابدی نعمت کی صورت میں بھی نکل سکتا ہے اور ابدی نقمت کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے۔ مجھے بہرحال ابدی رحمت کو پانے کی جدوجہد کرنی ہے۔ اس جدوجہد کا راستہ میری موت کے بعد بند ہو جائے گا۔ اس لیے جو مہلت ہے اسی زندگی تک ہے۔
یہ بنیادی مسئلہ، فی الواقع انسان کا مسئلہ بن جائے۔ میں اسلامی دعوت کا اصل موضوع اسی بات کو سمجھتا ہوں۔ انبیا کی دعوت میں ہمیشہ اسی چیز کو غیر معمولی اہمیت حاصل رہی ہے۔ وہ اسی کو غایت، مقصد اور نصب العین بنا کر جدوجہد کرتے ہیں۔ پھر لوگ ان سے یہ پوچھتے ہیں کہ اے پیغمبر، آپ ہمیں بتائیے کہ ہم جہنم سے کیسے بچ سکتے ہیں اور جنت کو کیسے حاصل کر سکتے ہیں؟
جاوید صاحب نے کہا کہ یہ مسئلہ سبھی کا مسئلہ بن جانا چاہیے۔ اور اس طرح بن جانا چاہیے کہ آدمی کا اٹھنا، بیٹھنا، سونا، جاگنا سب اسی کے تحت ہو جائے۔ ایسا آدمی دنیا میں اپنے سب مسائل حل کرے گا۔ وہ اپنے معاشرتی مسئلے بھی حل کرے گا۔ وہ اپنے معاشی مسئلے بھی حل کرے گا۔ وہ اپنے سیاسی مسئلے بھی حل کرے گا۔ وہ ان کے لیے نئے نئے راستے بھی نکالے گا۔ لیکن ان مسئلوں کی جانب اس کی توجہ ضمنی ہو جائے گی۔ اصل اور بنیادی توجہ اِس جانب ہو گی کہ مجھے ایک دن اپنے مالک کے حضور میں کھڑے ہونا ہے۔ انھوں نے کہا کہ یہ احساسِ جواب دہی پیدا کر دینا، اس کے لیے انسانی ذہن کو بیدار کر دینا، اس کو روح میں اتار دینا، یہ انبیا کی جدوجہد کا مقصد رہا ہے۔
اپنی اس بات کا تعلق دانش سرا سے قائم کرتے ہوئے جاوید صاحب نے کہا کہ دانش سرا کا پلیٹ فارم ہم نے دین کی اسی دعوت کو پیش کرنے کے لیے بنایا ہے۔ یعنی جو چیز ہمارے پیشِ نظر ہے وہ اصلاً یہی ہے۔ اس اصل چیز کو ہر حال میں سامنے رہنا چاہیے۔ دانش سرا سے وابستہ لوگوں میں باقی چیزیں ضمنی طور پر کہیں زیرِ بحث آتی ہیں تو آئیں۔ انھیں ثانوی طور پر کہیں موضوعِ بحث بنایا جاتا ہے تو بنایا جائے لیکن بنیادی اہمیت جس چیز کو حاصل ہونی چاہیے وہ یہی ہونی چاہیے۔ میں آپ سے گزارش کرتا ہوں کہ دعا کیجیے، یہ مسئلہ میرا بھی اصل مسئلہ بن جائے اور اپنے لیے بھی دعا کیجیے کہ یہ مسئلہ آپ کا بھی اصل مسئلہ بن جائے۔ آخرت ہمارا اصل مسئلہ بن جائے۔ سارے مسئلوں میں یہ بنیادی مسئلہ بن جائے۔
جاوید صاحب نے اپنی بات کی دلیل کے لیے قرآنِ مجید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ انبیاے کرام کے کام کو قرآنِ مجید لفظ ’’انذار‘‘ سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی انبیا انسانوں کو خبردار کرتے ہیں کہ موت ایک حقیقت کے طور آنے والی ہے۔ کوئی شخص اس کے مقابلے میں اپنی کوئی تدبیر نہیں لڑا سکتا ہے۔ وہ مالک کا فیصلہ ہے جو صادر ہو جانا ہے۔ اور دنیا کی اس آزمایش کو اس نے ختم کر دینا ہے۔ اس کے بعد آگے وہ منزل ہے جس میں ہمارے پاس کچھ بھی پیش کرنے کے لیے نہیں ہو گا سوائے ہمارے اعمال کے جنھیں لے کر ہم وہاں حاضر ہو جائیں گے۔
اللہ تعالیٰ نے ہمیں اپنے نفس کو پاک کرنے کی آزمایش میں ڈالا ہے۔ ہمارے نفس کے اوپر شیطان شب و روز حملہ آور ہوتا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ شیطان ہمارے اندر اس طرح دوڑتا ہے جیسے خون رگوں میں دوڑتا ہے۔ چونکہ اس کی تاخت نفس کی گہرائیوں میں ہے۔ وہ بہت اندر اتر کر حملہ آور ہوتاہے۔ اس کی چالیں بے پناہ ہیں۔ اس کے فریب کے مقامات بے شمار ہیں۔ اس لیے آخرت اگر انسان کا بنیادی مسئلہ نہ بن جائے تو سچی بات یہ ہے کہ وہ اس آزمایش میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس امتحان میں کامیابی یہ ہے کہ انسان خدا کے سامنے پیش ہو تو اپنے نفس کو پاک کر کے پیش ہو۔ نفس کی پاکیزگی کے لیے اللہ کے پیغمبر علم اور عمل، دونوں کا تزکیہ کرتے ہیں۔
جاوید صاحب نے کہا کہ انسان کے نفس پر آلایش آ جاتی ہے۔ اس سے کوتاہی ہو جاتی ہے، اس سے غلطی ہوجاتی ہے۔ بڑے سے بڑا جرم ہو جاتا ہے۔ وہ اپنے آپ کو رشوت دے لیتا ہے۔ بڑی بڑی توجیہات کر لیتا ہے۔ بعض اوقات اس کا مطالعہ، اس کا علم، اس کی عقل اس کے لیے فتنہ بن جاتی ہے۔ وہ طرح طرح کے راستے نکال لیتا ہے۔ لیکن اس کا ضمیر اسے متنبہ کرتا رہتا ہے کہ یہ سارے بہانے ہیں جو وہ تراش رہا ہے۔ اس صورت حال میں انبیا کیا رہنمائی کرتے ہیں؟ وہ کہتے ہیں کہ ایسے میں انسان اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔ اس کے سامنے اپنے آپ کو ڈال دے۔ ندامت کے ساتھ اس کا اعتراف کرے کہ مجھ سے غلطی ہو گئی۔ مجھ سے کوتاہی ہو گئی۔ میں تیرے پاس آ گیا ہوں۔ مجھے معاف کر دے۔
چنانچہ قرآنِ مجید نے سورۂ توبہ کی ایک آیت[1]؎ میں جب اہلِ ایمان کی صفات بیان کیں تو اس میں سب سے پہلے جس صفت کو نمایاں کیا وہ یہی ہے کہ وہ ’التائبون‘ ہوتے ہیں ــــــ یہ بات پیشِ نظر رہے کہ نزول کے اعتبار سے سورۂ توبہ قرآن کے بالکل آخری زمانے کی سورہ ہے۔ اس میں بتایا گیا ہے کہ ایک بندۂ مومن کے سامنے وہ ہدف کیا ہے جس کی طرف اس کو بڑھنا چاہیے ــــــ ’التائبون‘ یعنی بار بار اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہوتے ہیں۔ یہ بار بار لوٹنا، یہ بار بار رجوع کرنا، یہ انسان کی ایک کمزوری کی بنا پر ہے۔ یعنی وہ ایک ہی بار کھڑا نہیں ہو جاتا۔ اس کا معاملہ بالکل اس بچے کا سا ہوتا ہے جو چلنا سیکھ رہا ہوتا ہے۔ جو قدم قدم پر پھسلتا ہے۔ جو باربار گرتا ہے۔
بار بار پھسلنے اور بار بار گرنے کے بعد اس عزم کے ساتھ اٹھ کھڑے ہونا کہ مجھے بہرحال آگے بڑھنا ہے۔ یہی توبہ ہے اور یہی رجوع ہے۔ یعنی آدمی نے جو کیا اس کے اندر ندامت پیدا ہو جاتی ہے کہ یہ مجھ سے کیوں ہوگیا۔ میں اس آزمایش میں کیوں ناکام ہو گیا۔ یہ کیا ہو گیا میرے ساتھ۔ میرے اوپر شیطان نے غلبہ حاصل کرلیا۔ اس حادثے کا شدید احساس، اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی غیرمعمولی ندامت اورپھر یہ داعیہ اور یہ جذبہ کہ میں اگر تلافی کر سکتا ہوں تو تلافی کروں۔ میں نے کسی کا حق مارا ہے تو ادا کروں۔ کسی کے ساتھ زیادتی کی ہے تو دست بستہ اس سے معافی مانگ لوں۔ کسی کو نقصان پہنچایا ہے تو اس کا ازالہ کرنے کی کوشش کروں۔ اپنے رب کے کسی حق میں خیانت کی ہے تو اپنے آپ کو اس خیانت سے پاک کرنے کی سعی کروں۔ یہ بات یاد رکھیے کہ ندامت کے بعد توبہ کا جو لازمی حصہ ہے وہ تلافی ہے۔
توبہ کا تیسرا لازمی حصہ اصلاح ہے۔ یعنی آیندہ کے لیے یہ عہد کہ میں اپنے آپ کو ٹھیک رکھنے کی کوشش کروں گا۔ یہ عہد باربار بھی ٹوٹے تو کرتے چلے جائیے۔ یعنی صد بار اگر توبہ شکستی باز آ۔ اور اس کو قرآن نے خودبیان کردیا ہے کہ اے میرے بندو، تم جو اپنی جانوں پرظلم ڈھا چکے ہو، ’لا تقنطوا من رحمة اللّٰه‘اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، اس کی طرف آؤ، وہ بڑے سے بڑے گناہوں کو معاف کر دیتا ہے۔
بس ضد، ہٹ دھرمی، عناد، حق کے واضح ہو جانے کے باوجود متکبرانہ رویہ آدمی کے اندر نہیں ہونا چاہیے۔ قرآنِ مجید نے یہی شرط لگائی ہے۔ یہ نہیں ہیں تو توبہ آدمی کے اندر سچے اہلِ ایمان کی پہلی صفت بن جاتی ہے۔ دیکھیے کیسی رحمت ہے اس عنایت کرنے والے کی۔ وہ کہتا ہے تم بڑے سے بڑے گناہ کا ارتکاب کر لو لیکن اس گناہ کے پیچھے سرکشی نہ ہو۔ تمرد نہ ہو۔ مجھ سے گریز نہ ہو۔ میرے مقابلے میں کھڑے ہونے کا داعیہ نہ ہو۔ تمھارے اوپر جذبات کا غلبہ ہو گیا۔ اور تم بڑی سے بڑی حد توڑ بیٹھے۔ لیکن جیسے ہی اس کیفیت سے نکلے تو اپنے آپ کو میرے سامنے ڈال دیا تو میں نے اپنے اوپر لازم کر رکھا ہے کہ اس توبہ کو قبول کر لوں گا۔ یہ معمولی بات نہیں ہے۔ بڑی سے بڑی کوتاہی کے بعد آدمی جب اپنے آپ کو اس کے سامنے ڈال دیتا ہے تو وہ اس کو معاف کردیتا ہے۔
دوسری صفت یہ بیان کی کہ ’العٰبدون‘۔وہ اپنے رب کی اور صرف اپنے رب کی پرستش کرنے والے ہوتے ہیں اور اپنے رب کی اور صرف رب ہی کی اطاعت کرنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی ان کی پرستش اور ان کی اطاعت کا اصل تعلق اپنے مالک سے ہوتا ہے۔ قرآنِ مجید کی اصطلاح میں عبادت جس طرح پرستش کو شامل ہے اسی طرح اطاعت کو شامل ہے اور جس طرح اطاعت کو شامل ہے اسی طرح پرستش کو شامل ہے۔ اس کی ابتدا پرستش ہے۔ اس کی انتہا اطاعت ہے۔ سچے اہلِ ایمان یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا مالک ان سے کیا چاہتا ہے۔ وہ اپنے سارے جذبات، اپنے سارے احساسات کا مرجع ،مولا، ماویٰ اسی کو بناتے ہیں۔ وہ اپنے رب کی بندگی کرنے والے ہوتے ہیں۔ بندگی کس چیز کا نام ہے؟ بندگی خدا کی عظمت اور اپنے عجز کے غیر معمولی اعتراف کا نام ہے۔ یعنی میں کچھ نہیں ہوں۔ میری کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اپنی نفی کے مقام پر آدمی کھڑا ہو جاتا ہے۔ دنیا کے سامنے اس کا مقام بہت بلند ہو گا لیکن مالک کے سامنے نیچا ہی رہتا ہے۔ اس کے سامنے اپنے عجز اور اس کی عظمت کے اعتراف کے آخری مقام کو چھو لیتا ہے پھر اس کے اندر خدا سے انتہائی محبت اور انتہائی خوف پیدا ہوتا ہے جس کو ایک عارف نے یوں بیان کیا ہے کہ مجھے اگر یہ معلوم ہو کہ ساری دنیا جہنم میں جائے گی لیکن ایک آدمی جنت میں جائے گا۔ تو مجھے اپنے رب کی رحمت پر یہ اعتماد ہے کہ وہ ایک میں ہوں گا۔ اور اگر مجھے یہ معلوم ہو کہ ساری دنیا جنت میں جائے گی اور ایک آدمی جہنم میں جائے گا تو مجھے ڈر ہے کہ کہیں وہ میں نہ ہوں۔
اس خوف اور امید کے درمیان خدا پر بے پناہ اعتماد رکھتے ہوئے زندگی بسر کرنی ہے اگر یہ اعتمادختم ہو گیا تو پھر شیطان آ کر انڈے بچے دے دے گا۔ یہ اعتماد کسی حال میں ختم نہیں ہونا چاہیے۔
تیسری صفت اس آیت میں یہ بیان کی ہے کہ میرے بندے ’الحامدون‘ہوتے ہیں۔ میرا شکر ادا کرنے والے ہوتے ہیں۔ جذبۂ شکر گزاری کے بغیر بندگی کا حق ادا نہیں ہو سکتا۔ اصل میں اللہ تعالیٰ کی نعمتوں ہی کا شعور ہے جو بندے کو خدا کے ساتھ متعلق کرتا ہے۔ ہمارا عجز ہمیں خدا کے سامنے جب ڈال دیتا ہے تو وہ چیز جو خدا کے سامنے ڈھے جانے کی تعبیر بن جاتی ہے وہ جذبۂ شکر ہے۔ اس جذبۂ شکر کے اوپر دین کی پوری عمارت استوار کی گئی۔ اگر آدمی متکبر اور اکڑنے والا نہیں ہے تو سمجھ لیں کہ وہ دین کے دائرے کے اندر کھڑا ہے اور اگر وہ کفرانِ نعمت کرنے والا ہے تو جان لیں کہ وہ دین کے دائرے سے باہر کھڑا ہے۔
یہ واقعہ ہے کہ آدمی اگر زندگی کے بارے میں بے حس نہ ہو جائے اور بے پروا نہ ہو جائے تو قدم قدم پر پانی کا ایک گھونٹ، ہوا کا ایک جھونکا، روٹی کا ایک نوالہ، خدا کی یاد دلاتا ہے۔ اور یہ بتاتا ہے کہ منعمِ حقیقی نے ہمارے اوپر اپنی عنایتوں کی بارش کر دی ہے۔ اور ہم ان عنایتوں کا کسی حال میں شکر ادا نہیں کر سکتے۔ اس لیے بندۂ مومن نعمتوں کے شکر کے احساس کے ساتھ لبریز ہو کر زندگی بسر کرتا ہے۔
اگر وہ ناشکرے پن کا رویہ اختیار کر لیتا ہے تو پھر دین کی نعمت سے، خدا کی ہدایت سے اپنے آپ کو محروم کرلیتا ہے۔ شکر گزاری کو ایک جذبے، ایک داعیے، ایک حقیقت کے طور پر زندگی کا احاطہ کرنا چاہیے۔ ہر طرف سے اس کو گھیرنے والی چیز بن جانا چاہیے۔
چوتھی صفت خدا نے یہ بیان کی ہے کہ وہ ’السائحون‘ہوتے ہیں۔ یعنی وہ دین کو سیکھنے میں اور دین کی طلب میں اور دین کی ضرورتوں میں سرگرداں رہنے والے ہوتے ہیں۔ ریاض کرنے والے ہوتے ہیں۔ مشقتیں اٹھانے والے ہوتے ہیں۔ ’’سیاحت‘‘ قدیم مذہبی اصطلاح ہے جسے قرآن نے یہاں بیان کیا ہے۔ جس طرح ایک سیاح اپنے سامنے ایک ہدف بنا لیتا ہے اور پھر اس کے بعد بیوی بچوں کو چھوڑ کر اپنی منزل کی طرف نکل کھڑا ہوتا ہے ان کے ہاں طلبِ دین میں یہ جذبہ اور یہ داعیہ ہوتا ہے۔ یعنی جن حدود میں اللہ تعالیٰ نے ان کو رکھا ہے، اس کا لحاظ کرتے ہوئے وہ بہرحال اپنی طلب کا نصب العین اسی کو بناتے ہیں۔ جس طرح آپ اس وقت دور دراز علاقوں سے سفر کر کے یہاں دین کے مقصد کے لیے آئے ہیں، یہ بھی فی الجملہ سیاحت ہے۔ یہ سیاحت آدمی کی زندگی کا حصہ ہونی چاہیے۔ یہ نہیں ہے کہ جو کچھ حاصل ہو گیا ہے اس کو انسان لے کر ایک گوشے میں بیٹھ جائے۔ بلکہ ہر لحظہ، دین کی طلب میں، حق کی جستجو میں، دین کو اپنانے کے معاملے میں، دین کو دوسروں تک پہنچانے کے معاملے میں، حساس ہو کر زندگی بسر کرے۔ یعنی بندۂ مومن اس سیاحت کو زندگی کے کسی ایک مرحلے میں اختیار نہیں کرتا بلکہ یہ اس کی دائمی صفت ہوتی ہے۔
پھر فرمایا:’الرٰكعون الساجدون‘۔یعنی وہ خدا کے سامنے اپنے وجود کو جھکا دینے والے ہوتے ہیں۔ رکوع و سجود قرآنِ مجید میں نماز کی تعبیر ہے۔ نماز کو کوئی معمولی چیز نہ سمجھیں۔ موجودہ زمانے میں جب لوگوں پر فہمِ مدعا کا بہت غلبہ ہوا تو انھوں نے کہا کہ ایک آدمی یہ نہیں سمجھتا ہے کہ وہ نماز میں کیا پڑھ رہا ہے۔ قرآنِ مجید کے کیا اذکار ہیں جو اس کی زبان سے نکل رہے ہیں۔ ایسے میں کیا فائدہ اس نماز کا۔ میں عرض کرتا ہوں کہ قرآن نے اپنی اس تعبیر ــــــ الرٰكعون الساجدون ــــــ سے واضح کر دیا ہے کہ نماز اصلاً اعمال کا نام ہے۔ اعمال کوئی معمولی چیز نہیں ہیں۔ اندازہ کریں، ایک آدمی کے اندر ہمت بھی ہے۔ قدرت بھی ہے۔ اس کے پاس دولت بھی ہے۔ علم بھی ہے۔ بسااوقات اس کے پاس اقتدار بھی ہوتا ہے اور خدم وحشم بھی ہوتے ہیں لیکن اس سب کچھ کے باوجود وہ ایک طفلِ سادہ کی طرح اپنے مالک کے سامنے رکوع و سجود کے لیے جھک جاتا ہے۔ میں کہتا ہوں کہ ایک لفظ بھی اس کی سمجھ میں نہیں آتا۔ یہ کوئی معمولی کام ہے جو وہ کر رہا ہے۔ یعنی وہ ساری مصروفیات کو چھوڑ کر نکل کھڑا ہوا۔ اس کی کمر جھک گئی۔ اس کی روح جھک گئی۔ اس کا سر جھک گیا۔ اس کا سب کچھ خدا کے سامنے خم ہو گیا۔ یہ کوئی معمولی بات ہے۔ کبھی نماز کی ہیئت پر نگاہ ڈالیے، اس میں کس شان کے ساتھ بندہ اپنے وجود کے ساتھ اعلان کر رہا ہوتا ہے کہ میں کتنا عاجز ہوں اور وہ کتنا بالا ہے۔ نماز اصل میں اس عجز کو ایک مشہود حقیقت بنا دیتی ہے۔
رکوع و سجود کی اہمیت کو اپنے ایک تجربے سے واضح کرتے ہوئے جاوید صاحب نے کہا کہ جب میری آنکھوں کا آپریشن ہوا تو ان دنوں مجھے ڈاکٹر نے سجدہ کرنے سے روک دیا۔ کبھی زندگی میں اس کا تجربہ نہیں ہوا تھا کہ دو چار ماہ کے لیے سجدے سے محروم کر دیا جاؤں۔ جب میں اس تجربے سے گزرا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ کتنا بڑا حادثہ ہے جو ایک مسلمان کے ساتھ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عجز کے اعتراف میں اپنا سر اس کے سامنے رکھنا چاہتا ہے، جبینِ نیاز اس کے سامنے جھکانا چاہتا ہے مگر وہ مجبور ہے، وہ ایسا نہیں کر سکتا۔ سجدہ کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ رکوع کوئی معمولی چیز نہیں ہے۔ یہ وہ اعمال ہیں جو بندے کی بندگی اور خدا کی عظمت کو ایک زندہ حقیقت بنا دیتے ہیں۔
انھوں نے وضاحت کی کہ میں نماز کے اذکار کی نفی نہیں کر رہا ہوں۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ان کے معاملے میں غیر متنبہ ہو جانا چاہیے۔ اذکار کا مطلب سمجھیں۔ ان پر غور کریں۔ اس سے نماز بہتر ہو گی۔ نماز میں حسن پیدا ہو گا۔ لیکن اس رکوع و سجود کو حقیر چیز نہ سمجھیں۔ اعمال خاموشی کی زبان ہیں جن کے اندر بڑی حقیقتوں کا اظہار ہوتا ہے۔ جو لوگ ان اعمال کو حقیر سمجھتے ہیں وہ دین کی اس حقیقت سے ناواقف ہیں کہ نماز خدا اور بندے کے درمیان تعلق کے ظہور کا آخری مظہر ہے۔
نماز کے پہلو سے مسجد کی اہمیت واضح کرتے ہوئے جاوید صاحب نے کہا کہ جب مسلمان اللہ کے سامنے خاص طور پر مسجد میں کھڑے ہو کر ایک امام کے پیچھے نماز اداکرتے ہیں تو یہ نماز اپنے منتہاے کمال کو پہنچ جاتی ہے۔ اس لیے مسجد کے ساتھ بڑا مضبوط تعلق بنا کر رکھنا چاہیے۔ گھروں کی فضا کتنی ہی پاکیزہ کیوں نہ ہو، وہ مسجد کی روحانیت کا بدل نہیں ہو سکتی۔ محلے کی مسجد بندۂ مومن کا اصل گھر ہے۔
نماز بڑی غیر معمولی چیز ہے اور یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں کو اللہ نے دین کا شعور دیا تھا وہ اس بات سے خوب واقف تھے۔ سیدنا عمر کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے عمال کو لکھتے تھے: یہ بات یاد رکھو کہ اگر نماز ضائع ہو گئی تو پھر بدرجۂ اتم پورا دین ضائع ہو جائے گا۔
اس کے بعد فرمایا ’الاٰمرون بالمعروف والناهون عن المنكر‘یعنی وہ معروفات کی تلقین کرنے والے اور منکرات سے روکنے والے ہوتے ہیں۔ خدا کے بندے دینِ فطرت پر قائم ہوتے ہیں۔ معروف اور منکر خدا کا فطری دین ہے جو انسان کے وجود میں الہام کر دیا گیا۔ معروف و منکر کے بارے میں جہاں اشتباہ پیدا ہوتا ہے شریعت وہیں مداخلت کرتی ہے۔ لفظ معروف ہی بتاتا ہے کہ اس کا مطلب ہے ’’جانی پہچانی چیزیں‘‘۔ وہ جانی پہچانی چیزیں جن کو انسانی فطرت ہمیشہ سے خدا کی مرضیات سمجھتی رہی ہے۔ معروف بھی ہمیشہ سے انسان کی فطرت میں موجود ہے اور منکر بھی انسان کی فطرت میں ہمیشہ سے موجود ہے۔ وہ جانتا ہے کہ کیا چیزیں پسندیدہ ہیں اور وہ جانتا ہے کہ کیا چیزیں ناپسندیدہ ہیں۔ انسان کو اس میں کوئی ابہام نہیں ہوتا۔ وہ کتنے ہی عذر تراشے، اسے اچھی طرح معلوم ہوتا ہے کہ کیا چیز معروف ہے اور کیا چیز منکر۔ سیدنا آدم علیہ السلام کا قصہ جو قرآنِ مجید میں بیان ہوا ہے اگر آپ اس پر غور کریں تو آپ پر یہ بات واضح ہو گی اس میں پورے طریقے سے اس بات کو نمایاں کر دیا گیا ہے کہ وہ معروف اور منکر کا کتنا اعلیٰ شعور رکھتے تھے۔ ان کا غلطی کر لینے کے بعد اسے محسوس کرنا، ندامت کے ساتھ پلٹنا، یہ بتا رہا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام یہ چیزیں فطری الہام کے طور پر لے کر اس دنیا میں آئے اور بعد میں جب اس معاملے میں کوئی اشتباہ پیدا ہوا تو اللہ نے اپنے پیغمبروں کے ذریعے سے اسے ختم کر دیا۔ اور یہ سلسلہ بھی ایک لمبے عرصے تک جاری رہا یہاں تک کہ معروف اور منکر انبیاے کرام کی تقریر و تصویب کے نتیجے میں بالکل متعین ہو گئے۔ چنانچہ قرآن اس کی ضرورت محسوس نہیں کرتا کہ وہ معروف و منکر کی کوئی فہرست بیان کرے۔ بلکہ وہ ایک مجمل طریقے سے یہ بات بیان کرتا ہے تو گویا پورے انسانی علم کی شہادت اس کی پشت پر آ جاتی ہے اور وہ یہ کہتا ہے کہ: وہ معروفات کی تلقین کرنے والے ہوتے ہیں اور منکرات سے روکنے والے ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہر آدمی پر جو بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے ــــــ جو اضافی ذمہ داری نہیں ہے ــــــ وہ جس طرح عملِ صالح ہے اسی طرح تواصی بالحق اور تواصی بالصبر بھی ہے۔ یعنی آدمی کا اپنے ماحول میں حق کی نصیحت کرنا اور حق پر ثابت قدمی کی نصیحت کرنا۔ میرا گھر ہے۔ میرا خاندان ہے۔ میرے ملنے والے ہیں۔ یعنی میری زندگی ایک انسان کی حیثیت سے جہاں جہاں گزرتی ہے وہ میرا ماحول ہے اور میرے اس ماحول میں دین نے یہ ’الاٰمرون بالمعروف والناهون عن المنكر‘کی ذمہ داری ڈالی ہے اور یہ سچے اہلِ ایمان کی صفات میں بیان کر دی ہے۔ یعنی وہ برائی کو دور کرتے رہتے ہیں۔ وہ برائی کی غلاظت لوگوں پر واضح کرتے رہتے ہیں۔ انسانوں کو اس کے بارے میں متنبہ کرتے رہتے ہیں۔ ہمارے ماحول میں برائیاں ذاتی بھی ہیں اور بسااوقات اجتماعی شکل بھی اختیار کر لیتی ہیں۔ برائیاں گاہے گاہے بھی حملہ آور ہوتی ہیں اور بعض اوقات ہجوم کی شکل میں ایک وبا کی شکل میں ــــــ جسے فقہ کی اصطح میں عمومِ بلویٰ کہتے ہیں ــــــ پھیل جاتی ہیں مگر اس سب کچھ کے باوجود بندۂ مومن معروف و منکر کے بارے میں زندہ اور بیدار رہتا ہے۔
’الاٰمرون بالمعروف والناهون عن المنكر‘میں الفاظ ’امر‘ اور ’نهي‘ کے بارے میں ایک غلط فہمی پائی جاتی ہے۔ جاوید صاحب نے اس کا ازالہ کرتے ہوئے کہا کہ اعلیٰ عربی زبان میں یہ الفاظ حکم دینے اور نافذ کرنے کے لیے بہت کم استعمال ہوتے ہیں۔ ان الفاظ سے مراد اپنے ماحول میں تلقین، نصیحت اور دعوت کا کام انجام دینا ہے۔ ان الفاظ میں حکم دینے یا نافذ کرنے کے مفہوم کے حوالے سے جاوید صاحب نے کہا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے واضح کر دیا کہ ہر آدمی کا ایک دائرۂ اختیار ہوتا ہے۔ باپ کا دائرۂ اختیار اس کے بچے ہیں۔ شوہر کا دائرۂ اختیار اس کی بیوی ہے۔ اسی طرح ریاست کے حکمران کا دائرۂ اختیار اس کی رعایا ہے۔ اس دائرۂ اختیار کے اندر اگر کوئی حکمت مانع نہیں ہے تو آدمی کے لیے ضروری ہے کہ وہ منکر کا قوت سے ازالہ کرے۔ دین کی کوئی مصلحت مانع نہیں ہے تو وہ منکر کو ہاتھ سے روکے۔ دائرۂ اختیار میں برائی کو بالجبر روکنے سے فتنہ و فساد نہیں ہو گا، اس لیے کہ یہاں اختیار حاصل ہے۔ اور اگر اس کی طاقت نہیں رکھتے ــــــ یہاں طاقت اس ہمت اور حوصلہ کے معنی میں ہے جو ایمان کے بڑھنے یا کم ہونے سے پیدا ہوتا ہے ــــــ تو زبان سے لوگوں کو منکر سے روکو۔ اور اگر یہ حوصلہ اور ہمت بھی نہیں رکھتے ــــــ ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات آدمی اپنی کمزوریوں اور برے ماحول کے غلبے کی وجہ سے اس مقام پر پہنچ جاتا ہے ــــــ تو فرمایا: کم سے کم اپنے اندر یہ تو محسوس کرو کہ یہ منکر ہے اور اس کو بہرحال ختم ہونا چاہیے۔ اس کے لیے تمھارے اندر کم سے کم ایک تردد تو رہنا چاہیے۔ اور اگر تم اس سے بھی محروم ہو گئے تو اس کا مطلب ہے کہ اب تمھارے اندر ایمان کی کوئی رائی بھی نہیں ہے۔
اس کے بعد جو آخری صفت بیان کی، وہ ہے ’والحٰفظون لحدود اللّٰه‘یعنی خدا کے حدود کی نگہ داشت کرنے والے۔ بندۂ مومن کو اپنے رب کے محارم کے معاملے میں متنبہ رہنا چاہیے۔ ہمارے پروردگار نے اپنے نبیوں کے ذریعے سے جو ہدایت بھیجی ہے، اس میں جس طرح حکمت ہے اسی طرح شریعت بھی ہے۔ جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام سے وعدہ کیا تھا کہ میری ہدایت آئے گی اور جس نے اس کی پیروی کی، نہ وہ گمراہ ہوگا اور نہ کسی شقاوت میں پڑے گا۔ اس ہدایت میں کچھ حدود معین کر دی گئی ہیں۔ مومن ان کی حفاظت کرنے والے ہوتے ہیں۔ یعنی ان کے ہاں ایک لائن لگی ہوتی ہے کہ میں بس یہاں تک جا سکتا ہوں، اس سے آگے جانے سے میرے مالک نے مجھے روک رکھا ہے۔ اس سے مجھے تجاوز نہیں کرنا۔ یہ حدود اللہ کی حفاظت ہے جسے قرآن دوسرے مقامات پر تقویٰ سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی آدمی اندیشہ ناک رہے کہ میں کہیں غلط سمت میں قدم نہ رکھ دوں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو مزید واضح فرمایا کہ آدمی کو اللہ کے حدود کے بارے میں ذرا پیچھے پیچھے ہی رہنا چاہیے اس لیے کہ اگر وہ بالکل قریب چلا گیا تو کیا بعید کہ کب چرتے ہوئے جانور کی طرح دوسری طرف نکل جائے۔ اس لیے کہ اس کی ترغیبات اور اس کے داعیات بے پناہ ہیں۔ اس ضمن میں نہ صرف یہ کہ اپنے علم کے حدود سے متنبہ رہنا چاہیے بلکہ اس کے ساتھ اپنے عمل کے اعتبار سے بھی ہر وقت حساس رہنا چاہیے۔
اس اجتماع کے خاتمے پر میں آپ کو جو پیغام دینا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کی اس آیت کو حرزِ جان بنالیجیے۔ اس کو اگر آپ نے اپنا توشہ بنا لیا اور اپنا زادِ سفر بنا لیا اور ان صفات کو اپنے اندر پیدا کرنے کو اصل داعیے کی حیثیت سے اختیار کر لیا اور یہی صفات دوسروں کے اندر پیدا کرنے کا کام کیا تو آپ کے اندر دعوت کی وہ روح پیدا ہو گی جو اللہ کے پیغمبر پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
اس آیت کے آخر میں فرمایا ’وبشر المومنين‘یعنی ان اہلِ ایمان کو بشارت دے دو۔ کس چیز کی بشارت؟ خدا کی جنت کی بشارت۔ خدا کی بادشاہی کی بشارت۔ اس کے حضور میں سرخروئی کی بشارت۔ یہ بشارت اپنے لیے بھی لیجیے۔ میں بھی اپنے لیے لیتا ہوں۔ یہ دوسروں کے لیے بھی لے کر جائیے۔ اور اس بشارت کو دوسروں تک پہنچائیے۔ دعوت وہ کام ہے جس کے بارے میں کل ہمارے ایک رفیقِ عزیز نے کہا تھا کہ نماز تو دن میں پانچ وقت فرض ہوتی ہے لیکن دین ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم ہر وقت داعیِ حق بن کر رہیں۔ دوسروں کے لیے بشارت دینے والا بن کر رہیں۔
یہ بات یاد رکھیے کہ توجہ کو خارج کے بجائے داخل کی طرف مرکوز ہونا چاہیے۔ یعنی اپنی ذات کی طرف۔ اپنے ماحول کی طرف۔ یہاں روشنی ہو گی تو یہ روشنی دوسروں تک بھی پہنچے گی۔ یہاں تاریکی ہو گی تو دوسروں تک بھی تاریکی ہی پہنچے گی۔
بشارت ہے ان کے لیے جو یہ صفات اپنے اندر پیدا کر لیں۔ اور اپنے آپ کو آخرت کے مسافر بنا لیں۔ اور آخرت ان کا اصل مسئلہ بن جائے۔
اس خطاب کے بعد ۳۰: ۱ پر نمازِ ظہر ادا کی گئی۔ ۰۰ : ۲ بجے دوپہر کا کھانا کھایا گیا۔ کھانے کے دوران میں اور بعد میں بھی لوگوں نے جاوید صاحب کو گھیرے رکھا اور مختلف امور پر گفتگو کرتے رہے۔ اس نوعیت کے کچھ اور بھی گروہ بنے رہے اور باہمی گفتگو اور میل جول کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر آہستہ آہستہ الوادعی مصافحے اور الوادعی معانقے شروع ہو گئے۔ ۰۰ : ۴ بجے تک تمام لوگ اجتماع گاہ سے رخصت ہو گئے۔ اس طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دانش سرا، پاکستان کا دوسرا سالانہ اجتماع بخیرو خوبی اختتام پذیر ہوا۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]؎ اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰكِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَالنَّاهُوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَالْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰهِﵧ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِيْنَ.(۹: ۱۱۲) ’’ توبہ کرتے رہنے والے، عبادت گزار، شکر گزار، ریاض کرنے والے، رکوع سجدہ کرتے رہنے والے، نیکی کا حکم دینے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کے حدود کی نگہ داشت رکھنے والے اصلی مومن ہیں اور مومنوں کو خوش خبری سنا دو۔‘‘