(قرآن میں عددی تضادات کا جواب)
انٹرنیٹ (Internet) کی دنیا کے ایک مستشرق مسٹر جوکن کاٹز (Jochen Katz) نے حسبِ روایت قرآنِ مجید پر تنقید کرتے ہوئے اس کی چند آیات کو اپنی ایک تحریر بعنوان “Numerical Discrepancies in the Qur'an” میں باہم متضاد قرار دیا ہے۔ میں نے انٹرنیٹ پر “The Length of God's Days” (خدا کے دنوں کی طوالت) کے زیرِ عنوان اس تنقید کا جواب دیا تھا۔ اب محمد بلال صاحب نے قارئینِ ’’اشراق‘‘ کے استفادے کے لیے میری انگریزی تحریر کو اردو کے قالب میں ڈھالا ہے۔
انٹرنیٹ پر مسٹر جوکن کاٹز کی اصل تحریر:
http ://www. answeringislam. org/Quran/Contra/ i020.html
پر اور میری اصل تحریر:
http:// www.understanding_islam.com/articles /quran/tlgd.htm
پر دیکھی جا سکتی ہے۔ (مدیر )
مسٹر جوکن کاٹز (Jocken Katzs) قرآنِ مجید پر اپنے مختلف اعتراضات میں سے ایک اعتراض اللہ کے دنوں کے حوالے سے بھی کرتے ہیں۔ اس کے لیے وہ قرآن مجید کے حسبِ ذیل مقامات کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
...وَاِنَّ يَوْمًا عِنْدَ رَبِّكَ كَاَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.(الحج ۲۲: ۴۷)
’’ ...اور تمھارے رب کے ہاں کا ایک دن تمھارے شمار کے اعتبار سے ایک ہزار سال کی طرح کا ہوتا ہے۔‘‘
يُدَبِّرُ الْاَمْرَ مِنَ السَّمَآءِ اِلَي الْاَرْضِ ثُمَّ يَعْرُجُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ٘ اَلْفَ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ.(السجدہ ۳۲: ۵)
’’ وہی آسمان سے زمین تک سارے امور کا انتظام فرماتا ہے۔ پھر یہ تمام امور اسی کی طرف لوٹتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار تمھارے شمار سے ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘
تَعْرُجُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوْحُ اِلَيْهِ فِيْ يَوْمٍ كَانَ مِقْدَارُهٗ خَمْسِيْنَ اَلْفَ سَنَةٍ.(المعارج ۷۰: ۴)
’’ اس کی طرف فرشتے اور جبریل صعود کرتے ہیں ایک ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔‘‘
اور سوال اٹھاتے ہیں:
’’کیا اللہ کا دن ایک ہزار سال کے برابر ہے یا پچاس ہزار سال کے برابر ؟ ‘‘
اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’غور کیجیے انگریزی میں (میں عربی نہیں جانتا) سورۂ سجدہ کی آیت ۵ اور سورۂ معارج کی آیت ۴ کے یہ الفاظ آپس میں کس قدر مشابہ ہیں:
Ascend unto him in a day the measure where of is (fifty) thousand years [of your reckoning]’’.
مسٹر کاٹز اپنے اعتراض کا خود ہی جواب دیتے ہوئے مزید کہتے ہیں:
’’ہو سکتا ہے ابتدائی طور پر (قرآن کے ان) دونوں (مقامات) پر ’’پچاس ہزار‘‘ ہی (لکھا ہوا) ہو اور ایک (مقام) سے ’’پچاس‘‘ (وقت کے ساتھ ساتھ) ختم ہو گیا ہو ؟ ہاتھ سے لکھی ہوئی ایک ناقص کتاب (میں یہ ہو جاتا ہے)؟ یا کیا خدا بالکل نہیں جانتا کہ اپنے دنوں کی طوالت کو انسان کے برسوں کے ساتھ کس طرح متعلق کرے ؟‘‘
میرا خیال ہے کہ اگر کوئی شخص عربی زبان سے واقف نہ بھی ہو اور قرآنِ مجید کے صرف انگریزی تراجم ہی پر انحصار کرتا ہو تب بھی وہ اوپر درج آیات کوکسی بھی طرح باہم متضاد قرارنہیں دے سکتا۔
اس ضمن میں اپنے جواب کو میں دو حصوں میں تقسیم کروں گا۔ پہلے حصے میں، میں انگریزی زبان کے پہلو سے یہ واضح کروں گا کہ ان آیات میں کوئی تضاد نہیں ہے اور دوسرے حصے میں خالصۃً عربی زبان کے پہلو سے ثابت کروں گا کہ انگریزی کی طرح عربی میں بھی یہ آیات باہم متضادنہیں ہیں۔
الیه توکلت والیه أنیب۔
انگریزی زبان میں بھی لفظ ’Day‘ (دن) صرف ۲۴ گھنٹے کے دورانیے یعنی ایک طلوعِ آفتاب سے دوسرے طلوعِ آفتاب تک ہی کے لیے استعمال نہیں ہوتا ہے بلکہ یہ لفظ کئی ایک مفاہیم کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر دیکھیے:
“One day I ll get my revenge.”
’’ایک دن میں اپنا انتقام لے لوں گا۔‘‘
اس جملے میں ’One day‘ (ایک دن) ۲۴ گھنٹے کے وقت کے دورانیے کے لیے نہیں بلکہ مستقبل کے کسی وقت کے لیے استعمال ہوا ہے۔
اب اس جملے پر غور کریں:
“This day and age.”
اس جملے کا مطلب ہے ’’آج کل‘‘۔
جب کوئی شخص یہ کہتا ہے:
“Would there ever be a day when the weak and the oppressed are heard?”
’’کیا کبھی ایسا دن بھی آئے گا جب کمزور اور پسے ہوئے لوگوں کی داد رسی ہو گی ؟‘‘
اس جملے میں: ’a day‘ سے مراد ہے ’’ ایسا وقت‘‘۔
جب ایڈمنڈسپنسر (Edmund Spencer) نے کہا کہ :
“Ah! When will this long weary day have end,
And lend me leave to come unto my love? (Epithalamion).”
’’آہ یہ طویل تھکا دینے والا وقت کب ختم ہو گا اور مجھے اپنے محبوب تک پہنچنے کا موقع ملے گا؟‘‘
یہاں لفظ ’Day‘ ۲۴ گھنٹوں کے وقت کے دورانیے کی طرف اشارہ نہیں کر رہا بلکہ غم و الم کے اُس وقت کی طرف اشارہ کر رہا ہے جس میں سے کہنے والا اُس وقت گزر رہا تھا۔
مزید دیکھیے۔ جب مارٹن لوتھر کنگ (Martin Luther King) نے یہ کہا کہ:
“I have a dream that one day on the red hills of Georgia., the sons of former slaves and sons of former slave_ owners will be able to sit together at the table of brotherhood . . . that one day even the state of Mississippi, a state sweltering with the heat of injustice, sweltering with the heat of oppression, will be transformed into an oasis of freedom and justice . . . that my four little children will one day live in a nation where they will not be judged by the color of their skin but by the content of their character.”
’’میرا خواب ہے کہ ایک روز جارجیا (Georgia) کے سرخ پہاڑوں (کی چوٹیوں) پر یہ سابق غلاموں کے بیٹے اور ان کے مالکوں کے بیٹے بھائی چارے کے میز پر اکٹھے بیٹھیں گے۔... میرا خواب ہے کہ ایک دن می سسی پی (Mississippi) کی ریاست بھی جو آج، بے انصافی اور ظلم وستم کی آگ میں جل رہی ہے، آزادی اور انصاف کے نخلستان میں تبدیل ہو جائے گی... (میرا خواب ہے) کہ ایک دن میرے چار بچے ایک ایسی قوم میں زندگی گزاریں گے جہاں جلد کے رنگ کی بنیاد پر نہیں بلکہ کردار کی خوبیوں کی بنیاد پر انھیں پرکھا جائے گا ۔‘‘
اس اقتباس میں بھی ’One day‘کے الفاظ ۲۴ گھنٹے کے وقت کے دورانیے کے لیے نہیں بلکہ مستقبل کے ایک خاص وقت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔
ان مثالوں سے یہ بات بالکل واضح ہو گئی کہ روزمرہ کی انگریزی زبان میں لفظ ’Day‘(دن) کئی مفاہیم میں استعمال ہوتا ہے۔ ان مفاہیم میں سے اس کا ایک مفہوم ’’مستقبل کے ایک خاص وقت کا دورانیہ‘‘ ہے۔
لفظ ’Day‘(دن) کے اس مفہوم کو ذہن میں رکھ کر زیرِ بحث آیاتِ قرآنی کے انگریزی ترجمے پر ایک مرتبہ پھر غور کریں۔ اس ضمن میں پہلی آیت سورۂ حج کی آیت ۴۷ہے:
“and surely a day near your Lord is like a thousand years of your reckoning.”
اس آیت کا مفہوم بہت سادہ ہے۔ آیت یہ کہتی ہے کہ اللہ کے لیے ہمارے ایک ہزار سال کا شمار، ہمارے ۲۴ گھنٹے کے دن سے زیادہ نہیں ہے۔
دوسری آیت سورۂ سجدہ کی آیت ۵ ہے:
“He decides all affairs from the heavens to the earth; then these [affairs] go [back] up to Him in a day, the length of which is a thousand years of your reckoning.”
یہ آیت ہمیں اس بات سے آگاہ کرتی ہے کہ زمین و آسمان کے لیے اللہ کے امور اللہ کی طرف ایک ایسے ’’دن‘‘ (وقت کے ایک خاص دورانیے میں) لوٹائے جاتے ہیں، جو ہمارے پیمانوں کے لحاظ سے ایک ہزار سال کے برابر ہے۔
تیسری آیت سورۂ معارج کی آیت ۴ ہے:
“The angels and the ruh ascend upto Him in a day the length of which is fifty thousand years”
یہ آیت ہمیں اس بات سے مطلع کرتی ہے کہ فرشتے اور روح (جبریل علیہ السلام) کو اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ایک ایسا دن (وقت کا ایک خاص دورانیہ) لگتا ہے، جو ہم انسانوں کے پچاس ہزار سال جتنا طویل ہوتا ہے۔
ان آیات کا دقتِ نظر سے مطالعہ کریں تو معلوم ہو گا کہ یہ تین آیتیں، تین مختلف حقائق سے آگاہ کر رہی ہیں۔
پہلی آیت یہ بیان کر رہی ہے کہ ہمارے ایک ہزار سال کا شمار اللہ کے ایک دن کے برابر ہے۔ دوسری آیت یہ حقیقت واضح کر رہی ہے کہ اللہ کے امور کی تکمیل اور ان کی اللہ کی طرف واپسی ہمارے ایک ہزار سال کے وقت کے دورانیے میں ہوتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں یہ آیت کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے منصوبے ہمارے پیمانوں کے لحاظ سے ہزار سالہ ہوتے ہیں۔ تیسری آیت یہ بات واضح کر رہی ہے کہ فرشتوں اور جبریل علیہ السلام کو اللہ تک رسائی حاصل کرنے کے لیے جتنا وقت درکار ہوتا ہے وہ ہمارے پیمانوں کے لحاظ سے پچاس ہزار سال کے برابر ہے۔
ظاہر ہے اگر قرآن ایک مقام پر یہ کہتا کہ ہمارے ایک ہزار سال کا شمار اللہ کے ایک دن کی طرح ہے اور دوسرے مقام پر یہ کہتا کہ اللہ کی نظر میں ایک دن ہمارے شمار کے پچاس ہزار سال کی طرح ہے یا اگر قرآن ایک جگہ یہ کہتا کہ فرشتوں کو خدا تک رسائی پانے کے لیے پچاس ہزار سال کا وقت صرف کرنا پڑتا ہے اور دوسری جگہ یہ بیان کرتا کہ فرشتے ہمارے شمار کے پچاس ہزار سال کا وقت صرف کر کے اللہ تک رسائی پاتے ہیں یا اگر ایک موقع پر قرآن کہتا کہ اللہ کے منصوبوں کی تکمیل اور ان کی خدا تک واپسی میں ایک ہزار سال لگتے ہیں اور دوسری جگہ یہ کہتا کہ خدا کے منصوبوں کی تکمیل اور خدا کی طرف ان کی واپسی میں پچاس ہزار سال کا دورانیہ صرف ہوتا ہے تو یقینی طور پر ان بیانات کو باہم متضاد قرار دیا جا سکتا تھا۔ لیکن ہر شخص دیکھ سکتا ہے صورتِ معاملہ یہ نہیں ہے۔ قرآن نے مختلف امور کے لیے وقت کے مختلف دورانیوں کا ذکر کیا ہے۔ اس صورتِ حال میں کوئی شخص یہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ آیات باہم متضاد ہیں۔
مسٹر کاٹز کا یہ خیال ہے کہ چونکہ فرشتے اللہ تک رسائی حاصل کرنے میں پچاس ہزار سال لیتے ہیں اور چونکہ تمام امور اللہ کی طرف سے فرشتوں کے ذریعے سے لوٹائے جاتے ہیں اس لیے سورۂ سجدہ کی آیت ۵ اور سورۂ معارج کی آیت ۴ دراصل ایک ہی بات کو بیان کر رہی ہیں۔ مسٹر کاٹز لکھتے ہیں:
’’آخری دونوں آیات ایک ہی بات بیان کر رہی ہیں۔ سورۂ سجدہ کی آیت ۵ میں جو لفظ ’امر‘ استعمال کیا گیا ہے اس کا ترجمہ عام طور پر ’affairs‘ (امور) کیا جاتا ہے یہ لفظ ان آیات میں قرآنی اصطلاح ہے یعنی فرشتوں اور جبریل کے ساتھ کوئی معاملہ کرنا۔ یہ آیت ’امر‘ کے متعلق بات کرتی ہے کہ ’’خدا تک رسائی پائیں گے۔‘‘‘‘
سیاقِ کلام سے واضح ہوتا ہے کہ کوئی چیز ہے جب کسی کے پاس جاتی تو پھر یقیناً واپس آتی ہے۔
سورۂ بنی اسرائیل (۱۷) کی آیت ۸۵ میں ہے:
وَيَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الرُّوْحِﵧ قُلِ الرُّوْحُ مِنْ اَمْرِ رَبِّيْ وَمَا٘ اُوْتِيْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِيْلًا.
’’اور وہ تم سے روح کے متعلق سوال کرتے ہیں، کہہ دوکہ روح میرے رب کے حکم میں سے ہے اور تمھیں توبس تھوڑا ساعلم ہی عطاہواہے۔‘‘
اس آیت میں ’’امر‘‘ اور ’’روح‘‘ کے درمیان تعلق پر غور کریں:
سورۂ قدر (۹۷) کی آیت ۴ میں ہے:
تَنَزَّلُ الْمَلٰٓئِكَةُ وَالرُّوْحُ فِيْهَا بِاِذْنِ رَبِّهِمْ مِّنْ كُلِّ اَمْرٍ.
’’اس میں فرشتے اور روح اترتے ہیں، امر میں، اپنے رب کی اجازت کے ساتھ ۔‘‘
یہاں پھر ’’امر‘‘ اور ’’روح‘‘ اور ’’فرشتوں‘‘ کے مابین تعلق پر غور کریں۔‘‘
مسٹر کاٹز کا نکتہ (میرے الفاظ میں) یہ ہے کہ چونکہ فرشتوں کے ذریعے سے امور اللہ کو لوٹائے جاتے ہیں اس لیے سورۂ سجدہ کی آیت ۵ اور سورۂ معارج کی آیت ۴ ایک ہی بات کی طرف اشارہ کر رہی ہیں اور ان دونوں آیات کے درمیان جو فرق ہے وہ دراصل تضاد ہے۔
میرا یہ خیال ہے کہ اس کا جواب بہت سادہ ہے۔ سورۂ معارج کی آیت ۴ یہ بیان کرتی ہے کہ فرشتے اور جبریل خدا تک رسائی پانے کے لیے پچاس ہزار سال لیتے ہیں۔ یہ آیت یہ نہیں کہتی کہ خدا جب چاہتا ہے تو وہ فرشتوں اور جبریل کو پانے کے لیے یہ عرصہ لیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اگر فرشتوں کو اپنے پاس طلب کرنا چاہے یا انھیں اپنی موجودگی کا احساس دلانا چاہے تو یہ اس کے لیے آنکھ جھپکنے سے بھی پہلے ہو سکتا ہے۔ ان آیات میں ایسی کوئی چیز نہیں جو ہماری اُس بات کی نقیض ہو۔
بہرحال کوئی بھی مسئلہ ہو یہ بالکل واضح ہے کہ یہ دونوں آیات دو مختلف امور بیان کر رہی ہیں۔ ایک آیت فرشتوں اور جبریل کا خدا تک پہنچنا بیان کر رہی ہے اور دوسری آیت دنیا کے لیے خدا کے منصوبوں اور اس کی تکمیل کے وقت سے باخبر کر رہی ہے۔ ظاہر ہے یہاں یہ ضروری نہیں ہے کہ ان منصوبوں یا ان منصوبوں کی تکمیل کی اطلاع دینے کے لیے فرشتوں اور جبریل علیہ السلام کو اللہ کے دربار میں رسائی حاصل کرنا پڑتی ہے۔
عربی کے لفظ ’’یوم‘‘ کا انگریزی زبان میں ’Day‘ترجمہ کیا گیا ہے۔ یہاں عربی زبان کے پہلو سے یہ نکتہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ عربی زبان میں لفظ ’’یوم‘‘ انگریزی لفظ ’Day‘کی طرح وقت کے ۲۴ گھنٹے کے دورانیے ہی کے استعمال تک محدود نہیں ہے۔ اس بات کے اثبات کے لیے ذیل میں عربی ادب سے کچھ حوالے دیے جاتے ہیں:
دورِ اسلام سے قبل کا ایک شاعر کہتا ہے:
متی یسا عدنا الوصال ودھرنا
یومان: یوم نوی ویوم صدود[1]؎
ان مصروں میں لفظ ’’یوم‘‘، ’’مراحل‘‘ اور ’’وقفوں‘‘ کے مفہوم میں استعمال ہوا ہے اسے کوئی بھی شخص وقت کے ۲۴ گھنٹے کے دورانیے کے مفہوم میں نہیں لے سکتا۔
عمرو بن کلثوم کہتا ہے:
بیوم کریھة ضربا و طعنا
اقربه موالیک العیونا
وان غدا وان الیوم رھن
ویعد غد بما لا تعلمینا[2]؎
اس مصرعے میں لفظ ’’غداً‘‘، ’’الیوم‘‘ اور ’’بعد غد‘‘ کا بالترتیب مطلب ’’آج‘‘، ’’(آنے والا) کل‘‘ اور ’’پرسوں‘‘ ہے لیکن یہاں ان سے مراد ان کا لغوی مفہوم نہیں ہے بلکہ ان کا مفہوم حال، مستقبل قریب اور مستقبل بعید ہے۔
ابوالعلا معری نے بھی لفظ ’’یوم‘‘ انھی مفاہیم کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ کہتا ہے:
ثلاثه ایام ھی الدھر کله
وما ھن الا الا مس والیوم والغد[3]؎
ابنِ ابی وباقل اپنی محبوبہ سے کہتا ہے:
یطول الیوم لا القاك فیه
ویوم تلتقی فیه قصیر[4]؎
اس مصرعے میں بھی لفظ ’’یوم‘‘ اس وقت کو بیان کرنے کے لیے استعمال ہوا ہے جب شاعر اپنے محبوب کے ساتھ اور جب اس سے دور ہوتا ہے۔ یہاں ’’یوم‘‘ سے مراد وہ ’’دن‘‘ نہیں ہے جو وقت کے ۲۴ گھنٹے کے دورانیے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔
حسین اسدی کہتا ہے:
له یوم بؤس فیه للناس ابوس
ویوم نعیم فیه للناس انعم[5]؎
یہاں بھی دیکھ لیں، لفظ ’’یوم‘‘ شاعر کی زندگی کے مختلف مراحل کے لیے استعمال ہوا ہے نہ کہ اس کی زندگی کے ۲۴ گھنٹے کے کسی دورانیے کے لیے۔
شمر کہتا ہے:
یوماہ : یوم ندی ویوم طعان[6]؎
ابنِ منظور اپنی کتاب ’’لسان العرب‘‘ میں شمر کے اس مصرعے کا حوالہ دیتا ہے اور اس سے حسبِ ذیل نتیجہ اخذ کرتا ہے:
ویوماه : یوم نعم ویوم بؤس، فالیوم ھھنا بمعنی الدھر أی : ھو دھرہ کذلك. [7]؎ (لسان العرب ج ۱۲ ص ۶۵۰)
اوپر درج حوالوں سے ہم آسانی کے ساتھ یہ بات اخذ کر سکتے ہیں کہ لفظ ’’یوم‘‘ صرف وقت کے ۲۴ گھنٹے کے دورانیے کے لیے ہی استعمال نہیں ہوتا بلکہ کسی کی زندگی کے کسی مرحلے اور کسی وقت کے کسی دورانیے کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔
مذکورہ مصرعوں کی طرح سورۂ سجدہ کی آیت ۱۵ اور سورۂ معارج کی آیت ۴ میں بھی لفظ ’’یوم‘‘ وقت کے دورانیے کے لیے استعمال ہوا ہے وقت کا یہ دورانیہ دو مختلف امور کے لیے مختلف ہے۔ اس فرق کو تضاد قرار دینے کا میرے نزدیک کوئی معقول جواز نہیں ہے۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]؎ یہ ہمارے لیے کیسے ممکن ہے کہ ہمارا ملاپ ہو جائے ہمارا وقت تو دو ہی دنوں پر مشتل ہے ایک جدائی کا دن اور ایک وہ دن جب ہم مقات سے روک دیے جائیں گے۔
[2]؎ (میں تمھیں یاد دلاتا ہوں کہ) جب جنگ میں، بے نیام تلواریں اور نیزے تھے، یہ چیز تمھارے رشتے کے بھائیوں (Cousions) کے لیے مسرت کا باعث بنی تھی، آج، کل اور آنے والے دنوں کی باتیں تو ابھی پوشیدہ ہیں۔ (اس لیے میں تمھیں صرف ماضی کی باتیں ہی یاد کرا سکتا ہوں۔)
[3]؎ وقت تین دنوں پر مشتمل ہے: گزرا ہوا کل، آج اور آنے والا کل۔
[4]؎ وہ دن بہت طویل ہوتا ہے جس میں ہم مل نہیں پاتے، جبکہ وہ دن بہت چھوٹا ہوتا ہے جب ہم ملتے ہیں ۔
[5]؎ اس نے وہ وقت بھی گزارا ہے جس میں اس کی وجہ سے لوگوں نے سخت ترین وقت کا سامنا کیا اور فیاضی کا وہ دور بھی جب لوگ خوش حال ہو گئے ۔
[6]؎ اس کی زندگی دو دنوں پر مشتمل ہے۔ فیاضی کا دن اور جنگ کا دن۔
[7]؎ اس کے دو ہی دن ہیں: ایک دن وہ جب وہ فیاض ہوتا ہے اور ایک وہ دن جب وہ میدانِ جنگ میں ہوتا ہے۔ یہاں لفظ ’دن‘ سے مراد وقت ہے۔ مثلاً اس کی زندگی دوقسم کے حالات پر مشتمل ہے۔