میزان
(نئی اشاعت کے لیے مصنف کی طرف سے نظرثانی اور ترمیم و اضافہ کے بعد)
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ وَيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا.(البقرہ ۲ : ۱۴۳)
’’اور اسی طرح ہم نے تمھیں ایک درمیان کی جماعت بنایا تاکہ تم لوگوں پر (اِس دین کی) شہادت دینے والے بنو اور رسول تم پر یہ شہادت دے ۔‘‘
یہ دعوت ’’شہادت علی الناس‘‘ ہے ۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ وہی دعوت ہے جس سے دین کی حجت پوری دنیا پر قائم ہوئی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جس منصب کو اس آیت میں ’ویکون الرسول علیکم شھیداً‘کے الفاظ سے تعبیر کیا گیا ہے، اس کے تحت جب آپ نے اپنی قوم پر اتمامِ حجت کر دیا تو جو لوگ ایمان لائے اور انھوں نے آپ کی صحبت اٹھائی وہ خدا کی زمین پر حق کا ایسا نمونہ بنے کہ انسان کے سارے اخلاقی تصورات ان کے وجود میں بالکل مجسم ہو گئے، یہاں تک کہ خود پروردگارِ عالم نے انھیں ’’خیرِ امت‘‘ قرار دیا اور فرمایا:
كُنْتُمْ خَيْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ.(آلِ عمران ۳: ۱۱۰)
’’ تم وہ بہترین جماعت ہو جو لوگوں (پر دین کی شہادت) کے لیے برپا کی گئی ہے۔ تم بھلائی کی تلقین کرتے ہو، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر سچا ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اس جماعت کی یہی حیثیت تھی جس کی بنا پر قرآن نے سورۂ بقرہ کی اس آیت میں انھیں مخاطب کر کے اعلان کیا ہے کہ تم ایک ’’امتِ وسط‘‘، یعنی درمیان کی جماعت ہو جس کے ایک طرف اللہ کا رسول اور دوسری طرف ’الناس‘یعنی دنیا کی سب اقوام ہیں۔ لہٰذا جو شہادت رسول نے تم پر دی ہے، اب وہی شہادت باقی دنیا پر تم دو گے اور اس کے نتیجے میں روزِ محشر اُس شہادت کے لیے اٹھائے جاؤ گے جو لوگوں کا فیصلہ کر دے گی:
وَنُفِخَ فِي الصُّوْرِ فَصَعِقَ مَنْ فِي السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِي الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآءَ اللّٰهُﵧ ثُمَّ نُفِخَ فِيْهِ اُخْرٰي فَاِذَا هُمْ قِيَامٌ يَّنْظُرُوْنَ. وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّهَا وَوُضِعَ الْكِتٰبُ وَجِايْٓءَ بِالنَّبِيّٖنَ وَالشُّهَدَآءِ وَقُضِيَ بَيْنَهُمْ بِالْحَقِّ وَهُمْ لَا يُظْلَمُوْنَ.(الزمر ۳۹: ۶۸ - ۶۹)
’’ اور اُس دن صور پھونکا جائے گا تو زمین و آسمان میں جو بھی ہیں، سب بے ہوش ہو کر گر پڑیں گے، سوائے اُن کے جنھیں اللہ چاہے گا، پھر دوسری مرتبہ وہی صور پھونکا جائے گا تو یکایک وہ کھڑے ہو کر دیکھنے لگیں گے، اور زمین اس دن اپنے پروردگار کے نور سے روشن ہو جائے گی اور عمل کا دفتر رکھ دیا جائے گا، اور سب پیغمبر بلائے جائیں گے اور وہ بھی جو (پیغمبر نہ تھے، مگر) شہادت کے منصب پر فائر کیے گئے، اور لوگوں کے درمیان بالکل حق کے مطابق فیصلہ کر دیا جائے گا، اس طرح کہ اُن پر کوئی ظلم نہ ہو گا۔‘‘
صحابۂ کرام کو اللہ تعالیٰ نے اس شہادت کے لیے اسی طرح منتخب کیا، جس طرح وہ بنی آدم میں سے بعض جلیل القدر ہستیوں کو نبوت و رسالت کے لیے منتخب کرتا ہے۔ ارشاد فرمایا ہے:
هُوَ اجْتَبٰىكُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَيْكُمْ فِي الدِّيْنِ مِنْ حَرَجٍﵧ مِلَّةَ اَبِيْكُمْ اِبْرٰهِيْمَﵧ هُوَ سَمّٰىكُمُ الْمُسْلِمِيْنَﵿ مِنْ قَبْلُ وَفِيْ هٰذَا لِيَكُوْنَ الرَّسُوْلُ شَهِيْدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَي النَّاسِ. (الحج ۲۲: ۷۸)
’’ اسی نے تم کو منتخب کیا اور دین کے معاملے میں تم پر کوئی تنگی نہیں رکھی، تمھارے باپ[4]؎ ابراہیم کی ملت تمھارے لیے پسند فرمائی۔ اُس نے تمھارا نام مسلم رکھا، اِس سے پہلے اور اِس (قرآن) میں بھی تمھارا نام مسلم ہے: (اِس لیے منتخب کیا) کہ رسول تم پر دینِ حق کی گواہی دے اور دنیا کے باقی انسانوں پر تم اِس دین کی گواہی دینے والے بنو۔‘‘
چنانچہ جس طرح رسولوں کو اپنی قوم پر اتمامِ حجت کے بعد یہ حق حاصل ہو جاتا ہے کہ وہ اسے عذاب کے حوالے کر دیں، اسی طرح صحابہ کو بھی جب وہ رسول کی شہادت کے پس منظر میں اور ’خیرِ امت‘ بن کر اٹھے تو بحیثیتِ جماعت یہ حق حاصل ہوا کہ وہ روم و ایران کی سرحدوں پر کھڑے ہو کر انھیں اسلام کی دعوت دیں اور اسے قبول نہ کرنے کی صورت میں زیردست بنا کر ان پر جزیہ عائد کر دیں۔
یہ صحابہ کا منصب تھا۔ نبوت جس طرح نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہو گئی، اسی طرح شہادت کا یہ منصب اور اس کے ساتھ منکرینِ حق سے قتال اور ان پر جزیہ عائد کرنے کا یہ حق بھی ان نفوسِ قدسیہ پر ختم ہوا۔ ہم مسلمانوں کو یہ دعوت پیغمبر کے ان صحابہ ہی سے ملی ہے اور ان کی اس شہادت ہی کے حوالے سے ہم اسے دوسروں تک پہنچاتے ہیں۔ ہماری حیثیت ان کے تابعین اور تبع تابعین کی ہے، لہٰذا ان کے اس منصب میں اب قیامت تک ہم میں سے کوئی فرد یا جماعت ان کی شریک و سہیم نہ ہو سکے گی۔ وہ بے شک، انسانوں کی ایک بے مثل جماعت تھے جو اٹھی، بڑھی اور اپنے اوجِ کمال پر پہنچ کر اللہ، پروردرگارِ عالم کی طرف سے اس بشارت کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو گئی کہ اللہ اُن سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے:
مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِﵧ وَالَّذِيْنَ مَعَهٗ٘ اَشِدَّآءُ عَلَي الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَيْنَهُمْ تَرٰىهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَّبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰهِ وَرِضْوَانًاﵟ سِيْمَاهُمْ فِيْ وُجُوْهِهِمْ مِّنْ اَثَرِ السُّجُوْدِﵧ ذٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرٰىةِﵛ وَمَثَلُهُمْ فِي الْاِنْجِيْلِﵞ كَزَرْعٍ اَخْرَجَ شَطْاَهٗ فَاٰزَرَهٗ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوٰي عَلٰي سُوْقِهٖ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيْظَ بِهِمُ الْكُفَّارَﵧ وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْهُمْ مَّغْفِرَةً وَّاَجْرًا عَظِيْمًا.(الفتح ۴۸: ۲۹)
’’محمد رسول اللہ اور ان کے ساتھی، ان منکروں کے مقابلے میں سخت اور آپس میں بڑے رحم دل ہیں، تم اُنھیں اللہ کی عنایت اور اُس کی خوشنودی کی طلب میں رکوع و سجود کرتے دیکھو گے، اُن کی پہچان اُن کے چہروں پر سجدوں کے نشان ہیں۔ یہ تورات میں اُن کی تمثیل ہے اور انجیل میں اُن کی تمثیل اِس طرح بیان ہوئی ہے کہ جیسے کھیتی ہو جس نے اپنی سوئی نکالی، پھر اس کو سہارا دیا، پھر گدرائی، پھر اپنے تنے پرکھڑی ہو گئی، بونے والوں کے دلوں کو موہتی ہوئی، اس لیے کہ اِن منکروں کے دل اِس سے جلیں۔ اِن میں سے اُن لوگوں کے لیے جو ایمان میں پختہ رہے، اور انھوں نے نیک عمل کیے، اللہ نے مغفرت اور ایک بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــ
[4]؎ یہ تعبیر اس لیے موزوں ہوئی کہ صحابہ زیادہ تر سیدنا ابراہیم علیہ اسلام ہی کی اولاد تھے ۔