میزان
ساتویں چیز یہ ہے کہ اپنے مضمون کے لحاظ سے قرآن ایک رسول کی سرگزشتِ انذار ہے ۔ اسے شروع سے آخر تک پڑھیے۔ یہ حقیقت اس کے ہر صفحے پر ثبت نظر آئے گی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے محض ایک مجموعۂ قانون و حکمت ہی نہیں، بلکہ پیغمبر کے لیے اپنی قوم کو انذار کا ذریعہ بنا کر نازل کیا ہے۔ چنانچہ فرمایا ہے:
وَاُوْحِيَ اِلَيَّ هٰذَا الْقُرْاٰنُ لِاُنْذِرَكُمْ بِهٖ وَمَنْۣ بَلَغَ.(الانعام ۶: ۱۹)
’’اور میری طرف یہ قرآن اس لیے وحی کیا گیا ہے کہ اس کے ذریعے سے میں تمھیں انذار کروں اور اُن کو بھی جنھیں یہ پہنچے۔‘‘
نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق معلوم ہے کہ آپ نبوت کے ساتھ رسالت کے منصب پر بھی فائز تھے۔ اللہ تعالیٰ جن لوگوں کو خلق کی ہدایت کے لیے مبعوث فرماتے اور اپنی طرف سے وحی و الہام کے ذریعے سے ان کی رہنمائی کرتے ہیں، انھیں نبی کہا جاتا ہے، لیکن ہر نبی کے لیے ضروری نہیں ہے کہ وہ رسول بھی ہو۔ رسالت ایک خاص منصب ہے جو نبیوں میں سے چند ہی کو حاصل ہوا ہے۔ قرآن میں اس کی تفصیلات کے مطابق رسول اپنے مخاطبین کے لیے خدا کی عدالت بن کر آتا ہے اور اُن کا فیصلہ کر کے دنیا سے رخصت ہوتا ہے۔ قرآن بتاتا ہے کہ رسولوں کی دعوت میں یہ فیصلہ انذار، انذارِ عام، اتمامِ حجت اور ہجرت و براء ت کے مراحل سے گزر کر صادر ہوتا اور اس طرح صادر ہوتا ہے کہ آسمان کی عدالت زمین پر قائم ہوتی، خدا کی دینونت کا ظہور ہوتا اور رسول کے مخاطبین کے لیے ایک قیامتِ صغریٰ برپا ہو جاتی ہے۔ اس دعوت کی جو تاریخ قرآن میں بیان ہوئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس موقع پر بالعموم دو ہی صورتیں پیش آتی ہیں۔ ایک یہ کہ پیغمبر کے ساتھی بھی تعداد میں کم ہوتے ہیں اور اسے کوئی دارالہجرت بھی میسر نہیں ہوتا۔ دوسرے یہ کہ وہ معتدبہ تعداد میں اپنے ساتھیوں کو لے کر نکلتا ہے اور اس کے نکلنے سے پہلے ہی اللہ تعالیٰ کسی سرزمین میں اس کے لیے آزادی اور تمکن کے ساتھ رہنے بسنے کا سامان کر دیتے ہیں۔ ان دونوں ہی صورتوں میں رسولوں سے متعلق خدا کی وہ سنت لازماً روبہ عمل ہو جاتی ہے جو قرآن میں اس طرح بیان ہوئی ہے:
اِنَّ الَّذِيْنَ يُحَآدُّوْنَ اللّٰهَ وَرَسُوْلَهٗ٘ اُولٰٓئِكَ فِي الْاَذَلِّيْنَ. كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْﵧ اِنَّ اللّٰهَ قَوِيٌّ عَزِيْزٌ.(المجادلہ ۵۸: ۲۰- ۲۱)
’’بے شک، وہ لوگ جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کر رہے ہیں، وہی ذلیل ہوں گے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ میں غالب رہوں گا اور میرے رسول بھی۔ بے شک اللہ قوی ہے، بڑا زبردست ہے۔‘‘
پہلی صورت میں رسول کے قوم کو چھوڑ دینے کے بعد یہ ذلت اس طرح مسلط کی جاتی ہے کہ آسمان کی فوجیں نازل ہوتیں، ساف و حاصب کا طوفان اٹھتا اور ابروباد کے لشکر قوم پر اس طرح حملہ آور ہو جاتے ہیں کہ رسول کے مخالفین میں سے کوئی بھی زمین پر باقی نہیں رہتا۔ قرآن سے معلوم ہوتا ہے کہ قومِ نوح، قومِ لوط، قومِ صالح، قومِ شعیب اور اس طرح کی بعض دوسری اقوام کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا۔ اس سے مستثنیٰ صرف بنی اسرائیل رہے جن کے اہلِ کتاب ہونے کی وجہ سے سیدنا مسیح علیہ السلام کے ان کو چھوڑنے کے بعد ان کی ہلاکت کے بجائے ہمیشہ کے لیے مغلوبیت کا عذاب ان پر مسلط کر دیا گیا۔
دوسری صورت میں عذاب کا یہ فیصلہ رسول اور اس کے ساتھیوں کی تلواروں کے ذریعے سے نافذ کیا جاتا ہے۔ اس صورت میں قوم کو مزید کچھ مہلت مل جاتی ہے۔ رسول اس عرصے میں دارالہجرت کے مخاطبین پر اتمامِ حجت بھی کرتا ہے، اپنے اوپر ایمان لانے والوں کی تربیت اور تطہیر و تزکیہ کے بعد انھیں اس معرکۂ حق و باطل کے لیے منظم بھی کرتا ہے اور دارالہجرت میں اپنا اقتدار بھی اس قدر مستحکم کر لیتا ہے کہ اس کی مدد سے وہ منکرین کے استیصال اور اہلِ حق کی سرفرازی کا یہ معرکہ سر کر سکے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملے میں یہی دوسری صورت پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ کی طرف سے انذار، انذارِعام، اتمام حجت، ہجرت و براء ت اور اپنے مخاطبین و موافقین کے لیے جزا و سزا کی یہ سرگزشت ہی قرآن کا موضوع ہے۔ اس کی ہر سورہ اسی پس منظر میں نازل ہوئی ہے اور اس کے تمام ابواب اسی لحاظ سے مرتب کیے گئے ہیں۔ قرآن کی شرح و تفسیر میں جو چیزیں اس رعایت سے اس کے ہر طالب علم کے پیشِ نظر رہنی چاہییں، وہ یہ ہیں:
اولاً، اس کی ہر سورہ میں تدبر کر کے اس کا زمانۂ نزول نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت کے انھی مراحل کے لحاظ سے اس طرح متعین کرنا چاہیے کہ اس کے بارے میں یہ بات پورے اطمینان کے ساتھ کہی جا سکے کہ مثال کے طور پر، یہ زمانۂ انذار میں نازل ہوئی ہے یا زمانۂ ہجرت و برا ء ت اور جزا و سزا میں، اور اس کی ہر آیت کا مدعا اسی پس منظر میں سمجھنا چاہیے۔
ثانیاً، اس کی ہر سورہ کے بارے میں یہ طے کرنا چاہیے کہ اس کے مخاطب اصلاً زمانۂ رسالت کے مشرکین ہیں، اہلِ کتاب ہیں، منافقین ہیں یا پیغمبر اور اس کے ساتھی اہلِ ایمان یا ان مخاطبین کی کوئی خاص جماعت، اور تبعاً ان میں سے کس کی طرف اور کہاں کوئی التفات ہوا ہے۔ چنانچہ اس کی ہر ضمیر کا مرجع، ہر لامِ تعریف کا معہود اور ہر تعبیر کا مصداق پھر اسی روشنی میں واضح کرنا چاہیے۔
ثالثاً، اس میں غلبۂ حق، استخلاف فی الارض اور جہاد و قتال کی آیات سے متعلق یہ بات بالخصوص پوری تحقیق کے ساتھ متعین کرنی چاہیے کہ ان میں کیا چیز شریعت کا حکم اور خدا کا ابدی فیصلہ ہے اور کیا پیغمبر کے مخاطبین کے ساتھ خاص کوئی قانون جواب لوگوں کے لیے باقی نہیں رہا۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ