(مشکوٰۃ المصابیح ،حدیث :۲۶)
وعن ابی ذر قال: اتیت النبی صلی اللّٰه علیه وسلم و علیه ثوب ابیض وھو نائم. ثم اتیته و قد استیقظ. فقال: ما من عبد قال: لا اله الا اللّٰه ثم مات علی ذلک، الا دخل الجنة. قلت ان زنی و ان سرق؟ قال: ان ذنی و ان سرق. قلت: ان زنی و ان سرق؟ قال: ان زنی و ان سرق. قلت: ان زنی و ان سرق؟ قال: ان زنی وان سرق علی رغم انف ابی ذر. و کان ابو ذر اذا حدث بھذا قال: و ان رغم انف ابی ذر.
’ان زنی و ان سرق‘: ’’اگر اس نے زنا کیا اور اگر اس نے چوری کی‘‘، شرط ہے اور جواب شرط، سیاق میں واضح ہونے کی وجہ سے حذف ہے۔ شرط پر شرط کا عطف شک کی شدت کو واضح کرتا ہے۔
’علی رغم انف ابی ذر‘: ’رغم‘ کا لفظی مطلب خاک آلود ہونا ہے۔ ’رغم انف فلان‘ ایک محاورہ ہے اور اس سے مراد کسی کی خواہش اور تمنا کے برخلاف کسی کام کا ہونا ہے۔ تہدید کے علاوہ، بول چال کی زبان میں یہ محاورہ اظہار التفات کے موقع پر بھی بولا جاتا ہے۔
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف آیا تو آپ پر ایک سفید چادر تھی اور آپ سوئے ہوئے تھے ۔ پھر میں (دوبارہ ) آیا تو آپ اٹھ چکے تھے ۔ (میں نے آپ سے اخروی فلاح کے بار ے میں دریافت کیا) تو آپ نے فرمایا : کوئی بندہ نہیں جو الٰہ الا اللہ کہے پھر اسی اقرار پر مر جائے، مگر یہ کہ جنت میں داخل ہو۔ میں نے پوچھا : اگر چہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو ؟ آپ نے فرمایا : اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ میں نے (پھر) پوچھا : اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے بھی دہرایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ میں نے پھر اپنا سوال دہرایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو؟ آپ نے (ابو ذر کی بے یقینی کے پیشِ نظر کمالِ التفات سے) فرمایا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو، ابو ذر کی ناک کے آلودہ ہونے کے باوجود۔ ابو ذر جب بھی یہ بات بیان کرتے تو کہتے: اگرچہ ابو ذر کی ناک آلودہ ہو!‘‘
اس روایت کے بنیادی مضمون، یعنی نجات کے لیے شرک سے اجتناب اصل شرط ہے، کے سوا دیگر تفصیلات میں دوسرے متن کافی مختلف ہیں۔ زیرِ بحث روایت کے مطابق یہ گفتگو غالباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں ہوئی ہے۔ جبکہ دوسری روایات کے مطابق یہ گفتگو اس وقت ہوئی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت مدینے کے اطراف میں نکلے ہوئے تھے۔ اس روایت میں یہ بات بیان نہیں ہوئی کہ اس سوال و جواب سے پہلے کیا گفتگو ہوئی۔ دوسری روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اس سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مال و دولت کے بارے میں اپنا رویہ بیان کررہے تھے۔ اس روایت میں بات چیت کو واضح طور پرنبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے متعلق کیا گیا ہے۔ ایک دوسری روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً یہ گفتگو نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت جبریل علیہ السلام کے مابین ہوئی اور اسی گفتگو کو بعد میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر کے سامنے بیان کیا۔ سوال یہ ہے کہ ان روایات میں سے کون سا متن اصل کے قریب ہے۔ زیادہ قرینِ قیاس وہ متن ہے جس میں حضرت جبریل سے مکالمہ ہوا ہے۔ اس دوسری روایت کے الفاظ یہ ہیں:
’’حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے ربذہ میں یہ واقعہ اس طرح بیان کیا ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رات کے وقت احد کی جانب ویرانے میں چل رہا تھا کہ آپ نے کہا: اے ابو ذر میں اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ احد میرے لیے سونا بن جائے اور اس میں سے ایک دینار بھی ایک یا تین راتوں کے لیے بچا رہے۔ الا یہ کہ میں اسے قرض کی ادائیگی کے لیے بچا رکھوں یا لوگوں میں اس طرح اور اس طر ح (ہاتھ کا اشارہ کرتے ہوئے) لٹا دوں۔ پھر مجھے مخاطب کیا: ابو ذر۔ میں نے کہا: حاضر یا رسول اللہ حاضر، میرے نصیب، میری خوش بختی۔ آپ نے فرمایا: (آج کے) زیادہ (مال) والے (کل کے) کم (اجر) والے ہوں گے۔ پھر مجھے کہا: اپنی جگہ پر ٹھیرو، اور اس وقت تک ٹکے رہنا جب تک میں لوٹ نہ آؤں۔ پھر آپ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ میں نے ایک آواز سنی مجھے اندیشہ ہوا کہ حضور کا کسی سے سامنا نہ ہو گیا ہو۔ میں نے آپ کی طرف بڑھنے کا ارادہ کیا ہی تھا کہ مجھے آپ کا حکم یاد آ گیا۔ چنانچہ میں رکا رہا۔ جب حضور لوٹے تو میں نے آواز کے سننے، اپنے ارادے اور پھر رکے رہنے کا ذکر کیا۔ اس پر آپ نے بتایا کہ یہ جبریل تھے اور انھوں نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ جو میری امت میں سے شرک کیے بغیر مر گیا وہ جنت میں داخل ہوا۔ میں نے حضور سے پوچھا: اگرچہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔ آپ نے فرمایا: اگر چہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔‘‘ (بخاری، کتاب الاستئذان، باب ۳۰)
اسی روایت کے ایک دوسرے طریق میں زنا اور چوری والا سوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جبریل سے کیا ہے اور حضرت جبریل ہی نے اس کی تائید کرتے ہوئے حضور کے جملے کو دہرایا ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ یہ باہم دگر متضاد متون بخاری ہی نے مختلف ابواب میں درج کیے ہیں۔ مزید یہ کہ مال و دولت سے متعلق حضور کی گفتگو انھی الفاظ میں حضرت ابوہریرہ سے بھی مروی ہے۔ یہ بات بالبداہت واضح ہے کہ حضرت ابو ذر سے مروی دونوں متون کے ابتدائی حصے بیک وقت درست نہیں ہو سکتے۔ ممکن ہے صاحبِ مشکوٰۃ کی منتخب کردہ روایت کا ابتدائی حصہ حضرت ابو ہریرہ کی رویت سے متعلق ہو لیکن اشتراکِ مضمون کے باعث کسی راوی کو غلطی لگی اور اس نے اسے حضرت ابو ذر والی روایت سے خلط ملط کر دیا ہے۔ دوسری صورت یہ ہو سکتی ہے کہ ابوذر سے بھی دو موقعوں پر بات ہوئی ہو۔ موضوع بھی ایک ہی رہا ہو۔ لیکن اس صورت میں ضروری ہے کہ الفاظ ایک دوسرے سے کافی مختلف رہے ہوں۔ لیکن راویوں نے روایت کرتے ہوئے اس روایت کو دوسری روایت سے ملا دیا ہو۔ بہرحال بظاہر یہی لگتا ہے کہ حضرت ابو ذر کی اصل روایت ایک فرق کے ساتھ یہی ہے جس کا ترجمہ اس بحث میں درج کیا گیا ہے۔ اور وہ فرق یہ ہے کہ ’ان زنی و ان سرق‘والا سوال بھی حضور ہی نے جبریل سے کیا تھا۔
بنیادی طور پر اس روایت میں یہ اصول بیان ہوا ہے کہ نجات کے لیے شرک سے اجتناب لازمی ہے۔ یہ روایت اگر اسی بات کو بیان کرتی تو کوئی اشکال نہیں تھا۔ لیکن ’ان زنی و ان سرق‘والی توضیح سے بظاہر اس روایت کا مطلب یہ بن جاتا ہے کہ گناہ جتنے بھی ہوں اس سے فرق نہیں پڑتا صرف شرک سے نامۂ اعمال کو پاک ہونا چاہیے۔ ظاہر ہے یہ معنی درست نہیں ہیں۔ ایمان اور عملِ صالح لازم و ملزوم کی حیثیت رکھتے ہیں۔ کوئی بندۂ مومن ایسا نہیں ہو سکتا جو ایمان میں تو زلات و عیوب سے پاک ہو لیکن عمل کے معاملے میں سرکش یا بے پروا ہو۔ جہنم اصل میں تمرد اور خدا کے معاملے میں جری ہونے کی سزا ہے۔ ظاہر ہے کوئی بندۂ مومن گناہ کرنے کے بعد نہ سرکشی کا رویہ اختیار کرتا ہے اور نہ خدا کے غضب کے بالمقابل جری ہوتا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو بندۂ مومن کو تلافی پر آمادہ کرتی اور اس طر ح وہ اپنے لیے بخشش کا سامان کر لیتا ہے۔ گویا روایت کا مطلب یہ ہے کہ صاحبِ ایمان اگر شرک سے محفوظ رہا ہے اور اس سے زنا اور چوری جیسے جرم بھی ہو جائیں تو وہ بخشش کا مستحق قرار پا سکتا ہے۔ اس لیے کہ اس کا بے عیب ایمان اسے اصلاً نیکی کے راستے پر رکھتا ہے۔ اس طرح کسر کا جبر ہوتا رہتا ہے۔
سیرت کے حوالے سے بھی اس روایت کے متون ایک اہمیت رکھتے ہیں۔ ان سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ حضور مال و دولت کے معاملے میں کیا اسوۂ حسنہ قائم کر گئے ہیں۔ یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ اجر کے متمنی کے لیے حضور دولت مندی کے رویے کو کس قدر ضرر رساں سمجھتے تھے۔ ان روایات میں حضرت ابوذر اور حضور کے باہمی روابط کی نوعیت پر بھی روشنی پڑتی ہے۔ خاص طور پر یہ نکتہ محلِ غور ہے کہ حضرت ابوذر فقر پسند تھے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی ان کے ساتھ اسی طرح کے موضوعات پر بات چیت کرتے تھے۔ ان روایات میں یہ بات بھی بیان ہو گئی ہے کہ خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی اعمالِ صالحہ کے لازمی ہونے کے معاملے میں ایک واضح نقطۂ نظر رکھتے تھے۔ اور سوچ کا یہی انداز آپ نے اپنے صحابہ میں بھی پیدا کیا تھا۔
یہ اصول کہ نجات کے لیے شرک سے اجتناب ضروری ہے قرآنِ مجید میں بھی بڑی صراحت سے بیان ہوا ہے۔ سورۂ نساء میں ارشاد ہے:
اِنَّ اللّٰهَ لَا يَغْفِرُ اَنْ يُّشْرَكَ بِهٖ وَيَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِكَ لِمَنْ يَّشَآءُ.(۴: ۴۸)
’’لاریب اللہ تعالیٰ اس بات کو معاف نہیں کریں گے کہ ان کے ساتھ کسی کو ساجھی قرار دیا جائے۔ اس گناہ کے سوا وہ باقی گناہ جسے چاہیں گے معاف کر دیں گے۔‘‘
’’باقی گناہوں‘‘ کی معافی بھی توبہ کے ضابطے کے تحت ہے اور وہ ضابطہ یہ ہے کہ گناہ کے ہوتے ہی توبہ کر لی جائے اور اس کی جس حد تک ممکن ہے تلافی کی جائے۔ یہ قرآنِ مجید نے واضح کر دیا ہے کہ موت کو سامنے پا کر کی گئی توبہ کبھی قبول نہیں کی جائے گی۔[1]؎ اوپر درج آیت میں ’لمن یشاء‘کے الفاظ توبہ کے اسی قانون کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
بخاری، کتاب الجنائز، باب ۱، کتاب الاستقراض و اداء الدیون، باب ۳، کتاب بدء الخلق، باب ۶، کتاب اللباس، باب ۲۴، کتاب الاستئذان، باب ۳۰، کتاب الرقاق، باب ۱۳، ۱۴۔ کتاب التوحید، باب ۳۳۔ مسلم، کتاب الایمان، باب ۴۰، کتاب الزکوٰۃ باب ۱۰۔ ترمذی، کتاب الایمان، باب ۱۷۔ مسند احمد عن ابی ذر غفاری۔
ـــــــــــــــ
وعن عبادة بن الصامت قال: قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیه وسلم: من شھد ان لا اله الا اللّٰه و حدہ لا شریك له وان محمدا عبدہ ورسوله، و ان عیسی عبد اللّٰه ورسوله و ابن امته وکلمته القاھا الیٰ مریم و روح منه و الجنة والنار حق، ادخله اللّٰه الجنة علی ما کان من العمل.
لغوی بحث
’القاھا‘: ’القی‘ کا لفظی مطلب ڈال دینا ہے۔ یہاں اس سے مراد حضرت مریم علیہا السلام کی طرف بھیجنا ہے۔
’حق‘:یہ لفظ حقوق، حقیقت اور لازم کے معنی میں آتا ہے۔ یہاں یہ تیسرے معنی میں آیا ہے۔
حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے برملا اقرار کیا کہ اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں، وہ یکتاہے، اس کا کوئی ساجھی نہیں اور یہ کہ محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ اور یہ کہ عیسیٰ اللہ کے بندے اور رسول ہیں، وہ اس کی لونڈی کے بیٹے ہیں، وہ اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا، وہ اس کی طرف سے روح ہیں۔ اور یہ کہ جنت اور جہنم حق ہیں، اللہ اسے جنت میں داخل کرے گا خواہ اس کا عمل کچھ بھی ہو۔‘‘
یہ روایت بنیادی طور پر ایک ہی سند سے مروی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے متون میں بہت زیادہ فرق نہیں ہے۔ مثلاً ایک متن میں ’ابن امته‘ کے الفاظ نہیں ہے۔ اسی طرح ایک دوسرے متن کے آخر میں ’من ابواب الجنة الثمانیة ایھا شاء‘ کا اضافہ روایت ہوا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ جس روایت میں ’ابن امته‘ کے الفاظ روایت نہیں ہوئے اس میں راوی سے سہو ہوا ہے۔ لیکن ابوابِ جنت والا اضافہ محلِ نظر ہے۔ جنت کے ابواب اہلِ ایمان کے کردار کی نمایاں خصوصیات کے لحاظ سے جنت کے طبقات کو تعبیر کرتے ہیں۔ مثلاً بابِ ریان زیادہ روزہ رکھنے والے اہلِ ایمان کے لیے خاص ہے۔ اس پہلو سے دیکھیں تو اس اضافے کی کوئی وجہ سمجھ میں نہیں آتی۔
بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس روایت کے مخاطب حضرت مسیح کے ماننے والے اہلِ کتاب ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے کارِ دعوت میں مختلف مواقع پر آپ کی اہلِ کتاب سے گفتگوئیں ہوئی ہیں۔ انھی میں سے کسی گفتگو کاایک جز اس روایت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔
معنی کے اعتبار سے اس روایت کے دو حصے ہیں۔ ایک حصہ حضرت مسیح سے متعلق عقائد کی تصحیح سے متعلق ہے۔ چنانچہ اس میں بیان کر دیا گیا ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام اور ان کی والدہ کی الوہیت کے متعلق تصورات غلط ہیں اور صحیح بات یہ ہے کہ دونوں خدا کے بندے تھے۔’جنت اور جہنم حق ہیں ‘ کے جملے سے اس غلط فہمی کی تردید پیشِ نظر ہے جو انبیا کے ماننے والوں کو اپنی اپنے نبی کے ساتھ نسبت کے باعث اپنی نجات کے بارے میں ہو جاتی ہے۔ یہود میں زیادہ سے زیادہ چند روزہ سزا کا تصور، نصاریٰ میں کفارے کا عقیدہ اور مسلمانوں میں شفاعت کے باب میں غلو اسی غلط فہمی کی مثالیں ہیں۔
دوسرا حصہ نجات کے تصور سے متعلق ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ اس معاملے میں توحید کو اساسی حیثیت حاصل ہے۔ لیکن نجات کے لیے ایمان کے ساتھ اعمالِ صالح کو بھی لازم کی حیثیت حاصل ہے۔ روایات میں شرائط سے مجرد اس طرح کے جملوں کو قرآنِ مجید کی روشنی میں سمجھیں تو کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوتی۔ غرض یہ کہ ’علی ما کان من العمل‘ کا ٹکڑا اسی مفہوم میں ہے جس مفہوم میں پچھلی روایت میں ’ان زنی و ان سرق‘ کا ٹکڑا ہے۔ اور وہاں ہم نے اس کا صحیح مفہوم واضح کر دیا ہے۔
حضرت مسیح علیہ السلام کے مقام و مرتبے کو قرآنِ مجید میں پوری طرح واضح کر دیا گیا ہے۔ مثلاً سورۂ نساء میں ہے:
يٰ٘اَهْلَ الْكِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِيْ دِيْنِكُمْ وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَي اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّﵧ اِنَّمَا الْمَسِيْحُ عِيْسَي ابْنُ مَرْيَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ وَكَلِمَتُهٗﵐ اَلْقٰىهَا٘ اِلٰي مَرْيَمَ وَرُوْحٌ مِّنْهُﵟ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَرُسُلِهٖﵴ وَلَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَةٌﵧ اِنْتَهُوْا خَيْرًا لَّكُمْﵧ اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰهٌ وَّاحِدٌﵧ سُبْحٰنَهٗ٘ اَنْ يَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ لَهٗ مَا فِي السَّمٰوٰتِ وَمَا فِي الْاَرْضِﵧ وَكَفٰي بِاللّٰهِ وَكِيْلًا.(۴: ۱۷۱)
’’ اے اہل کتاب، اپنے دین میں غلو نہ کرو اور اللہ پر حق کے سوا کوئی بات نہ ڈالو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو بس اللہ کے ایک رسول اور اس کا کلمہ جس کو اس نے مریم کی طرف القا کیا اور اس کی جانب سے ایک روح ہیں چنانچہ اللہ اس کے رسول پر ایمان لاؤ۔‘‘
اس روایت میں معمولی تبدیلی کے ساتھ یہی بات بیان ہوئی ہے۔ معنی کی بحث میں ہم نے یہ بات بیان نہیں کی کہ ’کلمة‘اور ’روح‘سے کیا مراد ہے۔ عام شارحینِ حدیث نے ’کلمة‘کو کلمۂ کن سے مستعار قرار دیا ہے اور اسی طرح ان کے نزدیک روح سے حضرت مسیح کی روح پھونکنے کی اہلیت کی طرح اشارہ ہے۔ مولانا امین احسن اصلاحی اس باب میں ایک مختلف بات کہتے ہیں۔ لکھتے ہیں:
’’(حضرت مسیح) کی ولادت اللہ کے کلمہ ’کن‘ سے ہوئی جس کو اللہ تعالیٰ نے مریم کی طرف القا کیا اور ان کو روح بھی خدا ہی کی طرف سے عطا ہوئی۔ مطلب یہ کہ ان کی خارقِ عادت ولادت کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس کی بنا پر انھیں خدائی کا درجہ دے دیا جائے۔ ان کی ولادت اسی طرح خدا کے کلمۂ کن سے ہوئی جس طرح حضرت آدم کی ولادت کلمۂ کن سے ہوئی ہے اور ان کے اندر بھی خدا نے اسی طرح روح پھونکی ہے، جس طرح آدم کے اندر پھونکی۔ اسباب تو ظاہر کا پردہ ہیں، وجود اور زندگی تو جس کو بھی ملتی ہے خدا ہی کے حکم اور اسی کی عطا کردہ روح سے ملتی ہے۔‘‘ (تدبرِ قرآن ج ۲ ص ۴۳۶)
گویا مولانا کے نزدیک کلمہ اور روح حضرت مسیح کے اختصاص کو بیان نہیں کرتے بلکہ ان کے خدا کی مخلوق ہونے کے پہلو کو واضح کرتے ہیں۔
بخاری، کتاب احادیث الانبیا، باب ۴۵۔ مسلم کتاب الایمان، باب ۴۱۔ مسندِ احمد عن عبادہ بن صامت۔
ـــــــــــــــــــــــــ
[1]؎ دیکھیے، النساء۴: ۱۶۔ الانعام ۶: ۵۴۔