بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
(گذشتہ سے پیوستہ)
يٰبَنِيْ٘ اِسْرَآءِيْلَ اذْكُرُوْا نِعْمَتِيَ الَّتِيْ٘ اَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَاَوْفُوْا بِعَهْدِيْ٘ اُوْفِ بِعَهْدِكُمْﵐ وَاِيَّايَ فَارْهَبُوْنِ٤٠ وَاٰمِنُوْا بِمَا٘ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَلَا تَكُوْنُوْ٘ا اَوَّلَ كَافِرٍۣ بِهٖﵣ وَلَا تَشْتَرُوْا بِاٰيٰتِيْ ثَمَنًا قَلِيْلًاﵟ وَّاِيَّايَ فَاتَّقُوْنِ ٤١ وَلَا تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُوا الْحَقَّ وَاَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ٤٢ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِيْنَ ٤٣ اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَكُمْ وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْكِتٰبَﵧ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ ٤٤ وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِﵧ وَاِنَّهَا لَكَبِيْرَةٌ اِلَّا عَلَي الْخٰشِعِيْنَ ٤٥ﶫ الَّذِيْنَ يَظُنُّوْنَ اَنَّهُمْ مُّلٰقُوْا رَبِّهِمْ وَاَنَّهُمْ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ ٤٦
اے[97] بنی اسرائیل،[98] میری اُس نعمت[99] کو یاد کرو[100] جو میں نے تم پر کی تھی[101] اور میرے عہد[102] کو پورا کرو، میں تمھارے عہد کو پورا کروں گا، اور مجھی سے ڈرتے رہو،[103] اور اِس (قرآن) پر ایمان لاؤ جو میں نے اُس چیز کی تصدیق میں اتارا ہے جو تمھارے پاس ہے،[104] اور سب سے پہلے تم ہی اس کے منکر نہ بن جاؤ،[105] اور تھوڑی قیمت کے عوض میری آیتیں نہ بیچو،[106] اور میرے ہی غضب سے بچو[107] اور حق کو باطل میں نہ ملاؤ،[108] اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو،[109] اور نماز کا اہتمام کرو اور زکوٰۃ ادا کرو،[110] اور ان جھکنے والوں کے ساتھ تم بھی (خدا کے حضور میں) جھک جاؤ۔[111] کیا تم لوگوں کو نیکی[112] کی تلقین کرتے ہو اور اپنے آپ کو بھول جاتے ہو، دراں حالیکہ تم کتابِ الٰہی کی تلاوت کرتے ہو؟[113] کیا تم سمجھتے نہیں ہو؟ اور (اِس راہ پر چلنے کے لیے) صبر[114] اور نماز کے ذریعے سے (اللہ کی) مدد چاہو،[115] اور اس میں شبہ نہیں کہ یہ سب بہت بھاری ہے،[116] مگر اُن کے لیے بھاری نہیں ہے جو خدا سے ڈرنے والے ہیں،[117] جنھیں خیال[118] ہے کہ اُنھیں اپنے پروردگار سے ملنا ہے[119] اور (ایک دن) اُسی کی طرف پلٹ کر جانا ہے۔[120]۴۰ - ۴۶
[97]۔ سورہ کی تمہید ختم ہوئی۔ اب یہاں سے اصل خطاب شروع ہوتا ہے۔ اس میں پہلے یہود کو اُن کی وہ ذمہ داریاں یاد دلائی گئی ہیں جو تورات کی رو سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت سے متعلق اُن پر عائد ہوتی تھیں۔ اس کے بعد اس سلسلۂ بیان کے آخر تک اُن کی وہ فرد قراردادِ جرم بیان ہوئی ہے جس کی بنا پر انھیں شہادتِ حق کے منصب سے معزول کیا گیا۔
[98]۔ یہ عبرانی زبان کا لفظ ہے۔ اس کے معنی وہی ہیں جو عربی زبان میں لفظ ’عبد اللّٰه‘کے ہیں۔
[99]۔ نعمت سے مراد یہاں نبوت، شریعت، خدا کی زمین پر بادشاہی اور منصبِ شہادت کی وہ نعمت ہے جس کا ذکر اسی سورہ کی آیت ۴۷ اور اس کے بعد سورۂ مائدہ (۵) کی آیات ۷ اور ۲۰ میں ہوا ہے۔
[100]۔ یاد کرو، تم نے ان حقائق کو فراموش کر دیا ہے۔
[101]۔ میری نعمت، اور ’جو میں نے تم پر کی تھی‘ کے الفاظ یہود کو اُن کی اِس حماقت پر متنبہ کرنے کے لیے آئے ہیں کہ وہ اس نعمت کو اپنے پروردگار کی عنایت سمجھنے کے بجائے، اسے اپنے ذاتی اور خاندانی استحقاق کا ثمرہ سمجھتے تھے۔
[102]۔ یعنی میرا وہ عہد جو میں نے تم سے اپنی شریعت کی پابندی اور اپنے آخری پیغمبر پر ایمان کے بارے میں لیا تھا۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متعلق اس عہد کا ذکر کتابِ استثنا کے باب ۱۸ میں اس طرح ہوا ہے:
’’خداوند تیرا خدا تیرے لیے، تیرے ہی درمیان سے، یعنی تیرے ہی بھائیوں میں سے میری مانند ایک نبی برپا کرے گا، تم اس کی سننا ..... میں اِن کے لیے انھی کے بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اسے حکم دوں گا، وہی وہ اُن سے کہے گا اور جو کوئی میری اُن باتوں کو، جن کو وہ میرا نام لے کر کہے گا، نہ سنے تو میں اُن کا حساب اُس سے لوں گا۔‘‘(۱۵ - ۱۸)
[103]۔ اصل الفاظ ہیں: ’واياي فارهبون‘۔ ’رهبة ‘ کا لفظ لرزش اور کپکپی کی اُس حالت کے لیے آتا ہے جو کسی کی عظمت و جلالت کے تصور سے آدمی کے دل پر طاری ہوتی ہے۔ اس جملے میں مفعول مقدم بھی ہے اور فعل کے بعد اسے دہرایا بھی گیا ہے۔ اسی طرح فعل پر حرفِ ’ف‘ بھی آیا ہے۔ عربیت کی رو سے جملے کی تالیف میں یہ سب چیزیں اہتمام و اختصاص پر دلیل ہیں۔ ’پس صرف مجھی سے ڈرو۔‘ مطلب یہ ہے کہ تمام مصلحتوں اور اندیشوں سے قطع نظر کر کے تم پر صرف میری ہی عظمت و جلالت کا غلبہ ہونا چاہیے اور تمھیں صرف مجھی سے ڈرنا چاہیے۔
[104]۔ یعنی آخری پیغمبر کے بارے میں تورات کی وہ پیشین گوئی جو یہود کے پاس تھی اور جسے قرآن نے سچی ثابت کر دیا اور اس طرح یہ بات بھی ثابت کر دی کہ تورات فی الواقع اللہ پروردگارِ عالم ہی کی اتاری ہوئی کتاب ہے۔ ’مصدقا لما معکم‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، اُن کا صحیح مفہوم یہی ہے۔
[105]۔ اصل میں ’ولا تکونوا اول کافر به‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ ان میں ’افعل‘ کا مضاف الیہ مفرد ہے، اس لیے یہ تمیز کے مفہوم میں ہے۔ اس کی جگہ اگر ’اول الکافرین‘ کا اسلوب اختیار کیا جاتا تو اس کے معنی یہ ہو جاتے کہ منکروں میں تم سب سے پہلے لوگ نہ بنو۔ ’اول کافر‘کے اسلوب میں یہ بات نہیں ہو سکتی کہ اُن کے علاوہ کوئی دوسرے منکر بھی پائے جاتے ہیں یا نہیں۔ آیت کا مدعا یہ ہے کہ یثرب کی اس سرزمین میں تمھیں اس کتاب کے لیے پہلے مومن ہونا چاہیے تھا نہ کہ سب سے پہلے منکر، لیکن افسوس ہے کہ تم نے یہی دوسری صورت اپنے لیے پسند کی ہے۔ اس لیے اب بھی سنبھل جاؤ اور سب سے پہلے اس کتاب کے منکر نہ بنو۔
[106]۔ یعنی اپنے دنیوی مفادات کی خاطر خدا سے باندھے ہوئے سب عہد وپیمان مٹی میں نہ ملاؤ اور تورات کے احکام و ہدایات کو ان مفادات پر قربان نہ کرو۔ آیت میں تھوڑی قیمت کے عوض نہ بیچنے کے جو الفاظ آئے ہیں، ان کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اگر زیادہ قیمت مل جائے تو بیچ سکتے ہو۔ اس میں نہی کا تعلق اصل فعل سے ہے اور تھوڑی قیمت کے الفاظ اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ دین فروشی کا یہ کاروبار نہایت ذلیل طریقے سے ہو رہا ہے، اس لیے کہ اللہ کی آیتوں کے مقابلے میں اگر دنیا کے سارے خزانے بھی حاصل ہو جائیں تو وہ ایک متاعِ حقیر ہی ہیں۔ جملے میں اس طرح کی قیود سے کسی چیز کی شناعت کو واضح کرنے کا یہ اسلوب ہماری زبان میں بھی عام ہے۔
[107]۔ ’ایای فارھبون‘ ہی کے طریقے پر یہاں اصل الفاظ ہیں: ’ایای فاتقون‘۔ یعنی اصل ڈرنے کی چیز میرا غضب ہی ہے۔ مجھے ہر حال میں نرم نہ سمجھو۔ میرا غضب جب نازل ہوتا ہے تو اس وقت کوئی نہیں ہوتا جو اس سے چھڑانے کے لیے کھڑا ہو سکے۔ یہاں اور اس سے آگے کی ایک آیت میں ’رھبة.. ’ تقوٰی‘اور ’خشوع‘ کے جو الفاظ آئے ہیں، استاد امام امین احسن اصلاحی ان کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
’’(یہ) سب ایک ہی حقیقت کے مختلف مظاہر ہیں۔ کسی کی عظمت و جلال کے تصور سے دل پر جو لرزش اور کپکپی طاری ہوتی ہے، وہ رہبت ہے۔ اس لرزش اور کپکپی سے صاحبِ عظمت و جلال کے لیے دل میں جو عجز و فروتنی اور پستی و نیازمندی کی حالت پیدا ہوتی ہے اور طبیعیت میں بے نیازی کی جگہ فقر کا اور گھمنڈ کی جگہ اخبات کا جو احساس ابھرتا ہے، وہ خشوع ہے۔ اسی طرح اس صاحبِ عظمت و جلال کے قہر و غضب سے بچنے، اس کے مقرر کردہ حدود کی مخالفت سے احتراز اور اس کے احکام و آیات کی خلاف ورزی سے اجتناب و احتیاط کی جو بے چینی طبیعت میں پیدا ہوتی ہے اور جو خلوت و جلوت ہر جگہ آدمی کو بیدار اور چوکنا رکھتی ہے وہ تقویٰ ہے۔‘‘ ( تدبرِ قرآن، ج ۱، ص۱۸۲)
[108]۔ یہ اشارہ ہے اُن تصرفات کی طرف جو یہود نے تورات میں کر ڈالے تھے اور جن سے ان حقائق پر پردہ ڈالنا مقصود تھا جو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی قربانی، ان کی قربان گاہ اور ان کے قبلہ کا تعلق سرزمینِ عرب سے ثابت کرتے اور یہود کے لیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے متعلق ایک قطعی حجت کی حیثیت رکھتے تھے۔
[109]۔ اصل الفاظ ہیں: ’وتکتموا الحق وانتم تعلمون‘۔ یہ پچھلے جملے پر عطف ہے، لیکن اس میں حرفِ ’لا‘ کا اعادہ نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں ایک ہی حقیقت کا بیان ہیں۔ یہود نے حق کو باطل میں ملانے کی جو کوشش کی، اس کا مقصود یہی کتمانِ حق تھا۔ وہ حق کو باطل میں اسی لیے ملاتے تھے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں تورات کی پیشین گوئیوں کو خلط ملط کر کے لوگوں کو غلط فہمی میں ڈال دیں۔
[110]۔ نماز اور زکوٰۃ سے یہود پوری طرح واقف تھے۔ وہ اگرچہ انھیں عملاً ترک کر چکے تھے، لیکن یہ اُن کے لیے کوئی اجنبی چیزیں نہ تھیں۔ خدا کی ہر شریعت میں انھیں بنیادی احکام کی حیثیت حاصل رہی ہے۔ قرآن کے سب مخاطبین انھیں جانتے تھے۔ چنانچہ ان کی ہیئت اور شرح و نصاب وغیرہ کے بارے میں کسی تفصیل کی ضرورت نہ تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی ابتدا نہیں کی۔ یہ پہلے سے جاری سنن تھیں جنھیں آپ نے قرآنِ مجید کی ہدایت کے مطابق تجدید و اصلاح کے بعد اپنی امت میں قائم رکھا ہے۔ یہاں ان کا ذکر اس لیے ہوا ہے کہ ان آیات میں یہود کو اسلام کی دعوت دی گئی ہے اور قرآن اس معاملے میں بالکل صریح ہے کہ ان دونوں کے بغیر کسی شخص کا اسلام نہ دنیا میں قبول کیا جاتا ہے اور نہ آخرت میں۔
[111]۔ مطلب یہ ہے کہ اللہ کے جو بندے آج اللہ کی بندگی کی دعوت لے کر اٹھے ہیں اور مسجدوں میں شب و روز نماز کی صورت میں یہ بندگی کر رہے ہیں، تم بھی اس بندگی میں ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ۔ ’وارکعوا مع الرٰکعین‘ کے جو الفاظ اصل میں آئے ہیں، یہ نماز ہی کی تعبیر ہیں۔ نماز کے اجزا مثلاً قیام اور سجدہ وغیرہ کے الفاظ سے نماز کی تعبیر قرآن میں بعض دوسرے مقامات پر بھی کی گئی ہے۔ تمرد اور سرکشی کو چھوڑ کر قبولِ حق کی دعوت کا یہ اسلوب کہ ’اٹھو اور اِن جھکنے والوں کے ساتھ تم بھی خدا کے حضور میں جھک جاؤ‘، اگر غور کیجیے تو نہایت بلیغ اسلوب ہے۔
[112]۔ اصل میں لفظ ’البر‘ استعمال ہوا ہے۔ عربی زبان میں یہ وفاداری، ایفاے عہد اور اداے حقوق کے معنی میں آتا ہے۔ نیکی اور احسان کی تمام قسموں کے لیے یہ قرآن کی ایک جامع تعبیر ہے۔
[113]۔ اس سے واضح ہے کہ ان آیات کے مخاطب اصلاً یہود کے عوام نہیں، بلکہ اُن کے علما اور اکابر ہیں۔ سیدنا مسیح علیہ السلام نے بھی اُن کی یہ حالت اسی طرح بیان فرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں:
’’اے شرع کے عالمو، تم پر بھی افسوس ہے کہ تم ایسے بوجھ جن کا اٹھانا مشکل ہے، آدمیوں پر لا دتے ہو اور آپ ایک انگلی بھی ان بوجھوں کو نہیں لگاتے۔‘‘ (لوقا باب ۱۱، آیت ۴۷)
[114]۔ ’صبر‘ کا لفظ عربی زبان میں اپنے آپ کوگھبراہٹ، پریشانی اور مایوسی سے بچا کر اپنے موقف پر قائم رکھنے کے معنی میں آتا ہے۔ بندہ جب پورے اطمینانِ قلب کے ساتھ ہرمشکل میں اپنے پروردگار سے وابستہ اور اپنے موقف پر ڈٹا رہے تو قرآن کی اصطلاح میں یہ ’صبر‘ ہے۔ قرآن نے اسی سورہ کی آیت ۱۷۷ میں اس کے تین مواقع ذکر کیے ہیں: غربت، بیماری اورجنگ۔ غورکیجیے تو تمام مصیبتوں کے سرچشمے یہی تین ہیں۔ آدمی اگر ان میں متزلزل نہ ہو تو بے شک، وہ صابرین میں سے ہے۔
[115]۔ راہِ حق کو اختیار کرنے اور اُس پر قائم رہنے کے لیے یہ قرآن کا بتایا ہوا طریقہ ہے۔ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی شخص نہ اس راہ کو اختیار کر سکتا ہے اور نہ اس پر قائم رہ سکتا ہے، اور اللہ کی مدد صرف صبر اور نماز ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے۔ آدمی اگر ثابت قدمی کے ساتھ چلنے کا عزم کر لے اور نماز کا اہتمام رکھے تو اس عزم کی قوت بہت بڑھ جاتی ہے کسی مشکل سے مشکل صورتِ حال میں بھی اول تو اس کے پاے استقلال میں لغزش پیدا نہیں ہوتی اور اگر حالات کی نزاکت سے کسی وقت پیدا ہو جائے تو اس کا پروردگار خود آگے بڑھ کر اسے سنبھال لیتا ہے۔
[116]۔ اصل الفاظ ہیں: ’وانھا لکبیرة‘۔ ان میں ’ھا‘ کا مرجع، ہمارے نزدیک وہ سب باتیں ہیں جو اسی فصل میں بنی اسرائیل سے کہی گئی ہیں۔ عربی زبان میں اس طرح کے مواقع پر بالعموم ضمیر مونث ہی آتی ہے۔
[117]۔ اصل میں ’الا الخٰشعین‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ قومی اور نسلی غرور کو چھوڑ کر حق کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینا اگرچہ آسان نہیں ہے، لیکن آدمی میں خدا کی عظمت و جلالت کا احساس ہو، وہ اس کے سامنے عجز و فروتنی اور پستی و نیاز مندی کے جذبات رکھتا ہو، اس کے نفس میں اخبات ہو اور وہ خدا کے مقابلے میں اپنے فقر و احتیاج کو سمجھتا ہو تو یہ چیز بہت سہل ہو جاتی ہے۔
[118]۔ اصل میں لفظ ’یظنون‘ آیا ہے۔ عربی زبان میں یہ جس طرح یقین کے مقابلے میں گمان کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، اسی طرح کسی چیز کا خیال ہونے اور اس کا اندیشہ رکھنے کے معنی میں بھی مستعمل ہے۔ اس دوسرے معنی میں اس کے ساتھ شک کا ہونا ضروری نہیں ہے۔
[119]۔ اللہ سے ڈرنے والوں کی تعریف میں یہ بات اُن کے باطن کو نمایاں کرتی ہے۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اگر خدا سے ڈرتے ہیں تو اسی وجہ سے ڈرتے ہیں کہ آخرت میں خدا کے سامنے حاضری کا اندیشہ رکھتے ہیں۔
[120]۔ یعنی وہ سمجھتے ہیں کہ مرنے کے بعد انھیں اسی ایک پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے جو روزِ جزا کاتنہا مالک ہے، جس کے فیصلوں پر وہاں کوئی اثر انداز نہ ہو سکے گا، جس کے غضب سے اگر پناہ ملے گی تو اسی کے دامن میں ملے گی۔ انھیں احساس ہے کہ اُن کا ہر قدم درحقیقت اسی کی طرف اٹھتا ہے۔ وہ یہاں بھی اُسی کے ہیں اور وہاں بھی اُسی کے ہوں گے۔ کوئی دوسرا کہیں بھی اُن کے کام نہ آ سکے گا۔
[باقی]
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــ