HomeQuranHadithMizanVideosBooksBlogs
مصنف : طالب محسن

انعامی اسکیمیں

آج کل اشتہارات کے ذریعے سے مختلف ادارے متعدد انعامی اسکیمیں جاری کیے ہوئے ہیں۔ پہلے بھی اس طرح کی اسکیمیں جاری ہوتی رہی ہیں لیکن آج کل تو اس نے ایک وبا کی صورت اختیار کر لی ہے۔ ٹی وی آن کریں تو تھوڑی ہی دیر میں ٹی وی، وی سی آر سے لے کر کروڑوں روپے جیتنے کے امکانات کی خبریں ملنی شروع ہو جاتی ہیں۔

مسلمان کی حیثیت سے ہمیں سب سے پہلے اس بات کو متعین کرنا ہے کہ آیا ان اسکیموں کے اجرا یا ان میں شرکت میں کوئی معصیت تو نہیں ہے ؟ یہ سوال بہت ضروری ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں موت کے بعد اپنے پروردگار کے سامنے پیش ہونا ہے۔ ہم کمزور مسلمانوں کا معاملہ تو یہ ہے کہ معمول کی زندگی گزارتے ہوئے بھی بہت سی کوتاہیوں کے مرتکب ہوتے رہتے ہیں۔ ہمارے لیے تو یہی چیز بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ ہم ان کوتاہیوں کا ازالہ کر لیں اور توبہ، اصلاح، صدقہ و خیرات اور نماز روزے کے ذریعے سے اپنی نجات کا سامان کرلیں۔ یہ دور ابلیس کے ہتھکنڈوں کے غلبے کا دور ہے۔ ہم اس کا تحمل نہیں کر سکتے کہ اس کی نئی نئی ترغیبات کا شکار ہو کر اپنی راہ کھوٹی کر لیں۔

ان انعامی اسکیموں کی دو قسمیں ہیں۔ کچھ اسکیمیں بنکوں نے جاری کی ہوئی ہیں اور کچھ اسکیموں کا اجرا صنعت کاروں نے کیا ہے۔ جہاں تک پہلی نوع کی اسکیموں کا تعلق ہے تو ان کے معصیت ہونے میں کوئی شبہ نہیں ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سود کھانا قطعی حرام ہے اور ان اسکیموں میں بنکوں نے سود دینے ہی کی ایک نئی صورت اختیار کی ہے۔ مثال کے طور پر اگر بنک اپنے کھاتا داروں کو سو روپے پر پانچ روپے سود دیتے تھے تو اب انھوں نے چھ روپے دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن اپنے بنک میں روپیہ جمع کرانے کی ترغیب بڑھانے کے لیے یہ چھٹا روپیہ جمع کر کے قرعہ اندازی کے ذریعے سے کسی ایک کھاتا دار کو دینے کی اسکیم بنا دی ہے۔ ظاہر ہے، سود کو کوئی بھی نام دے دیا جائے، یہ حرام ہی رہے گا۔ دوسری قسم کی اسکیمیں البتہ واضح طور پر کسی حرمت کے دائرے میں نہیں آتیں۔ لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ ان اسکیموں نے پورے ملک میں قمار بازی کی فضا پیدا کر دی ہے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ اگر کوئی شخص صرف انعام حاصل کرنے کے لیے کوئی چیز خریدتا ہے تو وہ اصلاً جؤا ہی کھیل رہاہے۔ البتہ اگر کوئی پراڈکٹ معمول میں زیرِاستعمال ہے اور اس پر کوئی انعامی اسکیم جاری ہو گئی ہے تو اسے خریدنے میں کوئی حرج نہیں۔

ان انعامی اسکیموں پر ایک اور پہلو سے بھی نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔ معیشت کے پہلو سے حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ صحت مندانہ معاشی سرگرمیوں کے لیے فضا سازگار کرے۔ لوگوں میں راتوں رات کروڑپتی بننے کا جذبہ پیدا کرنا، انھیں محنت سے کمانے کے بجائے جوئے کے طریقے پر اتفاقات کے راستے پر ڈالنااور انھیں ایک تاجر، ہنر مند اور صنعت کار بنانے کے بجائے مہاجن کی نفسیات میں مبتلا کرنا، کسی بھی اعتبار سے موزوں نہیں ہے۔ ہماری حکومت پر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری بھی عائد ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے اس کا فرض ہے کہ وہ سوسائٹی میں پھیلتے ہوئے غلط رجحانات پر نظر رکھے اور ان کے سدِ باب کے لیے اقدامات کرے۔ ہمیں تسلیم ہے کہ حکومت بوجوہ غیر سودی معیشت کی کسی اسکیم پر مطمئن نہیں ہو سکی اور وہ بنک کاری کے موجودہ نظام کو فوری طور پر ختم نہیں کر سکتی۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ سودی معیشت کو ایک پسندیدہ معیشت کی حیثیت بھی دیے رکھے۔

حکومت کچھ کرتی ہے یا نہیں کرتی، ہمارا کام یہ ہے کہ ہم اپنے ایمان وعمل پر نگران رہیں۔ ہر منکر سے بچیں اور صرف معروف کو اختیار کریں۔ اس لیے کہ آخرت میں فلاح کا انحصار اسی پر ہے اور آخرت ہر انسان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔

___________

B