ایک مذہبی جماعت کا عوامی جلسہ ہو رہا تھا۔ جلسہ اس لحاظ سے عام جلسوں سے مختلف تھا کہ اس میں مختلف نقطہ ہاے نظر کے حامل مقررین کو مدعو کیا گیا تھا۔ جلسے میں ایک مقرر کافی دیر سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل بیان کر رہا تھا۔ میں بھی حاضرین میں موجود تھا۔ میرے قریب ایک ایسی مذہبی جماعت کے کارکن کھڑے تھے جو ملکی نظام میں تبدیلی لانے کی علم بردار ہے۔ اُس مقرر کی باتوں سے بیزار ہو کر، بلکہ جھنجھلا کر ان میں سے ایک کارکن نے اپنا سر دائیں بائیں ہلایا، اپنے ہاتھ کو ایک مضبوط مکے کی شکل دی اور قریب کھڑی ایک گاڑی کے بونٹ پر مارا۔ پھر دونوں ہاتھ اوپر اٹھائے اور انھیں نیچے جھٹکتے ہوئے کہا: ’’اوہو! یہ بتاؤ نظام میں تبدیلی کیسے آئے گی!‘‘
یہ واقعہ ہے کہ دین کو ریاست کا ایک نظام سمجھنے اور اس نظام کو پاکستان اور پھر پوری دنیا میں نافذ کرنے کے مسئلے کو انسان کا اصل مسئلہ قرار دینے کا علم بردار مذہبی فکر بہت قوت اور بہت وسعت حاصل کر چکا ہے۔ بلکہ بعض اربابِ تصوف کی سرگرمیوں سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ بھی تصوف کے اصل فلسفے سے شعوری یا غیر شعوری طور پر گریز کر کے، فنا فی اللہ اور بقا باللہ کے اہداف کو ضمنی مسئلہ اور نظام کی تبدیلی کو اصل مسئلہ سمجھ رہے ہیں۔
آج بہت کم علماے دین ایسے ہیں جو انسان کے اس مسئلے کی جانب، جو واقعۃً اس کا اصل مسئلہ ہے، جسے قرآن نے اصل مسئلہ قرار دیا ہے، جسے انبیا نے اصل مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے، لوگوں کو متوجہ کر رہے ہیں۔
جاوید احمد صاحب غامدی نے دانش سرا کے دوسرے سالانہ اجتماع کے اختتامی خطاب میں اس موضوع پر بات کی اور لوگوں کو ان کے اصل مسئلے کے جانب متوجہ کیا۔ ’’دانش سرا کی سرگرمیاں‘‘ کے تحت یہ تقریر اس وقت شائع کی گئی ہے۔
یہاں ہم ایک بات واضح کر دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ فنا فی اللہ اور بقاباللہ تو خیالی مسائل ہیں البتہ ملکی نظام میں تبدیلی کا مسئلہ بہرحال ایک مسئلہ ہے۔ یہ ہماری بھی خواہش ہے کہ ملکی نظام میں موجود ظلم کا خاتمہ ہو۔ ریاست کے بارے میں اسلام نے جو رہنمائی دی ہے اس کی روشنی میں اس کا سیاسی، معاشی، عدالتی، غرض ہر نظام تشکیل پائے اور اس کے کسی جزیے میں بھی شریعت کے منافی کوئی چیز نظر نہ آئے۔ دراصل ہم جب اس ضمن میں تنقید کرتے ہیں تو لوگ ہم پر بہتان لگا دیتے ہیں کہ ہم اسلامی نظام کے نفاذ کی کوششوں کو زک پہنچا رہے ہیں۔ ہماری تنقید کو لوگ منفی زاویے سے دیکھتے ہیں۔ جبکہ ہماری تنقید دراصل تعمیر ہے۔ ہم بس یہ واضح کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نظام کی تبدیلی ایک مسئلہ ہے لیکن یہ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ کوئی اور ہے، جس کی جانب رہنماؤں کو متوجہ نہ پا کر پریشان ہونا چاہیے۔ جھنجھلانا چاہیے۔ اور کسی گاڑی کے بونٹ پر مکا مار کر کہنا چاہیے کہ: ’’اوہو! یہ بتاؤ کہ جنت کیسے حاصل ہو گی!‘‘
احمد جاوید صاحب کے انٹرویو کا آخری حصہ مکمل ہو چکا تھا۔ نعیم احمد بلوچ صاحب ان کو ان کے گھر چھوڑنے کے لیے اپنی گاڑی کی چابیاں پکڑ چکے تھے۔ میں بھی دفتر سے جانے کی تیاری کر رہا تھا۔ احمد جاوید صاحب بھی اپنے جوتے پہن رہے تھے۔ اس دوران میں انھوں نے مجھے کہا: ’’آپ نے ’’اشراق‘‘ میں میری تصویر چھاپ دی۔ میں اس کا قائل نہیں ہوں۔‘‘ ہماری احمد جاوید صاحب سے بے تکلفی تو ہو ہی چکی تھی۔ میں نے بغیر کسی توقف کے مسکراتے ہوئے کہا: ’’لیکن ہم تو قائل ہیں۔‘‘ اس پر احمد جاوید صاحب مسکرا دیے اور کوئی بحث کیے بغیر الوداعی علیک سلیک کر کے چلے گئے۔ بعد میں مجھے خیال آیا کہ احمد جاوید صاحب کی رائے کا احترام کرنا چاہیے اور کم سے کم ان کے انٹرویو میں تصویر شائع نہیں کرنی چاہیے۔ چنانچہ اس وقت ہم نے اپنا فارمیٹ چھوڑ کر ’’ملاقات‘‘ میں ان کی تصویر شائع نہیں کی۔
اس کے علاوہ ’’شذرات‘‘، ’’قرآنیات‘‘، ’’معارفِ نبوی‘‘، ’’دین و دانش‘‘، ’’یسئلون‘‘ اور ’’ادبیات‘‘ کے سلسلے حسبِ سابق موجود ہیں۔
ـــــــــــــــــــــــــ